tariisb
Chief Minister (5k+ posts)
:)قربانی
آنکھ کھلی تو ، سر بہت بھاری ، اعصاب بوجھل طبیعت میں شدید ضعف ، خواب نے انگ انگ جھنجھوڑا تھا ، اعصاب کو بری طرح زدوکوب کیا تھا
بستر تھا ، میں تھا اور میں بوجھل تھا ، دن کی مشقت نے بستر کدہ تک لا پوھنچایا تھا ، سر تکیہ کی جانب جا بڑھا ، ہر بار سر ہی بڑھتا ہے ، وقت کی سولی ہو ، کسی لمحے کی آغوش ہو ، یا بستر پر بے جان و ساکت تکیہ ہو ، سر بڑھتا جاتا ہے ، یہ سر ؟ ، اکثر خود سر ، بلکل انا کی طرح ، بلکل خودی کی طرح ، انا دکھائی نہیں دیتی لیکن دماغ پر قابض رہتی ہے سر پر جمی رہتی ہے ، خودی باتیں تو بہت بناتی ہے مگر ہاتھ نہیں آتی ، ہاتھ بڑھاؤں تو بھاگ جاتی ہے ، نظر ملاؤں تو شرما جاتی ہے ، بلاؤں تو منہ چڑاتی ہے ، نہیں آتی ، ہاتھ نہیں آتی ، پاس نہیں آتی ، خواب میں منہ اٹھا کر آجاتی ہے ، عجیب خودی ہے جب دم بخود ہوتا ہوں ، بے خود ہوتا ہوں ، تو خود بخود آتی ہے ، اسی لیے خواب معتبر ہوتے ہیں ، جاگ ناقص ہی رہتی ہے ،
نیند کے کسی موڑ کسی گلی ، کیا دیکھتا ہوں ، بازار سجا ہے ، میلہ لگا ہے ، زرق برق ، رنگین سے پیرہن ، ناز و ادائیں ، جانور بڑی شان سے چلتے جاتے ہیں ، تکبر ، غرور و رعونت سے بھرے ہیں ، ریا کاری سے سجے ہیں ، ہر جانور کے ہاتھ ایک رسی ہے اس رسی سے ایک انسان بندھا ہے ، انسان کیا ہے ؟ چوپاۓ کے ہاتھ میں دو پاۓ کا نصیب ہے ، ہر انسان دوسرے پر دعوی دھرے ہے ، میرا جانور زیادہ قیمتی ہے ، میرا حیوان بہت خوبصورت ہے ، یہ میرا مالک ہے ، میری شان ہے ، تمہارا مالک سستا ہے ، تمہارا مالک صحتمند نہیں ، محلے والو دیکھو ، عزیز اقرباء تم بھی ذرا دیکھو ، جس جانور کے ہاتھ میری رسی ہے ، وہ کتنا خوبصورت ہے ، وہ کتنا مہنگا ہے ، میں خود کیسا ہوں ، میں خود جیسا بھی ہوں ؟ جانور کو ذرا دیکھو ، وہ اچھا تو میں بھی بہت اچھا ، گردن تنے گی ، سر بھی خود سر بنے گا ، عزت ہو گی ، نام ہو گا ، میرا مالک میرا جانور بہت مہنگا ، بہت پیارا ، ذرا فاصلے پر چند کسمپرس بھی دکھے ، خاموش سے تھے ، سوالی نا تھے مگر چہرے پر سوال ہی سوال تھے ، نا ان کے گلے میں رسی تھی ، نا کسی جانور نے انہیں باندھ رکھا تھا ، بیچارے کہیں کے ، یہ بھی کیا زندگی ؟ نرے دو پاے ، چار پاے کا ساتھ ہوتا تو ذرا شان بنتی ، شناخت ہوتی ، خواب گلی طویل ہوتی جاتی ہے ، بھیڑ پھیلتی جاتی ہے ، اب خود کو تلاش کرتا جاتا ہوں ، اچانک ، اچانک ، خود کو دیکھا ، چیخ نکل گئی ، ایک موٹا تازہ اڑیل سا بیل اتراتا چلا آتا ہے ، آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے ، چال میں ضد ، انا ہے ، اور ہاتھ میں سیاہ رسی ہے ، رسی کے آخر ؟ میری گردن ہے ، گھسٹتا چلا آتا ہوں ، آقا سلامت نے مجھے باندھ رکھا ہے ، غلام کھنچا چلا آتا ہے ، دوسرے سب جانور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں ، اور بہت سے انسان رسیوں سے بندھے ہیں ، ریا کاری کا میلہ ہے ، انا کا بازار ہے ، وہ بھی بندھے ہیں میں بھی بندھا ہوں ، نہیں مجھے کھول دو ، نہیں مجھے آزاد کر دو ، یہ سوچا ، مگر کہنے کو ہمت نا پڑی اور آنکھ کھل چکی
زلحج کا چاند نظر آگیا ہے ، حسب روایت ، رویت پر جھگڑا ہے ، چاند اپنا اپنا ہے ، شائد خوشی ابھی بھی سانجھی ہے ، چاند اپنے اپنے مگر اپنوں سے خود کو علیحدہ نا کرنا ، عیدوں کو مختلف نا کرنا ، عید کو بس عید رہنے دینا ، عید خوشی ہے ، وہ خوشی جو دینے سے ملے ، دکھانے کی خوشی ؟ یہ بھی کیا خاک خوشی ، یہ تو انا ہے ، ریا ہے ، فحش خواب کو رد کرتے ہیں ، وسوسوں کو برباد کرتے ہیں ، ہم انس ہم اشرف ، ہم ان غلامیوں سے بہت بلند ، اب کی بار قربانی کی معراج پا لیتے ہیں ، بچے بضد ہیں ، لاکھ روپے کا بیل لینا ہے ، نہیں بچو ، یہ تو اسراف ہے ، آؤ اس بار حساب کتاب کریں ، جمع تفریق و فیصد کا شمار کریں ، نفع پر بہت احتیاط کریں گے ، اب کی بار خسارہ کم کریں گے ، اس بار بیس ہزار کی قربانی کریں گے ، اسی ہزار کی سچی خوشی کریں گے ، الله راضی کرنا ہے ، جی مبلغ بیس ہزار میں الله کو منا لوں گا ، اسی ہزار میں بندوں کو راضی کریں گے ، وہ دیکھو نا ، وزیرستان سے مہمان آے ہوے ہیں ، ادھر دیکھو شاہراہ دستور پر بھی ہم سے ناراض کتنے بیٹھے ہیں ، اندروں پنجاب کتنے ہی اجڑ بیٹھے ہیں ، اڑوس پڑوس ، رشتہ دار ، اقربا و دوسرے شائد منتظر بیٹھے ہیں ،
اس بار رب سے ادھار کریں گے ، بندوں کا قرض چکتا کریں گے ، نہیں اس بار ہی کیوں ؟ ہر بار ایسا کیوں نا کریں گے