اکثر بازار میں اور راستوں میں مولوی صاحبان آج کل نہیں کئے عرصے سے قرآن لے کر پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ صدقے کے لیے خرید لو۔
یہ وہ ہی قرآن ہے جو ہم لوگ ثواب سمجھ کر مسجدوں میں رکھواتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں نے اُس کو کاروبار بنا لیا ہے۔
رمضان سے پہلے اکثر مولویوں کو قرآن بھولا ہوتا ہے۔ صرف ہمیں سنانے کے لیے کیونکہ ان کی یہ نوکری ہے، پیشہ ہے اس لیے رٹا لگا کر قرآن سناتے ہیں۔
دوستو قرآن کی عربی اسلام علیکم کے علاوہ ان کو نہیں آتی اور ۲۰۰۰ میل فی گھنٹے سے قرآن سناتے ہیں۔ اگر کسی اور کو آتی ہو تو وہ بھی ان کی بات نہ سمجھ پائے۔
اب بات کرتے ہیں ان کی منطق کی۔
قرآن، مساجد اور مدرسے سے تعلق رکھنے والے بولتے ہیں تم خود عربی کیوں نہیں سیکھ لیتے تم پہلے اپنی زندگی میں اسلام کیوں نہیں لے آتے۔
اس سے ان کی عقل کا اندازہ ہوتا ہے۔ کہ قرآن، مسجد اور داڑھی سب کاروبار ہے۔
دوستو قرآن کا حق ادا کرو۔ داڑھی میں ان منافقین اور جھوٹوں کو پہچانو۔ ان کی سوچ، عقل اور شکل اسلام کے مشابے تو ہو سکتی ہے۔ مگر وہ اسلام یہودیت اور کفر سے بھی کچھ آگے کی چیز ہے۔