سینیر تجزیہ کار اور اینکر پرسن جاوید چوہدری نے عمران ریاض خان کی بازیابی کا کریڈٹ ن لیگ کو دے دیا,جاوید چوہدری نے ٹویٹ پر لکھا صحافی نے میاں نواز شریف سے رابطہ کر کے عمران ریاض کی بازیابی کے لئے درخواست کی، نواز شریف نے Out of the way جا کر اسٹیبلشمنٹ سے بات کی، جانتے ہوئے کہ عمران ریاض کیا رائے رکھتا ہے انکے اور خاندان کے بارے میں، عمران ریاض کو نواز شریف کا احسان مند ہونا چاہیئے۔
خاوید چوہدری کے ٹویٹ پر شفقت علی نے لکھا میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ پر پریشر ڈالا تب عمران ریاض کی رہائی ممکن ہوئی,ویسے میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ پر تھوڑا سا پریشر اپنے ببلو ڈبلو کے لئے بھی ڈال دیتے وہ دونوں بھی بیچارے اشتہاری ہیں۔
میر محمد علی خان نے لکھا جاوید چوہدری کے بقول عمران ریاض خان نواز شریف کی سفارش کی وجہ سے آزاد ہُوا, انہوں نے کہا جاوید آپ کے وجُود آپ کی صحافت آپ کے الفاظ آپ کی مُنافقت آپ کی تمام تر لفافت پر ایک بھرپور “تُف” قُبول کریں میرے اور کروڑوں پاکستانیوں کی طرف سے
تربیت اجازت نہیں دیتی ورنہ آپ کی وہ دُھلائ کرتا کہ ذہن کی منُافقت چہرے پر عیاں ہوجاتی۔
جاوید چوہدری عرف جیدا چنگڑ
نواز شریف ایڈا سفارشی ہے تو پاکستان کیوں نہیں اجاتا لندن میں کیوں چھپا بیٹھا ہے؟
طلعت حسین کہتے ہیں عمران ریاض خان اپنے جاننے والوں کے ساتھ گیا تھا، دوا فروش برائے مردانہ امراض جاوید چوہدری کہتا کہ نوازشریف نے اغوا کاروں سے کہہ کر عمران ریاض کو بازیاب کروایا،شریف خاندان کے دو ملازموں کے آپسی بیانات ہی نہیں مل رہے،ویسے بول دونوں ہی جھوٹ رہے ہیں
9 مئی حملوں کے بعد دوران حراست لاپتا کیے جانے والے صحافی عمران ریاض خان چار ماہ بعد گھر پہنچے ہیں، انہیں سیالکوٹ سے ایف آئی اے نے گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا تھا۔
ڈسٹرکٹ پولیس نے اپنے ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پیج پر عمران ریاض خان کی بازیابی اور گھر منتقلی کے بارے میں پوسٹ آویزاں کردی۔
عمران ریاض خان کو 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر ملک بھر میں پُرتشدد مظاہروں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
عمران ریاض خان سیالکوٹ انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے مسقط جارہے تھے کہ ایف آئی اے حکام نے گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کردیاتھا۔ گرفتاری کے بعد عمران ریاض خان کو آخری بار تھانہ کینٹ اور پھر سیالکوٹ جیل لے جایا گیا تھا۔
عمران ریاض خان کے والد نے لاہور ہائی کورٹ درخواست دی کہ ان کے بیٹے کو اغوا کیا گیا ھے، 16 مئی کو والد ریاض خان کی مدعیت میں تھانہ سول لائن میں عمران ریاض خان کے اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کی تعزیرات کی دفعہ 365 کے تحت نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کی گئی۔
20 ستمبر کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر علی بھٹی نے عمران ریاض خان کے والد کی درخواست پر سماعت کی، لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو 26 ستمبر تک آخری مہلت دی تھی۔
عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی عمران ریاض کی بازیابی کے بعد اُن سے ان کی رہائش گاہ پر تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران ریاض کی جسمانی اور ذہنی حالت بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔
’وہ صدمے کا شکار ہیں اور گذشتہ چار ماہ میں ان کا وزن بھی کافی کم ہوا ہے۔ وہ اس وقت صحیح طرح سے بول بھی نہیں پا رہے ہیں، یہاں تک کہ انھیں بات سمجھانے اور جملہ مکمل کرنے میں بھی دقت کا سامنا ہے۔
ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کے علاج اور ان کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے وہ ضروری میڈیکل ٹیسٹ کروائیں گے اور ڈاکٹرز سے رجوع کریں گے۔