قذافی اسٹیڈیم اورپی ایس ایل کا فائنل

Syed Anwer Mahmood

MPA (400+ posts)
تاریخ: 23 فروری2017
29vc5fl.jpg

لاہور، قذافی اسٹیڈیم، اورپی ایس ایل کا فائنل
تحریر: سید انور محمود
j60ac2.jpg
[FONT=&amp]
نوٹ:دوستوں یہ مضمون عام مضمونوں سے زرا ہٹ کرہے، اس میں لاہور کی محبت کا اظہار ایک بڑئے ادیب کی لاہور سے محبت کے ذکر سے کیا ہے۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم ہمارا قومی اثاثہ ہے، اس کا پورا ذکر اور مفید معلومات سب اور پھر آخر میں پی ایس ایل کا فائنل اور دہشتگردی کا ذکر ہے، امید ہے آپ کو یہ مضمون پسند آیئگا، اگر ممکن ہو تو تبصرہ کیجیے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور سے محبت:۔ کرشن چندر اردو ادب سے جڑا ہوا ایک بڑا نام ، پیدا ہوئے تو ہندو تھے، لیکن مرتے وقت مسلمان تھے۔ آخری عمر میں سلمیٰ صدیقی کے ساتھ نکاح سے پیشتر مسلمان ہوگے تھے اور اپنا نام وقار ملک تجویز کیا تھا۔سلمیٰ صدیقی سے بہت محبت تھی، لیکن سلمیٰ صدیقی کی محبت پر حاوی ہونے والی ان کے دل ودماغ پر راج کرنے والی چاہت اور دیوانگی شہر لاہور تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے،لاہور کرشن چندر کو بہت عزیز تھا، ان کی زندگی کئی شہروں میں بسر ہوئی لیکن لاہور کے ساتھ ان کی محبت کبھی کم نہ ہوسکی۔۔۔ وہ لاہور سے محبت کرتے تھے اور زندگی کے آخری دنوں میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایک بار پھر لاہور چلے جائیں۔کرشن چندر کو نہ دلّی بھایا اور نہ ہی لکھنؤ نے ان کے پاؤں پکڑے بلکہ وہ ان دونوں شہروں کو لاہور کے مقابلے میں حقیر جانتے رہے۔لاہور سے ان کی ایسی محبت تھی جس کے لئے وہ بہت تڑپتے تھے۔۔۔ لاہور میرا لاہور کیسا ہے۔۔۔ جب وہ لاہور اور لاہور کے لوگوں کی تعریف سنتے تو ان کا چہرہ کھل جاتا، آنکھیں چمکنے لگتیں، لاہو رکی تعریف ان کی تعریف تھی۔لاہور میری کمزوری ہی نہیں۔۔۔ میں نے تو لاہور میں مرنے کا خواب دیکھا ہے کسی کونے میں، کسی چھوٹے سے گندے سے غلیظ چوک کے کنارے۔ لاہور سے جدائی کی جوکسک کرشن چندر کو سانس نہ لینے دیتی تھی اس کا سلسلہ ان اہم ادیبوں سے جڑتا ہے جن کے قلوب میں ابھی تک ایک دلّی، ایک لکھنؤ آباد ہے۔۔۔ کہ اپنی جنم بھومی جیسی کیسی بھی ہو ایک جنت گم گشتہ کی صورت میں تمہیں اپنے فریب میں جکڑے رکھتی ہے۔ لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا، وہ میرا سدا بہار جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر۔۔۔ اپنی لافانی جوانی کے لئے مشہور ہے، اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہاؤالدین او رچک نمبر چار سو بیس میں جاکر سکونت اختیار کرلے مگر لاہور کے نام کو بٹہ نہ لگائے۔(حوالہ:۔ کرشن چندرکا واحد محبوب ۔۔۔لاہور۔۔۔ تحریر: مستنصرحسین تارڑ)۔

لاہور کا قذافی اسٹیڈیم: ۔ قذافی اسٹیڈیم پاکستان میں واقع سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ یہاں کرکٹ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم میں پاکستانی کرکٹ ٹیم اور لاہور کی مقامی کرکٹ ٹیمیں کھیلتی ہیں۔یہ اسٹیڈیم 1959 میں تعمیر ہوا تھا۔ اس اسٹیڈیم پر پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے مابین 1959 میں 21 سے 26 نومبر کے دوران کھیلا گیا ۔ اور اس میں 60 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس کی بدولت یہ ملک کا سب سے بڑا کھیل کا اسٹیڈیم ہے۔ قذافی اسٹیڈیم کا اصل نام لاہور اسٹیڈیم رکھا گیا تھا۔24 فروری 1974 کولاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کا نفرنس ہوئی،کانفرنس میں لیبیا کے صدر کرنل معمر القذافی نے بھی شرکت کی، کانفرنس ختم ہونے کے بعد لاہور اسٹیڈیم میں معمر القذافی نے ایک جلسہ عام میں پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں کے حق میں خطاب کیا، اس خطاب میں ہی معمر القذافی نے بھارت کو کافر ملک کہا تھا، جس پر بھارت نے باقاعدہ طور پر لیبیا سے احتجاج بھی کیا تھا۔ اسی تاریخی جلسہ عام میں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی بھرپور حمایت اور تالیوں کی گونج میں لاہور اسٹیڈیم کا نام بدل کر قذافی اسٹیڈیم رکھا۔ قذافی اسٹیڈیم کو بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو نے 1995-1996 میں کرکٹ عالمی کپ کے لیے دوبارہ مرمت کروایا۔ 1996کے عالمی کرکٹ کپ کا فائنل اسی اسٹیڈیم میں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا ۔ فاتح ٹیم سری لنکا کے کپتان ارجنا رانا تنگے نےاسوقت کی وزیراعظم بینظیربھٹو سےٹرافی وصول کی تھی۔

مارچ 2009 میں پاکستان اورسری لنکا کےدرمیان ایک ٹیسٹ میچ قذافی اسٹیڈیم میں جاری تھا کہ 3 مارچ کوسری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر حملہ ہوا ۔اس حملے میں چند سری لنکن کرکٹر زخمی ہوئے تھے لیکن اُن کی جانیں بچ گئی تھیں۔ سری لنکا کی ٹیم کو اس دہشت گردی کے بعدمیچ کو ختم کرکے تمام سری لنکن کرکٹرز کو فوجی ہیلی کاپٹر میں قذافی اسٹیڈیم سے روانہ کیا گیا اور پھر ان کو سری لنکا روانہ کردیا گیا، ادھر سری لنکن کھلاڑی روانہ ہوئے اور ساتھ ہی پاکستان سے انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوگئی۔ 22 مئی 2015 کو ایک بار پھرقذافی اسٹیڈیم میں پورا لاہور موجود تھا ، پاکستان اور زمبابوے کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا گیا۔ لاہوریوں کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ پاکستان میں چھ سال بعد پھر انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی تھی۔

میں نے اپنے مضمون فائنل پاکستان اور دہشتگردوں کے درمیان میں لکھا تھا کہحکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرئے اور ابھی سے واضع طور پر اعلان کرئے کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہورمیں ہی ہوگا، اب یہ فائنل ثانوی طور پر تو وہی دو ٹیمیں کھیل رہی ہونگی جو دوسرئے ایڈیشن میں شامل ہیں لیکن حقیقت میں یہ فائنل پاکستان اور دہشتگردوں کے درمیان ہوگا۔ 20 فروری 2016 کو پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی نے اس بات کا اعلان کیا کہ فائنل لاہور میں ہی ہوگا اورتمام وی آئی پی کو دیکھنے کی دعوت دی جائے گی۔ اگرچہ یہ اعلان پی ایس ایل کے دبئی میں دوسرئے ایڈیشن کے شروع سے پہلے ہی ہوچکا تھا ،لیکن تیرہ فروری کو لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کے بعد صورتحال بدل گئی تھی اور نجم سیٹھی بھی کوئی فائنل اعلان کرنے سے قاصر نظر آئے اور فیصلہ 22 فروری تک ملتوی کردیا گیا تھا۔ 16 فروری کی شام کو لال شہباز قلندرکی درگاہ پر لاہور سے بڑی دہشتگردی ہوئی اور 88 لوگ جان کی بازی ہار گئے، اس صورتحال میں جبکہ لوگ مایوس اور پریشان تھے، 20 جولائی کو پی ایس ایل کے سربراہ نجم سیٹھی کا یہ اعلان کہ فائنل لاہور میں ہوگا دہشتگردوں کے خلاف اعلان جنگ ہے، دہشتگردوں نے اس اعلان جنگ کا جواب اگلے روز 21 فروری کوچارسدہ کی تحصیل تنگی کی کچہری پرحملہ کرکے دیا ہے، دہشتگردوں کی تعداد تین تھی، تینوں دہشتگر مارئے گئے، لیکن اس حملےمیں 8افراد جاں بحق ہوئے اور 25 افراد زخمی ہوئے۔

لاہور میں پانچ مارچ کوہونے والے پی ایس ایل فائنل کے بارئے میں آخری خبریں یہ ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی تو اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہوگا، تاہم ابھی وزیراعلیٰ پنجاب لاہور فائنل کی حتمی منظوری دینگے جو شاید ایک رسمی کارروائی ہوگی۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ تو پہلے ہی لاہور میں ہونے والے فائنل کے انعقاد میں فوج کی جانب سے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کراچکے ہیں، جس کی وجہ سے یہ امید ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف ہم سرخروں ہونگے۔دوسری جانب کرکٹرز کی ایسوسی ایشنز کی فیڈریشن فیکا نے ایک بار پھر لاہور میں فائنل کے انعقاد کو سکیورٹی کا خطرہ قرار دے دیا ہے، لیکن پاکستان کے عوام کو اپنے اور اپنے سکیورٹی اداروں پر اعتماد ہے۔ پانچ مارچ کو اہل لاہور دہشتگردوں کے مدمقابل ہونگے، اس لیے ان کو چاہیے کہ ابھی سے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور کسی بھی شخص کی مشکوک حرکتوں کا احساس ہوتو فوراً سیکوریٹی اداروں کو اس کی اطلاع کریں لیکن خدارا آپس کی دشمنیاں مت نکالیے گا، دوسرئے انتظامیہ کے احکامات پر سختی سےعمل کیجیے گا۔ حکمرانوں اورسیاسی رہنماوں کوچاہیے کہ وہ دہشتگردوں کے اس چیلنج کو قبول کریں اور اس میچ کو اسٹیڈیم میں جاکر دیکھیں، اس سےعام لوگوں میں ایک اچھا پیغام جائے گا اور ایک کثیر تعداد میں لوگ فائنل دیکھنے آینگے جو دشتگردوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہوگا۔ دہشتگردی مردہ باد۔۔ پاکستان زندہ باد
[/FONT]
 

hmkhan

Senator (1k+ posts)
7582229088_cf6d00efca_z.jpg

لاہور کے قذافی سٹیڈیم کی تعمیر سے پہلے لارنس گارڈن(باغ جناح) میں لاہور جمخانہ کلب کا کرکٹ گراونڈ بین الاقوامی اورقومی
کرکٹ کے مقابلوں کا ایک بڑا مرکز تھا جہاں قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین اس گراونڈ میں جنوری 1955کو پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا جس میں پاکستان کی قیادت عبدالحفیظ کارداراور بھارت کی قیادت ونو منکڈ نے کی جبکہ آخری ٹیسٹ میچ مارچ 1959میں پاکستان اور ویسٹ انڈیزکے درمیان کھیلا گیا

برٹش راج کے دوران وائس رائے ہند سرجان لارنس کے نام سے تعمیر ہونے والے لارنس گارڈن کےاس کرکٹ گراونڈ کی شان و شوکت اب بھی وہی ہے
آج سے کچھ عرصہ قبل اسی گراونڈ سے اپنے لڑکپن اور طالب علمی کے دور سے جڑی یادیں قلمبند کی تھیں دوبارہ پیش خدمت ہے

گزشتہ دنوں مجھے پاکستان جانے کا اتفاق ہوا عزیز،رشتہ داروں اور کئی سالوں سے بچھڑے دوستوں سے ملاقات رہی ان سے مل کر ماضی کی ہر یاد تازہ ہو گئی ان گلیوں اورمحلوں
میں گزرا اپنا شرارتی بچپن سکول اور کالج کے زمانے کی بے فکر اور امنگوں سے بھر پور زندگی دوستوں کی پرانی محفلیں اور نہ جانے کیا،کیا کچھ بقول شاعر
دل ڈہونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصور جاناں کئے ہوئے
میری ماضی کی یادوں سے جڑا لاہور کا مشہور باغ جناح(لارنس گارڈن) اور خصوصا" وہاں
لاہور جیم خانہ کا کرکٹ گراؤنڈ ہے جب بھی میرا پاکستا ن جانا ہوباغ جناح کا چکر ضرور
لگاتاہوں اس مرتبہ بھی وہاں جانا ہوا جیم خانہ کا کرکٹ گراؤنڈ میں پویلین کے بالکل سامنے
سنبل کا ایک قد آوردرخت تھا جو آج بھی موجود ہے اسی درخت کے نیچے دوستوں کے ہمراہ سکول اور کالج سے کھسک کے نہ جانے کتنے اہم کرکٹ میچوں کا مشاہدہ کیا آج کئی سالوں کے بعد اسی درخت کے نیچے لکڑی کے بینچ سے ٹیک لگائے میں سامنے پویلین کی جانب
دیکھ رہا تھا پورا گراؤنڈ ویسا ہی نظرآ رہا تھا برطانوی طرز تعمیرکا نمونہ لکڑی سے تعمیر شدہ سبزاور نارنجی رنگ کا شاندار پویلین جس کی پیشانی پرگول بالکل ریلوے پلیٹ فارم کی طرح نصب بڑے بڑے ہندسوں والی گھڑی مجھے ایک فلمی منظر کی طرح ماضی میں لے گئی
سنبل کے درخت تلے بینچ پر بیٹھا خیالات میں گم تھا کہ محسوس ہوا کہ درخت کی شاخیں
جھوم کر اور اس پر رقصاں پتے غالبا" مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں نگاہیں اوپر اٹھائیں تو محسوس ہوا کہ درخت مجھ سے مخا طب ہے کہنے لگا کیوں دوست کیسے ہو؟آج اتنے سالوں کے
بعد ادھر کا رخ کیا کہاں تھے دوست؟
کیابتاؤں فکر معاش ہجرتوں کے سلسلے اور وطن سے دوری خیر تم سناؤکیسے ہو؟ کیا بات ہے تم پہلے سے تو زیادہ قدآور ہو گئے ہولیکن تم میں پہلی سی رعنائی اور تروتازگی باقی نہیں
کیا بتاؤں دوست اپنے کرم فرماؤں کے ہاتھوں اپنی بربادی پر نوحہ خواہ ہوں بھلا وہ کیسے؟ وہ
ایسے کہ انسانوں نے ماحول کو کس قدرآلودہ کر دیا ہے پہلے جب تم یہاں آتے تھے تو یہاں کی
فضا کس قدرصاف اور نکھری،نکھری آلودگی سے پاک ہوتی تھی اب فضا میں دھوئیں اور گرد و غبارایک کثیف چادرہر وقت نظر آتی ہے اب تو میرا سانس لینا بھی انسانوں نےدوبھرکردیاہے
او ہاں یاد آیا پہلے تمہاری شاخوں پرچہچہاتے پرندوں،نغمہ سرا بلبلوں اور بہار کی آمد پرکوئل کی مدھر کوک سنائی دیتی تھی اب نہ تو تمہاری شاخوں پر چہچہاتے پرندے،بلبلیں یا کوئل ہی
دکھائی دیتی ہے بلکہ اس کی جگہ کائیں،کائیں کرتے ہو کوؤں اور ایک دوسرے پر جھپٹتی
ہوئی چیلوں کا بسیرا نظر آتا ہے ٹھیک کہا تم نے دوست وہ پرندے ماحول آلودہ ہونے کی وجہ
سے ہجرت کر گئے بالکل تماری طرح جیسے تم نے اپنی دھرتی ماں سے ہجرت کی تمہیں یاد ہے ایک روز کسی بدمعاش نے میرے سرسبز ٹہنے کو کلہاڑے کے وار سے میرے تن سے جدا کر دیا تھا اور تم اس روزکس قدرافسردہ تھے تمہاری آنکھیں میرا یہ حال دیکھ کر ڈبڈا اٹھیں تھیں
ہاں میں وہ درد ناک منظربھلا کیسے بھول سکتا ہوں لیکن میں بالکل نہیں گھبرایا کیونکہ میری
جڑیں مضبوط تھیں میری شاخوں پرابھی تک نغمہ سرا پرندوں کا بسیرا تھا میرے سائے تلے تم
جیسے جوشیلے نوجوانوں کا کچھ کرنے کا عزم زندہ تھا اور تم نے دیکھا کہ میں چند روز ہی میں دوبارہ ہرا بھرا اور پہلے سے زیادہ تن آور ہو گیا لیکن یہ خوشیاں عارضی ہی ثابت ہوئیں
کیونکہ پہلے تم جیسے نوجوانوں نے اپنی دھرتی سے ناطہ توڑا اور پھردھیرے،دھیرے خوبصورت،رنگین چہچہاتے پرندے بھی میرا ساتھ چھوڑ گئےاب تمہارے اور ان کے فراق میں
دن رات آنسوبہا تا ہوں اب دیکھنے میں قدآور ہوں مگر میری جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اب میرے اور تمہارے مادروطن کی شاخوں پراس کی بوٹیاں نوچ،نوچ کر کھانے والے کوؤں، چیلوں اورگدھوں کا بسیرا ہے اور حالات کی آندھی نہ جانے مجھے کب زمیں بوس کر دے
مگر تمہیں کیا تم تو سات سمندر پاراجنبی دیس میں مجھے او اپنی دھرتی کو بھلا بیٹھے پلٹ کر
خبر بھی نہ لی نہیں،نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے وہاں میں نے تمہیں اور مادر وطن کوہمیشہ یاد کیا
ہاں خوب جانتا ہوں جب ہماری بربادی کی داستانیں تم تک پہنچیں تو تم نے کیا،کیا؟ محض اپنے
اپنے ہم وطنوں کے ہمراہ کسی ریسٹورنٹ میں یا پھر کسی سنٹر میں صرف اظہار افسوس کیا زیادہ تیر مارا تو یہاں کے سسٹم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکال دیا جب تم نے یہاں کے سسٹم اور نظام سے اپنا ناطہ ہی توڑ لیا تو پھر کیا حق پہنچتا ہے تمہیں کہ تم وہاں بیٹھ کر اپنے تنقید کے نشتر چلاؤ
 

khan_sultan

Banned
7582229088_cf6d00efca_z.jpg

لاہور کے قذافی سٹیڈیم کی تعمیر سے پہلے لارنس گارڈن(باغ جناح) میں لاہور جمخانہ کلب کا کرکٹ گراونڈ بین الاقوامی اورقومی
کرکٹ کے مقابلوں کا ایک بڑا مرکز تھا جہاں قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین اس گراونڈ میں جنوری 1955کو پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا جس میں پاکستان کی قیادت عبدالحفیظ کارداراور بھارت کی قیادت ونو منکڈ نے کی جبکہ آخری ٹیسٹ میچ مارچ 1959میں پاکستان اور ویسٹ انڈیزکے درمیان کھیلا گیا

برٹش راج کے دوران وائس رائے ہند سرجان لارنس کے نام سے تعمیر ہونے والے لارنس گارڈن کےاس کرکٹ گراونڈ کی شان و شوکت اب بھی وہی ہے
آج سے کچھ عرصہ قبل اسی گراونڈ سے اپنے لڑکپن اور طالب علمی کے دور سے جڑی یادیں قلمبند کی تھیں دوبارہ پیش خدمت ہے

گزشتہ دنوں مجھے پاکستان جانے کا اتفاق ہوا عزیز،رشتہ داروں اور کئی سالوں سے بچھڑے دوستوں سے ملاقات رہی ان سے مل کر ماضی کی ہر یاد تازہ ہو گئی ان گلیوں اورمحلوں
میں گزرا اپنا شرارتی بچپن سکول اور کالج کے زمانے کی بے فکر اور امنگوں سے بھر پور زندگی دوستوں کی پرانی محفلیں اور نہ جانے کیا،کیا کچھ بقول شاعر
دل ڈہونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصور جاناں کئے ہوئے
میری ماضی کی یادوں سے جڑا لاہور کا مشہور باغ جناح(لارنس گارڈن) اور خصوصا" وہاں
لاہور جیم خانہ کا کرکٹ گراؤنڈ ہے جب بھی میرا پاکستا ن جانا ہوباغ جناح کا چکر ضرور
لگاتاہوں اس مرتبہ بھی وہاں جانا ہوا جیم خانہ کا کرکٹ گراؤنڈ میں پویلین کے بالکل سامنے
سنبل کا ایک قد آوردرخت تھا جو آج بھی موجود ہے اسی درخت کے نیچے دوستوں کے ہمراہ سکول اور کالج سے کھسک کے نہ جانے کتنے اہم کرکٹ میچوں کا مشاہدہ کیا آج کئی سالوں کے بعد اسی درخت کے نیچے لکڑی کے بینچ سے ٹیک لگائے میں سامنے پویلین کی جانب
دیکھ رہا تھا پورا گراؤنڈ ویسا ہی نظرآ رہا تھا برطانوی طرز تعمیرکا نمونہ لکڑی سے تعمیر شدہ سبزاور نارنجی رنگ کا شاندار پویلین جس کی پیشانی پرگول بالکل ریلوے پلیٹ فارم کی طرح نصب بڑے بڑے ہندسوں والی گھڑی مجھے ایک فلمی منظر کی طرح ماضی میں لے گئی
سنبل کے درخت تلے بینچ پر بیٹھا خیالات میں گم تھا کہ محسوس ہوا کہ درخت کی شاخیں
جھوم کر اور اس پر رقصاں پتے غالبا" مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں نگاہیں اوپر اٹھائیں تو محسوس ہوا کہ درخت مجھ سے مخا طب ہے کہنے لگا کیوں دوست کیسے ہو؟آج اتنے سالوں کے
بعد ادھر کا رخ کیا کہاں تھے دوست؟
کیابتاؤں فکر معاش ہجرتوں کے سلسلے اور وطن سے دوری خیر تم سناؤکیسے ہو؟ کیا بات ہے تم پہلے سے تو زیادہ قدآور ہو گئے ہولیکن تم میں پہلی سی رعنائی اور تروتازگی باقی نہیں
کیا بتاؤں دوست اپنے کرم فرماؤں کے ہاتھوں اپنی بربادی پر نوحہ خواہ ہوں بھلا وہ کیسے؟ وہ
ایسے کہ انسانوں نے ماحول کو کس قدرآلودہ کر دیا ہے پہلے جب تم یہاں آتے تھے تو یہاں کی
فضا کس قدرصاف اور نکھری،نکھری آلودگی سے پاک ہوتی تھی اب فضا میں دھوئیں اور گرد و غبارایک کثیف چادرہر وقت نظر آتی ہے اب تو میرا سانس لینا بھی انسانوں نےدوبھرکردیاہے
او ہاں یاد آیا پہلے تمہاری شاخوں پرچہچہاتے پرندوں،نغمہ سرا بلبلوں اور بہار کی آمد پرکوئل کی مدھر کوک سنائی دیتی تھی اب نہ تو تمہاری شاخوں پر چہچہاتے پرندے،بلبلیں یا کوئل ہی
دکھائی دیتی ہے بلکہ اس کی جگہ کائیں،کائیں کرتے ہو کوؤں اور ایک دوسرے پر جھپٹتی
ہوئی چیلوں کا بسیرا نظر آتا ہے ٹھیک کہا تم نے دوست وہ پرندے ماحول آلودہ ہونے کی وجہ
سے ہجرت کر گئے بالکل تماری طرح جیسے تم نے اپنی دھرتی ماں سے ہجرت کی تمہیں یاد ہے ایک روز کسی بدمعاش نے میرے سرسبز ٹہنے کو کلہاڑے کے وار سے میرے تن سے جدا کر دیا تھا اور تم اس روزکس قدرافسردہ تھے تمہاری آنکھیں میرا یہ حال دیکھ کر ڈبڈا اٹھیں تھیں
ہاں میں وہ درد ناک منظربھلا کیسے بھول سکتا ہوں لیکن میں بالکل نہیں گھبرایا کیونکہ میری
جڑیں مضبوط تھیں میری شاخوں پرابھی تک نغمہ سرا پرندوں کا بسیرا تھا میرے سائے تلے تم
جیسے جوشیلے نوجوانوں کا کچھ کرنے کا عزم زندہ تھا اور تم نے دیکھا کہ میں چند روز ہی میں دوبارہ ہرا بھرا اور پہلے سے زیادہ تن آور ہو گیا لیکن یہ خوشیاں عارضی ہی ثابت ہوئیں
کیونکہ پہلے تم جیسے نوجوانوں نے اپنی دھرتی سے ناطہ توڑا اور پھردھیرے،دھیرے خوبصورت،رنگین چہچہاتے پرندے بھی میرا ساتھ چھوڑ گئےاب تمہارے اور ان کے فراق میں
دن رات آنسوبہا تا ہوں اب دیکھنے میں قدآور ہوں مگر میری جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اب میرے اور تمہارے مادروطن کی شاخوں پراس کی بوٹیاں نوچ،نوچ کر کھانے والے کوؤں، چیلوں اورگدھوں کا بسیرا ہے اور حالات کی آندھی نہ جانے مجھے کب زمیں بوس کر دے
مگر تمہیں کیا تم تو سات سمندر پاراجنبی دیس میں مجھے او اپنی دھرتی کو بھلا بیٹھے پلٹ کر
خبر بھی نہ لی نہیں،نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے وہاں میں نے تمہیں اور مادر وطن کوہمیشہ یاد کیا
ہاں خوب جانتا ہوں جب ہماری بربادی کی داستانیں تم تک پہنچیں تو تم نے کیا،کیا؟ محض اپنے
اپنے ہم وطنوں کے ہمراہ کسی ریسٹورنٹ میں یا پھر کسی سنٹر میں صرف اظہار افسوس کیا زیادہ تیر مارا تو یہاں کے سسٹم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکال دیا جب تم نے یہاں کے سسٹم اور نظام سے اپنا ناطہ ہی توڑ لیا تو پھر کیا حق پہنچتا ہے تمہیں کہ تم وہاں بیٹھ کر اپنے تنقید کے نشتر چلاؤ
[/QUOTE
واہ واہ خان صاحب بہت خوب لکھا میری لاہور سیّدینگرمیوں کی چھٹیوں تک ہی ہیں پر آپ کی باتوں نے مجھے ہمارے کراچی کے عید گاہ گراونڈ کا منظر پیش کر دیا جدھرٹلا سکول سے مار کر میچز دیکھتے تھے اور پھر اس کے بلکل سامنے روڈ پر ایک بہت خوبصورت پارک ہوتا تھا ادھر بیٹھ کر پڑھتے تھے آپ بہت عرصے بعد نظر اے کیا پاکستان گئے ہوے تھے آپ ؟ کچھ اپنے وزٹ کو شیر کریں شکریہ
 

hmkhan

Senator (1k+ posts)
7582229088_cf6d00efca_z.jpg

لاہور کے قذافی سٹیڈیم کی تعمیر سے پہلے لارنس گارڈن(باغ جناح) میں لاہور جمخانہ کلب کا کرکٹ گراونڈ بین الاقوامی اورقومی
کرکٹ کے مقابلوں کا ایک بڑا مرکز تھا جہاں قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین اس گراونڈ میں جنوری 1955کو پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا جس میں پاکستان کی قیادت عبدالحفیظ کارداراور بھارت کی قیادت ونو منکڈ نے کی جبکہ آخری ٹیسٹ میچ مارچ 1959میں پاکستان اور ویسٹ انڈیزکے درمیان کھیلا گیا

برٹش راج کے دوران وائس رائے ہند سرجان لارنس کے نام سے تعمیر ہونے والے لارنس گارڈن کےاس کرکٹ گراونڈ کی شان و شوکت اب بھی وہی ہے
آج سے کچھ عرصہ قبل اسی گراونڈ سے اپنے لڑکپن اور طالب علمی کے دور سے جڑی یادیں قلمبند کی تھیں دوبارہ پیش خدمت ہے

گزشتہ دنوں مجھے پاکستان جانے کا اتفاق ہوا عزیز،رشتہ داروں اور کئی سالوں سے بچھڑے دوستوں سے ملاقات رہی ان سے مل کر ماضی کی ہر یاد تازہ ہو گئی ان گلیوں اورمحلوں
میں گزرا اپنا شرارتی بچپن سکول اور کالج کے زمانے کی بے فکر اور امنگوں سے بھر پور زندگی دوستوں کی پرانی محفلیں اور نہ جانے کیا،کیا کچھ بقول شاعر
دل ڈہونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصور جاناں کئے ہوئے
میری ماضی کی یادوں سے جڑا لاہور کا مشہور باغ جناح(لارنس گارڈن) اور خصوصا" وہاں
لاہور جیم خانہ کا کرکٹ گراؤنڈ ہے جب بھی میرا پاکستا ن جانا ہوباغ جناح کا چکر ضرور
لگاتاہوں اس مرتبہ بھی وہاں جانا ہوا جیم خانہ کا کرکٹ گراؤنڈ میں پویلین کے بالکل سامنے
سنبل کا ایک قد آوردرخت تھا جو آج بھی موجود ہے اسی درخت کے نیچے دوستوں کے ہمراہ سکول اور کالج سے کھسک کے نہ جانے کتنے اہم کرکٹ میچوں کا مشاہدہ کیا آج کئی سالوں کے بعد اسی درخت کے نیچے لکڑی کے بینچ سے ٹیک لگائے میں سامنے پویلین کی جانب
دیکھ رہا تھا پورا گراؤنڈ ویسا ہی نظرآ رہا تھا برطانوی طرز تعمیرکا نمونہ لکڑی سے تعمیر شدہ سبزاور نارنجی رنگ کا شاندار پویلین جس کی پیشانی پرگول بالکل ریلوے پلیٹ فارم کی طرح نصب بڑے بڑے ہندسوں والی گھڑی مجھے ایک فلمی منظر کی طرح ماضی میں لے گئی
سنبل کے درخت تلے بینچ پر بیٹھا خیالات میں گم تھا کہ محسوس ہوا کہ درخت کی شاخیں
جھوم کر اور اس پر رقصاں پتے غالبا" مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں نگاہیں اوپر اٹھائیں تو محسوس ہوا کہ درخت مجھ سے مخا طب ہے کہنے لگا کیوں دوست کیسے ہو؟آج اتنے سالوں کے
بعد ادھر کا رخ کیا کہاں تھے دوست؟
کیابتاؤں فکر معاش ہجرتوں کے سلسلے اور وطن سے دوری خیر تم سناؤکیسے ہو؟ کیا بات ہے تم پہلے سے تو زیادہ قدآور ہو گئے ہولیکن تم میں پہلی سی رعنائی اور تروتازگی باقی نہیں
کیا بتاؤں دوست اپنے کرم فرماؤں کے ہاتھوں اپنی بربادی پر نوحہ خواہ ہوں بھلا وہ کیسے؟ وہ
ایسے کہ انسانوں نے ماحول کو کس قدرآلودہ کر دیا ہے پہلے جب تم یہاں آتے تھے تو یہاں کی
فضا کس قدرصاف اور نکھری،نکھری آلودگی سے پاک ہوتی تھی اب فضا میں دھوئیں اور گرد و غبارایک کثیف چادرہر وقت نظر آتی ہے اب تو میرا سانس لینا بھی انسانوں نےدوبھرکردیاہے
او ہاں یاد آیا پہلے تمہاری شاخوں پرچہچہاتے پرندوں،نغمہ سرا بلبلوں اور بہار کی آمد پرکوئل کی مدھر کوک سنائی دیتی تھی اب نہ تو تمہاری شاخوں پر چہچہاتے پرندے،بلبلیں یا کوئل ہی
دکھائی دیتی ہے بلکہ اس کی جگہ کائیں،کائیں کرتے ہو کوؤں اور ایک دوسرے پر جھپٹتی
ہوئی چیلوں کا بسیرا نظر آتا ہے ٹھیک کہا تم نے دوست وہ پرندے ماحول آلودہ ہونے کی وجہ
سے ہجرت کر گئے بالکل تماری طرح جیسے تم نے اپنی دھرتی ماں سے ہجرت کی تمہیں یاد ہے ایک روز کسی بدمعاش نے میرے سرسبز ٹہنے کو کلہاڑے کے وار سے میرے تن سے جدا کر دیا تھا اور تم اس روزکس قدرافسردہ تھے تمہاری آنکھیں میرا یہ حال دیکھ کر ڈبڈا اٹھیں تھیں
ہاں میں وہ درد ناک منظربھلا کیسے بھول سکتا ہوں لیکن میں بالکل نہیں گھبرایا کیونکہ میری
جڑیں مضبوط تھیں میری شاخوں پرابھی تک نغمہ سرا پرندوں کا بسیرا تھا میرے سائے تلے تم
جیسے جوشیلے نوجوانوں کا کچھ کرنے کا عزم زندہ تھا اور تم نے دیکھا کہ میں چند روز ہی میں دوبارہ ہرا بھرا اور پہلے سے زیادہ تن آور ہو گیا لیکن یہ خوشیاں عارضی ہی ثابت ہوئیں
کیونکہ پہلے تم جیسے نوجوانوں نے اپنی دھرتی سے ناطہ توڑا اور پھردھیرے،دھیرے خوبصورت،رنگین چہچہاتے پرندے بھی میرا ساتھ چھوڑ گئےاب تمہارے اور ان کے فراق میں
دن رات آنسوبہا تا ہوں اب دیکھنے میں قدآور ہوں مگر میری جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اب میرے اور تمہارے مادروطن کی شاخوں پراس کی بوٹیاں نوچ،نوچ کر کھانے والے کوؤں، چیلوں اورگدھوں کا بسیرا ہے اور حالات کی آندھی نہ جانے مجھے کب زمیں بوس کر دے
مگر تمہیں کیا تم تو سات سمندر پاراجنبی دیس میں مجھے او اپنی دھرتی کو بھلا بیٹھے پلٹ کر
خبر بھی نہ لی نہیں،نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے وہاں میں نے تمہیں اور مادر وطن کوہمیشہ یاد کیا
ہاں خوب جانتا ہوں جب ہماری بربادی کی داستانیں تم تک پہنچیں تو تم نے کیا،کیا؟ محض اپنے
اپنے ہم وطنوں کے ہمراہ کسی ریسٹورنٹ میں یا پھر کسی سنٹر میں صرف اظہار افسوس کیا زیادہ تیر مارا تو یہاں کے سسٹم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکال دیا جب تم نے یہاں کے سسٹم اور نظام سے اپنا ناطہ ہی توڑ لیا تو پھر کیا حق پہنچتا ہے تمہیں کہ تم وہاں بیٹھ کر اپنے تنقید کے نشتر چلاؤ
[/QUOTE
واہ واہ خان صاحب بہت خوب لکھا میری لاہور سیّدینگرمیوں کی چھٹیوں تک ہی ہیں پر آپ کی باتوں نے مجھے ہمارے کراچی کے عید گاہ گراونڈ کا منظر پیش کر دیا جدھرٹلا سکول سے مار کر میچز دیکھتے تھے اور پھر اس کے بلکل سامنے روڈ پر ایک بہت خوبصورت پارک ہوتا تھا ادھر بیٹھ کر پڑھتے تھے آپ بہت عرصے بعد نظر اے کیا پاکستان گئے ہوے تھے آپ ؟ کچھ اپنے وزٹ کو شیر کریں شکریہ


شکریہ سلطان خان صاحب کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے حاضری ذراکم،کم ہی رہی ہے فی الحال پاکستان جانے کا موقع نہیں ملا دو سال قبل لاہور پاکستان جانے کا اتفاق ہوا تھا یہ تحریر ان یادوں سے وابستہ سلسلہ کی ایک کڑی ہے موقع ملا تواس قسم کی مزید یادیں آپ سے ضرور شئیر کروں پسندیدگی کا شکریہ
 

Syed Anwer Mahmood

MPA (400+ posts)
ان تمام دوستوں کا بہت شکریہ جنہوں نے لاہور سے معتلق اور بھی معلومات مہیا کیں، یقیناً اس مضمون کو پڑھنے والے دوستوں کو اور زیادہ معلومات ملینگی، ان دوستوں کا بہت شکریہ جنہوں نے اپنی یادوں کو اس مضمون کے ساتھ شیر کیا۔۔۔میں بھی کچھ اور معلومات قذافی[FONT=&amp]اسٹیڈیم کے تعلق سے شیر کررہا ہوں۔۔۔۔
[/FONT]
قذافی اسٹیڈیم ، لاہورمیں پاکستانی کرکٹرز کے ریکارڈ
قذافی اسٹیڈیم ، لاہورمیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے محمد یوسف سب سے زیادہ ٹیسٹ اور ون ڈے رنز بنانے والے بیٹسمین ہیں۔ ٹیسٹ میچوں میں عمران خان اور ون ڈے میں وسیم اکرم سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر ہیں۔ پاکستان کی جانب سے پہلی ٹیسٹ ہیٹ ٹرک وسیم اکرم نے قذافی اسٹیڈیم میں ہی مکمل کی تھی۔ جاوید میانداد نے اپنے شاندار ٹیسٹ کیریئر کا آغاز قذافی اسٹیڈیم میں سنچری بنا کر کیا تھا۔ قذافی اسٹیڈیم میں ہی انضمام الحق نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹرپل سنچری اسکور کی اور عمران خان نے سری لنکا کے خلاف میچ میں چودہ وکٹیں حاصل کیں جو ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی پاکستانی بولر کی میچ میں سب سے بہترین کارکردگی ہے۔

 

Back
Top