محسن بیگ کیس:کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

islamabad-hg-mhs.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ نے محسن بیگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ڈائریکٹر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ پوری وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں، آپ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہو رہے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟ بار بار ایف آئی اے کو کہا آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینئر تجزیہ کار محسن بیگ کی مقدمات خارج کرنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی رپورٹس عدالت پیش کی گئیں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے محسن بیگ پر تھانے میں تشدد کی رپورٹ بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ تھانے میں آنے کے بعد پھر جھگڑا ہوا اور حوالات لے جاتے ہوئے بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہوا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوران سماعت کہا کہ ریاست کی رٹ ہونی چاہئے بے شک کوئی ان کے گھر غلط گیا ہو گا مگر قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ اس متعلق جو بھی دفاع ہے محسن بیگ متعلقہ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، کوئی بھی قانون اپنے ہاتھ میں بھی نہیں لے سکتا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ محسن بیگ کے خلاف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں چار مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے کسی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ اسلام آباد میں تھا تو مقدمہ لاہور میں کیوں درج ہوا؟ کیا ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈر کی ساکھ کی حفاظت کے لیے کام کر رہا ہے؟ ایف آئی اے کا کون سا ڈائریکٹر ہے جو آئین کو مانتا ہے نا قانون کو؟ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے کو فوری طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نا عدالت ڈائریکٹر سائبر کرائم کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دے ، کیا ایف آئی اے قانون اور آئین سے بالا ہے؟ کیوں نا ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کریں؟ ‏دنیا بھر میں ہتک عزت کو جرم سے نکالا جارہا ہے، لیکن پاکستان میں فوجداری قانون کو عوامی نمائندوں کی شہرت کی حفاظت پر لگایا جارہا ہے۔

عدالتی نوٹس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ بابر بخت عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے ڈائریکٹر سائبر کرائم پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی؟ عدالت نے آپ کو واضح کیا تھا کہ اس طرح گرفتاری نہیں ہو گی، بے شک میں ہی کیوں نا ہوں، کسی پرائیویٹ شخص کو تحفظ دینے میں نا لگ جائیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو شکایت کہاں ملی تھی ؟ کب ملی ؟ کیا وقت تھا ؟ کتنے عرصے سے یہ عدالت آپ کو موقع دے رہی ہے، ہر کیس میں آپ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر رہے ہیں، ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے بتایا کہ لاہور میں ہمیں شکایت ملی تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے اس میں کیا انکوائری کی تھی ؟ صرف یہ کہ دوسری طرف شکایت کرنے والا وفاقی وزیر تھا اس لیے یہ سب کیا ؟ پروگرام میں کتنے مہمان تھے ؟ آپ نے دوسرے لوگوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا؟

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا پوری دنیا میں ہتک عزت ڈی کرمنلائز ہو رہا ہے، ریحام خان کی کتاب کا جو حوالہ دیا اس میں ہتک عزت کیا ہے؟ کیسے آپ اس کو ہتک عزت کہہ سکتے ہیں؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دیا گیا یہ ہتک عزت ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دفعہ آپ کو بلا کر سمجھایا ہے کہ ایسا نا کریں، کیا پروگرام میں کہاگیا کہ یہ کتاب کا صفحہ ہے؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے جواب دیا کہ کتاب کا صفحہ نہیں پڑھا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں یہ ہتک عزت ہے، آپ نے اس کورٹ کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم نے کہا کہ یہ زخمی انسپکٹر پیچھے کھڑا ہے، ہم بھی آپ کے بچے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نا آپ میرے بچے ہیں نا میں آپ کا باپ ہوں، آپ میری پروٹیکشن کے لیے نہیں عوام کی خدمت کے لیے ہیں، کتنی شکایات آپ کے پاس اس وقت زیر التوا ہیں۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم نے جواب دیا کہ چودہ ہزار شکایات زیر التوا ہیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے اس عدالت اور سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایس او پیز پر عمل کریں گے، آپ پوری وفاقی حکومت اور ایف آئی اے کو شرمندہ کر رہے ہیں، آپ نے جو سیکشن ایف آئی آر میں ڈالی اس میں شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کیا ہے۔

عدالت نے کہا برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ ابھی بھی دلائل دے رہے ہیں؟ آپ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہو رہے، کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے ، بار بار ایف آئی اے کو کہا آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا۔ آپ نے اس عدالت کو کیا یقین دہانی کرائی تھی ؟ ہم آپ کیخلاف کارروائی کریں گے۔

عدالت نے پوچھا کہ آپ کا قانون کہتا ہے پہلے انکوائری کرنی ہے، کیا آپ نے انکوائری کی؟ آپ نے سب ضابطے چھوڑ دیئے کیونکہ شکایت منسٹر کی تھی؟ ڈائریکٹر سائبر کرائم بابر بخت نے کہا کہ سارے اختیارات میں استعمال نہیں کرتا۔

عدالت نے کہا کہ شکایت کنندہ خود کہہ رہا ہے یہ واقعہ ٹی وی شو میں ہوا، ٹی وی شو پر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) کیسے لاگو ہو گیا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ یہی کلپ فیس بک اور سوشل میڈیا پر شئیر کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ کیا سوشل میڈیا پر محسن بیگ نے شیئر کیا تھا جو آپ گرفتار کرنے گئے؟

عدالت نے پھر پوچھا ٹی وی شو میں کیا بات صرف ایک شخص نے کی اور کتنے لوگ تھے؟ صرف ایک کو کیوں گرفتار کرنے گئے؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ریحام کی کتاب کا حوالہ دیکر گفتگو محسن بیگ نے ہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری گفتگو میں توہین آمیز کیا تھا؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دینا توہین آمیز تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کیا پیغام دینا چاہتی ہے کہ آزادی اظہار رائے کی اجازت نہیں، یہ آئینی عدالت ہے اور یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے، یہ ایسا جرم نہیں کہ جس میں گرفتاری بنتی ہے۔

عدالت نے کہا ایف آئی اے مستقل پبلک آفس ہولڈرز کے لیے یہ اختیار کا بے جا استعمال کر رہی ہے، یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے، اگر آپ ایک کتاب کا حوالہ دیں تو اس میں بیہودگی ہے، لیکن سب سے بڑی بے ہودگی آئین کو توہین کرنا ہے۔ لوگوں کا اداروں پر اعتماد ہی ان کی ساکھ ہوتی ہے، اختیارات کا غلط استعمال ساکھ نہیں ہوتی۔

عدالت نے کہا صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، یہ اسی وجہ سے ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟ آپ بتائیں کہ اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے تو اس میں فحش بات کیا ہے؟ اگر کتاب میں کوئی بات موجود ہے جس کا کوئی حوالہ دے تو آپ کارروائی کریں گے؟ کیا اس کتاب میں یہ واحد صفحہ ہے جس پر شکایت کنندہ کا ذکر ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں نے ریحام خان کی کتاب نہیں پڑھی۔ چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ پھر آپ مفروضے پر بات کر رہے ہیں، ایف آئی اے اس وقت سارا کام چھوڑ کر عوامی نمائندوں کی عزتیں بچانے میں لگی ہوئی ہے، ایک ایف آئی اے کے اختیار کا غلط استعمال کا معاملہ ہے دوسرے پر کمنٹ نہیں کریں گے ۔

ایف آئی اے افسر نے جواب دیا کہ ہم نے بیہودگی پر کارروائی کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے بڑی بیہودگی آئین و قانون کی توہین ہے، سب سے بڑی بیہودگی اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا ہے، سب سے بڑی بیہودگی اختیارات کا غلط استعمال ہے جو کیس میں واضح ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏عوامی نمائندوں کو تو بالکل گھبرانا نہیں چاہئے، لگتا ہے درخواست گزار بھی محسن بیگ کیخلاف وہ کارروائی نہیں چاہتا تھا جو ایف آئی اے نے کردی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں فحش گوئی کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سب سے بڑی فحاشی آئین کا احترام نہ کرنا ہے، ‏بڑی فحاشی اظہار رائے پر پابندی لگانا، اختیار کا غلط استعمال کرنا ہے، ‏جنسی طور پر ایکسپوز کرنے والی یہ سیکشن لگا کر ایف آئی اے نے شکایت کنندہ (مراد سعید) کو بھی شرمندہ کیا، ایف آئی آر درج ہوئی جس پر ملزم کے خلاف کچھ الزامات ہیں۔

عدالت نے ایف آئی اے اختیارات کے غلط استعمال اور محسن بیگ کے فائرنگ کرنے کے کیسز کو الگ الگ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کریں پیکا ایکٹ کی جس شق کے تحت یہ مقدمہ درج ہوا کیوں نا کالعدم قرار دیا جائے۔
 

Typhoon

Senator (1k+ posts)
Yhaan terer baap ka raj nahi, ke tu police pe firing karta phirre.
Iqdam e qatal pe isko umar qayd ki saza milni chahye. Iskeo aur iske jahil ujjad bete ko bhi. Ta ke phir koi khanzeer khud ko qanoon se baalatar na samjh sake. Ye beemari iss mulk ke mukhayyar kutto mein bohot he.
 

Ontarianpakistani

Senator (1k+ posts)
in adalton ke hote hue sirf mujrimon ke haqooq hain. Kis qanoon ke teht is kharamkhor ne police per pistol tani? dunya ke her mulk main aisa kerne wala bughair kisi delay ke jail jata hai. yahan kharamkhor judge hi un ke wakeel ban jate hain. Police, FIA jaisey sare adare band ker do. Agar marshal law laga hota to Mr. CJ aap ko ye sawal pochne ki himmat hi na hoti, kisi chohe ke bill main ghusse hote. Lanat hai aise judgon per.
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
Iftikhar Ch's tatto this cheapo judge always play to the gallery. Dow chaar din iss tarah kay jazbati dialogues maray gaa, TV aur akhbaroun main khabrain lagain gee aur phir peeshab kee jhaag kee tarah baith jaye gaa. Iski inhi herkatoun kee wajah say isay supreme court main elevate nahi keeya gaya.
Eik say eik namoona judge baitha hai iss mulk main.
 

Everus

Senator (1k+ posts)
قوم یوت جہالت کے پہاڑی سلسے کا دوسرا نام ہے لہذا دلیل قاعدہ قانون انکی سمجھ میں آتا ہے نہ کوئی انہیں سمجھاتا ہے مگر یہاں جو خبر زیر بحث ہے اس میں اعلی درجے کی کورٹ رپورٹنگ دیکھنے کو ملی۔ اگر سیاست ڈاٹ پی کے نے یہ خبر کسی دوسرے میڈیا آؤٹ لٹ سے لفٹ نہیں کی تو رپورٹنگ کا معیار واقعی قابل ستائش ہے

یوتیو گالیاں دینے کیلئے اپنا دھانا کھولنے کی بجائے ایک مرتبہ حرف بحرف اس خبر کو پڑھ لو
اس میں بڑی آسان زبان میں تفصیل سے بتایا گیا کہ ملکی آئین قانون اور ضابطے کیا کہتے ہیں

عمران خان نشئی کی حکومت کو ایک ہائی پرفائل کیس میں ڈھنگ سے گرفتاری کرنی نہیں آئی اور کیس اتنا کمزور اور ناقص ہے کہ محسن بیگ کی بجائے ایف آئی اے اہلکار اور ڈی جی جیل جاتے نطر آ رہے ہیں

جہاں تک ایف آئی اے پر گولیاں چلانے کا تعلق ہے
اگر کوئی میرے گھر میں بغیر وارنٹ عدالتی حکم یا انکوائری مینڈیٹ کے بلا اجازت سادہ کپڑوں میں ڈکیتوں کی طرح گھسے گا میں بھی چاہوں گا کہ اسکی گاف کے اطراف میں اتنے چھید کیے جائیں کہ جلاب شاور کیطرح نکلے

 

Everus

Senator (1k+ posts)
کسی کو کیا پتا کہ اندر گھس آنیوالا کوئی ڈاکو ہے یا لا انفورسمنٹ کا کوئی اہلکار؟

یہاں تو ڈاکو پولیس کی وردیاں پہن کر ناکے لگا کر لوٹتے ہیں سادہ کپڑوں والے کا کیا اعتبار؟

اگر محسن بیگ صاحب جیسی دلیری عوام پاکستان نے دکھائی اور یہ سلسلہ چل نکلا تو پولیس سیکرٹ ایجنسیاں اور دوسرے تیسرے درجے کے سرکاری بدمعاش بہت کم عرسے میں اپنی اوقات میں آ جائیں گے، انشا اللہ
 

Everus

Senator (1k+ posts)
ریاست کی رٹ چیلنج ہو گئی

یہ ڈرامے کم از کم عمران خان نشئی جیسا بیغیرت ہر گز نہیں کر سکتا جس نے ابھی تھوڑے دن پہلے ٹی ایل پی کے دہشتگردوں اور اسکے سربراہ سعد رضوی کو پیروں میں سجدے کر کے پھولوں کے ہار پہنا کر جیل رخصت کیا اور سارے مقدمات واپس لیے

تب تو کسی یوتیے کی گاف کا گونہہ نہیں سوکھا تھا کہ زخمی، اپاہج اور شہید ہو جانیوالے پولیس والوں کے کیا قصور تھا؟
یہی کہ انہوں نے صرف ریاست کی رٹ قائم کرنے کیلئے عمران خان نشئی کے احکامات کی تعمیل کی تھی؟
 

Everus

Senator (1k+ posts)
Iftikhar Ch's tatto this cheapo judge always play to the gallery. Dow chaar din iss tarah kay jazbati dialogues maray gaa, TV aur akhbaroun main khabrain lagain gee aur phir peeshab kee jhaag kee tarah baith jaye gaa. Iski inhi herkatoun kee wajah say isay supreme court main elevate nahi keeya gaya.
Eik say eik namoona judge baitha hai iss mulk main.
ڈاکٹر ڈھکن مرزائی
تیرے جیس فل پاگل اور ہاف ہیجڑا بھی اس فورم پر مفکر ہے
بہر حال قوم یوت تیرے جیسے دلے دانشور کی ہی مستحق ہے

مردودا کبھی خبر اور تھریڈ پڑھ کر موضوع کی مناسبت سے بھی بھونک لیا کر
ہر تھریڈ کو عمران خان نشئی کے کپورے چوسنے کا موقع نہ بنا لیا کر


 

Everus

Senator (1k+ posts)
حکومت ملک کو غیر محسوس انداز میں آمرانہ
authoritarian one party rule
کی جانب دھکیل رہی ہے۔۔۔۔۔
یہ بات آپ قوم یوت کو سمجھا رہے ہیں؟
خوشامدیوں کا ریوڑ کیا جانے کہ آئین کی سربلندی قانون کی پاسداری اور جمہوری اخلاقیات کس بلا کا نام ہے

انہیں ہر عمران مخالف کو گالیاں دینے کے علاوہ کچھ اتا پتا نہیں
ہر وہ بندہ جو عمران خان کذاب پیغمبر پر تین حرف بھیج کر اسکی جھوٹی نبوت کا منکر ہو یوتیے اسے توہین عمران کا مرتکب سمجھتے ہیں یا مریم کا پالتو یا زرداری کا چیلا سمجھ کر بھونکنا شروع کر دیتے ہیں
یہ انکی ساری دماغی جمع پونجی ہے بس
 
Last edited:

LeanMean2

Senator (1k+ posts)
سو یہ وہ پوشیدہ خواہشیں تھیں جس کی وجہ سے عمران حکومت بار بار ایف آئی اے چیف بدل رہی تھی اور یہی وہ بات ہے غالباً جس کی طرف سابق ایف آئی اے چیف بشیر میمن اشارہ کر رہے تھے۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
سو یہ وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے عمران حکومت بار بار ایف آئی اے چیف بدل رہی تھی اور یہی وہ بات ہے غالباً جس کی طرف سابق ایف آئی اے چیف بشیر میمن اشارہ کر رہے تھے۔
ہاں بہتر تھا پٹواری بشیر میمن ہی بیٹھا رہتا۔ اس کو ری پلیس کر کے جو لائیں ہیں وہ تو مہا کنجر نکلا
 

LeanMean2

Senator (1k+ posts)
ہاں بہتر تھا پٹواری بشیر میمن ہی بیٹھا رہتا۔ اس کو ری پلیس کر کے جو لائیں ہیں وہ تو مہا کنجر نکلا
ابے الو کے پٹھے ایسی تو تابعداری کر رہا ہے اب کیا اس سے عمران کے پیر دبوانے ہیں تم لوگوں نے؟؟
 

LeanMean2

Senator (1k+ posts)
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ریحام کی کتاب کا حوالہ دیکر گفتگو محسن بیگ نے ہی کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری گفتگو میں توہین آمیز کیا تھا؟

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیا کہ کتاب کا حوالہ دینا توہین آمیز تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
??

arifkarim