عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ
جو لوگ پاکستان کا موازنہ امریکہ، برطانیہ، ترکی وغیرہ کے ساتھ کرتے ہیں وہ اس ملک کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ پاکستان کا موازنہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا کے ساتھ تو ہو سکتا ہے مگر امریکہ سے نہیں جہاں 1776 عیسوی سے جمہوریت قائم ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ یا ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی بات کہنا اَفضل ترین جہاد ہے۔
اب آپ سوچیں کہ وہ کون سے حالات ہیں جو پاکستان میں ہیں اور بھارت میں نہیں ہیں۔ کیا وہاں کرپشن، لاء اینڈ آرڈر کے مسائل، دہشت گردی، پبلک آفس ہولڈرز کی کرپشن نہیں ہے؟اس کے باوجود بھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ 2030 عیسوی میں بھارت دنیا کی آٹھویں بڑی معیشت ہوگا اور ہم پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک دن کے لیے مارشل لاء نہیں لگا، ایک دن کےلیے آئین کو معطل نہیں کیا گیا، ایک دن کے لیے سیاسی عمل نہیں رکا۔ ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات ،کشیدگی اور جنگ کی باتیں تو بتائی جاتی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ بھارتیوں کو اپنے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام بھی نہیں پتہ ہوتا۔
پاکستان کے لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ جسٹس منیر نے (1955میں) اس قوم کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے کے بعد زندہ ہو کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ کردار ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت والے کردار ہوں، وہ کردار ارشاد حسن، شیخ ریاض کی صورت میں ہوں، یا وہ کردار موجودہ دور میں (جسٹس ثاقب نثار) کی صورت میں ہوں، یہ سب جسٹس منیر کے کردار ہیں۔
یہ وہی جسٹس منیر ہے جس نے پاکستان کی قسمت کا اس انداز میں سودا کیا کہ جنرل ایوب کی کابینہ میں یہ شخص وزیر قانون لگا اور 1962 کے آئین میں پہلی دفعہ اس شخص نے پاکستان کے نام سے 'اسلامی جمہوریہ' کا سابقہ ہٹاکر اسے صرف 'پاکستان' بنادیا۔
ارشاد حسن خان نے3 سال کے لیے چیف الیکشن کمشنر بننے کا سودا کیا اور پرویز مشرف کو سند جواز عطا کی(کہ آپ پاکستان پر قبضہ کر سکتے ہیں)۔
مجھے نہیں معلوم کہ آج کے بعد کیا ہوگا۔
آج کے اس دور میں آئی ایس آئی پوری طرح عدلیہ کی پروسیڈنگز ( کارروائی) کو اپنے اشاروں پر چلارہی ہے۔ آئی ایس آئی کے لوگ مختلف جگہ پہنچ کر اپنی مرضی کے بنچ بنواتے ہیں۔ کیسوں کی مارکنگ ہوتی ہے۔ میں اپنے ہائی کورٹ کی بات کرتا ہوں۔ آئی ایس والوں نے میرے چیف جسٹس کو حکم صادر کیا کہ ہم نے الیکشن تک نواز شریف اور اس کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا۔ شوکت عزیز صدیقی کو بنچ میں مت شامل کرو۔ اور میرے چیف جسٹس نے کہا۔ جس بنچ سے آپ مطمئن ہوں، ہم وہ بنا دیتے ہیں۔
مجھے یہ پتہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے۔
مجھے یہ پتہ ہے کہ احتساب عدالت کی روزانہ کی کارروائی رپورٹ کہاں پر جاتی رہی ہیں۔
مجھے یہ وجہ معلوم ہے کہ احتساب عدالت کے اوپر اسلام آباد ہائی کورٹ کا قانون کے مطابق انتظامی کنٹرول کیوں ختم کیا گیا۔ تاکہ وہاں پر کل کوئی جج جا کر کارروائی کا مشاہدہ نہ کرسکے۔
مجھے یہ کہا گیا کہ جناب آپ ہمیں ایک یقین دہانی کرادیں کہ ہماری مرضی سے فیصلے کریں گے تو ہم آپ کے ریفرنس ختم کروادیں گے۔
مجھے یہ کہا گیا کہ آپ اگر ہماری مرضی کے مطابق فلاں کیس میں فلاں فیصلہ دیں گے تو ہم نومبر تک نہیں، ستمبر میں آپ کو چیف جسٹس بنادیتے ہیں۔
میں نے کہا کہ میرٹ سے ایک سینٹی میٹر بھی نہ اِدھر ہوں گا نہ اُدھر۔ مجھے ریفرنسز کی پروا نہیں ہے۔ آپ نے پہلے بھی ر یفرنسز کروائے ہیں آپ دس اور کروالیں۔ جب تک میرے اللہ کو منظور ہے کہ میں نے اس عہدے پر رہتے ہوئے اللہ کی رضا کی خاطر کوئی کام کرنے ہیں تو میں کرتا رہوں گا چاہے ساری دنیا میری مخالف ہوجائے۔
میری آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ کی عدلیہ پر ڈاکہ پڑ چکا ہے۔ آپ کی عدلیہ بندوق والوں کے کنٹرول میں آچکی ہے۔ آپ کی آزادی سلب ہوچکی ہے۔ عدلیہ کی آزادی جس پر آپ فخر کیا کرتے تھے، اس پر سمجھوتے ہوچکے ہیں۔
کسی مشہور فلسفی کا قول ہے کہ آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حکمرانی کس کے پاس ہے تو آپ یہ دیکھیں کہ آپ کو کس کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں ہے(آپ کو فوج کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں، باقی پارلیمنٹ اور وزیراعظم سمیت ہر ایک کے خلاف بات کرسکتے ہیں)۔ آج یہ میڈیا والے بھی گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ یہ میڈیا والے اپنے اشتہارات اور مفادات کی خاطر سچ بولنے سے گریزاں ہیں۔ اس ادارے کے اوپر بھی مرضی کی ٹوئیٹس، مرضی کی پریس ریلیز آتی ہیں کہ یہ جاری کرو اور یہ مت جاری کرو۔ کون سا چینل ہے جو یہ حلفاً کہہ سکتا ہے کہ اس کو ہدایات آئی ایس پی آر کی طرف سے نہیں آتیں؟ میڈیا والے یہاں بیٹھے ہیں آپ ان سے پوچھ لیں۔
عدلیہ اور میڈیا کے اوپر، جو کسی بھی ملک کے لوگوں کے ضمیر کی آواز ہوتی ہے، پابندیاں لگا دی جائیں، تو مجھے کہنے دیجیے کہ پاکستان ایک آزاد اسلامی جمہوری ریاست نہیں رہے گا۔ 70 سال میں ہم نہ تو اس ملک کو اسلامی بناسکے، نہ جمہوری بنا سکے اور نہ ہی آئین کے طابع لاسکے۔ 35 سال اس ملک پر ڈکٹیٹروں (آمروں) نے قبضہ قائم رکھا۔ ہمارے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا، ہمیں بات کرنے سے روکا۔
یاد رکھیے کہ اگر چور کو چور کہنے والا چور کے ساتھ ملے گا تو وہ انصاف نہیں کرے گا، وہ نوکری کرے گا۔
جج نوکری سے نہیں، انصاف، عدل اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کرنے سے اور بلا تفریق و امتیاز فیصلے کرنے سے بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو سچ کہنے والے، سچ سننے والے، سچ کے مطابق فیصلہ کرنے والے، حق کی بات کرنے والے منصف عطا کرے، ورنہ پاکستان کا اللہ حافظ۔
Last edited: