اردو خبروں کہ سیکشن پر یہ راجہ کی آئ ڈی سے گالم گلوچ کرتا ہے اور یہاں بادشاہ نام کی آئ ڈی سے بھاشن دیتا ہے
This one is a chaddi !!!
اردو خبروں کہ سیکشن پر یہ راجہ کی آئ ڈی سے گالم گلوچ کرتا ہے اور یہاں بادشاہ نام کی آئ ڈی سے بھاشن دیتا ہے
because said countries take those decisions on general population consensus, never forced on majorityIf France is free to ban hijab
If Ireland is free to choose educational programs
Then why not Afghanistan?
If it’s so then we won’t see demonstrations over there against these decisions. Democracy means live and let others live so let them live.because said countries take those decisions on general population consensus, never forced on majority
لگتا ہے تیری کھرک تجھے فائنلی مولوی عبدالعزیز کے پاس لے جاے گی
?
یہی ممالک دوسرے مملک کو ان کی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیںbecause said countries take those decisions on general population consensus, never forced on majority
طالبان نے ایک بار پھر افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسی معروف سائنسدان کا قول ہے کہ ہر بار ایک ہی طریقہ کار اختیار کرنا اور مختلف نتیجے کی توقع کرنا احمقانہ عمل ہے۔۔ طالبان پہلے بھی افغانستان میں اسلامی حکومت کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اسلامی حکومت کے تحت یہ عورتوں کو کوڑے مارتے تھے، ان کو زبردستی برقعے کراتے تھے، مردوں کو زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے۔ لوگوں کے ہاتھ کاٹتے تھے، سرعام سزائے موت دیتے تھے۔ ۔ یہ وہ جاہلانہ حرکات ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں افغانستان کے تئیں تشویش پائی جاتی تھی۔ طالبان کے اس اسلامی دور میں افغانستان میں رتی برابر کوئی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی۔ اس جدید دور میں بھی افغانستان کے لوگ پتھر دور میں زندگی گزار رہے تھے۔ پھر امریکہ اٹھا اور اس نے پھونک مار کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کا صفایا کردیا۔۔ جی ہاں پھونک مار کر۔۔ کیونکہ اسلامی شریعت پر قائم کردہ طالبانی حکومت تھی ہی اتنی کمزور کہ اس کیلئے امریکی پھونک ہی کافی تھی۔ بیس سال تک امریکہ افغانستان میں چوہدری کی طرح بیٹھا رہا اور اسلامی شریعت کے جھنڈے والے طالبان اس بیس سالہ دور میں کہیں نظر نہیں آئے۔ جس طرح سردیوں میں مینڈک اور چھپکلیاں ہائبرنیٹ ہوجاتی ہیں، بالکل ویسے اس بیس سالہ دور میں طالبان منظر عام سے غائب بلوں میں چھپے رہے۔
اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ اس سے واضح سبق ملتا ہے کہ طاقت ٹیکنالوجی میں ہے۔ کسی شریعت وریعت میں نہیں۔ اگر آپ نے طاقت حاصل کرنی ہے تو آپ کو علم حاصل کرنا ہوگا، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اوڑھنا بچھانا بنانا ہوگا، اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور محض اسلامی شریعت کی ڈگڈگی بجاتے ہوئے اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کوئی آسمانی مدد آئے گی اور آپ امریکہ جیسی سپر پاور کا مقابلہ بھی کرلیں گے تو دیکھ لیجئے اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ امریکہ نے آپ کو چیونٹی کی طرح مسل ڈالا اور آپ کچھ نہیں کرسکے۔۔ پھر بیس سال بعد امریکہ افغانستان سے واپس چلا جاتا ہے اور طالبان کیڑوں مکوڑوں کی طرح واپس باہر نکل آتے ہیں۔
طالبان میں اگر ذرا بھی عقل ہے تو انہیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ افغانستان میں ایک اوپن حکومت قائم کریں۔ شریعت وغیرہ جیسے فرسودہ قوانین کو ایک طرف رکھیں۔ عورتوں کیلئے کھلا ماحول پیدا کریں۔ ایک سیکولر حکومت قائم کریں۔ پوری دنیا طالبان کی سپورٹ کرے گی اور وہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ افغانستان کو مغربی دنیا سے اچھی خاصی امداد مل جائے۔ طالبان چاہییں تو افغانستان کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ مذہبی شریعت کو ایک طرف رکھیں تو ان کیلئے تمام راستے کھلے ہیں اور اگر انہوں نے مذہبی شریعت سے ہی چمٹے رہنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی ان کا منہ پیچھے کی طرف ہے۔ اب تو سعودی عرب بھی جاہلانہ روایات سے جان چھڑا کر جدید دنیا سے ہم آہنگ ہورہا ہے۔ دبئی اور دیگر عرب ممالک تو پہلے ہی جہالت کو ترک کرچکے ہیں۔ اگر طالبان اب بھی جہالت سے پیچھا نہیں چھڑاتے تو ان کی حکومت پہلے سے بھی کمزور ہوگی اور کوئی بھی آئے گا، پھونک مارے گا اور ان کی حکومت کو اڑا دے گا۔۔۔
Agar jahalat chord di to tattiban kaise rahe gay. Jahalat is a synonym for taliban.طالبان نے ایک بار پھر افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسی معروف سائنسدان کا قول ہے کہ ہر بار ایک ہی طریقہ کار اختیار کرنا اور مختلف نتیجے کی توقع کرنا احمقانہ عمل ہے۔۔ طالبان پہلے بھی افغانستان میں اسلامی حکومت کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اسلامی حکومت کے تحت یہ عورتوں کو کوڑے مارتے تھے، ان کو زبردستی برقعے کراتے تھے، مردوں کو زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے۔ لوگوں کے ہاتھ کاٹتے تھے، سرعام سزائے موت دیتے تھے۔ ۔ یہ وہ جاہلانہ حرکات ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں افغانستان کے تئیں تشویش پائی جاتی تھی۔ طالبان کے اس اسلامی دور میں افغانستان میں رتی برابر کوئی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی۔ اس جدید دور میں بھی افغانستان کے لوگ پتھر دور میں زندگی گزار رہے تھے۔ پھر امریکہ اٹھا اور اس نے پھونک مار کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کا صفایا کردیا۔۔ جی ہاں پھونک مار کر۔۔ کیونکہ اسلامی شریعت پر قائم کردہ طالبانی حکومت تھی ہی اتنی کمزور کہ اس کیلئے امریکی پھونک ہی کافی تھی۔ بیس سال تک امریکہ افغانستان میں چوہدری کی طرح بیٹھا رہا اور اسلامی شریعت کے جھنڈے والے طالبان اس بیس سالہ دور میں کہیں نظر نہیں آئے۔ جس طرح سردیوں میں مینڈک اور چھپکلیاں ہائبرنیٹ ہوجاتی ہیں، بالکل ویسے اس بیس سالہ دور میں طالبان منظر عام سے غائب بلوں میں چھپے رہے۔
اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ اس سے واضح سبق ملتا ہے کہ طاقت ٹیکنالوجی میں ہے۔ کسی شریعت وریعت میں نہیں۔ اگر آپ نے طاقت حاصل کرنی ہے تو آپ کو علم حاصل کرنا ہوگا، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اوڑھنا بچھانا بنانا ہوگا، اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور محض اسلامی شریعت کی ڈگڈگی بجاتے ہوئے اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کوئی آسمانی مدد آئے گی اور آپ امریکہ جیسی سپر پاور کا مقابلہ بھی کرلیں گے تو دیکھ لیجئے اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ امریکہ نے آپ کو چیونٹی کی طرح مسل ڈالا اور آپ کچھ نہیں کرسکے۔۔ پھر بیس سال بعد امریکہ افغانستان سے واپس چلا جاتا ہے اور طالبان کیڑوں مکوڑوں کی طرح واپس باہر نکل آتے ہیں۔
طالبان میں اگر ذرا بھی عقل ہے تو انہیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ افغانستان میں ایک اوپن حکومت قائم کریں۔ شریعت وغیرہ جیسے فرسودہ قوانین کو ایک طرف رکھیں۔ عورتوں کیلئے کھلا ماحول پیدا کریں۔ ایک سیکولر حکومت قائم کریں۔ پوری دنیا طالبان کی سپورٹ کرے گی اور وہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ افغانستان کو مغربی دنیا سے اچھی خاصی امداد مل جائے۔ طالبان چاہییں تو افغانستان کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ مذہبی شریعت کو ایک طرف رکھیں تو ان کیلئے تمام راستے کھلے ہیں اور اگر انہوں نے مذہبی شریعت سے ہی چمٹے رہنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی ان کا منہ پیچھے کی طرف ہے۔ اب تو سعودی عرب بھی جاہلانہ روایات سے جان چھڑا کر جدید دنیا سے ہم آہنگ ہورہا ہے۔ دبئی اور دیگر عرب ممالک تو پہلے ہی جہالت کو ترک کرچکے ہیں۔ اگر طالبان اب بھی جہالت سے پیچھا نہیں چھڑاتے تو ان کی حکومت پہلے سے بھی کمزور ہوگی اور کوئی بھی آئے گا، پھونک مارے گا اور ان کی حکومت کو اڑا دے گا۔۔۔
oay Hindustani un Nassel qadiani un nassel Tawaif zaday, tu nay jo apni Ammi ki G marwani hay Talibaan se wo na murwa aur apni baji ko American chakloon pur baitha ker unki kamai kha shabaash yehi tera kaam hay apni behenoo ko chudtay daikhna aur taliaan bajana,talibaan ko chorr , jub unhain teri zarooret hogi tou wo teri achay tareekay se gaand maar lain gay aur doosroon ko bhi mauka dain gai teri brown Bund maarnay ka ????طالبان نے ایک بار پھر افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسی معروف سائنسدان کا قول ہے کہ ہر بار ایک ہی طریقہ کار اختیار کرنا اور مختلف نتیجے کی توقع کرنا احمقانہ عمل ہے۔۔ طالبان پہلے بھی افغانستان میں اسلامی حکومت کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اسلامی حکومت کے تحت یہ عورتوں کو کوڑے مارتے تھے، ان کو زبردستی برقعے کراتے تھے، مردوں کو زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے۔ لوگوں کے ہاتھ کاٹتے تھے، سرعام سزائے موت دیتے تھے۔ ۔ یہ وہ جاہلانہ حرکات ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں افغانستان کے تئیں تشویش پائی جاتی تھی۔ طالبان کے اس اسلامی دور میں افغانستان میں رتی برابر کوئی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی۔ اس جدید دور میں بھی افغانستان کے لوگ پتھر دور میں زندگی گزار رہے تھے۔ پھر امریکہ اٹھا اور اس نے پھونک مار کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کا صفایا کردیا۔۔ جی ہاں پھونک مار کر۔۔ کیونکہ اسلامی شریعت پر قائم کردہ طالبانی حکومت تھی ہی اتنی کمزور کہ اس کیلئے امریکی پھونک ہی کافی تھی۔ بیس سال تک امریکہ افغانستان میں چوہدری کی طرح بیٹھا رہا اور اسلامی شریعت کے جھنڈے والے طالبان اس بیس سالہ دور میں کہیں نظر نہیں آئے۔ جس طرح سردیوں میں مینڈک اور چھپکلیاں ہائبرنیٹ ہوجاتی ہیں، بالکل ویسے اس بیس سالہ دور میں طالبان منظر عام سے غائب بلوں میں چھپے رہے۔
اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ اس سے واضح سبق ملتا ہے کہ طاقت ٹیکنالوجی میں ہے۔ کسی شریعت وریعت میں نہیں۔ اگر آپ نے طاقت حاصل کرنی ہے تو آپ کو علم حاصل کرنا ہوگا، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اوڑھنا بچھانا بنانا ہوگا، اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور محض اسلامی شریعت کی ڈگڈگی بجاتے ہوئے اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کوئی آسمانی مدد آئے گی اور آپ امریکہ جیسی سپر پاور کا مقابلہ بھی کرلیں گے تو دیکھ لیجئے اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ امریکہ نے آپ کو چیونٹی کی طرح مسل ڈالا اور آپ کچھ نہیں کرسکے۔۔ پھر بیس سال بعد امریکہ افغانستان سے واپس چلا جاتا ہے اور طالبان کیڑوں مکوڑوں کی طرح واپس باہر نکل آتے ہیں۔
طالبان میں اگر ذرا بھی عقل ہے تو انہیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ افغانستان میں ایک اوپن حکومت قائم کریں۔ شریعت وغیرہ جیسے فرسودہ قوانین کو ایک طرف رکھیں۔ عورتوں کیلئے کھلا ماحول پیدا کریں۔ ایک سیکولر حکومت قائم کریں۔ پوری دنیا طالبان کی سپورٹ کرے گی اور وہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ افغانستان کو مغربی دنیا سے اچھی خاصی امداد مل جائے۔ طالبان چاہییں تو افغانستان کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ مذہبی شریعت کو ایک طرف رکھیں تو ان کیلئے تمام راستے کھلے ہیں اور اگر انہوں نے مذہبی شریعت سے ہی چمٹے رہنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی ان کا منہ پیچھے کی طرف ہے۔ اب تو سعودی عرب بھی جاہلانہ روایات سے جان چھڑا کر جدید دنیا سے ہم آہنگ ہورہا ہے۔ دبئی اور دیگر عرب ممالک تو پہلے ہی جہالت کو ترک کرچکے ہیں۔ اگر طالبان اب بھی جہالت سے پیچھا نہیں چھڑاتے تو ان کی حکومت پہلے سے بھی کمزور ہوگی اور کوئی بھی آئے گا، پھونک مارے گا اور ان کی حکومت کو اڑا دے گا۔۔۔
طالبان نے ایک بار پھر افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسی معروف سائنسدان کا قول ہے کہ ہر بار ایک ہی طریقہ کار اختیار کرنا اور مختلف نتیجے کی توقع کرنا احمقانہ عمل ہے۔۔ طالبان پہلے بھی افغانستان میں اسلامی حکومت کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اسلامی حکومت کے تحت یہ عورتوں کو کوڑے مارتے تھے، ان کو زبردستی برقعے کراتے تھے، مردوں کو زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے۔ لوگوں کے ہاتھ کاٹتے تھے، سرعام سزائے موت دیتے تھے۔ ۔ یہ وہ جاہلانہ حرکات ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں افغانستان کے تئیں تشویش پائی جاتی تھی۔ طالبان کے اس اسلامی دور میں افغانستان میں رتی برابر کوئی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی۔ اس جدید دور میں بھی افغانستان کے لوگ پتھر دور میں زندگی گزار رہے تھے۔ پھر امریکہ اٹھا اور اس نے پھونک مار کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کا صفایا کردیا۔۔ جی ہاں پھونک مار کر۔۔ کیونکہ اسلامی شریعت پر قائم کردہ طالبانی حکومت تھی ہی اتنی کمزور کہ اس کیلئے امریکی پھونک ہی کافی تھی۔ بیس سال تک امریکہ افغانستان میں چوہدری کی طرح بیٹھا رہا اور اسلامی شریعت کے جھنڈے والے طالبان اس بیس سالہ دور میں کہیں نظر نہیں آئے۔ جس طرح سردیوں میں مینڈک اور چھپکلیاں ہائبرنیٹ ہوجاتی ہیں، بالکل ویسے اس بیس سالہ دور میں طالبان منظر عام سے غائب بلوں میں چھپے رہے۔
اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ اس سے واضح سبق ملتا ہے کہ طاقت ٹیکنالوجی میں ہے۔ کسی شریعت وریعت میں نہیں۔ اگر آپ نے طاقت حاصل کرنی ہے تو آپ کو علم حاصل کرنا ہوگا، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اوڑھنا بچھانا بنانا ہوگا، اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور محض اسلامی شریعت کی ڈگڈگی بجاتے ہوئے اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ کوئی آسمانی مدد آئے گی اور آپ امریکہ جیسی سپر پاور کا مقابلہ بھی کرلیں گے تو دیکھ لیجئے اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ امریکہ نے آپ کو چیونٹی کی طرح مسل ڈالا اور آپ کچھ نہیں کرسکے۔۔ پھر بیس سال بعد امریکہ افغانستان سے واپس چلا جاتا ہے اور طالبان کیڑوں مکوڑوں کی طرح واپس باہر نکل آتے ہیں۔
طالبان میں اگر ذرا بھی عقل ہے تو انہیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ افغانستان میں ایک اوپن حکومت قائم کریں۔ شریعت وغیرہ جیسے فرسودہ قوانین کو ایک طرف رکھیں۔ عورتوں کیلئے کھلا ماحول پیدا کریں۔ ایک سیکولر حکومت قائم کریں۔ پوری دنیا طالبان کی سپورٹ کرے گی اور وہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ افغانستان کو مغربی دنیا سے اچھی خاصی امداد مل جائے۔ طالبان چاہییں تو افغانستان کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ مذہبی شریعت کو ایک طرف رکھیں تو ان کیلئے تمام راستے کھلے ہیں اور اگر انہوں نے مذہبی شریعت سے ہی چمٹے رہنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی ان کا منہ پیچھے کی طرف ہے۔ اب تو سعودی عرب بھی جاہلانہ روایات سے جان چھڑا کر جدید دنیا سے ہم آہنگ ہورہا ہے۔ دبئی اور دیگر عرب ممالک تو پہلے ہی جہالت کو ترک کرچکے ہیں۔ اگر طالبان اب بھی جہالت سے پیچھا نہیں چھڑاتے تو ان کی حکومت پہلے سے بھی کمزور ہوگی اور کوئی بھی آئے گا، پھونک مارے گا اور ان کی حکومت کو اڑا دے گا۔۔۔
اس کی بہت سی آئی ڈیز ہیں۔ سب سے مشہور آج کل ہلدی رام والی آئی ڈی ہےاردو خبروں کہ سیکشن پر یہ راجہ کی آئ ڈی سے گالم گلوچ کرتا ہے اور یہاں بادشاہ نام کی آئ ڈی سے بھاشن دیتا ہے
سسٹم کوی بھی ہو عوام کیلئے خوشحالی لانے والا ہو اور انصاف ملتا رہے اور لوگوں پر ظلم نہ کیا جاے تو ملک چلتا ہے اور لوگ بھی خوشحال ہوتے ہیں۔ مغربی جمہوریت خوشحالی کی سند تو نہیں چین میں کونسا مغربی جمہوریت ہے مگر وہاں خوشحالی بھی ہے اور اس وقت وہ دنیا کی سب سے بڑی اکانومی بن چکا ہے اسی طرح روس بھی ہے۔ان ملکوں کا مغرب سے فرق صرف شخصی آزادی کا ہے ورنہ دونوں اطراف ایک جیسے ماڈرن گھر، گاڑیاں، سڑکیں، ہسپتال، اسٹیشن ،ائرپورٹس اور الیکٹرانک سسٹم ہے
ایک بات بتا دوں طالبان کی مدد بند کی گئی تو وہ پوست سے اتنا مال کمائیں گے کہ افغانستان پانچ سال میں سوئٹزرلینڈ بن جاے گا
ابھی تک تووہ صرف اسلحہ اور جنگجووں کو تنخواہ کیلئے پوست کی اجازت دے رہے تھے مگر دنیا ان کو تنگ کرے گی تو وہ یہی کام وسیع پیمانے پر کریں گے
یک نہ شد دو شد
?