Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ پر سوال اٹھتے ہی چیف جسٹس پاکستان کون سے تین موقعوں پر ساتھی ججز پر برہم ہوئے؟ جسٹس اطہر من اللہ کو براہراست چوٹ کیسے کرائی، کیا سوشل میڈیا کا استعمال ججز کے انصاف کے راستے میں رخنہ ڈال رہا ہے؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں!
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل/پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے سے متعلق کیس میں نشستیں ملیں یا نا ملیں، ججز کی اختلاف رائے پوائنٹ اسکورنگ میں بدل جانا خطر ناک ہے!
کیس کی سماعت کے دوران تین موقعوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ساتھی ججز پر سخت برہم ہوئے جبکہ وہ سوالات وکلاء سے الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ پر کر رہے تھے۔
پہلا موقع، جب جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد امیدواروں کو آزاد ڈکلئیر کیسے کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے جواب میں کہا الیکشن کمیشن غلطیوں سے بھپور ہو سکتا ہے کبھی کبھی غلط فیصلے بھی کرتا ہے مگر کیا پی ٹی آئی کے کیس ایک بھی منتخب رکن نے درخواست دائر کی؟ ہمارے سامنے پی ٹی آئی کا نہیں سنی اتحاد کونسل کا کیس ہے۔
دوسرا موقع، جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم یہ بحث کیوں کر رہے ہیں؟ کوئی دباو تھا یا نہیں تھا یہ الگ بات ہے ہمیں آئین کے مطابق چلنا ہے، مفروضوں پر نہیں چل سکتے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے میں بتاتا ہوں کہ یہ بحث کیوں ہو رہی ہے، ہم کسی سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں نکلنے والے ووٹرز کے حقوق کا بطور سب سے بڑی آئینی عدالت تحفظ کر رہے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا آج حلف دہرایا، ہمارے حلف میں آئین کی پابندی درج ہے، "electorate" کا ذکر کہاں ہے؟
تیسرا موقع، جب ججز الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھا رہے تھے تو جسٹس منصور بولے اگر میرے اس سوال کا کہ ایک نشست سیاسی جماعت اور بقیہ اسمبلی آزاد حیثیت میں جیت کر آئے تو 70 مخصوص نشستیں ایک نشست پر ملیں گی یا نہیں؟ اس کا جواب دیں تو وضاحت ہو جائے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جوابی ریمارکس دیے سمجھ نہیں آتا ہم آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ کیا آئین اولڈ فیشن ہے؟ اگر ہے تو جا کر ترمیم کر لیں، آرٹیکل 5 کے تحت ہر شخص آئین کا پابند ہے۔
پھر وقفے سے پہلے ججز کے پے درپے سوالات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مخدوم علی خان کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو برا نا لگے کہ جب بھی جمہوری حکومت آتی ہے ہم سب چھڑیاں لے کر نکل پڑتے ہیں اور جب ڈکٹیٹر آتا تو "وزیر" یا "اٹارنی جنرل" لگ جاتے ہیں جیسے مخدوم علی خان بھی ایک آمر کے ڈکٹیٹر تھے، ملک کو آئین کے مطابق چلنے دیں، اس بات کے جواب میں جسٹس اطہر من اللہ نے مخدوم علی خان کو مخاطب کر کے کہا آج بھی کوئی آئین کا نفاذ نہیں، سپریم کورٹ کو شریک ہونا چاہیے، کوئی بھی فرشتہ نہیں تھا،ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں، ملک میں جاری بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سپریم کورٹ اپنا سر ریت میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتی! بس بہت ہوگیا
یاد رہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کے بارے گذشتہ دنوں سوشل میڈیا کی ایک مہم میں یہ بات کی جاتی رہی کہ وہ مشرف دور میں وزیر رہے، اور آج یہی بات چیف جسٹس نے براہراست سماعت میں کی
https://twitter.com/x/status/1805508709969166619 https://twitter.com/x/status/1805755455026688116 https://twitter.com/x/status/1805733520058597446
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/f6BvpcM.jpeg
Last edited by a moderator: