پہلی اپنی معلومات درست کرلو ، میری ان سب باتوں کی تنقید میں چربی شدہ دبر جنرل تو بے تحاشہ پائے جاتے ہیں ، لیکن آج تک میں ان سپاہیوں کو ہمیشہ خراج عقیدت پیش کرتا رہا ہوں جو پنڈی کی جگماتی سیاست اور جی ایچ کیو کے نہاں خانوں میں بننے والی سازشوں سے کوسوں دور اپنے وطن کی سرحدوں کی رکھوالی کرتے ہیں ، ان کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ نئے گھوڑوں کی شیروانی میں چاندی کے پرمکار تار پروئیں ۔
دوسری بات رہ گئ ان سیاستدانوں کی جنکو تم بدعنوان کہتے ہو ۔ اس چیز کا اندازہ لگاتے زیادہ دیر نہیں لگتی کہ وہ ادارہ خود کس قدر بدعنوان ہوگا جو آج صرف اپنی مٹی سے بدعنوان لوگوں کو ہی لیڈر بناتا ہے ، معین قریشی یاد کر ، شوکت عزیز بھی نہ بھولنا ۔ اور یہ جو لوٹوں کی لائن لگا رکھ چھوڑی ہے ، یہ کونسی فصیل کے مقدس پانی سے دھو کر ڈرائ مشین سے نکلے ہیں ۔
میرا تو مقدمہ ہی یہی ہے کہ ھر بدعنوان ، ھر لٹیرا ، ھر جعلساز ، ھر بناوٹی ، ھر لفنگا ۔ جی ایچ کیوں کی گندی نالیوں کے پانی سے پلتا، بڑھتا اور بنتا ہے اور ھر سلیکٹڈ دھوکہ باز اور منافق کے پیچھے جی ایچ کیو کے حرام الدھر جنرل موجود ہوتے ہیں ۔
باقی رہ گئ بات اعمال کی تو وہ تو رب ہی بہتر جانتا ہے کون اسکے دربار میں کامیاب ہے۔ وہ جو اوکاڑہ کے غریب کاشتکاروں کو بےدخل ، اپنے لوگوں پر ہی ڈرون حملے اور امریکی غلامی کے یادگار مینار بناتا ہے، پام رائیل کلب میں گولف کھیلتا ہے ، یا وہ جو ان حرکتوں پر ان پر سو دفعہ لعنت بھیجتا ہے ۔
بہادر شاہ ظفر بننا بند کرو اور کوئی راجہ پورس پیدا کرو۔ ورنہ ڈکٹیٹروں کے انڈے بچوں سے یہ طاہر لاحوتی والی شاعری کروا کر علامہ اقبال (رح) کی روح کو اذیت مت دو