میں ایک ناکام تجزیہ کار کیسے بنا؟

Landmark

Minister (2k+ posts)
میں ایک ناکام تجزیہ کار کیسے بنا؟


برادر محترم سہیل وڑائچ کے کالموں کا مجموعہ ’پارٹی از اوور‘ نظر نواز ہوا۔ کالم پڑھ رکھے تھے۔ دوبارہ سے پڑھے۔ اور اتفاق دیکھیے، کتابی صورت میں دانش کے یہ موتی عین ان دنوں میں پڑھے جب ملک بھر میں ایک نئی ضیافت کی چاندنی بچھائی جا رہی تھی، شمع دانوں میں روشنی کا اہتمام کیا جا رہا تھا، کالم فیض عام کی مدح کے ساز سُر کئے جا رہے تھے۔ بلوچستان کے صادق اور ڈیرہ اسماعیل خان کے امین مل کر باسٹھ تریسٹھ کی تال پر نرت کی مشق کر رہے تھے۔ لودھراں کے بہترین گرہ گیر اپنے ذرائع آمدن سے عین مطابقت رکھنے والے اثاثہ اڑن کھٹولوں میں دور دیس کے نایاب میوہ جات بھر کے چک لالہ کی روح پرور فضاؤں میں پرواز کرتے بنی گالہ کے بالمقابل ایستادہ سرائے سیرینا کے کمروں میں ذخیرہ کر رہے تھے۔ چرخ نیلی فام نے یہ انقلاب ان گنت مرتبہ دیکھ رکھا ہے۔ اک جیسا انجام تھا اپنا ہر طغیانی میں، نہ اپنی ہار نئی ہے نہ ان کی جیت نئی۔ آپ چونک کیوں رہے ہیں؟ فیض احمد فیض کے مصرع میں ہار اور جیت کی ترتیب بدل گئی؟ عزیزان محترم، آپریشن ردوبدل میں تھوڑی بہت اونچ نیچ تو روا ہوتی ہے۔ اسے اہل حسن کی ادا سمجھئے۔ اور ہماری استواری پر نظر کیجئے۔ تبدیلی تو آ گئی لیکن ’نہ ہوا کہ ہم بدلتے یہ لباس سوگواراں‘۔

wajahat-masood.jpg


برادرم سہیل وڑائچ کے اس مجموعے میں قطب کی لاٹھ تو بائیس جون 2017 کا وہی معرکہ آرا کالم ہے جسے مئی 2013ء میں منتخب ہونے والی حکومت کا نالہ جرس کہنا چاہئے۔ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں کم تحریریں ہوں گی جنہیں اس طور پر تاریخ کی تشکیل میں حصہ دار قرار دیا جائے گا۔ کچھ مثالیں عرض کیے دیتا ہوں۔ ایک تو 6 مئی 1949 کا وہ اداریہ تھا جسے مغربی پاکستان کے 16اخبارات نے مشترکہ طور پہ شائع کیا، یہ اداریہ اس ملک میں سول ملٹری گزٹ نامی اخبار کا نہیں، آزاد صحافت کا کتبہ قرار پایا۔ اپریل 1953 میں حمید نظامی نے ایک اداریے میں خواجہ ناظم الدین سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی کے قتل سے سیاست کی فصیل میں جو نقب لگائی گئی تھی، اس اداریے نے گویا وہ دیوار ہی گرا دی۔ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس برانچ کا بابو غلام محمد جیت گیا، پارلیمان کی تائید غیر موثر رہی۔


ایک اداریہ 18اپریل 1959 کو قدرت اللہ شہاب نے بھی لکھا تھا۔ عنوان تھا ’نیا ورق‘۔ ہمارے ساتھ یہ سانحہ بارہا گزرا کہ نیا ورق الٹتے ہیں تو ’گزشتہ سے پیوستہ‘کی اطلاع ملتی ہے۔ ہم اجل دیدہ نئے پاکستان کی کرچیاں جمع کرتے ہیں تو پرانے پاکستان کے کھنڈرات کا آسیب ہمارے ساتھ چلتا ہے۔ پاکستان دو لخت ہوا تو منو بھائی نے ایک کالم میں پاکستان کے بچوں کو مخاطب کیا تھا، ’آؤ بچو شکل دکھائیں تم کو یحیی خان کی‘۔ سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کی اپیل پر فیصلہ آنا تھا تو الطاف گوہر اور میر علی احمد تالپور نے دو مضامین بزبان انگریزی لکھے تھے جنہیں اہتمام سے اردو اخبارات میں شائع کرایا گیا۔ 1979ء سے 1983ء تک اخبارات پر پہرہ تھا۔ یہی ایک خبر حقیقی تھی چنانچہ اشاعت سے محروم تھی۔ محمد خاں جونیجو کی سادہ لوحی تھی کہ سادگی کے فوائد بیان کرتے کرتے اداروں کو سوزوکی گاڑیوں میں بٹھانے کا اعلان بھی کر دیا۔


اس پر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اعجاز عظیم کی ایک دندناتی ہوئی تحریر Stop General Bashing کے تحکمانہ عنوان سے شائع ہوئی۔ اگرچہ جنرل صاحب بعد ازاں اس تحریر کا سیاق سباق بیان کرنے سے صاف انکار کرتے تھے لیکن دراصل یہ اس روایت کی ابتدا تھی جسے اب نجی ٹیلی وژن کی اصطلاح میں دفاعی تجزیہ کاری کہا جاتا ہے۔ 1986ء میں ہفت روزہ ٹائم کا ایک شمارہ پاکستان کے بک اسٹالز تک نہیں پہنچا، چنانچہ ہمیں بالکل خبر نہیں کہ دنیا کے چھ امیر ترین افراد میں پاکستان سے بھی کوئی نام تھا یا نہیں، اتفاق سے ٹائم کے اس شمارے کی کچھ تفصیل نجم سیٹھی سے دریافت کی جا سکتی ہے جن کی اہلیہ حالیہ انتخاب میں رینالہ خورد سے آزاد حیثیت میں منتخب ہوئی ہیں۔ چھ اگست 1990 کی شام غلام اسحاق خان نے بے نظیر کی منتخب حکومت برطرف کی تو عزیز صدیقی مرحوم نے ایک اداریہ لکھا تھا، ’سسی فس کی آزمائش‘، عزیز صدیقی کو رخصت ہوئے بیس برس ہونے کو آئے، کئی انقلاب آئے، پشت پہ بھاری چٹان اٹھائے پہاڑ پر چڑھتے رہنے کی آزمائش ہنوز سسی فس کا مقدر ہے۔

نومبر 1996 میں عارف نظامی نے اخبار میں خبر دی کہ آج بے نظیر حکومت ختم ہو جائے گی۔ یہ خبر بذات خود صحافتی تاریخ میں محیر العقول استثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہمارے ملک میں عدالت نہیں، کچہری کا چلن ہے، یہاں پارلیمنٹ نہیں، نوٹنکی کی روایت ہے۔ اٹھاون ٹو (بی) ہو یا 184(3)… آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں۔ بارہ اکتوبر کے مطلع تاباں سے پرویز مشرف کا نور ظہور ہوا تو ہم نے ڈھول، تاشے، مجیرے، کھڑتال اور پکھاوج کی مدد سے اعلیٰ صحافتی اقدار کی سمفنی پیش کی۔ نام لینے سے کیا حاصل، بتی جلا کے دیکھ لیں، وہ سب یہیں پہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جن پیشوں میں سود و زیاں کا حجم بہت زیادہ ہو وہاں دریاؤں کی روانی جرائم کے ندی نالوں سے فروغ پاتی ہے۔ مثلا فلم، کھیل، سیاست، ہم نے اس میں صحافت کو بھی شامل کر دیا، ویو پوائنٹ والے مظہر علی خان کہتے تھے کہ پیسہ کمانے کے بہت سے ذرائع ہیں، صحافت کا ان میں شمار نہیں ہوتا۔ مظہر علی خان کی رائے سے خواہی نخواہی اختلاف کی صورت نکلتی ہے۔ ہم نے اس ملک میں صحافت کو عوام کے خلاف جرم کا درجہ دے دیا ہے۔ جرم کی اصطلاح چلی آئی تو اس کی کچھ تشریح بھی ہو جائے۔

سہیل وڑائچ کے 22جون 2017والے کالم کا آخری پیراگراف پھر سے پڑھ لیجیے، لکھا ہے، ’ایک جمہوریت پسند کی حیثیت سے اور ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر میری خواہش ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی جاری رہے‘اور پھر خبردار کیا ہے کہ جو ارادے باندھے جا رہے ہیں ان میں پاکستان ایک نئے بحران کا شکار ہو جائیگا۔ درویش بے نشان نے بھی دس اپریل 2018 کو اسی اخبار میں کچھ عرض معروض کی تھی، عنوان تھا، پارٹی از ناٹ اوور۔ واللہ مجھے سہیل وڑائچ کے کالم میں دی گئی خبر کی تصدیق پر کوئی ملال نہیں، وہ بڑے صحافی ہیں، باخبر ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ جو جانتے ہیں، اسے پڑھنے والوں تک پہنچائیں۔ میرا دکھ تو یہ ہے کہ تیس برس کی خامہ فرسائی میں میرا ایک بھی تجزیہ درست کیوں ثابت نہیں ہوتا۔ افتاد طبع کی اصلاح تو خیر اب کیا ہو گی، لیکن خود سے سوال تو کرنا چاہئے کہ میں تجزیہ کار کے طور پر ناکام کیوں ہوا؟


اپنا دفاع مقصود نہیں لیکن عرض ہے کہ تجزیہ تاریخی تناظر، زمینی حقائق، آئینی حدود و قیود، اخلاقی جواز، قابل تصدیق شواہد اور ملکی قانون کی مدد سے مستقبل کی نقشہ بندی کا کام ہے۔ انسانی معاشرے میں جرم کا امکان تو بہرصورت موجود رہتا ہے لیکن جوہری طور پر غیرقانونی فعل ہونے کے باعث جرم کو کسی تجزیے کے جائز جزو کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔جرم وہ ناگہانی حادثہ ہے جو خواب کی چادر کو تار تار کر دیتا ہے۔ کشت امید میں بوئی فصلیں روند دیتا ہے۔ نقشے بدل دیتا ہے۔ معمولات کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ آس کے سرمایہ کاروں کو دیوالیہ کر دیتا ہے۔ سازش، حادثات، آفات اور جرائم کی بنیاد پر قومیں تعمیر نہیں ہوتیں اور نہ ان اجزا سے مستقبل کی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ سہیل وڑائچ نے صحیح خبر دی۔ درویش بے نشاں نے بھی عذر خواہی کی اپنی سی کوشش کر دیکھی۔ وہ بھی شمع کے ہواخواہ ہیں، ہمیں بھی خوشبوئے خوش کناراں کی آس بندھی ہے، مشکل مگر یہ ہے کہ جرم کا تجزیہ ممکن نہیں۔


https://jang.com.pk/news/531576
 
Last edited by a moderator:

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
بلکل درست فرمایا کالم نگار نے لیکن جرم کس کے خلاف ہوا؟
جس کی ایک ایک حرکت جرم تھی اپنے جرم کا شکار ہونے پر اسے شہید نہیں مردار کہتے ہیں .
ایک سو چوراسی تین کس بدنیتی سے مجرموں نے رکھا آئیں میں؟ اور اس کی حد کی تعریف نہیں کی یہ جرم بدنیت مجرموں کا تھا یقینا اپنے نقصان کو نہیں بلکہ دوسروں کو فائدے سے محروم کرنے کو نہیں کی تھی.اب یہ کالم نگار اس لوٹ مار جس کی کوئی انتہا نہیں اور وہ پیسا جو پاکستان کے خلاف لگتا ہے اور لگایا جاتا ہے اس میں سے اپنا پنا دانا دنکا وصول کرتے رہیں گے کیونکہ ان کا جس شاخ پہ آشیانہ تھا اس میں انہوں نے جمہوریت کے نام پر اتنا کچھ لگایا کے اب اس سے اترے تو بیروزگار مرنا پسند نہیں کریں گے اربوں کے منہ کھلے تھے اب وہ جمہوریت کے نام پر اس دور کی واپسی کے انتظار میں جمہوریت میں بھی جمہوریت جمہوریت چلاتے رہیں گے. .بھلا نواز شریف کی کونسی حرکت تھی جو جمہوری تھی .لندن فلیٹس جمہوریت کا تحفہ تھے لیکن اس کی رسید لینا بھول گیا بھلا چوری کی رسید ہوتی ہے ؟
یہ دو دو ٹکے کے بقول اپنے ہی بے روزگار پانچ سال بتانے میں ناکام رہیں گے کے جمہوریت نے نواز شریف کو مجبور کیا عدالت کو قوم کو نہ بتائے کے یہ پیسا اس کے پاس کہاںسے آیا تھا
اور جمہوریت کیسے اس جواب کے بغیر نواز کو آزاد سڑکوں پر چھوڑے؟اور چھوڑے تو باقی قیدیوں کا کیا کرے؟جو اسی اصول پر سزا پاتے ہیں ؟
 

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
خدایا رحم ـــ ایک اور غلط، ناکارہ اور کسی حقیقی تجزیے سے عاری مضمون ـ ادھر ادھر سے دسیوں مضامیں سےخوشہ چینی سے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے لئے کچھ بھی گھڑا جا سکتا ہے - اسے علمی بد دیانتی ، چالاکی یا سستی کہتے ہیں-- اس قسم کی تجزیہ کاری اور فسانہ تراشی پیر و عامل و ملا کی پشین گو ی کا خاصہ ہو ں تو ہو ں مگر کسی سنجیدہ سیاسی بحث میں اسکس کیا عمل دخل ـــــ اگر محترم نے تاریخی تناضر اور زمینی حقائق " وغیرہ کا ذکر کر کے اپنی بات میں دانش گھسیڑنے کی ہمت کر ہی لی تھی تو یہ عزیر سب واقعات کا (جنکا انہوں نے ذکر کیا ہے) تاریخی پس منظر، سیاسی تنظیم اور صف بندی اور معاشی تضادات اور سب سے بڑھ کر معاشی سچای وغیرہ کا بھی وا ضح ذکر و تنقید کر کے کسی طور "کریٹیکل تھیوری" کا حق ادا کر دیتے کہ کچھ تو انکے" لبرل" ہونے کا بھرم رہ جا تا اور انکو ان وا قعات سے متعلق اپنی جہالت کا بھی اندازہ ہو جاتا ـــ
مگر پچھلی تین چار دہائیوں میں اس ملک کی بد قسمتی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور اسکے گرد پھیلے سست دانش زدوں نے علم و تجزیہ کو پاتال تک پہنچا دیا ہے، اور اسکا واضح ثبوت محترم وجاہت مسعود جیسے کاہل اور بے سرو پا لکھنے والے ہیں ، بہتر ہوتا وجاہت صاحب بجاۓ قدرت اللہ شہاب وغیرہ کو پڑھنے کے ڈاکٹرمبشر حسن وغیرہ کے سیاسی /معا شی تجزیہ یا اعداد وشمار کی روشنی میں کچھ بول دیتےـــ
 
Last edited:

free_man

MPA (400+ posts)
تڑپ اے دل تڑپنے سے تسکین ہوتی ہے.
نوحہ خوانی میں آپ نے آنسوؤں کا بھرپوراستعمال کیا ہے، اور غم عاشقی کیا کہئے جس میں حزن نہ ہو. مگر میرکی سادگی دیکھے کہ ان کو اسی عطار کے لونڈے سے دوا چاھیئے.جس کے سبب بیمار ہوے. جس ڈاکہ زنی کا نام آپ جمہوریت کہ رہے ہیں وہ لفاظ گیروں کے لیے تو سودمند ہے کہ ایک گرہ لگائی اور مہینے بھر کے لیے فکر معاش سے آزاد ٹھہرے مگر تھرکے ریگستانوں میں ناچتی بھوک اور افلاس، بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں پہ سسکتی انسانیت، کشمیر کی وادیوں میں بنت حوا کے سر سے سرکتی چادر، پنجاب میں ماں کا زیور بیچ کر پڑھنے والا نوجوان جو بیروزگاری کے عفریت میں بری طرح جکڑا ہوا ہے. اور ہرطرف ناچتی لاقانونیت، دادا گیری، زورزبردستی اور عدالتوں میں لٹتی انصاف کے دیوی تمہارے جمہوریت نواز دعووں سے نابلد ہے اور ناآشنا ہے. جمہوریت کے ٹھیکیدار جب لانچوں میں زر بھر کر دیار غیر میں آسمان چھوتی عمارتئیں بناتے رہے تو آپ کی جمہوریت مظبوط ہوتی رہی کیونکہ کچھ ہن آپ جیسوں پر بھی برسا. ان کی جھوٹن پے کتنے دن جو گے. اور ہاں یاد رکھنا گیہو کے ساتھ گھن کو بھی پسنا ہے.
 

Notpersonal

Minister (2k+ posts)
He is worst of all , if this person can be an anchor and his political views then every jobless in Pakistan can be an anchor person
 

Back
Top