محسن بیگ کیس:کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

islamabad-hg-mhs.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ڈائریکٹر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ پوری وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں، آپ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہو رہے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ بار بار ایف آئی اے کو کہا آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر تجزیہ کار محسن بیگ کی مقدمات خارج کرنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی رپورٹس عدالت پیش کی گئیں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے محسن بیگ پر تھانے میں تشدد کی رپورٹ بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ تھانے میں آنے کے بعد پھر جھگڑا ہوا اور حوالات لے جاتے ہوئے بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہوا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوران سماعت کہا کہ ریاست کی رٹ ہونی چاہئے بے شک کوئی ان کے گھر غلط گیا ہو گا مگر قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ اس متعلق جو بھی دفاع ہے محسن بیگ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، کوئی بھی قانون اپنے ہاتھ میں بھی نہیں لے سکتا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ محسن بیگ کے خلاف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں چار مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا تو مقدمہ لاہور میں کیوں درج ہوا؟ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ کی حفاظت کے لیے کام کر رہا ہے؟ ایف آئی اے کا کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے نا قانون کو؟ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے کو فوری طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نا عدالت ڈائریکٹر سائبر کرائم کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دے ، کیا ایف آئی اے قانون اور آئین سے بالا ہے؟ کیوں نا ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کریں؟ ‏دنیا بھر میں ہتک عزت کو جرم سے نکالا جارہا ہے، لیکن پاکستان میں فوجداری قانون کو عوامی نمائندوں کی شہرت کی حفاظت پر لگایا جارہا ہے۔

عدالتی نوٹس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ بابر بخت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے ڈائریکٹر سائبر کرائم پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی؟ عدالت نے آپ کو واضح کیا تھا کہ اس طرح گرفتاری نہیں ہو گی، بے شک میں ہی کیوں نا ہوں، کسی پرائیویٹ شخص کو تحفظ دینے میں نا لگ جائیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو شکایت کہاں ملی تھی ؟ کب ملی ؟ کیا وقت تھا ؟ کتنے عرصے سے یہ عدالت آپ کو موقع دے رہی ہے، ہر کیس میں آپ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر رہے ہیں، ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے بتایا کہ لاہور میں ہمیں شکایت ملی تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے اس میں کیا انکوائری کی تھی ؟ صرف یہ کہ دوسری طرف شکایت کرنے والا وفاقی وزیر تھا اس لیے یہ سب کیا ؟ پروگرام میں کتنے مہمان تھے ؟ آپ نے دوسرے لوگوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا؟

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا پوری دنیا میں ہتک عزت ڈی کرمنلائز ہو رہا ہے، ریحام خان کی کتاب کا جو حوالہ دیا اس میں ہتک عزت کیا ہے؟ کیسے آپ اس کو ہتک عزت کہہ سکتے ہیں؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دیا گیا یہ ہتک عزت ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دفعہ آپ کو بلا کر سمجھایا ہے کہ ایسا نا کریں، کیا پروگرام میں کہاگیا کہ یہ کتاب کا صفحہ ہے؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا صفحہ نہیں پڑھا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں یہ ہتک عزت ہے، آپ نے اس کورٹ کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم نے کہا کہ یہ زخمی انسپکٹر پیچھے کھڑا ہے، ہم بھی آپ کے بچے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نا آپ میرے بچے ہیں نا میں آپ کا باپ ہوں، آپ میری پروٹیکشن کے لیے نہیں عوام کی خدمت کے لیے ہیں، کتنی شکایات آپ کے پاس اس وقت زیر التوا ہیں۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ چودہ ہزار شکایات زیر التوا ہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے اس عدالت اور سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایس او پیز پر عمل کریں گے، آپ پوری وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں، آپ نے جو سیکشن ایف آئی آر میں ڈالی اس میں شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کیا ہے۔

عدالت نے کہا برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ ابھی بھی دلائل دے رہے ہیں؟ آپ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہو رہے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے ، بار بار ایف آئی اے کو کہا آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا۔ آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی ؟ ہم آپ کیخلاف کارروائی کریں گے۔

عدالت نے پوچھا کہ آپ کا قانون کہتا ہے پہلے انکوائری کرنی ہے، کیا آپ نے انکوائری کی؟ آپ نے سب ضابطے چھوڑ دیئے کیونکہ شکایت منسٹر کی تھی؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے کہا کہ سارے اختیارات میں استعمال نہیں کرتا۔

عدالت نے کہا کہ شکایت کنندہ خود کہہ رہا ہے یہ واقعہ ٹی وی شو میں ہوا، ٹی وی شو پر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) کیسے لاگو ہو گیا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ یہی کلپ فیس بک اور سوشل میڈیا پر شئیر کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ کیا سوشل میڈیا پر محسن بیگ نے شیئر کیا تھا جو آپ گرفتار کرنے گئے؟

عدالت نے پھر پوچھا ٹی وی شو میں کیا بات صرف ایک شخص نے کی اور کتنے لوگ تھے؟ صرف ایک کو کیوں گرفتار کرنے گئے؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ریحام کی کتاب کا حوالہ دیکر گفتگو محسن بیگ نے ہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری گفتگو میں توہین آمیز کیا تھا؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دینا توہین آمیز تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کیا پیغام دینا چاہتی ہے کہ آزادی اظہار رائے کی اجازت نہیں، یہ آئینی عدالت ہے اور یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے، یہ ایسا جرم نہیں کہ جس میں گرفتاری بنتی ہے۔

عدالت نے کہا ایف آئی اے مستقل پبلک آفس ہولڈرز کے لیے یہ اختیار کا بے جا استعمال کر رہی ہے، یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے، اگر آپ ایک کتاب کا حوالہ دیں تو اس میں بیہودگی ہے، لیکن سب سے بڑی بے ہودگی آئین کو توہین کرنا ہے۔ لوگوں کا اداروں پر اعتماد ہی ان کی ساکھ ہوتی ہے، اختیارات کا غلط استعمال ساکھ نہیں ہوتی۔

عدالت نے کہا صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟ آپ بتائیں کہ اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے تو اس میں فحش بات کیا ہے؟ اگر کتاب میں کوئی بات موجود ہے جس کا کوئی حوالہ دے تو آپ کارروائی کریں گے؟ کیا اس کتاب میں یہ واحد صفحہ ہے جس پر شکایت کنندہ کا ذکر ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں نے ریحام خان کی کتاب نہیں پڑھی۔ چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ پھر آپ مفروضے پر بات کر رہے ہیں، ایف آئی اے اس وقت سارا کام چھوڑ کر عوامی نمائندوں کی عزتیں بچانے میں لگی ہوئی ہے، ایک ایف آئی اے کے اختیار کا غلط استعمال کا معاملہ ہے دوسرے پر کمنٹ نہیں کریں گے ۔

ایف آئی اے افسر نے جواب دیا کہ ہم نے بیہودگی پر کارروائی کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے بڑی بیہودگی آئین و قانون کی توہین ہے، سب سے بڑی بیہودگی اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا ہے، سب سے بڑی بیہودگی اختیارات کا غلط استعمال ہے جو کیس میں واضح ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏عوامی نمائندوں کو تو بالکل گھبرانا نہیں چاہئے، لگتا ہے درخواست گزار بھی محسن بیگ کیخلاف وہ کارروائی نہیں چاہتا تھا جو ایف آئی اے نے کردی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں فحش گوئی کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سب سے بڑی فحاشی آئین کا احترام نہ کرنا ہے، ‏بڑی فحاشی اظہار رائے پر پابندی لگانا، اختیار کا غلط استعمال کرنا ہے، ‏جنسی طور پر ایکسپوز کرنے والی یہ سیکشن لگا کر ایف آئی اے نے شکایت کنندہ (مراد سعید) کو بھی شرمندہ کیا، ایف آئی آر درج ہوئی جس پر ملزم کے خلاف کچھ الزامات ہیں۔

عدالت نے ایف آئی اے اختیارات کے غلط استعمال اور محسن بیگ کے فائرنگ کرنے کے کیسز کو الگ الگ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کریں پیکا ایکٹ کی جس شق کے تحت یہ مقدمہ درج ہوا کیوں نا کالعدم قرار دیا جائے۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
ابے الو کے پٹھے ایسی تو تابعداری کر رہا ہے اب کیا اس سے عمران کے پیر دبوانے ہیں تم لوگوں نے؟؟
تابعداری قانون کے مطابق کرتا۔ شکایت کنندہ اور ملزم دونوں اسلام آباد میں ہیں اور ایف آئی آر و وارنٹ لاہور سے جاری ہوئے۔ یہ کیا مذاق ہے کھوتے پٹواری ؟
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
What rule of law says about warrant and arresting? No youthia is replying on this.

Is Rule of Law only to protect Imran Khan, save him from no confidence, and only arresting opposition whenever, they like without legal requirements?
Exactly. When FIA Lahore had retrieved warrant from a judge in Lahore, why the heck did the FIA Islamabad raid Mohsin Baig without warrant ?
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
So they could not have waited for 5 to 6 hours. What was the hurry?
Exactly. It seems this case was deliberately mishandled by FIA itself. It's not the first time they have done it and it's not the last. Read the judge's comments
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ریحام کی کتاب کا حوالہ دیکر گفتگو محسن بیگ نے ہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری گفتگو میں توہین آمیز کیا تھا؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دینا توہین آمیز تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
??

arifkarim
بالکل۔ کیسا الو کا پٹھا ڈائرکٹر ایف آئی اے ہے۔ اس نے بھی ریحام خان کی اصل کتاب نہیں پڑھی
D8655180-6036-4181-89AD-4B5B767FAFB2.jpeg

جسے قانونی چھاپہ مارنا نہیں آتا اسے قانونی کیس بنانا کہاں آتا ہوگا
 

Jasmine Afriday

MPA (400+ posts)
What rule of law says about warrant and arresting? No youthia is replying on this.

Is Rule of Law only to protect Imran Khan, save him from no confidence, and only arresting opposition whenever, they like without legal requirements?
Do you expect Youthias to understand technicalities? A youthia brain operates like this
1. Imran is dead smart and honest
2. Pakistan is changing for good and all "corrupt" politicians shall be hanged and then Pakistan shall become a worldly heaven etc etc(This junk makes 99% of a Youthias brain neural activity)
3. If any doubt refer to 1
4. Never think or question 1 and if anyone raises a question , simply start barking like a rabid dog
 

Doom1111

Minister (2k+ posts)
بالکل۔ کیسا الو کا پٹھا ڈائرکٹر ایف آئی اے ہے۔ اس نے بھی ریحام خان کی اصل کتاب نہیں پڑھی
View attachment 5385
"جس طرح آپ لوگوں نے پیکا کا قانون لایا۔۔ سب کے منع کرنے کے باوجود۔۔ اس ٹویٹ سے پہلے اس لی معافی بنتی ہے!"

Adeel Raja tweet to Maryum Nawaz.
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
"جس طرح آپ لوگوں نے پیکا کا قانون لایا۔۔ سب کے منع کرنے کے باوجود۔۔ اس ٹویٹ سے پہلے اس لی معافی بنتی ہے!"

Adeel Raja tweet to Maryum Nawaz.
PMLN AND PTI on same page ???
 

Choudhry ji

Senator (1k+ posts)
I can understand why our judges dont want Sharia .... If Sharia implements 70% judges will be hanged for their bios decisions ..... Our judiciary is most corrupt pillar of state .
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
islamabad-hg-mhs.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ڈائریکٹر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ پوری وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں، آپ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہو رہے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ بار بار ایف آئی اے کو کہا آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر تجزیہ کار محسن بیگ کی مقدمات خارج کرنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی رپورٹس عدالت پیش کی گئیں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے محسن بیگ پر تھانے میں تشدد کی رپورٹ بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ تھانے میں آنے کے بعد پھر جھگڑا ہوا اور حوالات لے جاتے ہوئے بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہوا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوران سماعت کہا کہ ریاست کی رٹ ہونی چاہئے بے شک کوئی ان کے گھر غلط گیا ہو گا مگر قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ اس متعلق جو بھی دفاع ہے محسن بیگ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، کوئی بھی قانون اپنے ہاتھ میں بھی نہیں لے سکتا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ محسن بیگ کے خلاف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں چار مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا تو مقدمہ لاہور میں کیوں درج ہوا؟ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ کی حفاظت کے لیے کام کر رہا ہے؟ ایف آئی اے کا کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے نا قانون کو؟ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے کو فوری طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نا عدالت ڈائریکٹر سائبر کرائم کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دے ، کیا ایف آئی اے قانون اور آئین سے بالا ہے؟ کیوں نا ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کریں؟ ‏دنیا بھر میں ہتک عزت کو جرم سے نکالا جارہا ہے، لیکن پاکستان میں فوجداری قانون کو عوامی نمائندوں کی شہرت کی حفاظت پر لگایا جارہا ہے۔

عدالتی نوٹس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ بابر بخت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے ڈائریکٹر سائبر کرائم پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی؟ عدالت نے آپ کو واضح کیا تھا کہ اس طرح گرفتاری نہیں ہو گی، بے شک میں ہی کیوں نا ہوں، کسی پرائیویٹ شخص کو تحفظ دینے میں نا لگ جائیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو شکایت کہاں ملی تھی ؟ کب ملی ؟ کیا وقت تھا ؟ کتنے عرصے سے یہ عدالت آپ کو موقع دے رہی ہے، ہر کیس میں آپ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر رہے ہیں، ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے بتایا کہ لاہور میں ہمیں شکایت ملی تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے اس میں کیا انکوائری کی تھی ؟ صرف یہ کہ دوسری طرف شکایت کرنے والا وفاقی وزیر تھا اس لیے یہ سب کیا ؟ پروگرام میں کتنے مہمان تھے ؟ آپ نے دوسرے لوگوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا؟

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا پوری دنیا میں ہتک عزت ڈی کرمنلائز ہو رہا ہے، ریحام خان کی کتاب کا جو حوالہ دیا اس میں ہتک عزت کیا ہے؟ کیسے آپ اس کو ہتک عزت کہہ سکتے ہیں؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دیا گیا یہ ہتک عزت ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دفعہ آپ کو بلا کر سمجھایا ہے کہ ایسا نا کریں، کیا پروگرام میں کہاگیا کہ یہ کتاب کا صفحہ ہے؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا صفحہ نہیں پڑھا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں یہ ہتک عزت ہے، آپ نے اس کورٹ کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم نے کہا کہ یہ زخمی انسپکٹر پیچھے کھڑا ہے، ہم بھی آپ کے بچے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نا آپ میرے بچے ہیں نا میں آپ کا باپ ہوں، آپ میری پروٹیکشن کے لیے نہیں عوام کی خدمت کے لیے ہیں، کتنی شکایات آپ کے پاس اس وقت زیر التوا ہیں۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ چودہ ہزار شکایات زیر التوا ہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے اس عدالت اور سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایس او پیز پر عمل کریں گے، آپ پوری وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں، آپ نے جو سیکشن ایف آئی آر میں ڈالی اس میں شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کیا ہے۔

عدالت نے کہا برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ ابھی بھی دلائل دے رہے ہیں؟ آپ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہو رہے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے ، بار بار ایف آئی اے کو کہا آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا۔ آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی ؟ ہم آپ کیخلاف کارروائی کریں گے۔

عدالت نے پوچھا کہ آپ کا قانون کہتا ہے پہلے انکوائری کرنی ہے، کیا آپ نے انکوائری کی؟ آپ نے سب ضابطے چھوڑ دیئے کیونکہ شکایت منسٹر کی تھی؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے کہا کہ سارے اختیارات میں استعمال نہیں کرتا۔

عدالت نے کہا کہ شکایت کنندہ خود کہہ رہا ہے یہ واقعہ ٹی وی شو میں ہوا، ٹی وی شو پر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) کیسے لاگو ہو گیا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ یہی کلپ فیس بک اور سوشل میڈیا پر شئیر کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ کیا سوشل میڈیا پر محسن بیگ نے شیئر کیا تھا جو آپ گرفتار کرنے گئے؟

عدالت نے پھر پوچھا ٹی وی شو میں کیا بات صرف ایک شخص نے کی اور کتنے لوگ تھے؟ صرف ایک کو کیوں گرفتار کرنے گئے؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ریحام کی کتاب کا حوالہ دیکر گفتگو محسن بیگ نے ہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری گفتگو میں توہین آمیز کیا تھا؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دینا توہین آمیز تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کیا پیغام دینا چاہتی ہے کہ آزادی اظہار رائے کی اجازت نہیں، یہ آئینی عدالت ہے اور یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے، یہ ایسا جرم نہیں کہ جس میں گرفتاری بنتی ہے۔

عدالت نے کہا ایف آئی اے مستقل پبلک آفس ہولڈرز کے لیے یہ اختیار کا بے جا استعمال کر رہی ہے، یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے، اگر آپ ایک کتاب کا حوالہ دیں تو اس میں بیہودگی ہے، لیکن سب سے بڑی بے ہودگی آئین کو توہین کرنا ہے۔ لوگوں کا اداروں پر اعتماد ہی ان کی ساکھ ہوتی ہے، اختیارات کا غلط استعمال ساکھ نہیں ہوتی۔

عدالت نے کہا صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟ آپ بتائیں کہ اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے تو اس میں فحش بات کیا ہے؟ اگر کتاب میں کوئی بات موجود ہے جس کا کوئی حوالہ دے تو آپ کارروائی کریں گے؟ کیا اس کتاب میں یہ واحد صفحہ ہے جس پر شکایت کنندہ کا ذکر ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں نے ریحام خان کی کتاب نہیں پڑھی۔ چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ پھر آپ مفروضے پر بات کر رہے ہیں، ایف آئی اے اس وقت سارا کام چھوڑ کر عوامی نمائندوں کی عزتیں بچانے میں لگی ہوئی ہے، ایک ایف آئی اے کے اختیار کا غلط استعمال کا معاملہ ہے دوسرے پر کمنٹ نہیں کریں گے ۔

ایف آئی اے افسر نے جواب دیا کہ ہم نے بیہودگی پر کارروائی کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے بڑی بیہودگی آئین و قانون کی توہین ہے، سب سے بڑی بیہودگی اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا ہے، سب سے بڑی بیہودگی اختیارات کا غلط استعمال ہے جو کیس میں واضح ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏عوامی نمائندوں کو تو بالکل گھبرانا نہیں چاہئے، لگتا ہے درخواست گزار بھی محسن بیگ کیخلاف وہ کارروائی نہیں چاہتا تھا جو ایف آئی اے نے کردی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں فحش گوئی کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سب سے بڑی فحاشی آئین کا احترام نہ کرنا ہے، ‏بڑی فحاشی اظہار رائے پر پابندی لگانا، اختیار کا غلط استعمال کرنا ہے، ‏جنسی طور پر ایکسپوز کرنے والی یہ سیکشن لگا کر ایف آئی اے نے شکایت کنندہ (مراد سعید) کو بھی شرمندہ کیا، ایف آئی آر درج ہوئی جس پر ملزم کے خلاف کچھ الزامات ہیں۔

عدالت نے ایف آئی اے اختیارات کے غلط استعمال اور محسن بیگ کے فائرنگ کرنے کے کیسز کو الگ الگ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کریں پیکا ایکٹ کی جس شق کے تحت یہ مقدمہ درج ہوا کیوں نا کالعدم قرار دیا جائے۔
مارشل لاء ہوتا تو تم جج ہوتے ؟ اور جج گنجے کو لندن فرار کروا دیتے ؟ سوچو اور ڈوب کر مر جاؤ
 

feeqa

Senator (1k+ posts)
Lahore High Court & Islamabad High Court should change their names to Sahreef's Defending Court & made Maryam Chief Justice
 

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
حکومت ملک کو غیر محسوس انداز میں آمرانہ
authoritarian one party rule
کی جانب دھکیل رہی ہے۔۔۔۔۔
نون لیگ کی حکومت میں تو ون پارٹی کیا ون مین حکومت ہوتی ہے کبھی کیبنٹ کی میٹنگ نہیں ہوتی نہ نواز شریف پارٹی کے لوگوں کو راے دینے دیتا ہے اور نہ سنتا ہے اس کا تماشا دنیا دیکھ چکی ہے کیا وہ حکومت مناسب ہو گی؟ ایک لیڈر پارٹی ورکر کو ساتھ چلنے کا حق بھی نہیں دے رہی تھی دوسری عوام کا کیا حشر ہو گا یہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہوتاشہے
 

LeanMean2

Senator (1k+ posts)
نون لیگ کی حکومت میں تو ون پارٹی کیا ون مین حکومت ہوتی ہے کبھی کیبنٹ کی میٹنگ نہیں ہوتی نہ نواز شریف پارٹی کے لوگوں کو راے دینے دیتا ہے اور نہ سنتا ہے اس کا تماشا دنیا دیکھ چکی ہے کیا وہ حکومت مناسب ہو گی؟ ایک لیڈر پارٹی ورکر کو ساتھ چلنے کا حق بھی نہیں دے رہی تھی دوسری عوام کا کیا حشر ہو گا یہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہوتاشہے
بی بی اس سے پیشتر کب حکومت کے خلاف دو جملے بولنے پہ اس طرح ریاستی مشینری یوں حملہ آور ہوتی تھی۔ خود نواز کے دور میں الیکشن فارم ترمیم پہ مخالف سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف، صحافیوں نے خوفناک ترین الزامات کا گھناؤنا کھیل کھیلا پر حکومت کی تو کبھی ہمت نا ہوئی اس طرح مخالف صحافیوں کو کچلنے کی۔ ایسے چھوٹے ذہن اور ظرف کے لوگ حکومت میں آگئے ہیں۔ آپ کیا بات کر رہی ہیں؟؟​
 

back to the future

Chief Minister (5k+ posts)
Do you expect Youthias to understand technicalities? A youthia brain operates like this
1. Imran is dead smart and honest
2. Pakistan is changing for good and all "corrupt" politicians shall be hanged and then Pakistan shall become a worldly heaven etc etc(This junk makes 99% of a Youthias brain neural activity)
3. If any doubt refer to 1
4. Never think or question 1 and if anyone raises a question , simply start barking like a rabid dog
please take your medication
 

Awan S

Chief Minister (5k+ posts)
History will call this government a worst democratic government in the history. A government which passed law that whoever speaks against this government will be jailed for 5 years. Such a shame.