مذاہب عالم کے ہاتھوں میں "خوف " ایک بڑا ہتھیار ہے
اگلے وقتوں میں چونکہ انسان فطرت سے لاعلمی اور عدم واقفیت کی بنا پر ہر اس چیز سے خوفزدہ ہو جاتا تھا جو اس کے بس سے باہر ہوتی اور ممکنہ طور پر نقصان پہنچا سکتی- یہ خوف اسے اس چیز پہ آمادہ رکھتا کہ وہ کسی ایسی "قوت" سے "پنگا" نہ لے جو اسے کوئی نقصان پہنچا سکے- آندھی' سمندر' بارش' سانپ' کڑکتی بچلی' طاقتور جانور جس جس چیز کے سامنے انسان خود کو بے بس پاتا تھا اسکی پرستش کرنے لگ جاتا- اس پرستش کے پیچھے یہی خوف جاگزیں تھا کہ کہیں وہ قوت ناراض ہو کر جان یا مال کا نقصان نہیں پنہچا دے- سارے قدیم مذاہب میں علاقے' حالات' موسم' اور بودوباش کے مطابق عجیب عجیب چیزوں کو خدا یا خدا کا اوتار مان لیا جاتا- اپنے اپنے زمانے میں عقلمند لوگوں نے انسان کے اس فطری خوف کا فائدہ بھی اٹھایا اور اسے استممال کرتے ہوئے لوگوں پر بے تاج حکومت کی- وہ لوگ بتاتے تھے کہ وہی الله کے اوتار ہیں اور برکتوں اور رحمتوں کا سلسلہ انہی کے دم قدم سے ہے اور ان کی بات نہ ماننے کا مطلب صریح ان تمام چیزوں سے محرومی ہے جو دنیوی لطف و کرم کا باعث ہیں-
وقت ان سب باتوں پہ مسکراتا اپنی رفتار سے گزرتا چلا گیا- انسانی شعور' آہستگی سے ہی سہی مگرترقی کرتا گیا- نئے آنے والے مذاہب کو نسبتا زیادہ با شعور انسان سے پالا پڑا- انسان کو اس بات پر قائل کرنا کہ میں ہی اس الله کا اوتار ہوں جسکا تصور تمھارے ذھن میں ہے مشکل ہوتا گیا- پھر انسانی آبادی اور رابطہ بڑھنے سے خود مذاہب عالم میں بھی مسابقت بڑھنے لگی- میں سچا اوتار ہوں نہیں میں سچا اوتار ہوں- میرا مذہب سچا ہے نہیں میرا مذہب حق ہے- میں خدا کے زیادہ قریب ہوں نہیں مجھ پہ وحی آتی ہے- مذاہب عالم کے درمیان مسابقت اور مقابلے کی اس فضا نے گو لاتعداد انسانوں کی جان لے لی مگر اسی میں سے بھلائی کے کچھ پہلو بھی نکلے- ان میں سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ مذاہب عالم کو اب بڑھتے ہوئے انسانی شعور کو خوف کے علاوہ کچھ اور بھی دینا تھا کچھ اخلاقی ضابطے' کچھ سماجی قوانین- کیوں کہ انسانی کی سماجی زندگی روبہ عروج تھی- اس سماجی زندگی میں پیچیدگی بڑھتی جا رہی تھی.- مذاہب کو متعارف کروانے والے لوگ اپنی طبعی عمر گزار کہ دنیا سے رخصت ہو چکے تھے- کاروبار مذہب اب انکے ہاتھوں میں تھا جو یا مذاہب کے حوالے سے معتبر ٹھہرتے تھے- یا بہرصورت کسی نہ کسی حوالے سے اس کاروبار سے وابستہ تھے اور بہرہ ور ہو رہے تھے-
اب تک دھندہ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا- انسان خوف سے سانس نہیں لیتا تھا تہ کہ کہیں خدا ناراض نہ ہو جائے کہ بیچ میں کہیں سے سائنس ٹپک پڑی- سارے کے سارے مذاہب اسکے خلاف ہو گئے- سائنس دان کافر اور لادین کہلائے گئے- فتوے لگے- قتل ہوئے- خوف زدہ کیا گیا- خدا کے عتاب سے ڈرایا گیا- خدا کی حدود میںدخل اندزی پہ سخت سزاؤں کی وعید دی گئی- کیوں کہ سائنس انسانی شعور کی پیداوار تھی اس لئے ساری مخالفت اور نا مساعد حالات کے وجود اس نے نہ صرف اپنا وجود قائم رکھا بلکہ روز بروز توانا بھی ہوتی چلی گئی- سائنس کی توانائی انسانی شعور کی طاقت بنی- انسان نے اس خوف پہ قابو پانا شروع کر دیا جو مذہب کی بنیاد تھا-
پتا چلا کہ ہوا' بارش' سیلاب' آفات ان سب کی وجوہات ہیں جن پہ قابو بھی پایا جا سکتا ہے- ان سے خوف زدہ ہونا مناسب نہیں- چاند کی روشنی میٹھی کیوں ہے اور سورج کی غصیلی کیوں- فصل کیسے ہوتی ہے- کیسے پیداوار زیادہ کی جا سکتی ہے- آسمانوں پہ کیسے اڑا جا سکتا ہے- کشش ثقل کو کیسے دھوکہ دیا جا سکتا ہے جب انسان زمین سے باہر چلا گیا تو پتا چلا کہ نہ وہ آسمان ہے جس پہ خدا رہتا ہے اورنہ کہیں فرشتے پائے جاتے ہیں- نہ ہی جنات کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی بھوت پریت کا- جب جن اور بھوت پریت ہیں ہی نہیں تو پھر انسان اندھیری رات میں کس سے ڈرتا رہا؟ پتا چلا اپنے ہی وجود سے- اپنے تخیل سے- اپنے قیاسات اور مفروضات سے- اپنی کمزوری سے- اپنے تصورات سے
سائنس نے انسانی ذہن کو غیر معمولی جلا بخشی- انسانی شعور کے خدوحال نمایاں کیے- اگلی منزلوں کا وعدہ کیا- انسانی بقا کی کوششوں کا یقین دلایا- مگر ان سب باتوں کے باوجود انسان' ایک عام انسان مالی پریشانی بیماری' اولاد' اور مستقبل کی غیر یقینی' ان پریشان خیالات کا مستقل شکار رہا- ظاہر ہے سائنس کسی سے مالی خوشحال کا وعدہ نہیں کرتی- نہ ہی کسی کو شاندار ذاتی مستقبل کی نوید دیتی ہے- نتیجہ یہ نکلا کہ کاروبار مذہب چلتا رہا گو کہ اب اس کاروبار کو زیادہ مسابقت کا سامنا تھا-
اس کٹھن مقابلے میں' جہاں سائنس ہر روز اپنی نئی معلومات اور دریافتوں سے انسان کو اس قابل کر رہی تھی کہ کہ وہ پنے تمام خوف جو اسے کسی تخیلاتی قوت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتے ہیں' انہیں تسخیر کر سکے وہی مذہب نے اپنا فوکس مادی خدشات' ڈر' اور خوف سے ہٹا کر غیر مادی "زندگی" کی طرف موڑ دیا مذہب نے یہ کہنا چھوڑ دیا کہ بیمار ہو تو "الہامی" کتاب پڑھو شفا یاب ہو گے- کیوں کہ سائنس بیماری میں زیادہ کارگر ثابت ہو رہی تھی- مذہب نے یہ کہنا چھوڑ دیا کہ رزق چھین لیا جائے گا کیوں کہ مثالی ریاستوں نے فرد کے رزق کی ذمہ داری قبول کر کے اسے اس خوف سے بھی نجات دلا دی- کم و بیش ہر شعبے میں سائنس نے مذہب کی فرسودیت کو گہری ذک پہنچائی- مگر ایک بات ایسی تھی- ایک خوف ایسا تھا جسے انسان کسی صورتتسخیر نہ کر سکا اور نہ ہی مذہب کی اجاراداری کو خاطر خوا للکارا دے سکا- وہ تھا موت کا خوف
انسان مرنا نہیں چاہتا- مرنے کے بعد کیا ہو گا یہ انسان نہیں جانتا- سائنس کہتی ہے کہ کچھ نہیں ہوتا- انسان وجود سے لاجود ہو جاتا ہے- مذہب کہتا ہے کہ نہیں مرنے کے بعد بھی زندگی ہے- اس زندگی میں سزائیں اور جزائیں دونوں ہونگی- لاتعداد لوگ جنہیں یہ یقین ہے کہ سائنس ٹھیک ہے اور مذہبی مفروضات غلط وہ بھی اس خوف سے مذہب سے روگردانی کی جرات نہیں کرتے کہ اگر واقعی موت کے بعد کوئی زندگی ہوئی تو پھر کیا ہو گا- کیا انہیں وہ ساری سزائیں ملیں گی جن سے ڈرایا گیا ہے- دنیا میں تو سائنس نے انہیں بیماری اور دوسرے خوفوں سے نجات دلا دی پر "آخرت" میں تو سائنس کام نہیں آئے گی- مذاہب نے کیوں کہ آخرت کو فوکس کیا ہوا ہے اس پہ سائنس کا بس نہیں چلتا- کہ یہ محض مفروضہ ہے اس لئے ہم نے سوچا کہ دیکھا جائے کہ مذاہب آخر کونسی سزائیں دیں گے- کس طریقے سے اور کس حوالے سے دیں گے اور کیا یہ خوف جو عام انسانی ذھن نے پالا ہوا ہے کیا اسکا واقعی کوئی جواز ہے
جب ہم نے سارے مذاہب کی سزاؤں کو اکٹھا کیا تو پتا چلا کہ ساری سزائیں زمانہ قدیم میں انسانی جسم کو درد ایذا اور تکلیف پہنچانے کے مروجہ طریقوں کے عین مطابق تھیں- ان طریقوں سے سوا کچھ نہ تھیں- ازمنہ قدیم کا انسان کچھ ایسی تکلیفوں سے شدید خوف زدہ رہتا تھا جو موت سے بھی زیادہ اذیت ناک تھیں اور جنکا علاج اس زمانے کے حکیموں اور سیانے لوگوں کے پاس نہیں ہوتا تھا- ان تکلیفوں میں سب سے زیادہ بیان شدہ تکلیفیں یہ ہیں
١- آگ
٢- سانپ بچھو سے ڈسوانا
٣- جسم کے ٹکڑے کرنا یا کوڑے مارنا
یہ تین تکلیفیں ہر مذہب نے نہایت جوش جذبے اور تفصیل سے بیان کی ہیں- سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر سبھی مذاہب نے ایک جیسی تکلیفوں کا ذکر ہی کیوں کیا تو اسکا جواب بھی انتہائی سادہ ہے- اس لئے کہ جب یہ مذاہب بنے تھے ان زمانوں میں یہ تین تکلیفیں انسانی تخیل میں تکلیف کی انتہا تھیں- جن سے اس زمانے کے انسان تھرا جایا کرتے تھے- کیوں کہ ان مذاہب کا علم اور ادراک اپنے زمانے کے حساب سے ہی محدود تھا اس لئے اس محدودیت نے سزاؤں میں یکسانیت کو جنم دیا
کسی مذہب نے یہ نہیں کہا کہ نہ ماننے والے کو ایک سیارے سے دوسرے سیارے کی طرف پھینک دیا جائے گا نہ ماننے والےکو خلا میں چھوڑ دیا جائے گا جہاں اسکے ٹکڑے ٹکڑے ہو جایئں گے نہ ماننے والے کو مریخ کی ٹھنڈ میں جما دیا جائے گانہ ماننے والے کو ڈائنوسار کے آگے ڈال دیا جائے گا
کیوں کہ ان مذاہب کی بلا جانے کہ خلا کیا چیز ہے اور سیارے کیا- حالانکہ سیاروں کی دریافت شروع ہو چکی تھی اس وقت تک مگر مذہب انکے وجود سے انکاری تھے - "الہامی کتابوں" کی محدودیت کا اندازہ یہی سے ہو جاتا ہے کہ کسی کتاب میں ڈائنوسار کا ذکر نہیں حالانکہ یہ کرہ ارض کی سب سے بڑی اور طاقتور آبادی تھے جنہوں نے کروڑوں سال یہاں حکومت کی اور جنکی موت سے انسانی زندگی کی بقا جڑی ہوئی تھی- وہ نہ مرتے تو انسانی زندگی آگے نہ بڑھتی- کسی مقدس کتاب میں انکا ذکر نہیں کیوں کہ اس وقت تک کا انسان ان سے مکمل طور پر لاعلم تھا-
آخرت کی سزائیں جو مختلف مذاہب نے متعین کی ہیں وہ کتنی مضکہ خیز ہیں اس بات کا اندازہ یہاں سے ہی ہو جاتا ہے کہ ان میں گرم علاقوں کے مذاہب آگ پہ فوکس کرتے ہیں اور ٹھنڈے علاقوں کے برف پر گرم علاقوں کے ابراہیمی مذاہب دس دفعہ آگ کا ذکر کرتے ہیں اور ایک دفعہ برف کا جبکہ تبت کے بدھ پانچ دفعہ برف کا اور ایک دفعہ آگ کا- خوف کی تقسیم بقدر علم- جس حد تک انسانی درد کی حدوں کا علم تھا اس حد تک خوف کو دوام بخشنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ان باتوں کے باوجود اگر کچھ دوست ابھی بھی خود کو ان قدیم سزاؤں سے خوف زدہ پاتے ہیں تو وہ ان کا جائزہ ایک اور اینگل سے لے لیں- سائنس انسانی جینز کو آگے پیچھے کر کے بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پہ کام کر رہی ہے- فرض کریں کہ کچھ عرصے بعد سائنس اس قابل ہو جاتی ہے (اور ہو جائے گی ) کہ انسانی مدافعتی نظام کو اسقدر توانا کر دے کہ کسی سانپ کا زہر اس پر اثر ہی نہ کر سکے تو پھر جہنم کے سانپ کہاں جائیں گے؟