."سورج گرہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز " نماز کسوف

Qalumkar

Senator (1k+ posts)
Since you are denying Hadith .... I can only say may Allah give you hidaya .... And Allah is the best judge ....
میں حدیث کا انکار قرآن کے حکم پر کر رہا ہوں۔ آپ قرآن کا انکار کس کے کہنے پر کر رہے ہیں؟ جو آیات میں نے قرآن کے مکمل ہونے کے بارے میں پیش کی ہیں اُن پر غور ضرور کیجئے گا۔ اللہ صرف اُس کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت حاصل کرنا چاہے۔ ملّا کی مانو گے تو کبھی بھی ہدایت نہیں ملے گی۔جس دن خود سے غوروفکر شروع کیا اُسی دن ہدایت مل جائے گی۔
 

Sonya Khan

Minister (2k+ posts)
میں حدیث کا انکار قرآن کے حکم پر کر رہا ہوں۔ آپ قرآن کا انکار کس کے کہنے پر کر رہے ہیں؟ جو آیات میں نے قرآن کے مکمل ہونے کے بارے میں پیش کی ہیں اُن پر غور ضرور کیجئے گا۔ اللہ صرف اُس کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت حاصل کرنا چاہے۔ ملّا کی مانو گے تو کبھی بھی ہدایت نہیں ملے گی۔جس دن خود سے غوروفکر شروع کیا اُسی دن ہدایت مل جائے گی۔
Since you don’t believe in Hadith , I have nothing more to discuss with you .....
 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
آپ کے پاس جواب ہی کوئی نہیں ہے تو بحث کس بات کی۔ منکر قرآن ہو کر جیو۔



دین عملاً محمد رسول اللہ والذین معه کے ذریعہ مکمل ہوچکا ہے۔ اور قولاً لوحِ قرآن میں محفوظ ہوگیا ہے۔

غالباً آپ کے اس 'فنکارانہ' استدلال کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ سے یہ سوال کردیا جائے کہ محمد رسول اللہ والذین معه کے ذریعہ عملاً جو دین مکمل ہوچکا ہے، اس کی تفصیلات کہاں دستیاب ہوں گی تو آپ جھٹ کہہ دیں گے کہ قرآن میں۔ ممکن ہے آپ نہ کہیں لیکن آپ کے دوسرے ہم خیال حضرات یہی کہتے ہیں۔اس لئے میں آپ کی توجہ اپنے ان سوالات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ

٭ قرآن میں جن جانوروں کو حرام اور جن کو حلال قرا ردیا گیا ہے، انکے علاوہ بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟

٭ نماز کے متعلق قرآن میں جو چند چیزیں مذکور ہیں، ان کے علاوہ نماز کے بقیہ حصوں کی ترکیب کیا ہے؟

٭ زکوٰۃ کم از کم کتنے مال پر فرض ہے؟ کتنے فیصد فرض ہے؟ اور کب کب فرض ہے؟

٭ مال غنیمت کی تقسیم مجاہدین پر کس تناسب سے کی جائے؟

٭ چور کے دونوں ہاتھ کاٹے جائیں یا ایک ؟

٭ جمعہ کی نماز کے لئے کب اور کن الفاظ میں پکارا جائے؟ اور وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟

ان سوالات کو ایک بار غور سے پڑھ لیجئے اور بتائیے کہ اس سلسلے میں 'رسول اللہ ﷺ والذین معہ' کا عمل کیا تھا؟ اور اس عمل کی تفصیلات کہاں سے ملیں گی؟ اگر قرآن میں ملیں گی تو کس سورہ، کس پارے، کس رکوع اور کن آیات میں؟ اور اگر قرآن میں یہ تفصیلات نہیں ہیں۔ اور یقینا نہیں ہیں تو قرآن کے بعد وہ کون سی کتابیں ہیں جو آپ کے 'معیار' پر صحیح ہیں اور ان میں یہ تفصیلات بھی درج ہیں؟ قرآن تو بڑے زور شور سے کہتا ہے کہ جو اللہ سے اُمید رکھتا ہے اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ کے نمونے پرچلے: ﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌...٢١ ﴾... سورة الاحزاب" اور یہاں یہ حال ہے کہ جو مسائل پیش آتے ہیں، ان میں رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ ملتا ہی نہیں۔ اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو آپ اسے 'ایرانی سازش' کے تحت گھڑا گھڑایا افسانہ قرار دیتے ہیں جن پر تقدس کا خول چڑھا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا گیا ہے، ورنہ دین میں ان کی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی چاہنے والے بے چارے کریں تو کیا کریں؟ ع خداوندا ! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں...؟

اس سلسلے میں سوالات اس کثرت سے ہیں کہ انہیں درج کرتے ہوئے آپ کے ملولِ خاطر کا اندیشہ ہے، اس لئے اتنے پر اکتفا کرتا ہوں ؎
اند کے باتو بگفتم و بدل تر سیدم کہ آزردۂ دل نہ شوی ورنہ سخن بسیار است

میری ان گذارشات سے یہ حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجاتی ہے کہ یہ ساری دشواریاں اور پیچیدگیاں اس لئے پیش آرہی ہیں کہ سورئہ مائدہ کی آیت ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم﴾ اور سورئہ بروج کی آیت ﴿بَل هُوَ قُر‌ءانٌ مَجيدٌ ٢١ ﴾... سورة البروج" کا مفہوم سمجھنے میں آپکے تدبر فی القرآن اور تفقه في الدین کا طائر پندار حقائق کی دنیا سے بہت دور پرواز کرگیا ہے۔

اب آئیے! آپ کے چند اور 'فرموداتِ عالیہ' پر گفتگو ہوجائے، آپ نے حدیثوں کی بابت لکھا ہے کہ ''یہ سب کی سب یکسر ظنی، غیر یقینی اور روایت بالمعنی ہیں۔'' یہ معلوم ہی ہے کہ 'غیریقینی' کا لفظ 'ظنی' کی تفسیر ہے اور ظن کے سلسلے میں میں اپنی گذارشات پیش کرچکا ہوں۔ رہا 'روایت بالمعنی' کا معاملہ تو سن لیجئے کہ روایت بالمعنی اگر کوئی جرم ہے تو اس جرم کا سب سے بڑا مجرم (نعوذ باللہ) خود قرآن ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، ہود ؑاور ان کی قوم کا مکالمہ، صالح ؑ اور قومِ ثمود ؑ کا مکالمہ، ابراہیم اور لوط علیہما السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، حضرت شعیب ؑ اور اہل مدین و اصحاب الایکہ کا مکالمہ، حضرت موسیٰ کا فرعون سے، بلکہ جادوگروں سے اور بنی اسرائیل سے مکالمہ، اور حضرت عیسیٰ کے مواعظ و مکالمے، کیا یہ سب انہی الفاظ اور عبارتوں میں تھے، جن الفاظ اور عبارتوں کے ساتھ قرآن میں درج ہیں؟ کیا آپ اس تاریخی حقیقت کا انکار کرسکتے ہیں کہ ان پیغمبروں اور ان کی قوموں کی زبان عربی نہیں تھی...!!؟

قرآن میں ایک ہی بات کہیں کچھ الفاظ و عبارت میں ادا کی گئی ہے تو کہیں دوسرے الفاظ و عبارت میں۔ کہیں مختصر ہے کہیں مطو ل، بلکہ کہیں ایک جز مذکور ہے تو کہیں دوسرا جز۔ پس اگر ایک بات کے بیان کرنے میں الفاظ و عبارت، اجمال و تفصیل اور اجزائِ گفتگو کے ذکر و عدمِ ذکر کا اختلاف اور روایت بالمعنی کوئی عیب ہے تو سب سے پہلے قرآن مجید کو اس عیب سے (نعوذ باللہ) (نعوذ باللہ) (نعوذ باللہ) پاک کیجئے۔ اور اگر نہیں تو پھر حدیث کے روایت بالمعنی ہونے پر آپ کو اعتراض(نعوذ باللہ) کیا ہے؟ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قرآن تو روایت بالمعنی سے بھرا ہوا ہے، پھر بھی یقینی کا یقینی اور احادیث کے متعلق جوں ہی آپ کے کان میں یہ آواز پہنچے کہ اس میں کچھ احادیث روایت بالمعنی بھی ہیں، بس آپ شور مچانے لگیں کہ ہٹاؤ ان احادیث کو، یہ روایت بالمعنی کی گئی ہیں۔ ان کا کیا اعتبار، اور دین سے ان کا کیا تعلق...؟
 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
اب میرا سوال سنیں؛ قرآن میں مردہ، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بهیمة الأنعام حلال کیا گیا ہے۔ بهیمة الأنعام کی تفسیر قرآن میں ان جانوروں سے کی گئی ہے: اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا۔ لغت میں بھی بهیمة الأنعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلاً کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ؛ یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے پیش کریں۔ آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی، یعنی آپ چونکہ دعویدار ہیں کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے اس لئے ان جانوروں میں سے جس کو حلال مانیں،اس کے حلال ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور جس کو حرام مانیں، اس کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر آپ قرآن سے نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور حدیث کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا قاعدہ حدیث میں بیان کردیا گیاہے جس سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام...!

. دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازکی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ پھر کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوں یا لٹکا کر؟ ایک پاؤں پرکھڑے ہوں یا دونوں پر ؟

لغت میں 'رکوع' کا معنی ہے جھکنا، سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں ، یا دائیں جھکیں یابائیں جھکیں؟پھر جھکنے کی مقدار کیا ہو؟ ذرا سا سرنیچا کریں یا کمر کے برابر نیچا کریں یا اس سے بھی زیادہ نیچا کریں؟پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ گھٹنوں پر ٹیکیں؟ یا دونوں رانوں کے بیچ میں رکھ کر بازؤوں کو ران پر ٹیکیں؟ یا ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں؟

اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ یعنی زمین پر سر کا کون سا حصہ ٹیکیں، پیشانی کا ٹھیک پچھلا حصہ یا دایاں کنارہ یا بایاں کنارہ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں؟ رانوں میںگھسا لیں؟ یا زمین پرٹیکیں؟ اور اگر زمین پر ٹیکیں تو صرف ہتھیلی زمین پر ٹیکیں یا پوری کہنی زمین پر ٹیکیں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟ ان سوالات کا آپ جو بھی جواب دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں۔ ان مسائل کے بارے میں آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی اور اگر قرآن سے ان سوالات کاجواب نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکتے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوسکتا۔

. تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انہیں بھی بتا دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کب کب وصول کی جائے؟ یعنی زکوٰۃ روز روز دی جائے؟ یا سال بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا پانچ سال یا دس سال یا بیس سال میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ پھر یہ زکوٰۃ کس حساب سے دی جائے اور کتنی کتنی دی جائے ؟ یعنی غلہ کتنا ہو تو اس میں زکوٰۃ دی جائے؟ اور کتنے غلہ پر کتنی زکوٰۃ دی جائے؟ سونا چاندی کتنی ہو تو زکوٰۃ دی جائے؟ اور کس حساب سے دی جائے؟

یہ سارے مسئلے قرآن سے ثابت کیجئے۔ اگر آپ قرآن میں یہ مسائل نہ دکھلا سکیں (اور ہرگز نہیں دکھلا سکتے) تو ثابت ہوگا کہ حدیث کو مانے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان سارے مسائل کا بیان حدیث ہی میں آیا ہے۔

. چوتھا سوال: قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، ا س کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یافرق کیا جائے؟ کیونکہ بعض لوگ اپنا ہتھیار، گھوڑا، تیر، کمان، نیزہ، بھالا، زرہ، خود، سواری کا جانور اور کھانے کا سامان خود لے کر جاتے تھے اور بعض کو اسلامی حکومت کی طرف سے یہ سامان فراہم کیا جاتا تھا۔

اسی طرح بعض لوگ بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑتے تھے، بعض دبکے رہتے تھے، کچھ اگلی صف میں رہتے تھے، جن پر براہِ راست دشمن کا وار ہوتا تھا۔ کچھ پیچھے رہتے تھے جو خطرہ سے دور رہتے تھے۔ اب اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتائیے۔ اور اگر کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں؟ ا س کی دلیل دیجئے۔ اگر قرآن میں ان مسئلوں کا کوئی حل نہیں ہے تو کیسے کہا جاتا ہے کہ قرآن میں سارے مسئلے بیان کردیئے گئے ہیں...!!

. پانچواں سوال: قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھراسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر قرآن سے اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے توکیسے کہتے ہیں کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان کردیا گیا ہے۔

. چھٹا سوال: قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟ ان ساری باتوں کا ثبوت قرآن سے دیجئے۔ ورنہ تسلیم کیجئے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔

صاف بات یہ ہے کہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جو باتیں ہم نے پوچھی ہیں، ان باتوں میں اور اسی طرح زندگی کے بہت سارے مسئلے میں تنہا قرآن سے کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ طریقہ صرف حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لئے جب تک حدیث کو نہ مانیں، خود قرآن پر بھی عمل نہیں کرسکتے۔
 

Qalumkar

Senator (1k+ posts)
اب میرا سوال سنیں؛ قرآن میں مردہ، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بهیمة الأنعام حلال کیا گیا ہے۔ بهیمة الأنعام کی تفسیر قرآن میں ان جانوروں سے کی گئی ہے: اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا۔ لغت میں بھی بهیمة الأنعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلاً کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ؛ یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے پیش کریں۔ آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی، یعنی آپ چونکہ دعویدار ہیں کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے اس لئے ان جانوروں میں سے جس کو حلال مانیں،اس کے حلال ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور جس کو حرام مانیں، اس کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر آپ قرآن سے نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور حدیث کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا قاعدہ حدیث میں بیان کردیا گیاہے جس سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام...!

. دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازکی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ پھر کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوں یا لٹکا کر؟ ایک پاؤں پرکھڑے ہوں یا دونوں پر ؟

لغت میں 'رکوع' کا معنی ہے جھکنا، سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں ، یا دائیں جھکیں یابائیں جھکیں؟پھر جھکنے کی مقدار کیا ہو؟ ذرا سا سرنیچا کریں یا کمر کے برابر نیچا کریں یا اس سے بھی زیادہ نیچا کریں؟پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ گھٹنوں پر ٹیکیں؟ یا دونوں رانوں کے بیچ میں رکھ کر بازؤوں کو ران پر ٹیکیں؟ یا ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں؟

اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ یعنی زمین پر سر کا کون سا حصہ ٹیکیں، پیشانی کا ٹھیک پچھلا حصہ یا دایاں کنارہ یا بایاں کنارہ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں؟ رانوں میںگھسا لیں؟ یا زمین پرٹیکیں؟ اور اگر زمین پر ٹیکیں تو صرف ہتھیلی زمین پر ٹیکیں یا پوری کہنی زمین پر ٹیکیں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟ ان سوالات کا آپ جو بھی جواب دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں۔ ان مسائل کے بارے میں آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی اور اگر قرآن سے ان سوالات کاجواب نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکتے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوسکتا۔

. تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انہیں بھی بتا دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کب کب وصول کی جائے؟ یعنی زکوٰۃ روز روز دی جائے؟ یا سال بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا پانچ سال یا دس سال یا بیس سال میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ پھر یہ زکوٰۃ کس حساب سے دی جائے اور کتنی کتنی دی جائے ؟ یعنی غلہ کتنا ہو تو اس میں زکوٰۃ دی جائے؟ اور کتنے غلہ پر کتنی زکوٰۃ دی جائے؟ سونا چاندی کتنی ہو تو زکوٰۃ دی جائے؟ اور کس حساب سے دی جائے؟

یہ سارے مسئلے قرآن سے ثابت کیجئے۔ اگر آپ قرآن میں یہ مسائل نہ دکھلا سکیں (اور ہرگز نہیں دکھلا سکتے) تو ثابت ہوگا کہ حدیث کو مانے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان سارے مسائل کا بیان حدیث ہی میں آیا ہے۔

. چوتھا سوال: قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، ا س کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یافرق کیا جائے؟ کیونکہ بعض لوگ اپنا ہتھیار، گھوڑا، تیر، کمان، نیزہ، بھالا، زرہ، خود، سواری کا جانور اور کھانے کا سامان خود لے کر جاتے تھے اور بعض کو اسلامی حکومت کی طرف سے یہ سامان فراہم کیا جاتا تھا۔

اسی طرح بعض لوگ بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑتے تھے، بعض دبکے رہتے تھے، کچھ اگلی صف میں رہتے تھے، جن پر براہِ راست دشمن کا وار ہوتا تھا۔ کچھ پیچھے رہتے تھے جو خطرہ سے دور رہتے تھے۔ اب اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتائیے۔ اور اگر کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں؟ ا س کی دلیل دیجئے۔ اگر قرآن میں ان مسئلوں کا کوئی حل نہیں ہے تو کیسے کہا جاتا ہے کہ قرآن میں سارے مسئلے بیان کردیئے گئے ہیں...!!

. پانچواں سوال: قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھراسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر قرآن سے اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے توکیسے کہتے ہیں کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان کردیا گیا ہے۔

. چھٹا سوال: قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟ ان ساری باتوں کا ثبوت قرآن سے دیجئے۔ ورنہ تسلیم کیجئے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔


صاف بات یہ ہے کہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جو باتیں ہم نے پوچھی ہیں، ان باتوں میں اور اسی طرح زندگی کے بہت سارے مسئلے میں تنہا قرآن سے کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ طریقہ صرف حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لئے جب تک حدیث کو نہ مانیں، خود قرآن پر بھی عمل نہیں کرسکتے۔
اتنے سوالات؟ کیوں؟ کیونکہ آپ قرآن کو مکمل نہیں سمجھتے یعنی قرآن کے منکر ہیں۔ جو چیز قرآن میں نہیں وہ دین نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی آیت 115 میں بتا دیا لیکن آپ کو اللہ کی آیت پر یقین نہیں۔آپ بخاری کے پیروکار ہیں اور وہی آپ کا نبی ہے۔
 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
اتنے سوالات؟ کیوں؟ کیونکہ آپ قرآن کو مکمل نہیں سمجھتے یعنی قرآن کے منکر ہیں۔ جو چیز قرآن میں نہیں وہ دین نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی آیت 115 میں بتا دیا لیکن آپ کو اللہ کی آیت پر یقین نہیں۔آپ بخاری کے پیروکار ہیں اور وہی آپ کا نبی ہے۔

Al Inam # 116
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
تمہارے ربّ کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے


یہاں تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعمُوم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیّت اور اس کے اذن کے تحت رُونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دُنیا میں کوئی واقعہ کبھی صُدُور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صُدُور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صُدُور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیّت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیّت ِ الہٰی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رُونما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دُوسری قسم کے واقعات کو اُس کی رضا اور اس کی پسند یدگی و محبُوبیّت کی سند حاصل ہے۔ اگر چہ آخر کار کسی خیرِ عظیم ہی لیے فرمانروائے کائنات کی مشیّت کام کر رہی ہے ، لیکن اُس خیرِ عظیم کے ظہُور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرود یّت، موسویّت اور فرعونیّت ، آدمیّت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ جو چاہے اس کا ر گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔
اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دُشمنانِ حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیّت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اِس سے مقصُود دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، اور آپ کے ذریعہ سے اہلِ ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیّت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکامِ الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کر دہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جدّوجہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیّت کے تحت اُن لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اُس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اُن لوگوں کو ایمان لانے پر مجبُور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے، یا اُن شیاطین جِن و انس کو زبر دستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کو قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باط کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہُور کا امکان نہ ہوتا۔
'محقق' صاحب کا 'سرمایۂ تحقیقات' ختم ہوا۔ ۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اس ضمن میں آپ نے وہ آیات نقل کی ہیں جن میں ظن کی مذمت کی گئی ہے۔ اور ظن سے بچنے کا حکم دیا گیاہے۔ آپ کی یہ حرکت دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ حضرات نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ اس کو سمجھنے کا سلیقہ ہی رکھتے ہیں!!
آپ نے نے جو آیات پیش کی ہیں،ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے اس فیصلے پراس کے سوا کیا کہا جائے کہ

آں کس کہ نداندو بداند کہ بداند درجہل مرکب ابدالدہر بماند

 

Qalumkar

Senator (1k+ posts)
Al Inam # 116
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
تمہارے ربّ کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے


یہاں تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعمُوم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیّت اور اس کے اذن کے تحت رُونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دُنیا میں کوئی واقعہ کبھی صُدُور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صُدُور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صُدُور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیّت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیّت ِ الہٰی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رُونما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دُوسری قسم کے واقعات کو اُس کی رضا اور اس کی پسند یدگی و محبُوبیّت کی سند حاصل ہے۔ اگر چہ آخر کار کسی خیرِ عظیم ہی لیے فرمانروائے کائنات کی مشیّت کام کر رہی ہے ، لیکن اُس خیرِ عظیم کے ظہُور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرود یّت، موسویّت اور فرعونیّت ، آدمیّت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ جو چاہے اس کا ر گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔
اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دُشمنانِ حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیّت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اِس سے مقصُود دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، اور آپ کے ذریعہ سے اہلِ ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیّت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکامِ الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کر دہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جدّوجہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیّت کے تحت اُن لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اُس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اُن لوگوں کو ایمان لانے پر مجبُور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے، یا اُن شیاطین جِن و انس کو زبر دستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کو قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باط کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہُور کا امکان نہ ہوتا۔
'محقق' صاحب کا 'سرمایۂ تحقیقات' ختم ہوا۔ ۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اس ضمن میں آپ نے وہ آیات نقل کی ہیں جن میں ظن کی مذمت کی گئی ہے۔ اور ظن سے بچنے کا حکم دیا گیاہے۔ آپ کی یہ حرکت دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ حضرات نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ اس کو سمجھنے کا سلیقہ ہی رکھتے ہیں!!
آپ نے نے جو آیات پیش کی ہیں،ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے اس فیصلے پراس کے سوا کیا کہا جائے کہ

آں کس کہ نداندو بداند کہ بداند درجہل مرکب ابدالدہر بماند
میری جہالت کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ بتا رہا ہے کہ قرآن کامل ہے۔ شائد آپ کامل کے معنی نہیں سمجھتے۔ کامل کے معنی ہیں مکمل۔ دین قرآن میں مکمل ہو چکا۔ اللہ کا کلام کسی بخاری کی لکھی ہوئی کتاب کا محتاج نہیں ہے۔ میری نظر میں بخاری کا مقام آج کے مولوی فضل الرحمن اور مولوی الیاس قادری سے زیادہ نہیں۔ بخاری اور مسلم اینڈ کمپنی پرانے زمانے کے مولوی ہی تھے۔ اگر نہیں تھے تو اللہ قرآن میں بتا دیتا کہ نبیﷺ کی وفات کے 200 سال بعد ایک بخاری نامی شخص آئے گا جو محمدﷺ کی زندگی کے بارے میں تفصیل بتائے گا اور دین مکمل کرے گا۔
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
اب میرا سوال سنیں؛ قرآن میں مردہ، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بهیمة الأنعام حلال کیا گیا ہے۔ بهیمة الأنعام کی تفسیر قرآن میں ان جانوروں سے کی گئی ہے: اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا۔ لغت میں بھی بهیمة الأنعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلاً کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ؛ یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے پیش کریں۔ آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی، یعنی آپ چونکہ دعویدار ہیں کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے اس لئے ان جانوروں میں سے جس کو حلال مانیں،اس کے حلال ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور جس کو حرام مانیں، اس کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر آپ قرآن سے نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور حدیث کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا قاعدہ حدیث میں بیان کردیا گیاہے جس سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام...!

. دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازکی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ پھر کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوں یا لٹکا کر؟ ایک پاؤں پرکھڑے ہوں یا دونوں پر ؟

لغت میں 'رکوع' کا معنی ہے جھکنا، سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں ، یا دائیں جھکیں یابائیں جھکیں؟پھر جھکنے کی مقدار کیا ہو؟ ذرا سا سرنیچا کریں یا کمر کے برابر نیچا کریں یا اس سے بھی زیادہ نیچا کریں؟پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ گھٹنوں پر ٹیکیں؟ یا دونوں رانوں کے بیچ میں رکھ کر بازؤوں کو ران پر ٹیکیں؟ یا ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں؟

اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ یعنی زمین پر سر کا کون سا حصہ ٹیکیں، پیشانی کا ٹھیک پچھلا حصہ یا دایاں کنارہ یا بایاں کنارہ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں؟ رانوں میںگھسا لیں؟ یا زمین پرٹیکیں؟ اور اگر زمین پر ٹیکیں تو صرف ہتھیلی زمین پر ٹیکیں یا پوری کہنی زمین پر ٹیکیں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟ ان سوالات کا آپ جو بھی جواب دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں۔ ان مسائل کے بارے میں آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی اور اگر قرآن سے ان سوالات کاجواب نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکتے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوسکتا۔

. تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انہیں بھی بتا دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کب کب وصول کی جائے؟ یعنی زکوٰۃ روز روز دی جائے؟ یا سال بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا پانچ سال یا دس سال یا بیس سال میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ پھر یہ زکوٰۃ کس حساب سے دی جائے اور کتنی کتنی دی جائے ؟ یعنی غلہ کتنا ہو تو اس میں زکوٰۃ دی جائے؟ اور کتنے غلہ پر کتنی زکوٰۃ دی جائے؟ سونا چاندی کتنی ہو تو زکوٰۃ دی جائے؟ اور کس حساب سے دی جائے؟

یہ سارے مسئلے قرآن سے ثابت کیجئے۔ اگر آپ قرآن میں یہ مسائل نہ دکھلا سکیں (اور ہرگز نہیں دکھلا سکتے) تو ثابت ہوگا کہ حدیث کو مانے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان سارے مسائل کا بیان حدیث ہی میں آیا ہے۔

. چوتھا سوال: قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، ا س کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یافرق کیا جائے؟ کیونکہ بعض لوگ اپنا ہتھیار، گھوڑا، تیر، کمان، نیزہ، بھالا، زرہ، خود، سواری کا جانور اور کھانے کا سامان خود لے کر جاتے تھے اور بعض کو اسلامی حکومت کی طرف سے یہ سامان فراہم کیا جاتا تھا۔

اسی طرح بعض لوگ بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑتے تھے، بعض دبکے رہتے تھے، کچھ اگلی صف میں رہتے تھے، جن پر براہِ راست دشمن کا وار ہوتا تھا۔ کچھ پیچھے رہتے تھے جو خطرہ سے دور رہتے تھے۔ اب اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتائیے۔ اور اگر کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں؟ ا س کی دلیل دیجئے۔ اگر قرآن میں ان مسئلوں کا کوئی حل نہیں ہے تو کیسے کہا جاتا ہے کہ قرآن میں سارے مسئلے بیان کردیئے گئے ہیں...!!

. پانچواں سوال: قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھراسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر قرآن سے اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے توکیسے کہتے ہیں کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان کردیا گیا ہے۔

. چھٹا سوال: قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟ ان ساری باتوں کا ثبوت قرآن سے دیجئے۔ ورنہ تسلیم کیجئے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔


صاف بات یہ ہے کہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جو باتیں ہم نے پوچھی ہیں، ان باتوں میں اور اسی طرح زندگی کے بہت سارے مسئلے میں تنہا قرآن سے کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ طریقہ صرف حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لئے جب تک حدیث کو نہ مانیں، خود قرآن پر بھی عمل نہیں کرسکتے۔
Unfortunately, majority of the Muslims are following mazhab. We need to come back to the Deen and, the Deen is only in the Qur'an.
All other books are based on hearsay and conjecture and were written by Persian imams some 250 years after the demise of prophet Muhammad.
 

Shazi ji

Chief Minister (5k+ posts)
میں نے بھی تو یہی کہا ہے کہ بخاری تمہارا نبی ہے۔ اُس کا پیغام ہی تم درست مانتے ہو۔ تم نے میری بات کی تصدیق کر دی۔
U are bit out of track please write carefully,,,,
No one is calling it Nabi ,,,
Hadith is the life style and sayings of prophet
Don’t mix it WITH OTHER
BUT OF COURSE Quran is the BOOK FOR US
 

Shazi ji

Chief Minister (5k+ posts)
Sahih Bukhari is considered the most authentic compilation of Hadith ..... It is all narration with reference to the source ..... May Allah grant him (RA)Jannah for his toil as we today as student of Hadith are indebted to him .....
Totally agree and fail to understand why is this guy qalumkar twisting facts and purposely ignoring the sense u putting in him
 

Shazi ji

Chief Minister (5k+ posts)
میری جہالت کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ بتا رہا ہے کہ قرآن کامل ہے۔ شائد آپ کامل کے معنی نہیں سمجھتے۔ کامل کے معنی ہیں مکمل۔ دین قرآن میں مکمل ہو چکا۔ اللہ کا کلام کسی بخاری کی لکھی ہوئی کتاب کا محتاج نہیں ہے۔ میری نظر میں بخاری کا مقام آج کے مولوی فضل الرحمن اور مولوی الیاس قادری سے زیادہ نہیں۔ بخاری اور مسلم اینڈ کمپنی پرانے زمانے کے مولوی ہی تھے۔ اگر نہیں تھے تو اللہ قرآن میں بتا دیتا کہ نبیﷺ کی وفات کے 200 سال بعد ایک بخاری نامی شخص آئے گا جو محمدﷺ کی زندگی کے بارے میں تفصیل بتائے گا اور دین مکمل کرے گا۔
Quran says offer NAMAZ ,,,,
Does it tell you how to offer Namaz please tell me ???
It’s from hadith we found out how to offer Namaz
 

Shazi ji

Chief Minister (5k+ posts)
اب میرا سوال سنیں؛ قرآن میں مردہ، خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام قرار دیا گیا ہے اور بهیمة الأنعام حلال کیا گیا ہے۔ بهیمة الأنعام کی تفسیر قرآن میں ان جانوروں سے کی گئی ہے: اونٹنی، اونٹ، گائے، بیل، بکری، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا۔ لغت میں بھی بهیمة الأنعام کی فہرست میں یہی جانور بتائے گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان کے علاوہ دنیا کے بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلاً کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ؛ یہ سارے جانور حلال ہیں یا حرام؟ یا ان میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے پیش کریں۔ آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی، یعنی آپ چونکہ دعویدار ہیں کہ ہر مسئلہ قرآن میں موجود ہے اس لئے ان جانوروں میں سے جس کو حلال مانیں،اس کے حلال ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور جس کو حرام مانیں، اس کے حرام ہونے کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر آپ قرآن سے نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور حدیث کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا قاعدہ حدیث میں بیان کردیا گیاہے جس سے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام...!

. دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نمازکی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ پھر کھڑے ہوں تو ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوں یا لٹکا کر؟ ایک پاؤں پرکھڑے ہوں یا دونوں پر ؟

لغت میں 'رکوع' کا معنی ہے جھکنا، سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں ، یا دائیں جھکیں یابائیں جھکیں؟پھر جھکنے کی مقدار کیا ہو؟ ذرا سا سرنیچا کریں یا کمر کے برابر نیچا کریں یا اس سے بھی زیادہ نیچا کریں؟پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ گھٹنوں پر ٹیکیں؟ یا دونوں رانوں کے بیچ میں رکھ کر بازؤوں کو ران پر ٹیکیں؟ یا ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں؟

اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ یعنی زمین پر سر کا کون سا حصہ ٹیکیں، پیشانی کا ٹھیک پچھلا حصہ یا دایاں کنارہ یا بایاں کنارہ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں؟ رانوں میںگھسا لیں؟ یا زمین پرٹیکیں؟ اور اگر زمین پر ٹیکیں تو صرف ہتھیلی زمین پر ٹیکیں یا پوری کہنی زمین پر ٹیکیں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟ ان سوالات کا آپ جو بھی جواب دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں۔ ان مسائل کے بارے میں آپ کی عقلی تک بندیاں نہیں مانی جائیں گی اور اگر قرآن سے ان سوالات کاجواب نہ دے سکیں (اور یقینا نہیں دے سکتے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل نہیں ہوسکتا۔

. تیسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انہیں بھی بتا دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کب کب وصول کی جائے؟ یعنی زکوٰۃ روز روز دی جائے؟ یا سال بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا پانچ سال یا دس سال یا بیس سال میں ایک مرتبہ دی جائے؟ یا عمر بھر میں ایک مرتبہ دی جائے؟ پھر یہ زکوٰۃ کس حساب سے دی جائے اور کتنی کتنی دی جائے ؟ یعنی غلہ کتنا ہو تو اس میں زکوٰۃ دی جائے؟ اور کتنے غلہ پر کتنی زکوٰۃ دی جائے؟ سونا چاندی کتنی ہو تو زکوٰۃ دی جائے؟ اور کس حساب سے دی جائے؟

یہ سارے مسئلے قرآن سے ثابت کیجئے۔ اگر آپ قرآن میں یہ مسائل نہ دکھلا سکیں (اور ہرگز نہیں دکھلا سکتے) تو ثابت ہوگا کہ حدیث کو مانے بغیر قرآن کے حکم پر بھی عمل ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان سارے مسائل کا بیان حدیث ہی میں آیا ہے۔

. چوتھا سوال: قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، ا س کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کئے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یافرق کیا جائے؟ کیونکہ بعض لوگ اپنا ہتھیار، گھوڑا، تیر، کمان، نیزہ، بھالا، زرہ، خود، سواری کا جانور اور کھانے کا سامان خود لے کر جاتے تھے اور بعض کو اسلامی حکومت کی طرف سے یہ سامان فراہم کیا جاتا تھا۔

اسی طرح بعض لوگ بڑی بہادری اور بے جگری سے لڑتے تھے، بعض دبکے رہتے تھے، کچھ اگلی صف میں رہتے تھے، جن پر براہِ راست دشمن کا وار ہوتا تھا۔ کچھ پیچھے رہتے تھے جو خطرہ سے دور رہتے تھے۔ اب اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتائیے۔ اور اگر کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ کمانڈر کی رائے پر چھوڑ دیں؟ ا س کی دلیل دیجئے۔ اگر قرآن میں ان مسئلوں کا کوئی حل نہیں ہے تو کیسے کہا جاتا ہے کہ قرآن میں سارے مسئلے بیان کردیئے گئے ہیں...!!

. پانچواں سوال: قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھراسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی جگہ سے؟ آپ جو جواب بھی دیں، اس کا ثبوت قرآن سے دیں اور اگر قرآن سے اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے توکیسے کہتے ہیں کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان کردیا گیا ہے۔

. چھٹا سوال: قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لئے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لئے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟ ان ساری باتوں کا ثبوت قرآن سے دیجئے۔ ورنہ تسلیم کیجئے کہ قرآن میں ہر مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔


صاف بات یہ ہے کہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور جو باتیں ہم نے پوچھی ہیں، ان باتوں میں اور اسی طرح زندگی کے بہت سارے مسئلے میں تنہا قرآن سے کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ طریقہ صرف حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لئے جب تک حدیث کو نہ مانیں، خود قرآن پر بھی عمل نہیں کرسکتے۔
Agree in totality and amazed at the ignorance of QALUmkar
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
میری جہالت کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ بتا رہا ہے کہ قرآن کامل ہے۔ شائد آپ کامل کے معنی نہیں سمجھتے۔ کامل کے معنی ہیں مکمل۔ دین قرآن میں مکمل ہو چکا۔ اللہ کا کلام کسی بخاری کی لکھی ہوئی کتاب کا محتاج نہیں ہے۔ میری نظر میں بخاری کا مقام آج کے مولوی فضل الرحمن اور مولوی الیاس قادری سے زیادہ نہیں۔ بخاری اور مسلم اینڈ کمپنی پرانے زمانے کے مولوی ہی تھے۔ اگر نہیں تھے تو اللہ قرآن میں بتا دیتا کہ نبیﷺ کی وفات کے 200 سال بعد ایک بخاری نامی شخص آئے گا جو محمدﷺ کی زندگی کے بارے میں تفصیل بتائے گا اور دین مکمل کرے گا۔
Agreed with you 100%
Unfortunately, the majority of the Muslims are following mazhab. They can't distinguish between mazhab and Deen.
Deen is only in the Qur'an rest are just hearsay and conjecture with no authenticity in Islam.
 

Sonya Khan

Minister (2k+ posts)
Agreed with you 100%
Unfortunately, the majority of the Muslims are following mazhab. They can't distinguish between mazhab and Deen.
Deen is only in the Qur'an rest are just hearsay and conjecture with no authenticity in Islam.
And May I ask how were we able to have the Holy Quran amongst us ???....
 

Sonya Khan

Minister (2k+ posts)
Al Inam # 116
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
تمہارے ربّ کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے


یہاں تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعمُوم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیّت اور اس کے اذن کے تحت رُونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دُنیا میں کوئی واقعہ کبھی صُدُور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صُدُور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صُدُور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیّت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیّت ِ الہٰی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رُونما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دُوسری قسم کے واقعات کو اُس کی رضا اور اس کی پسند یدگی و محبُوبیّت کی سند حاصل ہے۔ اگر چہ آخر کار کسی خیرِ عظیم ہی لیے فرمانروائے کائنات کی مشیّت کام کر رہی ہے ، لیکن اُس خیرِ عظیم کے ظہُور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرود یّت، موسویّت اور فرعونیّت ، آدمیّت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ جو چاہے اس کا ر گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔
اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دُشمنانِ حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیّت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اِس سے مقصُود دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، اور آپ کے ذریعہ سے اہلِ ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیّت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکامِ الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کر دہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جدّوجہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیّت کے تحت اُن لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اُس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اُن لوگوں کو ایمان لانے پر مجبُور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے، یا اُن شیاطین جِن و انس کو زبر دستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کو قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باط کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہُور کا امکان نہ ہوتا۔
'محقق' صاحب کا 'سرمایۂ تحقیقات' ختم ہوا۔ ۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اس ضمن میں آپ نے وہ آیات نقل کی ہیں جن میں ظن کی مذمت کی گئی ہے۔ اور ظن سے بچنے کا حکم دیا گیاہے۔ آپ کی یہ حرکت دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ حضرات نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ اس کو سمجھنے کا سلیقہ ہی رکھتے ہیں!!
آپ نے نے جو آیات پیش کی ہیں،ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے اس فیصلے پراس کے سوا کیا کہا جائے کہ

آں کس کہ نداندو بداند کہ بداند درجہل مرکب ابدالدہر بماند
Your effort is very much appreciated ...... Superlike ...
 

Qalumkar

Senator (1k+ posts)
Quran says offer NAMAZ ,,,,
Does it tell you how to offer Namaz please tell me ???
It’s from hadith we found out how to offer Namaz
تم لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کے تم جو کچھ کر رہے ہو اُس کی دلیل قرآن میں ڈھونڈ رہے ہو حالانکہ تمہیں قرآن میں وہ تلاش کرنا چاہئے کہ قرآن کیا کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ تمہیں یہ تو یقین ہے کہ نماز کے نام پر جو بھی کر رہے ہو وہی درست ہے لیکن قرآن میں نہیں ہے تو بجائے اپنے اُپر شک کرنے کے تم قرآن پر شک کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تو سورۃ بقرہ کی آیت 2 میں بتا دیا کے قرآن میں کوئی شک والی بات نہیں۔ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے تم لوگوں کو بخاری کی کہانیاں اتنی سچی لگتی ہیں کہ تم قرآن کے بارے میں مشکوک ہو گئے ہو۔ بخاری نے تمہارے لئے ویسا ہی بچھڑا بنا دیا ہے جیسا سامری نے بنی اسرائیل کے لئے بنایا تھا۔
 
Last edited:

Shazi ji

Chief Minister (5k+ posts)
تم لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کے تم جو کچھ کر رہے ہو اُس کی دلیل قرآن میں ڈھونڈ رہے ہو حالانکہ تمہیں قرآن میں وہ تلاش کرنا چاہئے کہ قرآن کیا کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ تمہیں یہ تو یقین ہے کہ نماز کے نام پر جو بھی کر رہے ہو وہی درست ہے لیکن قرآن میں نہیں ہے تو بجائے اپنے اُپر شک کرنے کے تم قرآن پر شک کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تو سورۃ بقرہ کی آیت 2 میں بتا دیا کے قرآن میں کوئی شک والی بات نہیں۔ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے تم لوگوں کو بخاری کی کہانیاں اتنی سچی لگتی ہیں کہ تم قرآن کے بارے میں مشکوک ہو گئے ہو۔ بخاری نے تمہارے لئے ویسا ہی بچھڑا بنا دیا ہے جیسا سامری نے بنی اسرائیل کے لئے بنایا تھا۔
This is most Rubbish and uneducated reply I have ever seen ,,,
There is no شک IN QURAN,,,, are you in ur senses ? Or you are unable to think
My point was that Quran is complete message but we found out from Hadith the offerings of NAMAZ , How holy prophet ( saw) treated his wives, how he did Tijaraat etc so we knew the practical Way of living Islamic values ,,,

YOU THINK IN A VERY WRONG WAY LIKE A FOOL WHO IN IGNORANCE IN DENIAL OF THE FACTS
 

Shazi ji

Chief Minister (5k+ posts)
Agreed with you 100%
Unfortunately, the majority of the Muslims are following mazhab. They can't distinguish between mazhab and Deen.
Deen is only in the Qur'an rest are just hearsay and conjecture with no authenticity in Islam.
DEEN IS Quran which tells us how to live in Islamic values AND OUR MAZHAB IS ISLAM AND ALL MUSLIMS FOLLW DEEN E ISLAM

WHAT HAPPENED TO U???
did u go to school or college or u just,,,,,, forget it not worth explaining
 

Qalumkar

Senator (1k+ posts)
My point was that Quran is complete message but
تم لوگ قرآن کو مکمل کہتے ضرور ہو لیکن سمجھتے نہیں۔ مکمل کہتے ہو ساتھ ہی اگر ، مگر، لیکن کے ساتھ اپنے اندر کا بغض ظاہر کر دیتے ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ تم اللہ سے زیادہ سمجھدار ہو۔ اللہ نے کچھ باتوں کو بیان نہیں کیا جو کہ تمہاری نظر میں ضروری تھیں اس لئے تمہیں قرآن کے علاوہ کہیں اور سے بھی مدد چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے متعلق تمام باتیں قرآن میں مثالیں دے دے کر بیان کر دیں لیکن تمہاری تسلی نہیں ہوئی اور تم نے بخاری کی کہانیوں کی کتاب کو دین کا حصّہ بنا لیا۔ کیا ایسا کر کے تم نے اللہ کی کتاب کی اور اللہ کے علم کی توہین نہیں کی؟ اپنے علم کو اللہ کے علم سے بڑا سمجھتے ہو؟ اللہ کہتا ہے کہ قرآن میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تم کہتے ہو کہ کسر تو رہ گئی جو بخاری نے پوری کی۔

18-54-Quran.jpg

18-1.jpg