نماز میں خشوع خضوع ، شیطان کو دور کریں

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
نماز میں خشوع خضوع ، شیطان کو دور کریں
.
namaz-men-khushu.png

نماز کے دوران میں وسوسے اور خیالات آئیں تو تعوّذ پڑھنے کے بعد اپنی بائیں جانب تین بار ہلکی سی تھوک کی آمیزش کے ساتھ پھونک مارنا مسنون عمل ہے،

اس کی دلیل
عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، اور عرض کیا:
"اللہ کے رسول! شیطان نماز میں میرے اور میری نماز و قراءت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس شیطان کو خنزب کہا جاتا ہے، جب تمہیں اس کی طرف سے کچھ محسوس ہو تو ,تعوّذ پڑھ کر,اللہ کی پناہ مانگو، اور اپنی بائیں جانب تین بار ہلکی سی تھوک کی آمیزش کے ساتھ پھونک مارو

عثمان بن ابو العاص کہتے ہیں: میں نے ایسا کیا تو اللہ تعالی نے اسے مجھ سے دور کر دیا
.
صحیح مسلم # 2203​
 

khan afghan1

Minister (2k+ posts)
Do you mean spitting mildly.
If yes then how. What if there is someone on my right or left hand side.
Explain please.
Upload a video if possible
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
Do you mean spitting mildly.
If yes then how. What if there is someone on my right or left hand side.
Explain please.
Upload a video if possible



اپنی بائیں جانب تین بار ہلکی سی تھوک کی آمیزش کے ساتھپھونک مارو

 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
نماز میں خشوع وخضوع ہی اصل چیز اور لب لباب ہے تو نماز خشوع کے بغیر نماز ایسے ہی ہے جیسے کہ بغیر روح کے جسم ہو ۔خشوع کے لۓ ممد اور معاون دو چیزیں ہیں

اول
بندہ یہ سوچنے اور سمجھنے میں جدوجہد کرے کہ وہ کیا عمل کرنے لگا اور کیا کہنے لگا ہے اور قرات اور اللہ تعالی کے ذکر اور دعا مانگنے میں غور و فکر اور تدبر کرنا اور یہ بات ذہن میں رکھنا کہ وہ اللہ تعالی سے سرگوشی اور مناجات کر اور اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے کیونکہ نمازی شخص جب کھڑا نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ اپنے رب سے مناجات اور سرگوشیاں کر رہا ہے اور احسان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی عبادت ایسے کریں کہ گویا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور اگر آپ اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ آپ کو دیکھ رہا ہے ۔
پھر جب بندہ نماز کی لذت اور مٹھاس چکھتا ہے تو اس کا نماز میں انہماک یقینی اور زیادہ ہو جاتا ہے اور یہ ایمان کی قوت کے مطابق ہے کہ جتنا ایمان قوی ہو گا اتنی لذت اور مٹھاس زیادہ حاصل ہو گی اور ایمان کو قوی کرنے والی بہت سی اشیاء ہیں

تو اسی لۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
میرے لۓ تمہاری دنیا میں سے دو چیزیں پیاری بنائی گئي ہیں عورتیں اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئي ہے )اور دوسری حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اے بلال ( رضی اللہ عنہ ) ہمیں نماز کے ساتھ راحت دے )

دوم
ان سوچوں اور تفکرات کو دفع اور دور اور ختم کرنے کی جدوجہد کرنا جو کہ دل کو مشغول کر دیں اور جن کا کوئی فائدہ نہ ہو اور ان چیزوں پر غور و فکر کرنا جو کہ دل میں نماز کے مقصد کی جاذبیت پیدا کریں اور یہ ہر بندے میں اس کے حال ہیں کیونکہ وسوسوں کی کثرت شبہات اور شہوات کی کثرت کی بنا پر ہیں اور دل کا تعلق ان محبوب چیزوں سے ہونا جو کہ دل کو انہیں حاصل کرنے کے لۓ پھیر دیں اور ان مکروہات کی طرف جو کہ دل کو انہیں دور کرنے کی طرف پھیر دیں ۔
انتہی : مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جلد نمبر 22 صفحہ نمبر
605
اور جو آپ نے یہ ذکر کیا ہے کہ وسوسے حد سے تجاوز کر چکے ہیں اور یہاں تک جا پہنچے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات میں بھی ہونے لگے ہیں جو اللہ تعالی کے لائق نہیں تو یہ شیطان کا ورغلانا اور اکسانا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ائے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقینا وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے ) فصلت 36

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ کرام نے ان وسوسوں کی شکایت کی جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی تو صحابہ میں سے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ائے اور آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ ہم اپنے نفسوں میں ایسی چیز پاتے ہیں جن کا زبان پر لانا بہت مشکل ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ ایسا پاتے ہیں تو صحابہ نے جواب دیا جی ہاں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی صریح ایمان ہے ۔

اسے مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے حدیث نمبر 132امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئےلکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (یہی صریح ایمان ہے ) اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ان وسوسوں کی کلام نہ کرنا اور انہیں زبان پر نہ لانا اور اسے برا جاننا یہی صریح ایمان ہے ۔بے شک اسے بہت برا سمجھنا اور اس کو زبان پر لانے سے خوف زدہ ہونا چہ جائکہ اس کا اعتقاد رکھنا تو یہ حالت اس کی ہوتی ہے جس کا ایمان کامل اور محقق ہو اور اس سے شکوک و شبہات ختم ہو چکے ہوں ۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ :شیطان وسوسے اسے ڈالتا ہے جس کے گمراہ کرنے سے وہ عاجز آچکا ہو تو اسے وسوسے میں ڈالتا ہے تا کہ وہ اپنے عاجز آنے کا بدلہ چکا سکے اور کافر کو تو جس طرح چاہے اور اس سے کھیلتا پھرے اور اسے وسوسے نہیں ڈالتا کیونکہ وہ جو چاہتا ہے اس کے ساتھ کرتا ہے ۔اور اس بناء پر حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ وسوسے کا سبب خالص ایمان ہے یا پھر وسوسہ خالص ایمان کی نشانی ہے ۔ تو پھر اسے نا پسند اور بغض کرنا اور دل کا اس سے بھاگنا یہی خالص اور صریح ایمان ہے اور ہر وہ شخص جو کہ اللہ تعالی کے ذکر اور اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اسے وسوسہ آنا ضروری چیز ہے لہذا بندے کو صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا چاہۓ اور اسے نماز اور ذکر واذکار پر ملازمت اور ہمیشگی کرنا چاہۓ اور تنگ دل نہیں ہونا چاہۓ کیونکہ ان چیزوں پر ہمیشگی اور ملازمت سے شیطان کے ہتھکنڈے دور ہو جائیں گے ۔( بے شک شیطان کے ہتھکنڈے اور تدبیریں کمزور ہیں )

جب بھی بندہ دلی طور پر اللہ تعالی کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دوسرے کاموں کے وسوسے آنے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ شیطان اس ڈاکو کی طرح ہے جو کہ راستے میں بیٹھا ہو تو جب بھی بندہ اللہ تعالی کی طرف چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ شیطان اس کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا ہے تو اسی لۓ سلف میں سے کسی کو یہ کہا گیا ہے کہ یہودی اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں وسوسے نہیں آتے تو انہوں نے جواب دیا وہ سچے ہیں تو شیطان خراب گھر میں جا کر کیا کرے گا ۔

شیخ الاسلام کی بات ختم ہوئی فتاوی شیخ الاسلام جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 608علاج :1

- جب آپ ان وسوسوں کو محسوس کریں تو یہ کہیں میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ۔عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم میں کسی کے پاس شیطان آتا اور اسے کہتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالی نے تو شیطان کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے تو جب تم میں سے کوئی اس طرح کی بات پائے تو یہ پڑھے ( آمنت باللہ ورسلہ ) میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا کیونکہ یہ اس سے وسوسہ ختم کر دے گا )مسند احمد حدیث نمبر ( 25671) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں حسن کہا ہے حدیث نمبر 1162-

اس معاملے میں سوچنے سے حتی الامکان اعراض کرنے اور بچنے کی کوشش کرے اور کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اسے اس سے ہٹا دے ۔اور آخر میں ہم آپ کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ہر حال میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرو اور اس سے مدد طلب کرو اور سب کو چھوڑ کر اسی کی طرف متوجہ رہو اور اس سے موت تک کے لۓ ثابت قدمی طلب کرتے رہو اور یہ کہ وہ آپ کا خاتمہ اچھے کام پر کرے ۔واللہ اعلم
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
نماز میں خشوع خضوع
نماز میں بلا وجہ حرکت نہیں کرنی چاہیے -
نماز میں ادھر ادھر ہرگز نہ جھانکیں ، اس سے شیطان نمازی کا خیال دوسری طرف لگا دیتا ہے
_بخاری ، کتاب الازان #٧٥١

بعض لوگ نماز میں خشوع خضوع پیدا کرنے کے لیے آنکھیں بند کر لیتے ہیں ، یہ خلاف سنت ہے ، جیسے قیام، رکوع میں سجدہ والی جگہ نظر رکھنے کا کہا گیا وہاں ہی رکھیں
 

Back
Top