راجہ داہر سپوتِ سندھ

Status
Not open for further replies.

mosam141

Voter (50+ posts)


دس رمضان کو راجہ داہر کی برسی تھی جو کہ اس دھرتی کا سپوت تھا جس نے سندھ اور اس دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دیدی۔
راجہ داہر نے حملہ آور محمد بن قاسم کا مقابلہ کیا اور اس مٹی کیخاطر جان قربان کردی۔۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا قاتل محمد بن قاسم تھا جس نے انکو ٹھٹھہ شہر میں قتل کیا سر کاٹ کے حجاج بن یوسف کو بھیجا اور لاش کراچی کے ساحل پہ چھپایا گیا۔ لیکن خون ناحق کبھی چُھپتا نہیں ہے۔
مغالطہ پاکستان اور سرکاری تاریخ کے متاثرین سے معذرت کے ساتھ 10رمضان المبارک اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم حکمران راجہ ڈاھر کا یوم شہادت ھے۔۔۔ آج اس دھرتی کے عظیم ھیرو مہاراجہ داھر کا یوم شہادت ھے. جبکہ اس بہادر سپوت کا جرم صرف اھل بیت اور سادات کو پناہ دینا ٹھہرا.
بغداد کے گورنر نے راجہ ڈاھر کو کئی خطوط لکھ کر ان اھل بیت اور سادات کو ان کے سپرد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے اپنی زمین پر پناہ لینے والوں کو ظالموں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
بنو امیہ کے حکمران اس سے پہلے سندھ پر سولہ حملے کر چکے تھے۔ سترھواں حملہ اسلامی تاریخ کے انتہائی ظالم اور سفاک کردار حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید کے حکم پر محمد بن قاسم ثقفی نے کیا اور اروڑ کے مقام پر راجہ داھر نے اپنی پناہ میں موجود اھل بیت کی حفاظت کرتے ہوئے 10 رمضان المبارک ( 712 بمطابق عیسوی سال) کو جام شہادت نوش کیا.
مہاراجہ ڈاھر کی افواج کی کمان محمد بن علافی نے کی اور متعدد نامور مسلمان مہاراجہ داھر کے مشیر متعین تھے.
اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم مہاراجہ کی قربانی اور شہادت پر انکی عظمت کو سلام
راجہ پورس، رنجیت سنگھ، دلا بھٹی، بھگت سنگھ، نظام لوھار، ملنگی، راجہ داھر اور رائے احمد خان کھرل وغیرہ اس مٹی کےاصل ھیروز ہیں نہ کہ مسخ شدہ تاریخ پر مبنی نصابی کتب میں بتائے جانے والے غیر ملکی غاصب لٹیرے

خدارا نصابی تاریخ درست کریں تاکہ عوام میں پراعتمادی آئے اور قوم خود پر فخر کرنا سیکھے

ویسے ھم انگریزوں کے غیرممالک پر حملے اور قبضے کو سامراجی جارحیت و قبضہ کہتے ھیں لیکن مسلمان حکمرانوں کی ماضی میں ایسی وارداتوں کو اسلامی فتوحات سے تعبیر کرتے ھیں۔ کیوں؟

اور ھاں۔۔۔۔ سرکاری بیانیے اور مسخ شدہ نصابی تاریخ سے متاثرہ ننھے ذھنوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت کی کہ ان کا ھیرو محمد بن قاسم سترہ سال کی عمر میں یہاں قبضہ مکمل کرلینے کے بعد اچانک تاریخ سے کہاں غائب ھوگیا اور اس کی موت کیسے اور کیوں ھوئی؟ یہاں آ کر آپ کی تاریخ اور راوی خاموش ھوجاتے ھیں


اب وقت آ گیا ھے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے بچوں کو سکولوں میں سچ بتایا جائے اور انہیں عرب اور مغل تاریخ کے بجائے اپنی تاریخ پڑھائی جائے۔

اندھوں کے شہر میں، آئینے بیچتا ھوں میں

 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
آپ جب بھی برصغیر کے مسلم فاتحین کا ذکر کریں گے تو ایک طبقہ ان فاتحین کو بیرونی غاصب اور لٹیرے وغیرہ اور ان کے مقابل مقامی ہندو راجاؤں کو اس دھرتی کا سپوت اور اصل وارث قرار دے گا۔۔۔ آپ محمد بن قاسم کا ذکر کریں تو یہ راجہ داہر کی مدح سرائی کرنے لگیں گے۔ آپ محمود غزنوی کا ذکر کریں تو یہ راجہ جے پال اور راجپوتوں کی مظلومیت کا رونا رونے لگیں گے۔ آپ ترک اور افغان سلاطین کا ذکر کریں تو یہ انہیں ڈاکو قرار دیں گے۔ آپ اورنگزیب عالمگیر کا نام لیں تو یہ مراٹھوں اور سکھوں کا رونا روئیں گے۔ آپ احمد شاہ درانی کا نام لیں تو یہ اسے ظالم درندہ قرار دیں گے۔۔۔۔ اور اگر آپ رنجیت سنگھ کی درندگی کی طرف انکی توجہ مبذول کروائیں تو یہ طبقہ اسے ہندوستان کا جری سپوت قرار دے گا۔

مانا کہ عرب، ترک، افغان، مغل اور فارسی ہند کے مقامی باشندے نہیں۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا راجہ داہر سے لے کر رنجیت سنگھ تک تمام راجے مہاراجے ہند کے حقیقی وارث اور اصل باشندے تھے؟

جواب ہے کہ نہیں!
ہندوستان میں اڑھائی ہزار قبلِ مسیح دراوڑ نسل آباد تھی۔ اور پھر وسطی ایشیاء سے یہاں آریا نسل وارد ہوئی کہ جن نے دراوڑوں کو جنوبی ہند کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ آرئین آگے بڑھتے ہوئے شمالی ہند میں گنگا کے دو آب تک پہنچے۔ تب ان کے سماجی نظام میں تبدیلیاں آئیں اور ان نے عوام کو پیشے کے مطابق م فرقوں یا ذاتوں میں تقسیم کر دیا

آریائی نسل میں حکومت جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہی وہ ”شَتّریے“ کہلائے، جنہیں کھشتری یا چھتری بھی کہا جاتا ہے۔ راجا مہاراجے اور فوجی انہی میں سے ہوتے تھے۔

آریائی نسل کے مذہبی رہنما پُروہِت کہلائے کہ جو مذہبی امور کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ راجاؤں کو مذہبی اور سیاسی مشورے بھی دیتے تھے۔ براہمن دراصل پروہت ہی ہیں۔

آریائی نسل میں کھیتی اور تجارت کا کام کرنے والے عام لوگ ’’وَیشیہ‘‘ کہلاتے تھے۔

جبکہ ’’شُودْر‘‘ ان لوگوں کو کہا گیا کہ جن کی رگوں میں آریائی خون شامل نہیں تھا اور جو آریوں کے مذہب اور رنگ سے منفرد تھے۔۔۔ آریائی نسل کے لوگ انہیں گھٹیا اور کمی کمین مانتے تھے۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔

یعنی کل ملا کر کہانی کچھ یوں ہے کہ باہر سے ایک نسل حملہ آور ہوئی اور اس نے مقامی لوگوں کو مار کوٹ کر دیوار سے لگا دیا اور پھر خود کو دو حصوں یعنی شتریہ اور پروہت یا کھشتری و براہمن میں تقسیم کیا۔ اور مقامی لوگوں کو شودر قرار دیا۔ یعنی کمی کمین اور خادم۔۔۔

راجہ داہر کشمیری براہمن تھا۔ یعنی آریائی، نہ کہ سندھی! راجہ جے پال و دیگر ہندو راجے مہاراجے، حتیٰ کہ مراٹھے اور راجپوت۔۔۔ سب کے سب یا تو براہمن تھے یا کھشتری۔۔۔۔ یعنی جن راجوں مہاراجوں پہ مسلمانوں نے غلبہ حاصل کیا، وہ سب غاصب آریاؤں کی اولاد تھے۔ اور آریائی نسل نے جس دراوڑ نسل پہ غلبہ حاصل کیا وہ بھی غاصب تھی۔۔۔۔ اور دراوڑوں نے جن "کولوں” کو مغلوب کیا تھا وہ بھی باہر سے ہی آئے تھے۔۔۔

تو ایسے میں سوال ہے کہ بیرونی غاصب اور لٹیرے صرف مسلمان فاتحین ہی کیوں؟؟؟


مسلمانوں نے تو ظالم غاصب آریائی نسل پہ فتح حاصل کی اور ان کے بنائے ذات پات اور اونچ نیچ کے ظالمانہ اور غیر انسانی طبقاتی نظام کا اپنے زیر انتظام علاقوں میں خاتمہ کیا۔۔۔

تو پھر مسلم فاتحین سے نفرت کیوں؟


جواب صاف اور واضح ہے۔۔۔ کہ محمد بن قاسم کی فتح کے بعد جب براہمن، کھشتری اور ویشیا ہندوؤں نے دیکھا کہ جنہیں ہم شودر، ملیچ اور اچھوت کہتے تھے۔ کہ جو ہمارے سامنے ننگے پاؤں چلنے، پگڑی نہ باندھنے اور جھکنے کے پابند تھے، انہیں مسلمانوں نے ہمارے برابری کے حقوق دے دیے ہیں تو ان میں اس وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی اور ان نے مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا، مسلمانوں کے مظالم کی کہانیاں گھڑیں۔ یہ قصے کہانیاں سینا بہ سینا نسل در نسل منتقل ہوتی گئیں۔۔۔ اور آج بھی اونچی ذات کے ہندوؤں میں زبان زدِ عام ہیں۔ اور اب تو اس میں مذھب کا تڑکا بھی لگ گیا ہے



سوال یہ ہے کہ آج کل کے مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ مسلم فاتحین کی تحقیر کرتا نظر آتا ہے، ایسا کیوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ ان مسلمانوں میں اکثریت ان جہلاء کی ہے کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کے نسل درنسل پھیلائے گئے پراپیگنڈے سے متاثر ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کی نسل میں سے ہیں کہ جن نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن ان کے لاشعور میں تاحال طبقاتی عصبیت موجود ہے اور وہ آج تک اپنے آباء کے گھڑے گئے جھوٹ کے سحر سے باہر نہیں نکل پائے۔

اور ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے کہ جو برائے نام مسلمان ہیں کہ جنہیں ہم سیکولر کہتے ہیں۔۔ ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔ انہیں اپنے مسلمان ہونے کا افسوس ہے، لیکن چونکہ یہ لوگ معاشرتی مجبوریوں کے باعث اسلام سے رشتہ نہیں توڑ سکتے۔۔۔ لہذا اپنی فرسٹریشن اسلام سے منسوب ہر اس شے پہ نکالتے ہیں کہ جو مسلمانوں کے نزدیک معتبر و محترم ہو۔۔۔ اور ایسا کر کے یہ خود کو روشن خیال اور اعتدال پسند باور کرواتے ہیں، حالانکہ ان سے بڑا جاہل اور ہٹ دھرم کوئی اور نہیں۔ کہ آریائی نسل کے ظالم راجے مہاراجے انکے نزدیک مظلوم ہیں لیکن مسلم فاتحین غاصب و لٹیرے کہ جن نے ان راجوں مہاراجوں کے ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا۔
 

M Ali Khan

Minister (2k+ posts)
وہ جو حقیقت سامنے آئے گی اس سےمسلمان کا قد کاٹھ اونچا ہوگا یا مزید پستی نظر آئے گی
agar man-dharak kahanio aur bey-bunyad rivayato se "qad kaath" ooncha hosakta hai, tou aisay qad kaath ka koi faida nahi.

Ghaurio aur Ghanzavio ki apas mein larraiyan itna khaufnaak thee apni saltanat pe qabza karne ke liye ke maray huay Salateen ki qabarein khod kar unn ki laashein chowk bazar mein latkyi jaati thee, shehr ke shehr barbad kiye jaate thay, aur aurato ko rape kiya jaata tha.

aur yeh sab kalma-go musalman doosray kalma-go musalman ke saath kartey thay

lekin hum tou apne atam bumm aur missile inn ke naam pe rakhte hain
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
آپ جب بھی برصغیر کے مسلم فاتحین کا ذکر کریں گے تو ایک طبقہ ان فاتحین کو بیرونی غاصب اور لٹیرے وغیرہ اور ان کے مقابل مقامی ہندو راجاؤں کو اس دھرتی کا سپوت اور اصل وارث قرار دے گا۔۔۔ آپ محمد بن قاسم کا ذکر کریں تو یہ راجہ داہر کی مدح سرائی کرنے لگیں گے۔ آپ محمود غزنوی کا ذکر کریں تو یہ راجہ جے پال اور راجپوتوں کی مظلومیت کا رونا رونے لگیں گے۔ آپ ترک اور افغان سلاطین کا ذکر کریں تو یہ انہیں ڈاکو قرار دیں گے۔ آپ اورنگزیب عالمگیر کا نام لیں تو یہ مراٹھوں اور سکھوں کا رونا روئیں گے۔ آپ احمد شاہ درانی کا نام لیں تو یہ اسے ظالم درندہ قرار دیں گے۔۔۔۔ اور اگر آپ رنجیت سنگھ کی درندگی کی طرف انکی توجہ مبذول کروائیں تو یہ طبقہ اسے ہندوستان کا جری سپوت قرار دے گا۔

مانا کہ عرب، ترک، افغان، مغل اور فارسی ہند کے مقامی باشندے نہیں۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا راجہ داہر سے لے کر رنجیت سنگھ تک تمام راجے مہاراجے ہند کے حقیقی وارث اور اصل باشندے تھے؟

جواب ہے کہ نہیں!
ہندوستان میں اڑھائی ہزار قبلِ مسیح دراوڑ نسل آباد تھی۔ اور پھر وسطی ایشیاء سے یہاں آریا نسل وارد ہوئی کہ جن نے دراوڑوں کو جنوبی ہند کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ آرئین آگے بڑھتے ہوئے شمالی ہند میں گنگا کے دو آب تک پہنچے۔ تب ان کے سماجی نظام میں تبدیلیاں آئیں اور ان نے عوام کو پیشے کے مطابق م فرقوں یا ذاتوں میں تقسیم کر دیا

آریائی نسل میں حکومت جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہی وہ ”شَتّریے“ کہلائے، جنہیں کھشتری یا چھتری بھی کہا جاتا ہے۔ راجا مہاراجے اور فوجی انہی میں سے ہوتے تھے۔

آریائی نسل کے مذہبی رہنما پُروہِت کہلائے کہ جو مذہبی امور کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ راجاؤں کو مذہبی اور سیاسی مشورے بھی دیتے تھے۔ براہمن دراصل پروہت ہی ہیں۔

آریائی نسل میں کھیتی اور تجارت کا کام کرنے والے عام لوگ ’’وَیشیہ‘‘ کہلاتے تھے۔

جبکہ ’’شُودْر‘‘ ان لوگوں کو کہا گیا کہ جن کی رگوں میں آریائی خون شامل نہیں تھا اور جو آریوں کے مذہب اور رنگ سے منفرد تھے۔۔۔ آریائی نسل کے لوگ انہیں گھٹیا اور کمی کمین مانتے تھے۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔

یعنی کل ملا کر کہانی کچھ یوں ہے کہ باہر سے ایک نسل حملہ آور ہوئی اور اس نے مقامی لوگوں کو مار کوٹ کر دیوار سے لگا دیا اور پھر خود کو دو حصوں یعنی شتریہ اور پروہت یا کھشتری و براہمن میں تقسیم کیا۔ اور مقامی لوگوں کو شودر قرار دیا۔ یعنی کمی کمین اور خادم۔۔۔

راجہ داہر کشمیری براہمن تھا۔ یعنی آریائی، نہ کہ سندھی! راجہ جے پال و دیگر ہندو راجے مہاراجے، حتیٰ کہ مراٹھے اور راجپوت۔۔۔ سب کے سب یا تو براہمن تھے یا کھشتری۔۔۔۔ یعنی جن راجوں مہاراجوں پہ مسلمانوں نے غلبہ حاصل کیا، وہ سب غاصب آریاؤں کی اولاد تھے۔ اور آریائی نسل نے جس دراوڑ نسل پہ غلبہ حاصل کیا وہ بھی غاصب تھی۔۔۔۔ اور دراوڑوں نے جن "کولوں” کو مغلوب کیا تھا وہ بھی باہر سے ہی آئے تھے۔۔۔

تو ایسے میں سوال ہے کہ بیرونی غاصب اور لٹیرے صرف مسلمان فاتحین ہی کیوں؟؟؟


مسلمانوں نے تو ظالم غاصب آریائی نسل پہ فتح حاصل کی اور ان کے بنائے ذات پات اور اونچ نیچ کے ظالمانہ اور غیر انسانی طبقاتی نظام کا اپنے زیر انتظام علاقوں میں خاتمہ کیا۔۔۔

تو پھر مسلم فاتحین سے نفرت کیوں؟


جواب صاف اور واضح ہے۔۔۔ کہ محمد بن قاسم کی فتح کے بعد جب براہمن، کھشتری اور ویشیا ہندوؤں نے دیکھا کہ جنہیں ہم شودر، ملیچ اور اچھوت کہتے تھے۔ کہ جو ہمارے سامنے ننگے پاؤں چلنے، پگڑی نہ باندھنے اور جھکنے کے پابند تھے، انہیں مسلمانوں نے ہمارے برابری کے حقوق دے دیے ہیں تو ان میں اس وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی اور ان نے مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا، مسلمانوں کے مظالم کی کہانیاں گھڑیں۔ یہ قصے کہانیاں سینا بہ سینا نسل در نسل منتقل ہوتی گئیں۔۔۔ اور آج بھی اونچی ذات کے ہندوؤں میں زبان زدِ عام ہیں۔ اور اب تو اس میں مذھب کا تڑکا بھی لگ گیا ہے



سوال یہ ہے کہ آج کل کے مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ مسلم فاتحین کی تحقیر کرتا نظر آتا ہے، ایسا کیوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ ان مسلمانوں میں اکثریت ان جہلاء کی ہے کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کے نسل درنسل پھیلائے گئے پراپیگنڈے سے متاثر ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کی نسل میں سے ہیں کہ جن نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن ان کے لاشعور میں تاحال طبقاتی عصبیت موجود ہے اور وہ آج تک اپنے آباء کے گھڑے گئے جھوٹ کے سحر سے باہر نہیں نکل پائے۔

اور ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے کہ جو برائے نام مسلمان ہیں کہ جنہیں ہم سیکولر کہتے ہیں۔۔ ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔ انہیں اپنے مسلمان ہونے کا افسوس ہے، لیکن چونکہ یہ لوگ معاشرتی مجبوریوں کے باعث اسلام سے رشتہ نہیں توڑ سکتے۔۔۔ لہذا اپنی فرسٹریشن اسلام سے منسوب ہر اس شے پہ نکالتے ہیں کہ جو مسلمانوں کے نزدیک معتبر و محترم ہو۔۔۔ اور ایسا کر کے یہ خود کو روشن خیال اور اعتدال پسند باور کرواتے ہیں، حالانکہ ان سے بڑا جاہل اور ہٹ دھرم کوئی اور نہیں۔ کہ آریائی نسل کے ظالم راجے مہاراجے انکے نزدیک مظلوم ہیں لیکن مسلم فاتحین غاصب و لٹیرے کہ جن نے ان راجوں مہاراجوں کے ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا۔
Yes Very well said.
 

khanbahadur

MPA (400+ posts)
agar man-dharak kahanio aur bey-bunyad rivayato se "qad kaath" ooncha hosakta hai, tou aisay qad kaath ka koi faida nahi.

Ghaurio aur Ghanzavio ki apas mein larraiyan itna khaufnaak thee apni saltanat pe qabza karne ke liye ke maray huay Salateen ki qabarein khod kar unn ki laashein chowk bazar mein latkyi jaati thee, shehr ke shehr barbad kiye jaate thay, aur aurato ko rape kiya jaata tha.

aur yeh sab kalma-go musalman doosray kalma-go musalman ke saath kartey thay

lekin hum tou apne atam bumm aur missile inn ke naam pe rakhte hain

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ محمود غزنوی اتنا پکا مسلمان تھا کہ سومنات کا مندر توڑنے کے لئے ۱۷ بار ہندوستان آیا، لیکن کعبہ کی زیارت کرنے ایک بار بھی نہیں گیا۔
بادشاہ کے حرم میں سینکڑوں مسلمان لڑکیاں لونڈیاں بنا کر رکھی ہوئی تھیں مگر محمد بن قاسم ان سب کو چھوڑ کر ایک لڑکی پکار پر سندھ میں حملہ آور ہو گیا
 

M Ali Khan

Minister (2k+ posts)
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ محمود غزنوی اتنا پکا مسلمان تھا کہ سومنات کا مندر توڑنے کے لئے ۱۷ بار ہندوستان آیا، لیکن کعبہ کی زیارت کرنے ایک بار بھی نہیں گیا۔
بادشاہ کے حرم میں سینکڑوں مسلمان لڑکیاں لونڈیاں بنا کر رکھی ہوئی تھیں مگر محمد بن قاسم ان سب کو چھوڑ کر ایک لڑکی پکار پر سندھ میں حملہ آور ہو گیا
Ayaz ko mat bhooliye ;)
 

khanbahadur

MPA (400+ posts)
Ayaz ko mat bhooliye ;)

آپ کا اشارہ ابوالنجم ایاز کی طرف ہے

وہی ایاز جو اپنا پرانا لباس ایک صندوق میں رکھتا تھا اور اکثر و بیشتراسے کھول کر دیکھا کرتا تھا۔
وہی ایاز جسے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے محمود کی غلامی میں رکھا گیا تھا
?
جس کا مقبرہ رنگ محل مشن ہائی سکول لاہور کے سامنے چوک میں موجود ہے
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ محمود غزنوی اتنا پکا مسلمان تھا کہ سومنات کا مندر توڑنے کے لئے ۱۷ بار ہندوستان آیا، لیکن کعبہ کی زیارت کرنے ایک بار بھی نہیں گیا۔
بادشاہ کے حرم میں سینکڑوں مسلمان لڑکیاں لونڈیاں بنا کر رکھی ہوئی تھیں مگر محمد بن قاسم ان سب کو چھوڑ کر ایک لڑکی پکار پر سندھ میں حملہ آور ہو گیا
trolling from a so called momin ?
 

hawkinthesky111

Minister (2k+ posts)
agar man-dharak kahanio aur bey-bunyad rivayato se "qad kaath" ooncha hosakta hai, tou aisay qad kaath ka koi faida nahi.

Ghaurio aur Ghanzavio ki apas mein larraiyan itna khaufnaak thee apni saltanat pe qabza karne ke liye ke maray huay Salateen ki qabarein khod kar unn ki laashein chowk bazar mein latkyi jaati thee, shehr ke shehr barbad kiye jaate thay, aur aurato ko rape kiya jaata tha.

aur yeh sab kalma-go musalman doosray kalma-go musalman ke saath kartey thay

lekin hum tou apne atam bumm aur missile inn ke naam pe rakhte hain
itna wedda tareekh daan na ben. raja dahir say itni muhabbat hai tu zara endia ja aur 2 4 din guzaar..
 

islamabadi

Minister (2k+ posts)
Bin Qasim was a cold blooded arab professional killer (Comparable to Abu Bakar baghdadi and ISIS of today) coming in from Iraq ....his main aim was to exterminate the entire defenceless population of Sindh (our ancestors).....Raja Dahir stood like a wall against this pathetic arab serial killer. Countless sindhis laid their lives for the defence of our land. Ultimately these arab killers were stopped and killed like cats and dogs by our neighboors in rajasthan (Known as battles of rajasthan) and these killers were driven out and bin qasimm died like a dog just like Baghdadi died like a coward
 
Last edited:

Night-Hawk

Senator (1k+ posts)


دس رمضان کو راجہ داہر کی برسی تھی جو کہ اس دھرتی کا سپوت تھا جس نے سندھ اور اس دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دیدی۔
راجہ داہر نے حملہ آور محمد بن قاسم کا مقابلہ کیا اور اس مٹی کیخاطر جان قربان کردی۔۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا قاتل محمد بن قاسم تھا جس نے انکو ٹھٹھہ شہر میں قتل کیا سر کاٹ کے حجاج بن یوسف کو بھیجا اور لاش کراچی کے ساحل پہ چھپایا گیا۔ لیکن خون ناحق کبھی چُھپتا نہیں ہے۔
مغالطہ پاکستان اور سرکاری تاریخ کے متاثرین سے معذرت کے ساتھ 10رمضان المبارک اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم حکمران راجہ ڈاھر کا یوم شہادت ھے۔۔۔ آج اس دھرتی کے عظیم ھیرو مہاراجہ داھر کا یوم شہادت ھے. جبکہ اس بہادر سپوت کا جرم صرف اھل بیت اور سادات کو پناہ دینا ٹھہرا.
بغداد کے گورنر نے راجہ ڈاھر کو کئی خطوط لکھ کر ان اھل بیت اور سادات کو ان کے سپرد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے اپنی زمین پر پناہ لینے والوں کو ظالموں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
بنو امیہ کے حکمران اس سے پہلے سندھ پر سولہ حملے کر چکے تھے۔ سترھواں حملہ اسلامی تاریخ کے انتہائی ظالم اور سفاک کردار حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید کے حکم پر محمد بن قاسم ثقفی نے کیا اور اروڑ کے مقام پر راجہ داھر نے اپنی پناہ میں موجود اھل بیت کی حفاظت کرتے ہوئے 10 رمضان المبارک ( 712 بمطابق عیسوی سال) کو جام شہادت نوش کیا.
مہاراجہ ڈاھر کی افواج کی کمان محمد بن علافی نے کی اور متعدد نامور مسلمان مہاراجہ داھر کے مشیر متعین تھے.
اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم مہاراجہ کی قربانی اور شہادت پر انکی عظمت کو سلام
راجہ پورس، رنجیت سنگھ، دلا بھٹی، بھگت سنگھ، نظام لوھار، ملنگی، راجہ داھر اور رائے احمد خان کھرل وغیرہ اس مٹی کےاصل ھیروز ہیں نہ کہ مسخ شدہ تاریخ پر مبنی نصابی کتب میں بتائے جانے والے غیر ملکی غاصب لٹیرے

خدارا نصابی تاریخ درست کریں تاکہ عوام میں پراعتمادی آئے اور قوم خود پر فخر کرنا سیکھے

ویسے ھم انگریزوں کے غیرممالک پر حملے اور قبضے کو سامراجی جارحیت و قبضہ کہتے ھیں لیکن مسلمان حکمرانوں کی ماضی میں ایسی وارداتوں کو اسلامی فتوحات سے تعبیر کرتے ھیں۔ کیوں؟

اور ھاں۔۔۔۔ سرکاری بیانیے اور مسخ شدہ نصابی تاریخ سے متاثرہ ننھے ذھنوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت کی کہ ان کا ھیرو محمد بن قاسم سترہ سال کی عمر میں یہاں قبضہ مکمل کرلینے کے بعد اچانک تاریخ سے کہاں غائب ھوگیا اور اس کی موت کیسے اور کیوں ھوئی؟ یہاں آ کر آپ کی تاریخ اور راوی خاموش ھوجاتے ھیں


اب وقت آ گیا ھے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے بچوں کو سکولوں میں سچ بتایا جائے اور انہیں عرب اور مغل تاریخ کے بجائے اپنی تاریخ پڑھائی جائے۔

اندھوں کے شہر میں، آئینے بیچتا ھوں میں



The last time I checked, Sindhi nationalists accuse Abdullah Shah Ghazi of collusion with Arabs in latter's bid to conquer Sindh. It is generally thought that most of the visitors of his shrine are either Punjabis or Urdu-Speakers. Anyway, have a double check on your dates and history. Ghazi was assassinated but long after the capture and murder of Muhammad Ibn Qasim.
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
آپ جب بھی برصغیر کے مسلم فاتحین کا ذکر کریں گے تو ایک طبقہ ان فاتحین کو بیرونی غاصب اور لٹیرے وغیرہ اور ان کے مقابل مقامی ہندو راجاؤں کو اس دھرتی کا سپوت اور اصل وارث قرار دے گا۔۔۔ آپ محمد بن قاسم کا ذکر کریں تو یہ راجہ داہر کی مدح سرائی کرنے لگیں گے۔ آپ محمود غزنوی کا ذکر کریں تو یہ راجہ جے پال اور راجپوتوں کی مظلومیت کا رونا رونے لگیں گے۔ آپ ترک اور افغان سلاطین کا ذکر کریں تو یہ انہیں ڈاکو قرار دیں گے۔ آپ اورنگزیب عالمگیر کا نام لیں تو یہ مراٹھوں اور سکھوں کا رونا روئیں گے۔ آپ احمد شاہ درانی کا نام لیں تو یہ اسے ظالم درندہ قرار دیں گے۔۔۔۔ اور اگر آپ رنجیت سنگھ کی درندگی کی طرف انکی توجہ مبذول کروائیں تو یہ طبقہ اسے ہندوستان کا جری سپوت قرار دے گا۔

مانا کہ عرب، ترک، افغان، مغل اور فارسی ہند کے مقامی باشندے نہیں۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا راجہ داہر سے لے کر رنجیت سنگھ تک تمام راجے مہاراجے ہند کے حقیقی وارث اور اصل باشندے تھے؟

جواب ہے کہ نہیں!
ہندوستان میں اڑھائی ہزار قبلِ مسیح دراوڑ نسل آباد تھی۔ اور پھر وسطی ایشیاء سے یہاں آریا نسل وارد ہوئی کہ جن نے دراوڑوں کو جنوبی ہند کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ آرئین آگے بڑھتے ہوئے شمالی ہند میں گنگا کے دو آب تک پہنچے۔ تب ان کے سماجی نظام میں تبدیلیاں آئیں اور ان نے عوام کو پیشے کے مطابق م فرقوں یا ذاتوں میں تقسیم کر دیا

آریائی نسل میں حکومت جن لوگوں کے ہاتھوں میں رہی وہ ”شَتّریے“ کہلائے، جنہیں کھشتری یا چھتری بھی کہا جاتا ہے۔ راجا مہاراجے اور فوجی انہی میں سے ہوتے تھے۔

آریائی نسل کے مذہبی رہنما پُروہِت کہلائے کہ جو مذہبی امور کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ راجاؤں کو مذہبی اور سیاسی مشورے بھی دیتے تھے۔ براہمن دراصل پروہت ہی ہیں۔

آریائی نسل میں کھیتی اور تجارت کا کام کرنے والے عام لوگ ’’وَیشیہ‘‘ کہلاتے تھے۔

جبکہ ’’شُودْر‘‘ ان لوگوں کو کہا گیا کہ جن کی رگوں میں آریائی خون شامل نہیں تھا اور جو آریوں کے مذہب اور رنگ سے منفرد تھے۔۔۔ آریائی نسل کے لوگ انہیں گھٹیا اور کمی کمین مانتے تھے۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔

یعنی کل ملا کر کہانی کچھ یوں ہے کہ باہر سے ایک نسل حملہ آور ہوئی اور اس نے مقامی لوگوں کو مار کوٹ کر دیوار سے لگا دیا اور پھر خود کو دو حصوں یعنی شتریہ اور پروہت یا کھشتری و براہمن میں تقسیم کیا۔ اور مقامی لوگوں کو شودر قرار دیا۔ یعنی کمی کمین اور خادم۔۔۔

راجہ داہر کشمیری براہمن تھا۔ یعنی آریائی، نہ کہ سندھی! راجہ جے پال و دیگر ہندو راجے مہاراجے، حتیٰ کہ مراٹھے اور راجپوت۔۔۔ سب کے سب یا تو براہمن تھے یا کھشتری۔۔۔۔ یعنی جن راجوں مہاراجوں پہ مسلمانوں نے غلبہ حاصل کیا، وہ سب غاصب آریاؤں کی اولاد تھے۔ اور آریائی نسل نے جس دراوڑ نسل پہ غلبہ حاصل کیا وہ بھی غاصب تھی۔۔۔۔ اور دراوڑوں نے جن "کولوں” کو مغلوب کیا تھا وہ بھی باہر سے ہی آئے تھے۔۔۔

تو ایسے میں سوال ہے کہ بیرونی غاصب اور لٹیرے صرف مسلمان فاتحین ہی کیوں؟؟؟


مسلمانوں نے تو ظالم غاصب آریائی نسل پہ فتح حاصل کی اور ان کے بنائے ذات پات اور اونچ نیچ کے ظالمانہ اور غیر انسانی طبقاتی نظام کا اپنے زیر انتظام علاقوں میں خاتمہ کیا۔۔۔

تو پھر مسلم فاتحین سے نفرت کیوں؟


جواب صاف اور واضح ہے۔۔۔ کہ محمد بن قاسم کی فتح کے بعد جب براہمن، کھشتری اور ویشیا ہندوؤں نے دیکھا کہ جنہیں ہم شودر، ملیچ اور اچھوت کہتے تھے۔ کہ جو ہمارے سامنے ننگے پاؤں چلنے، پگڑی نہ باندھنے اور جھکنے کے پابند تھے، انہیں مسلمانوں نے ہمارے برابری کے حقوق دے دیے ہیں تو ان میں اس وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی اور ان نے مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا، مسلمانوں کے مظالم کی کہانیاں گھڑیں۔ یہ قصے کہانیاں سینا بہ سینا نسل در نسل منتقل ہوتی گئیں۔۔۔ اور آج بھی اونچی ذات کے ہندوؤں میں زبان زدِ عام ہیں۔ اور اب تو اس میں مذھب کا تڑکا بھی لگ گیا ہے



سوال یہ ہے کہ آج کل کے مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ مسلم فاتحین کی تحقیر کرتا نظر آتا ہے، ایسا کیوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ ان مسلمانوں میں اکثریت ان جہلاء کی ہے کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کے نسل درنسل پھیلائے گئے پراپیگنڈے سے متاثر ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ جو اونچی ذات کے ہندوؤں کی نسل میں سے ہیں کہ جن نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن ان کے لاشعور میں تاحال طبقاتی عصبیت موجود ہے اور وہ آج تک اپنے آباء کے گھڑے گئے جھوٹ کے سحر سے باہر نہیں نکل پائے۔

اور ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے کہ جو برائے نام مسلمان ہیں کہ جنہیں ہم سیکولر کہتے ہیں۔۔ ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔ انہیں اپنے مسلمان ہونے کا افسوس ہے، لیکن چونکہ یہ لوگ معاشرتی مجبوریوں کے باعث اسلام سے رشتہ نہیں توڑ سکتے۔۔۔ لہذا اپنی فرسٹریشن اسلام سے منسوب ہر اس شے پہ نکالتے ہیں کہ جو مسلمانوں کے نزدیک معتبر و محترم ہو۔۔۔ اور ایسا کر کے یہ خود کو روشن خیال اور اعتدال پسند باور کرواتے ہیں، حالانکہ ان سے بڑا جاہل اور ہٹ دھرم کوئی اور نہیں۔ کہ آریائی نسل کے ظالم راجے مہاراجے انکے نزدیک مظلوم ہیں لیکن مسلم فاتحین غاصب و لٹیرے کہ جن نے ان راجوں مہاراجوں کے ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا۔
 
Status
Not open for further replies.