معروف ماہر معیشت عاطف میاں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں پاکستان کے حالیہ معاشی بحران پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے معیشت کو سیاسی مقاصد کے لیے قربان کیے جانے کی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک حکومت کی جانب سے آنے والی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے، معیشت کے لیے ایک وسیع البنیاد مکالمے اور سیاست میں مذہب کارڈ کے استعمال کے نکات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
عاطف میاں کے مطابق پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران میں پھنس چکا ہے اور پاکستان حقیقی طور پر نجی سرمایہ کاری مارکیٹ سے کٹ چکا ہے کیونکہ تین مہینے میں پاکستان کے روپے کی قدر میں بیس فیصد کی کمی ہو چکی ہے جب کہ جاری کھاتوں کا خسارہ منفی ہوچکا ہے۔ عاطف میاں نے اپنے پیغام میں کہا کہ معاشی بحران بہت شدید ہے اور وہ ماضی میں بھی سٹرکچرل مسائل پر کئی بار بات کر چکے ہیں۔
موجودہ معاشی صورتحال کتنی خراب ہے؟
عاطف میاں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان مکمل طور پر بیرونی امداد کے رحم وکرم پر ہے اور یہی پاکستان کے سیاستدانوں کا سب سے بڑا گناہ ہے۔ انھوں نے کہا توانائی کی ضروریات درآمدات سے پوری کی جاتی ہیں اور دوائیں بھی زیادہ تر باہر سے آتی ہیں حتٰی کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی باہر سے آتی ہیں کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان اس میں خودکفیل نہیں ہے۔ انھوں نے کہا ایسی صورتحال میں راشننگ ایک اہم ایشو ہوگا کیونکہ پاکستان ضرورت کی یہ چیزیں پیدا نہیں کر سکتا اور یہ بات اقتدار میں رہنے والوں کو پتا ہونی چاہیے تھی۔ ابھی تک ملک میں کھانے پینے اور ایندھن کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے لیکن بعض دیگر ماہرین نے بھی اس سے پہلے راشننگ کی بات کی ہے۔ راشننگ میں مصنوعات کی ایک خاص مقدار صارفین کو دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک فرد کو مہینے کے لیے پٹرول کے مخصوص لیٹر دیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح ایک فرد یا خاندان کو چینی کی ایک مخصوص مقدار دی جاتی پے۔ راشننگ نظام کے تحت چیزوں کی فراہمی پر کنٹرول رکھا جاتا ہے اور کسی کو قوت خرید کی بنیاد پر زیادہ چیزیں خریدنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
عاطف میاں نے بحران میں پھنسی معیشت کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ خرابی بہت گہری ہے اور اس کی جڑیں ماضی میں بہت پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں جب تیل کی قیمتیں بڑھیں تو پاکستان نے مقامی قیمتوں کو کم کر دیا۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس سال مارچ کی پہلی تاریخ کو چار مہینوں کے لیے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کو منجمد کر دیا تھا اور بین الاقوامی اور مقامی قیمت میں فرق کو پورا کرنے کےلیے سبسڈی دینا شروع کی جو مئی کے اختتام تک دو سو ارب روپے سے زائد ہو گئی تھی۔
عاطف میاں کے مطابق یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر لیا گیا تاکہ سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے اور آنے و الی پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی راہ میں بارودی سرنگ بچھائی جائے۔ ان کے مطابق سیاست نے قومی مفاد کو روند ڈالا۔ انھوں نے کہا اگر پاکستان مسلم لیگ نواز عقل مند ہوتی تو وہ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پیچھے ہٹ جاتی۔ انھوں نے کہا نواز لیگ کو ایسی صورت حال میں ملک کے دیوالیہ ہونے اور تیل کی قیمتیں بڑھانے میں سے ایک فیصلہ کرنا تھا۔ نواز لیگ نے تیل کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں عوامی غم و غصے کا سامنا کیا۔