نظریہ ضرورت-
آج پاکستان میں ہر فرد نظریہ ضرورت کی بات کر رہا ہے، لیکن سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ نظریہ ضرورت دراصل ہے کی؟ کیا جس کو ہم آج نظریہ ضرورت کا نام دے رہے ہیں کیا وہ حقیقت میں نظریہ ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
نظریہ ضرورت کے اصول کا اطلاق اور خاص طور پر ریاستی یا عدالتی امور میں اس وقت کیا جاتا ہے جب فیصلہ کرنے والوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ ان کے اس فیصلہ سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا جائے چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے۔
آئیے اب نظریہ ضرورت کی اس مبہم سی تعریف کی روشنی میں اور انصاف کے بنیادی تقاضے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا نظریہ ضرورت کو واقعی ہی قومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا جا رہا ہے یا یہ نظریہ ضرورت کو شخصیات کو تحفظ دینے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ تاریخ سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب جب بھی نظریہ ضرورت کو بروئے کار لایا گیا اس کا مقصد کسی نہ کسی شخصیت کے اقتدار کو تحفظ دیا گیا۔ اس وقت درست اور انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے سے ملکی سلامتی کو کوئی خطرات لاحق نہیں تھے چاہے اس میں کسی آمر کے اقتدار کو آئینی تحفظ مہیا کیا گیا یا کسی این آر او کے ذریعے سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کو قانونی قرار دیا گیا ہو۔ اور یہ صورت حال بدستور موجود ہے۔
تو ان حالات میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسے تو ایک خالص جمہوریت ہمارے ملک میں وجود نہیں رکھتی بالکل اسی طرح نظریہ ضرورت کو بھی پاکستان میں کبھی ریاست پاکستان کے یا اس کے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے استعمال نہیں کیا گیا۔
تاہم کسی بھی ادارے کی طرف سے یہ کہنا کہ اس نظریہ ضرورت کو جس کا میں ذکر کیا ہے، دفن کر دیا گیا ہے قطعی طور پر غلط ہوگا۔
آج پاکستان میں ہر فرد نظریہ ضرورت کی بات کر رہا ہے، لیکن سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ نظریہ ضرورت دراصل ہے کی؟ کیا جس کو ہم آج نظریہ ضرورت کا نام دے رہے ہیں کیا وہ حقیقت میں نظریہ ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
نظریہ ضرورت کے اصول کا اطلاق اور خاص طور پر ریاستی یا عدالتی امور میں اس وقت کیا جاتا ہے جب فیصلہ کرنے والوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ ان کے اس فیصلہ سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا جائے چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے۔
آئیے اب نظریہ ضرورت کی اس مبہم سی تعریف کی روشنی میں اور انصاف کے بنیادی تقاضے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا نظریہ ضرورت کو واقعی ہی قومی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا جا رہا ہے یا یہ نظریہ ضرورت کو شخصیات کو تحفظ دینے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ تاریخ سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب جب بھی نظریہ ضرورت کو بروئے کار لایا گیا اس کا مقصد کسی نہ کسی شخصیت کے اقتدار کو تحفظ دیا گیا۔ اس وقت درست اور انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے سے ملکی سلامتی کو کوئی خطرات لاحق نہیں تھے چاہے اس میں کسی آمر کے اقتدار کو آئینی تحفظ مہیا کیا گیا یا کسی این آر او کے ذریعے سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کو قانونی قرار دیا گیا ہو۔ اور یہ صورت حال بدستور موجود ہے۔
تو ان حالات میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسے تو ایک خالص جمہوریت ہمارے ملک میں وجود نہیں رکھتی بالکل اسی طرح نظریہ ضرورت کو بھی پاکستان میں کبھی ریاست پاکستان کے یا اس کے عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے استعمال نہیں کیا گیا۔
تاہم کسی بھی ادارے کی طرف سے یہ کہنا کہ اس نظریہ ضرورت کو جس کا میں ذکر کیا ہے، دفن کر دیا گیا ہے قطعی طور پر غلط ہوگا۔