راجہ داہر سپوتِ سندھ

Status
Not open for further replies.

منتظر

Minister (2k+ posts)
ہمارےہیرو عرب قاتل یا افغان ازبک مغل ترک لٹیرے نہیں ہمارے ہیرو پورس، راجہ دہر، دلا بھٹی ، رائے احمد خان کھرل، جیسے سپوت ہیں جنہوں نے بیرونی لٹیروں کے آگے پل باندھے اور اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی سلام ہو راجہ داہر پر جس نے سادات کی خاطر اپنی جان تک دے دی
 
Last edited:

M Ali Khan

Minister (2k+ posts)
Bin Qasim was a pathetic arab professional killer (Comparable to Abu Bakar baghdadi and ISIS of today) coming in from outside ....his main aim was to exterminate the entire population of Sindh (our ancestors).....Raja Dahir stood like a wall against this pathetic arab. Countless sindhis laid their lives for the defence of our land. Ultimately the arab killers were stopped and killed like cats and dogs by our neighboors in rajasthan (Known as battles of rajasthan) and these killers were stopped.
MBQ was nothing compared to his savage brutal tyrannical boss Hajjaj Bin Yousaf (another Pak Studies ka fake Muslim hero)
 

Night-Hawk

Senator (1k+ posts)
I have an old column of Nadeem F. Paracha - a liberal writer, with his own entrenched views, and with whom I do not concur. Though it isn't a historical piece, yet it gives some insight into the common folklore and associated stories with the said shrine and its occupant.

 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)


دس رمضان کو راجہ داہر کی برسی تھی جو کہ اس دھرتی کا سپوت تھا جس نے سندھ اور اس دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دیدی۔
راجہ داہر نے حملہ آور محمد بن قاسم کا مقابلہ کیا اور اس مٹی کیخاطر جان قربان کردی۔۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا قاتل محمد بن قاسم تھا جس نے انکو ٹھٹھہ شہر میں قتل کیا سر کاٹ کے حجاج بن یوسف کو بھیجا اور لاش کراچی کے ساحل پہ چھپایا گیا۔ لیکن خون ناحق کبھی چُھپتا نہیں ہے۔
مغالطہ پاکستان اور سرکاری تاریخ کے متاثرین سے معذرت کے ساتھ 10رمضان المبارک اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم حکمران راجہ ڈاھر کا یوم شہادت ھے۔۔۔ آج اس دھرتی کے عظیم ھیرو مہاراجہ داھر کا یوم شہادت ھے. جبکہ اس بہادر سپوت کا جرم صرف اھل بیت اور سادات کو پناہ دینا ٹھہرا.
بغداد کے گورنر نے راجہ ڈاھر کو کئی خطوط لکھ کر ان اھل بیت اور سادات کو ان کے سپرد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے اپنی زمین پر پناہ لینے والوں کو ظالموں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
بنو امیہ کے حکمران اس سے پہلے سندھ پر سولہ حملے کر چکے تھے۔ سترھواں حملہ اسلامی تاریخ کے انتہائی ظالم اور سفاک کردار حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید کے حکم پر محمد بن قاسم ثقفی نے کیا اور اروڑ کے مقام پر راجہ داھر نے اپنی پناہ میں موجود اھل بیت کی حفاظت کرتے ہوئے 10 رمضان المبارک ( 712 بمطابق عیسوی سال) کو جام شہادت نوش کیا.
مہاراجہ ڈاھر کی افواج کی کمان محمد بن علافی نے کی اور متعدد نامور مسلمان مہاراجہ داھر کے مشیر متعین تھے.
اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم مہاراجہ کی قربانی اور شہادت پر انکی عظمت کو سلام
راجہ پورس، رنجیت سنگھ، دلا بھٹی، بھگت سنگھ، نظام لوھار، ملنگی، راجہ داھر اور رائے احمد خان کھرل وغیرہ اس مٹی کےاصل ھیروز ہیں نہ کہ مسخ شدہ تاریخ پر مبنی نصابی کتب میں بتائے جانے والے غیر ملکی غاصب لٹیرے

خدارا نصابی تاریخ درست کریں تاکہ عوام میں پراعتمادی آئے اور قوم خود پر فخر کرنا سیکھے

ویسے ھم انگریزوں کے غیرممالک پر حملے اور قبضے کو سامراجی جارحیت و قبضہ کہتے ھیں لیکن مسلمان حکمرانوں کی ماضی میں ایسی وارداتوں کو اسلامی فتوحات سے تعبیر کرتے ھیں۔ کیوں؟

اور ھاں۔۔۔۔ سرکاری بیانیے اور مسخ شدہ نصابی تاریخ سے متاثرہ ننھے ذھنوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت کی کہ ان کا ھیرو محمد بن قاسم سترہ سال کی عمر میں یہاں قبضہ مکمل کرلینے کے بعد اچانک تاریخ سے کہاں غائب ھوگیا اور اس کی موت کیسے اور کیوں ھوئی؟ یہاں آ کر آپ کی تاریخ اور راوی خاموش ھوجاتے ھیں


اب وقت آ گیا ھے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے بچوں کو سکولوں میں سچ بتایا جائے اور انہیں عرب اور مغل تاریخ کے بجائے اپنی تاریخ پڑھائی جائے۔

اندھوں کے شہر میں، آئینے بیچتا ھوں میں




دس رمضان کو راجہ داہر کی برسی تھی جو کہ اس دھرتی کا سپوت تھا جس نے سندھ اور اس دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دیدی۔
راجہ داہر نے حملہ آور محمد بن قاسم کا مقابلہ کیا اور اس مٹی کیخاطر جان قربان کردی۔۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا قاتل محمد بن قاسم تھا جس نے انکو ٹھٹھہ شہر میں قتل کیا سر کاٹ کے حجاج بن یوسف کو بھیجا اور لاش کراچی کے ساحل پہ چھپایا گیا۔ لیکن خون ناحق کبھی چُھپتا نہیں ہے۔
مغالطہ پاکستان اور سرکاری تاریخ کے متاثرین سے معذرت کے ساتھ 10رمضان المبارک اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم حکمران راجہ ڈاھر کا یوم شہادت ھے۔۔۔ آج اس دھرتی کے عظیم ھیرو مہاراجہ داھر کا یوم شہادت ھے. جبکہ اس بہادر سپوت کا جرم صرف اھل بیت اور سادات کو پناہ دینا ٹھہرا.
بغداد کے گورنر نے راجہ ڈاھر کو کئی خطوط لکھ کر ان اھل بیت اور سادات کو ان کے سپرد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے اپنی زمین پر پناہ لینے والوں کو ظالموں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
بنو امیہ کے حکمران اس سے پہلے سندھ پر سولہ حملے کر چکے تھے۔ سترھواں حملہ اسلامی تاریخ کے انتہائی ظالم اور سفاک کردار حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید کے حکم پر محمد بن قاسم ثقفی نے کیا اور اروڑ کے مقام پر راجہ داھر نے اپنی پناہ میں موجود اھل بیت کی حفاظت کرتے ہوئے 10 رمضان المبارک ( 712 بمطابق عیسوی سال) کو جام شہادت نوش کیا.
مہاراجہ ڈاھر کی افواج کی کمان محمد بن علافی نے کی اور متعدد نامور مسلمان مہاراجہ داھر کے مشیر متعین تھے.
اس دھرتی کے بہادر سپوت اور عظیم مہاراجہ کی قربانی اور شہادت پر انکی عظمت کو سلام
راجہ پورس، رنجیت سنگھ، دلا بھٹی، بھگت سنگھ، نظام لوھار، ملنگی، راجہ داھر اور رائے احمد خان کھرل وغیرہ اس مٹی کےاصل ھیروز ہیں نہ کہ مسخ شدہ تاریخ پر مبنی نصابی کتب میں بتائے جانے والے غیر ملکی غاصب لٹیرے

خدارا نصابی تاریخ درست کریں تاکہ عوام میں پراعتمادی آئے اور قوم خود پر فخر کرنا سیکھے

ویسے ھم انگریزوں کے غیرممالک پر حملے اور قبضے کو سامراجی جارحیت و قبضہ کہتے ھیں لیکن مسلمان حکمرانوں کی ماضی میں ایسی وارداتوں کو اسلامی فتوحات سے تعبیر کرتے ھیں۔ کیوں؟

اور ھاں۔۔۔۔ سرکاری بیانیے اور مسخ شدہ نصابی تاریخ سے متاثرہ ننھے ذھنوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت کی کہ ان کا ھیرو محمد بن قاسم سترہ سال کی عمر میں یہاں قبضہ مکمل کرلینے کے بعد اچانک تاریخ سے کہاں غائب ھوگیا اور اس کی موت کیسے اور کیوں ھوئی؟ یہاں آ کر آپ کی تاریخ اور راوی خاموش ھوجاتے ھیں


اب وقت آ گیا ھے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے بچوں کو سکولوں میں سچ بتایا جائے اور انہیں عرب اور مغل تاریخ کے بجائے اپنی تاریخ پڑھائی جائے۔

اندھوں کے شہر میں، آئینے بیچتا ھوں میں


it was funny...and stupid...secondly! all muslims are one...there is no us and them...stop creating divide...whether it was muslims in sindh or arabs..does not make any difference to us...
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
محمد بن قاسم سندھ میں سادات کا قتل عام کرنے آیا تھا اسلام پھیلانے نہیں ٩٠ سال تک جنہوں نے منبروں سے حضرت علی ع پر الاعلان سب و شتم کرتے رہے انکو اسلام سے کیا لینا دینا ؟


مورخین نے لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف نے درج ذیل وجوہات کے باعث محمد بن قاسم کو لشکر دے کر سندھ بھیجا
١.ایک تجارتی قافلہ سراندیپ سے عورتوں اور بچوں کا آرہا تھا جسے بحری ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور عورتوں کو گرفتار کر لیا ایک عورت کی زبان سے بے اختیار فریاد نکلی کہ حجاج بن یوسف مدد کر حجاج بن یوسف تک اس عورت کی فریاد پہنچی تو اس نے کاروائی کا حکم دیا
یہ قصہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ حجاج بن یوسف ایک مظلوم عورت کی قید برداشت نہ کر سکا اسکے خلاف فوج کشی کی حالانکہ مورخین نے خود لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف کے مظالم سے ہزاروں لاکھوں خواتین اسلامی حکومت میں بیوہ اور ظلم کا شکار ہو رہی تھیں انکے شوہروں کو سرعام ذبح کیا جارہا تھا انکے گھروں کو جلایا جارہا تھا عورتوں بچوں کو بے گھر کیا جارہا تھا مسلمان عورتوں کو بیوہ کیا جارہا تھا عزت پر حملے ہو رہے تھے ایسے شخص کو ایسے انداز سے پیش کرنا کہ وہ ایک مسلمان عورت پر ظلم برداشت نہ کر سکا اور فوجی کشی کی بالکل احمقانہ اور مضحکہ خیز ہے
٢.دوسری وجہ مورخین نے درج کی کہ چونکہ سندھ کا راجہ داہر ہندؤ تھا اور عوام میں زیادہ بدھ مت کے پیروکار تھے لہذا وہ بدھ مت کے ماننے والوں ظلم کرتا تھا یہ بات بھی کتنی عقل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ غیر مسلم رعایا پر راجہ کا ظلم حجاج سے برداشت نہ ہو سکا جزبہ ہمدردی کے تحت محمد بن قاسم کو بھیجا حالانکہ مورخین نے حجاج کے متعلق لکھا کہ اسکے اپنے دور حکومت کسی کا مال و جان محفوظ نہ تھا حجاج اک ظالم تھا اس نے لاکھوں بے گناہ کے لہو سے ہاتھ رنگے اس نے کعبہ کی کوئی پروا نہ کی صحابیوں اور انکی اولاد کو قتل کرنے کے لیے کعبہ پر سنگ باری کی وہ خود کہتا تھا کہ مجھے لوگوں کا خون بہانے میں لذت محسوس ہوتی ہے جب وہ پیدا ہوا تو ماں کے دودھ کو منہ تک نہ لگایا حکماء نے تجویز دی کہ اسکو بھڑیے کا دودھ پلایا جائے اسکو تین دن تک مسلسل بھڑیے کا خون پلایا گیا عمر بن عبدالعزیر کا قول ہے کہ اگر دنیا اپنے تمام خبیث لے کر آئے ہم انکے مقابلے میں اکیلا حجاج کھڑا کرکے بازی لے سکتے ہیں لکھا ہے کہ اسکےدور میں ڈیڑھ لاکھ بے گناہ قتل ہوئےجبکہ ایک لاکھ بے گناہ قیدی تھے جو جیلوں میں سڑ رہے تھے جو مسلمان رعایا کے لیے ہمدردی نہ رکھتا ہو وہ غیر مسلم کے لیے جزبہ ہمدردی رکھتا ہو تعجب کی بات ہے رسول اکرم ع نے فرمایا میری امت میں ایک بدترین ظالم پیدا ہو گا جسکا نام حجاج ہو گا(ترمذی)
٣.مورخین نے تیسری وجہ سندھ پر حملے کی جو بیان کی قابل غور ہے عرب حکومت کے کچھ باغیوں نے راجہ دہر کے پاس سندھ میں پناہ لی تھی حجاج کے بار بار اصرار کرنے کے باوجود بھی راجہ دہر انکو واپس نہیں کر رہا تھا وہ باغی کون تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا وہ باغی اولاد رسول ع اور شیعان علی ع تھے جو حجاج کے مظالم سے تنگ آکر اپنی جان بچانے کے لیے سندھ چلے آئے تھے چونکہ خلافت امیرالمومنین ع میں سندھ فتح ہو چکا تھا اور اسکی عوام میں حضرت علی ع اور اولاد حضرت علی ع کی محبت پیدا ہو چکی تھی یہاں لوگ سادات کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا جب انہوں نے انکار کیا تو سندھ پر فوج کشی کی تو حجاج نے سادات کو قتل کرنے کے لیے محمد بن قاسم کو لشکر دے کر بھیجا ورنہ راجہ دہر تو کراچی میں مارا گیا تھا محمد بن قاسم ملتان لینے کیا آیا وہ یہاں سادات کی تلاش میں آیا تھا ملتان کے نزدیک سادات مل گئے لیکن انکی بزرگی پارسائی اور اخلاق سے متاثر ہوکر انکو چھوڑ دیا سرائیکی کتاب"تاریخ مہڑ" میں محمد بن قاسم کا یہاں ایک سید بزرگ کا مرید ہونا درج ہے جب یہ خبر حاکم عرب کو ملی تو اس نے محمد بن قاسم کو واپس بلوا کر قتل کر دیا چناچہ "سندھ اور سید" مصنف جی ایم سید بزرگ سیاستدان نے لکھا تاریخ اسلام پر پردہ ڈالنے کے لیے مورخین سراندیپ کے تاجروں اور عورت کی فریاد کا قصہ گھڑا اور نہ اس وقت سر اندیپ اور عرب کے درمیان کوئی تجارت تھی اور نہ تاجروں کو ڈاکوؤں نے لوٹا تھا یہ سارا افسانہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے سادات دشمنی میں گھڑا حقیقت میں حجاج نے سادات کی تلاش میں محمد بن قاسم کو بھیجا تھا
عبدالملک بن مروان کی خلافت (٦٥ھ) کے دسویں سال حجاج بن یوسف والی عراق ہوئے چونکہ سندھ وغیرہ کا تعلق عراقی حکومت سے تھا اس لیے حجاج نے اپنی حکومت کے پہلے ہی سال یعنی ٧٥ ہجری میں سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران اور سندھ کے سمندری کناروں کا گورنر مقرر کیا سعید بن اسلم مکران میں صفوی بن لام الحمامی کے قتل کرنے کے بدلے میں مارے گے جس کے بعد تاریخوں میں ایک واقعہ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کو دکھایا گیا ہے سراندیپ کے راجہ نے تحائف بھیجے بحری قزافوں کا لوٹنا وغیرہ اس واقعہ کی تفصیل اوپر لکھی جا چکی خلیفہ کے حکم سے حجاج نے بدیل کی نگرانی میں ایک فوج بھیجی جو بدیل سمیت لڑنے کے بعد ماری گی اور سندھ پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لیے حجاج نے محمد بن قاسم کو مقرر کیا
تاریخ سندھ کے مصنف مولانا ابوالظفر ندوی نے اس سلسلے میں سادات کشی کے متعلق بالکل صیح روایات لکھی ہیں اسی زمانے میں ایک اور بات پیدا ہو گئ جس کے باعث حجاج کو سندھ فتح کرنے کی ایک ضد ہو گئ عبدالرحمن بن محمد بن اشعت بغاوت کی پاداش میں قتل کیا گیا اور تمام ساتھی بھی اسی گھاٹ اتارے گئے لیکن اس جماعت کا اک بااثر شخص عبدالرحمن ابن عباس بن ربعیہ بن حارث بن عبدالمطلب جان بچا کر نکلا اور سندھ میں آکر پناہ گزین ہوا حجاج اس سے انتقام لینا اولین فرض سمجھتا تھا اس لیے اس مسئلے پر پہلے سے زیادہ توجہ کرنے لگا
اس سسلے میں ندوی صاحب پھر آگے لکھتے حجاج نے ان تمام امور پر غور و فکر کرکے ایک فوج تیار کی اور اسکی افسری کے لیے محمد بن قاسم کا انتخاب کیا جو صوبہ فارس میں تھا اور کسی ضروری امر کے واسطے رے جانے کا حکم پاچکا تھا وہ اسی تیاری میں تھا کہ حجاج کا حکم پہنچا کہ رے کے عوض تم سندھ جاؤ فی الحال اس فوج کا جو تمہارے لیے بھیج رہا ہوں انتظار کرو
مذکورہ بالا بیان سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ حجاج نے محمد بن قاسم کو سندھ میں صرف سادات کے قتل و غارت کے لیے بھیجا تھا سندھ میں حجاج کا یہ ہی مقصد اور مطلب تھا کہ یہاں اولاد اہل بیت ع اور اہل بیت ع کے ماننے والوں کا نام و نشان باقی نہ رہے اور علوم اہل بیت ع کی تعلیم بھی عام نہ ہو کیونکہ محمد بن قاسم اموی تھا اسکے علاوہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد بھی تھا
٨١ ہجری میں فتنہ ابن لاشعت نے حجاج بن یوسف کے مظالم کے خلاف خروج کیا جس میں بصرہ کے قراء عابدوں اور زاہدوں نے حصہ لیا اور اس تحریک کا خاتمہ ٨٣ ہجری میں ہوا اسی سال محمد بن قاسم فارس کے حکمران ہوئے انہیں بھی قراء عابدوں اور زاہدوں کے خلاف سخت کروائی کرنا پڑی ابن اشعت کے ساتھ خروج کرنے والوں میں عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی بھی تھا اور ناکامی کے بعد اشعت کے لوگ مصر کے مختلف شہروں میں جاکر پناہ گزیں ہوئے تو عطیہ عوفی فارس کے علاقے میں پہنچا اس وقت محمد بن قاسم فارس کا امیر اور حاکم تھا حجاج نے اسے عطیہ عوفی کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لیے لکھا اور محمد بن قاسم نے اسکے حکم کی تکمیل کی حافظ حقانی علامہ ابن سعد طبقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عطیہ نے ابن اشعت کے ساتھ حجاج کے خلاف خروج کیا جب ابن اشعت کی فوج نے شکست کھائی تو عطیہ فارس کی طرف بھاگ گیا حجاج نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ عطیہ کو گرفتار کرے اگر وہ حضرت علی ابن ابی طالب ع پر معاذ اللہ سب و شتم کرے تو چھوڑ دو ورنہ اسکو چار سو کوڑے لگاؤ اور اسکے سر اور داڑھی کے بال کٹواؤ
محمد بن قاسم نے عطیہ کو بلوایا اور حجاج بن یوسف کا خط پڑھ کر سنایا جب اس نے اس فعل سے انکار کیا تو اسے چار سو کوڑے لگائے گئے سر اور داڑھی کے بال کٹوائے عطیہ اس حادثہ کے بعد بھی فارس میں رہے اسکے بعد خراسان چلے گئے اور ١٠٢ ہجری میں جب عمر بن ہیمبرہ عراق کا جب امیر ہوا تو اسکی اجازت سے کوفے میں آکر زندگی کے باقی دن گزارے یہاں تک کہ ١١١ھ میں اسکا انتقال ہوا
محمد بن قاسم سندھ میں ٩٢ ہجری میں اس وقت آیا جب اسکی عمر ١٥ یا ١٧ سال بتائی جاتی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس نے مکران فزپور ارمائیل اور دیبل کو فتح کیا اسکے بعد نیرون کوٹ(حیدرآباد ) کو فتح کرکے حجاج سے آگئے بڑھنے کی اجازت مانگی حجاج نے اسے لکھا کہ جہاں تک فتح کرتے جاؤ گے وہاں تک تمہاری حکومت ہو گی اسکے بعد محمد بن قاسم نے اپنی فاتحانہ سرگرمیاں تیز کر دیں یہاں تک کہ سندھ عبور کرکے سدوسان کو فتح کیا اور ساحلی علاقوں میں راجہ دہر سے انکا مقابلہ ہوا جس میں وہ مارا گیا اسکے بعد آگے بڑھ کر اروڑ اور دوسرے بہت سارے شہر فتح کیے
محمد بن قاسم نے جب برہمن آباد کو بھی فتح کر لیا تو وہاں راجہ دہر کی بیوی رانی لاڈلی بھی تھی عرب سپاہی رانی لاڈلی اسکی دو بیٹیوں اور برہمن آباد کے قلعے میں دوسری راجہ دہر کی رانیوں کو دوسرے عالم لوگوں کے ساتھ قید کرکے بمعہ مال غنیمت محمد بن قاسم کے سامنے لائے اور اسے جب معلوم ہوا کہ یہ راجہ دہر کی مستورات ہیں تو اس نے حکم دیا کہ انکی عزت کی جائے اور انہیں اسطرح بے نقاب اور سر برہنہ نہ رکھا جائے چناچہ ان سب کے چہروں پر نقاب ڈالے گئے اور وہ ایک معتمد ملازم کے حوالے کی گئیں
کہا جاتا ہے کہ صرف ان قیدیوں کا شمار جو بیت المال کے لیے الگ رکھے گئے تھے بیس ہزار تھا اسکے علاوہ بچے ہوئے قیدی فوج میں تقسیم کیے گئے چھ ہزار لوگوں کو تہ تیغ کیا گیا چھ ہزار بے گناہوں کا قتل اور پھر بڑے فخر سے محمد بن قاسم کے اس قتل غارت کو سندھ میں اسلام پھیلانے کا نام دیا جاتا ہے تاریخ سندھ میں عبدالحلیم شرر نے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے شہر میں اعلان کروایا کہ راجہ دہر کی رانی لاڈلی جہاں کہیں بھی ہو میرے سامنے لایا جائے چناچہ محمد بن قاسم کے سامنے رانی کو پیش کیا گیا اس نے راجہ رانی کی لاڈلی سے شادی کی اور راجہ کی دونوں بیٹیوں کو جن میں سے ایک کا نام سورج دیوی اور چھوٹی کا نام پرمل دیوی تھا خلیفہ ولید بن عبدالملک کو بغداد بھیجیں ولید نے دونوں کو اپنے سامنے بلایا اور مترجم سے کہا ان سے پوچھو ان میں سے بڑی کون ہے سورج دیوی نے کہا میں بڑی ہوں خلیفہ نے بڑی بہن کو خلوت میں بلوایا اور چھوٹی کو دوسرے وقت کے لیے رکھا سورج دیوی نے جب خلیفہ کے سامنے گھونگٹ کو اٹھایا تو خلیفہ اس پر ہزار جان سے عاشق ہو گیا اور بیتابی سے سورج دیوی کو اپنی جانب کھینچا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور باادب عرض کی میں بادشاہ کے راحت بستر کے قابل نہیں ہوں کیونکہ محمد بن قاسم نے ہم دونوں کو تین دن تک اپنی خلوت میں رکھ کر حضور کے عشرت سرا میں بھیجا ہے شاید یہاں پر یہ ہی دستور ہو مگر بادشاہوں کو تو اس طرح رسوائی برداشت نہیں کرنی چاہیے یہ سن کر خلیفہ نے غصے میں محمد بن قاسم کو خط لکھا تم فورا" اپنے آپ کو کچی کھال میں بند کروا کے خلیفہ کے دربار میں حاضر ہو اس وقت محمد بن قاسم اڈھا پور میں تھا فورا حکم کی تکمیل میں اپنے آپ کو کھال میں بند کروا کر عراق کی طرف روانہ کیا مگر دو دن بعد خود ہی راستے میں مر گیا اور خلیفہ نے محمد بن قاسم کے مرنے کے بعد راجہ دہر کی بیٹیوں کو اپنے سامنے زندہ دیواروں میں چنوایا ایک اور روایت کے مطابق وہ لڑکیاں گھوڑے کی دم میں باندھ کر گھسیٹی گئیں جس کی تکلیف سے وہ مر گئیں اور آخر میں انکی لاش کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا
محمد بن قاسم کی موت کے بعد اسکا بیٹا عمر بن محمد بن قاسم بیس سال تک سندھ میں مختلف حثیتیوں میں رہا اور سندھ میں ہی مر گیا یہ ١٠٥ ھ سے ١٢٠ھ تک حکم بن عوانہ کلبی کی رفاقت اور معیت میں سندھ کی حکومت کے فرائض انجام دیتا رہا ١٢٢ ھ سے ١٢٦ھ تک سندھ پر مستقل امیر و حاکم بن فتح حاصل کی ١٢٥ھ میں انہیں معزول کیا گیا ١٢٦ھ میں سندھ کے والی محمد بن غزان کلبی انہیں گرفتار کیا اور اسی قید میں مر گیا
عمر بن محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنے دورہ حکومت محمد بن غزان کلبی کو گرفتار کیا اور انہیں زدوکوب کرکے والی عراق یوسف بن عمرو کے پاس بھیجا جیسا کہ محمد بن غزان کلبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس خاندان سے وہب کلبی ایک مرد مجاہد تھا جس نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین ع پر اپنا سر قربان کیا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ یوسف نے بھی محمد بن غزان کلبی کو سزا دی اور ایک بڑی رقم جرمانے کے طور پر عائد کی اور حکم دیا ہر جمعہ کے دن اس رقم کا ایک حصہ ادا کرتا رہے ورنہ عدم ادائیگی کی صورت میں پچیس درے لگائیں جائیں یہ رقم محمد بن غزان کلبی ادا نہ کر سکا اور درے کھاتا رہا جسکی وجہ سے اسکے ہاتھ کی انگلیاں سوکھ گئیں
یزید بن ولید بن عبدامللک نے ١٢٦ھ میں خلیفہ ہوتے ہی یوسف عمرو کی جگہ عراق کی گورنری منصور بن جمور کلبی کو دی جب یہ یوسف کو معلوم ہوا تو وہ ملک شام کی طرف بھاگ گیا منصور بن جمور نے عراق کا گورنر سندھ کی حکومت میں رد و بدل کیا اور یزید بن عرار کو معزول کرکے اسکی کی جگہ عمر بن محمد بن قاسم کے حریف محمد بن غزان کلبی کو مقرر کیا اسکے ساتھ انہیں سجستان اور سندھ کی حکومت بھی دی اس نے سندھ میں آکر سب سے پہلا کام یہ کیا عمر بن محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے قید کر دیا اور بعد میں عمرو محمد بن غزان کلبی کی قید میں اپنی ہی تلوار سے اپنا ہی پیٹ چاک کرکے مر گیا
مذکورہ محمد بن قاسم اور اسکے بیٹے کے بیان کردہ مختصر حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکا نہ صرف اموی خاندان سے تعلق تھا یہ سندھ میں اسلام پھیلانے کے لئے نہیں بلکہ انہیں حجاج بن یوسف نے سادات کو قتل کرانے کے لیے بھیجا تھا کیونکہ حجاج سادات کرام کی نسل کشی کا منصوبہ رکھتا تھا اور اہل بیت ع کے خون کا پیاسہ تھا یہ ہی وجہ تھی کہ سادات کرام اور محبان اہل بیت ع سندھ میں پناہ گزیں ہوئے اسطرح سندھ اولاد فاطمہ زہرا ع کے لیے آغوش مادر بنتی رہی اور سعادت در سعاد حاصل کرتی رہی

پس اسلام سندھ میں حضرت علی ع کے دور میں آیا ناں کہ محمد بن قاسم کے دور میں وہ بنوامیہ ہی کے لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی ع پر ٩٠ سال تک منبروں پر علی الاعلان سب و ستم کروایا کیونکہ یہ اہل بیت ع اور اسلام کے دشمن تھے پھر بھلا یہ سندھ میں کس طرح اسلام پھیلا سکتے تھے یہ لوگ تو سندھ میں صرف اپنا مطلب اور مقصد کے حصول کے لیے آئے تھے یعنی اہل بیت ع کے نام و نشان کو مٹانے اور سندھ میں بے گناہ اور مظلوم سادات کی نسل کشی کرنے


ماخذ
١.سندھ اور اہل بیت ع
٢. حقائق بیاں طلب​
 
Last edited:

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
اس دھرتی کا اصل بیٹا اشوک تھا جس نے براہمنوں کا ہولوکاسٹ کیا تھا افسوس اس کے دل میں ھمدردی پیدا ہو گئی اور وہ کچھ سانپوں پر رحم کھا گیا لیکن اس سانپ جات براہمن نے کوئی رحم نہیں کھایا اور اشوک کا خاندان مار ڈالا ، اس کے بعد انہی سانپوں کی نسل سے راجہ داہر کا داد چچ تھا جس نے سندھ دھرتی کے اصل بیٹے رائے سا ھسی کا خاندان مار کر سندھ کے سوریا راج پر شب خون مارا تھا . خون کافر ہو تو کلمہ بھی مسلمان نہیں کر سکتا . آج اسی هندو جات کے مسلمان براہمنوں کا دل راجہ داہر کا لیے رو رہا لیکن پانچ ہزار سال سے سندھ میں برسر اقتدار رہنے والے سوریا خاندان کو رونے والا کوئی نہیں . راجہ داہر ایک غاصب کا بیٹا تھا وہ اس نے مقامی بدھ مت لوگوں پر ظلم کیا تھا . سندھ دھرتی لعنت بھیجتی ہے براہمن راج اور ہندو راج پر - اس پر ہمیشہ سوری خاندان کا راج رہا لفظ سندس سورن دیس سے نکلا ہے . ہمیشہ سندھیوں نے کشمیری براہمنوں سے جنگیں لڑی ہیں . ہم سندھ کی تاریخ مسخ کرنے نہیں دیں گے . سوریا رائے سا ھسی زندہ باد . براہمن داہر مردہ باد . بدھ زندہ باد . ھندو مردہ باد . یہ دھرتی اسلام سے پہلے بدھ کی دھرتی تھی . ہم مسلمان سے پہلے بدھ تھے اس لیے ہندو براہمن مردہ باد وہ بھی محمد بن قاسم کی طرح حملہ آور تھے اور باہر سے آئے تھے - راجہ داہر سندھ دھرتی کا بیٹا نہیں تھا . راجہ داہر پر لعنت
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
حجاج بن یوسف کا انجام
حجاج کی موت کے بعد جب قیدیوں کو شمار کیا گیا تو ان میں ایک لاکھ بیس ہزار مرد اور بیس ہزار عورتیں تھیں اور ان میں چار ہزار ایسی عورتیں تھیں جن کے جسم پر لباس نہیں تھا اور یہ قیدی ایک ہی چار دیواری میں قید تھے قید خانہ کی چھت نہیں تھی جب کوئی قید گرمی سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کا سایہ بناتا تو زندان کے سپاہی اسکو پھتر مارتے تھے انہیں جو کی روٹی میں ریت ملا کر کھانا دیا جاتا اور پینے کے لیے انہیں کڑوا پانی دیا جاتا.
حجاج لعین بے گناہ افراد اور اور بالخصوص سادات کے خون بہانے کو اعزاز سمجھتا تھا
ایک مرتبہ اس ملعون نے روزہ رکھنا چاہا تو نوکروں کو حکم دیا کہ اس کے لیے من پسند سحری اور افطاری کا انتظام کیا جائے چناچہ اشارہ فہم نوکروں نے اس کے لیے ایسی روٹیاں تیار کیں جنہیں سادات کے خون سے گوندھا گیا تھا اس لعین نے اسی روٹیوں سے سحری افطاری کی اس ملعون کو ہمیشہ اس بات کا دکھ رہتا تھا کہ وہ کربلا میں موجود نہ تھا ورنہ وہ شمر سے بھی بڑھ کر ظلم کرتا .
حجاج نے کوفہ و بصرہ کے درمیان شہر واسط کی بنیاد رکھی تھی جہاں وہ نو ماہ سے زیادہ قیام نہ کر سکا اور ٥٣ سال کی عمر میں جہنم پہنچ گیا.
ابن خلکان لکھتے ہیں حجاج کو عرضہ آکلہ لا حق ہو گیا تھا اس کے جسم کے اندر بچھو نما کیڑے پیدا ہو گئے ایک طبیب کو بلایا گیا تو اس نے گوشت کا اک ٹکڑا ریشم کی رسی کے ساتھ باندھا اور حجاج کو کہا وہ اس گوشت کے ٹکڑے کو نگل لے حجاج نے گوشت کا ٹکڑا نگلا اور کچھ دیر بعد ریشم کی ڈور سے اس ٹکڑے کو کھینچا تو اس ٹکڑے پر بہت سارے کیڑے چمٹے ہوئے تھے


اللہ تعالی نے حجاج کے جسم پر سردی کو مسلط کر دیا اس کے اطراف میں دن رات کوئلوں کی انگھٹیاں جلائی جاتی تھیں لیکن وہ پھر بھی سردی سے چلاتا رہتا تھا اس نے حسن بصری سے اپنے درد و الم کی شکایت کی تو انہوں نے کہا میں نے تجھے بے گناہ افراد اور بالخصوص سادات کے قتل سے بارہا منع کیا تھا لیکن تو باز نہ آیا آج تو اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے حجاج نے کہا میں خدا سے یہ دعا نہیں کرتا کہ وہ مجھے دوزخ سے آزاد فرمائے میری بس اتنی سی دعا ہے جلدی سے میری روح قبض کر لے تاکہ میں دنیا کے درد و الم سے چھٹکارہ حاصل کر سکوں
قاضی نور اللہ شوستری مجالس المومنین میں لکھتے ہیں موت کے وقت حجاج رونے لگا وزیر نے رونے کا سبب پوچھا تو کہا میں نے لوگوں پر ظلم کیا ہے بالخصوص اولاد پغیمبر ع پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں
خوشامدی وزیر کہنے لگا امیر آپ کیوں گھبراتے ہیں آپ نے جو کچھ بھی کیا ہے دلیل و برہان کے ساتھ کیا ہے اور اسے کسی طرح بھی ظلم نہیں قرار دیا جا سکتا حجاج نے کہا اگر قیامت کے دن مجھے حکومت دی جائے اور تو اس دن میرا وزیر ہو تو اس دن بھی یہ ہی دلیل و برہان ہمیں کام دے گی سنو میں بخوبی جانتا ہوں میری موت کا وقت آچکا ہے اور دوزخ میرا انتظار کر رہی ہے خدا نے چاہا تو دوزخ میں بھی تیری اور میری جوڑی قائم رہے گی
کتاب: تاریخ پند جلد ٣
صفحہ:١٦٤
 

Night-Hawk

Senator (1k+ posts)
محمد بن قاسم سندھ میں سادات کا قتل عام کرنے آیا تھا اسلام پھیلانے نہیں ٩٠ سال تک جنہوں نے منبروں سے حضرت علی ع پر الاعلان سب و شتم کرتے رہے انکو اسلام سے کیا لینا دینا ؟


مورخین نے لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف نے درج ذیل وجوہات کے باعث محمد بن قاسم کو لشکر دے کر سندھ بھیجا
١.ایک تجارتی قافلہ سراندیپ سے عورتوں اور بچوں کا آرہا تھا جسے بحری ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور عورتوں کو گرفتار کر لیا ایک عورت کی زبان سے بے اختیار فریاد نکلی کہ حجاج بن یوسف مدد کر حجاج بن یوسف تک اس عورت کی فریاد پہنچی تو اس نے کاروائی کا حکم دیا
یہ قصہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ حجاج بن یوسف ایک مظلوم عورت کی قید برداشت نہ کر سکا اسکے خلاف فوج کشی کی حالانکہ مورخین نے خود لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف کے مظالم سے ہزاروں لاکھوں خواتین اسلامی حکومت میں بیوہ اور ظلم کا شکار ہو رہی تھیں انکے شوہروں کو سرعام ذبح کیا جارہا تھا انکے گھروں کو جلایا جارہا تھا عورتوں بچوں کو بے گھر کیا جارہا تھا مسلمان عورتوں کو بیوہ کیا جارہا تھا عزت پر حملے ہو رہے تھے ایسے شخص کو ایسے انداز سے پیش کرنا کہ وہ ایک مسلمان عورت پر ظلم برداشت نہ کر سکا اور فوجی کشی کی بالکل احمقانہ اور مضحکہ خیز ہے
٢.دوسری وجہ مورخین نے درج کی کہ چونکہ سندھ کا راجہ داہر ہندؤ تھا اور عوام میں زیادہ بدھ مت کے پیروکار تھے لہذا وہ بدھ مت کے ماننے والوں ظلم کرتا تھا یہ بات بھی کتنی عقل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ غیر مسلم رعایا پر راجہ کا ظلم حجاج سے برداشت نہ ہو سکا جزبہ ہمدردی کے تحت محمد بن قاسم کو بھیجا حالانکہ مورخین نے حجاج کے متعلق لکھا کہ اسکے اپنے دور حکومت کسی کا مال و جان محفوظ نہ تھا حجاج اک ظالم تھا اس نے لاکھوں بے گناہ کے لہو سے ہاتھ رنگے اس نے کعبہ کی کوئی پروا نہ کی صحابیوں اور انکی اولاد کو قتل کرنے کے لیے کعبہ پر سنگ باری کی وہ خود کہتا تھا کہ مجھے لوگوں کا خون بہانے میں لذت محسوس ہوتی ہے جب وہ پیدا ہوا تو ماں کے دودھ کو منہ تک نہ لگایا حکماء نے تجویز دی کہ اسکو بھڑیے کا دودھ پلایا جائے اسکو تین دن تک مسلسل بھڑیے کا خون پلایا گیا عمر بن عبدالعزیر کا قول ہے کہ اگر دنیا اپنے تمام خبیث لے کر آئے ہم انکے مقابلے میں اکیلا حجاج کھڑا کرکے بازی لے سکتے ہیں لکھا ہے کہ اسکےدور میں ڈیڑھ لاکھ بے گناہ قتل ہوئےجبکہ ایک لاکھ بے گناہ قیدی تھے جو جیلوں میں سڑ رہے تھے جو مسلمان رعایا کے لیے ہمدردی نہ رکھتا ہو وہ غیر مسلم کے لیے جزبہ ہمدردی رکھتا ہو تعجب کی بات ہے رسول اکرم ع نے فرمایا میری امت میں ایک بدترین ظالم پیدا ہو گا جسکا نام حجاج ہو گا(ترمذی)
٣.مورخین نے تیسری وجہ سندھ پر حملے کی جو بیان کی قابل غور ہے عرب حکومت کے کچھ باغیوں نے راجہ دہر کے پاس سندھ میں پناہ لی تھی حجاج کے بار بار اصرار کرنے کے باوجود بھی راجہ دہر انکو واپس نہیں کر رہا تھا وہ باغی کون تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا وہ باغی اولاد رسول ع اور شیعان علی ع تھے جو حجاج کے مظالم سے تنگ آکر اپنی جان بچانے کے لیے سندھ چلے آئے تھے چونکہ خلافت امیرالمومنین ع میں سندھ فتح ہو چکا تھا اور اسکی عوام میں حضرت علی ع اور اولاد حضرت علی ع کی محبت پیدا ہو چکی تھی یہاں لوگ سادات کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا جب انہوں نے انکار کیا تو سندھ پر فوج کشی کی تو حجاج نے سادات کو قتل کرنے کے لیے محمد بن قاسم کو لشکر دے کر بھیجا ورنہ راجہ دہر تو کراچی میں مارا گیا تھا محمد بن قاسم ملتان لینے کیا آیا وہ یہاں سادات کی تلاش میں آیا تھا ملتان کے نزدیک سادات مل گئے لیکن انکی بزرگی پارسائی اور اخلاق سے متاثر ہوکر انکو چھوڑ دیا سرائیکی کتاب"تاریخ مہڑ" میں محمد بن قاسم کا یہاں ایک سید بزرگ کا مرید ہونا درج ہے جب یہ خبر حاکم عرب کو ملی تو اس نے محمد بن قاسم کو واپس بلوا کر قتل کر دیا چناچہ "سندھ اور سید" مصنف جی ایم سید بزرگ سیاستدان نے لکھا تاریخ اسلام پر پردہ ڈالنے کے لیے مورخین سراندیپ کے تاجروں اور عورت کی فریاد کا قصہ گھڑا اور نہ اس وقت سر اندیپ اور عرب کے درمیان کوئی تجارت تھی اور نہ تاجروں کو ڈاکوؤں نے لوٹا تھا یہ سارا افسانہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے سادات دشمنی میں گھڑا حقیقت میں حجاج نے سادات کی تلاش میں محمد بن قاسم کو بھیجا تھا
عبدالملک بن مروان کی خلافت (٦٥ھ) کے دسویں سال حجاج بن یوسف والی عراق ہوئے چونکہ سندھ وغیرہ کا تعلق عراقی حکومت سے تھا اس لیے حجاج نے اپنی حکومت کے پہلے ہی سال یعنی ٧٥ ہجری میں سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران اور سندھ کے سمندری کناروں کا گورنر مقرر کیا سعید بن اسلم مکران میں صفوی بن لام الحمامی کے قتل کرنے کے بدلے میں مارے گے جس کے بعد تاریخوں میں ایک واقعہ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کو دکھایا گیا ہے سراندیپ کے راجہ نے تحائف بھیجے بحری قزافوں کا لوٹنا وغیرہ اس واقعہ کی تفصیل اوپر لکھی جا چکی خلیفہ کے حکم سے حجاج نے بدیل کی نگرانی میں ایک فوج بھیجی جو بدیل سمیت لڑنے کے بعد ماری گی اور سندھ پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لیے حجاج نے محمد بن قاسم کو مقرر کیا
تاریخ سندھ کے مصنف مولانا ابوالظفر ندوی نے اس سلسلے میں سادات کشی کے متعلق بالکل صیح روایات لکھی ہیں اسی زمانے میں ایک اور بات پیدا ہو گئ جس کے باعث حجاج کو سندھ فتح کرنے کی ایک ضد ہو گئ عبدالرحمن بن محمد بن اشعت بغاوت کی پاداش میں قتل کیا گیا اور تمام ساتھی بھی اسی گھاٹ اتارے گئے لیکن اس جماعت کا اک بااثر شخص عبدالرحمن ابن عباس بن ربعیہ بن حارث بن عبدالمطلب جان بچا کر نکلا اور سندھ میں آکر پناہ گزین ہوا حجاج اس سے انتقام لینا اولین فرض سمجھتا تھا اس لیے اس مسئلے پر پہلے سے زیادہ توجہ کرنے لگا
اس سسلے میں ندوی صاحب پھر آگے لکھتے حجاج نے ان تمام امور پر غور و فکر کرکے ایک فوج تیار کی اور اسکی افسری کے لیے محمد بن قاسم کا انتخاب کیا جو صوبہ فارس میں تھا اور کسی ضروری امر کے واسطے رے جانے کا حکم پاچکا تھا وہ اسی تیاری میں تھا کہ حجاج کا حکم پہنچا کہ رے کے عوض تم سندھ جاؤ فی الحال اس فوج کا جو تمہارے لیے بھیج رہا ہوں انتظار کرو
مذکورہ بالا بیان سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ حجاج نے محمد بن قاسم کو سندھ میں صرف سادات کے قتل و غارت کے لیے بھیجا تھا سندھ میں حجاج کا یہ ہی مقصد اور مطلب تھا کہ یہاں اولاد اہل بیت ع اور اہل بیت ع کے ماننے والوں کا نام و نشان باقی نہ رہے اور علوم اہل بیت ع کی تعلیم بھی عام نہ ہو کیونکہ محمد بن قاسم اموی تھا اسکے علاوہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد بھی تھا
٨١ ہجری میں فتنہ ابن لاشعت نے حجاج بن یوسف کے مظالم کے خلاف خروج کیا جس میں بصرہ کے قراء عابدوں اور زاہدوں نے حصہ لیا اور اس تحریک کا خاتمہ ٨٣ ہجری میں ہوا اسی سال محمد بن قاسم فارس کے حکمران ہوئے انہیں بھی قراء عابدوں اور زاہدوں کے خلاف سخت کروائی کرنا پڑی ابن اشعت کے ساتھ خروج کرنے والوں میں عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی بھی تھا اور ناکامی کے بعد اشعت کے لوگ مصر کے مختلف شہروں میں جاکر پناہ گزیں ہوئے تو عطیہ عوفی فارس کے علاقے میں پہنچا اس وقت محمد بن قاسم فارس کا امیر اور حاکم تھا حجاج نے اسے عطیہ عوفی کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لیے لکھا اور محمد بن قاسم نے اسکے حکم کی تکمیل کی حافظ حقانی علامہ ابن سعد طبقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عطیہ نے ابن اشعت کے ساتھ حجاج کے خلاف خروج کیا جب ابن اشعت کی فوج نے شکست کھائی تو عطیہ فارس کی طرف بھاگ گیا حجاج نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ عطیہ کو گرفتار کرے اگر وہ حضرت علی ابن ابی طالب ع پر معاذ اللہ سب و شتم کرے تو چھوڑ دو ورنہ اسکو چار سو کوڑے لگاؤ اور اسکے سر اور داڑھی کے بال کٹواؤ
محمد بن قاسم نے عطیہ کو بلوایا اور حجاج بن یوسف کا خط پڑھ کر سنایا جب اس نے اس فعل سے انکار کیا تو اسے چار سو کوڑے لگائے گئے سر اور داڑھی کے بال کٹوائے عطیہ اس حادثہ کے بعد بھی فارس میں رہے اسکے بعد خراسان چلے گئے اور ١٠٢ ہجری میں جب عمر بن ہیمبرہ عراق کا جب امیر ہوا تو اسکی اجازت سے کوفے میں آکر زندگی کے باقی دن گزارے یہاں تک کہ ١١١ھ میں اسکا انتقال ہوا
محمد بن قاسم سندھ میں ٩٢ ہجری میں اس وقت آیا جب اسکی عمر ١٥ یا ١٧ سال بتائی جاتی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس نے مکران فزپور ارمائیل اور دیبل کو فتح کیا اسکے بعد نیرون کوٹ(حیدرآباد ) کو فتح کرکے حجاج سے آگئے بڑھنے کی اجازت مانگی حجاج نے اسے لکھا کہ جہاں تک فتح کرتے جاؤ گے وہاں تک تمہاری حکومت ہو گی اسکے بعد محمد بن قاسم نے اپنی فاتحانہ سرگرمیاں تیز کر دیں یہاں تک کہ سندھ عبور کرکے سدوسان کو فتح کیا اور ساحلی علاقوں میں راجہ دہر سے انکا مقابلہ ہوا جس میں وہ مارا گیا اسکے بعد آگے بڑھ کر اروڑ اور دوسرے بہت سارے شہر فتح کیے
محمد بن قاسم نے جب برہمن آباد کو بھی فتح کر لیا تو وہاں راجہ دہر کی بیوی رانی لاڈلی بھی تھی عرب سپاہی رانی لاڈلی اسکی دو بیٹیوں اور برہمن آباد کے قلعے میں دوسری راجہ دہر کی رانیوں کو دوسرے عالم لوگوں کے ساتھ قید کرکے بمعہ مال غنیمت محمد بن قاسم کے سامنے لائے اور اسے جب معلوم ہوا کہ یہ راجہ دہر کی مستورات ہیں تو اس نے حکم دیا کہ انکی عزت کی جائے اور انہیں اسطرح بے نقاب اور سر برہنہ نہ رکھا جائے چناچہ ان سب کے چہروں پر نقاب ڈالے گئے اور وہ ایک معتمد ملازم کے حوالے کی گئیں
کہا جاتا ہے کہ صرف ان قیدیوں کا شمار جو بیت المال کے لیے الگ رکھے گئے تھے بیس ہزار تھا اسکے علاوہ بچے ہوئے قیدی فوج میں تقسیم کیے گئے چھ ہزار لوگوں کو تہ تیغ کیا گیا چھ ہزار بے گناہوں کا قتل اور پھر بڑے فخر سے محمد بن قاسم کے اس قتل غارت کو سندھ میں اسلام پھیلانے کا نام دیا جاتا ہے تاریخ سندھ میں عبدالحلیم شرر نے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے شہر میں اعلان کروایا کہ راجہ دہر کی رانی لاڈلی جہاں کہیں بھی ہو میرے سامنے لایا جائے چناچہ محمد بن قاسم کے سامنے رانی کو پیش کیا گیا اس نے راجہ رانی کی لاڈلی سے شادی کی اور راجہ کی دونوں بیٹیوں کو جن میں سے ایک کا نام سورج دیوی اور چھوٹی کا نام پرمل دیوی تھا خلیفہ ولید بن عبدالملک کو بغداد بھیجیں ولید نے دونوں کو اپنے سامنے بلایا اور مترجم سے کہا ان سے پوچھو ان میں سے بڑی کون ہے سورج دیوی نے کہا میں بڑی ہوں خلیفہ نے بڑی بہن کو خلوت میں بلوایا اور چھوٹی کو دوسرے وقت کے لیے رکھا سورج دیوی نے جب خلیفہ کے سامنے گھونگٹ کو اٹھایا تو خلیفہ اس پر ہزار جان سے عاشق ہو گیا اور بیتابی سے سورج دیوی کو اپنی جانب کھینچا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور باادب عرض کی میں بادشاہ کے راحت بستر کے قابل نہیں ہوں کیونکہ محمد بن قاسم نے ہم دونوں کو تین دن تک اپنی خلوت میں رکھ کر حضور کے عشرت سرا میں بھیجا ہے شاید یہاں پر یہ ہی دستور ہو مگر بادشاہوں کو تو اس طرح رسوائی برداشت نہیں کرنی چاہیے یہ سن کر خلیفہ نے غصے میں محمد بن قاسم کو خط لکھا تم فورا" اپنے آپ کو کچی کھال میں بند کروا کے خلیفہ کے دربار میں حاضر ہو اس وقت محمد بن قاسم اڈھا پور میں تھا فورا حکم کی تکمیل میں اپنے آپ کو کھال میں بند کروا کر عراق کی طرف روانہ کیا مگر دو دن بعد خود ہی راستے میں مر گیا اور خلیفہ نے محمد بن قاسم کے مرنے کے بعد راجہ دہر کی بیٹیوں کو اپنے سامنے زندہ دیواروں میں چنوایا ایک اور روایت کے مطابق وہ لڑکیاں گھوڑے کی دم میں باندھ کر گھسیٹی گئیں جس کی تکلیف سے وہ مر گئیں اور آخر میں انکی لاش کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا
محمد بن قاسم کی موت کے بعد اسکا بیٹا عمر بن محمد بن قاسم بیس سال تک سندھ میں مختلف حثیتیوں میں رہا اور سندھ میں ہی مر گیا یہ ١٠٥ ھ سے ١٢٠ھ تک حکم بن عوانہ کلبی کی رفاقت اور معیت میں سندھ کی حکومت کے فرائض انجام دیتا رہا ١٢٢ ھ سے ١٢٦ھ تک سندھ پر مستقل امیر و حاکم بن فتح حاصل کی ١٢٥ھ میں انہیں معزول کیا گیا ١٢٦ھ میں سندھ کے والی محمد بن غزان کلبی انہیں گرفتار کیا اور اسی قید میں مر گیا
عمر بن محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنے دورہ حکومت محمد بن غزان کلبی کو گرفتار کیا اور انہیں زدوکوب کرکے والی عراق یوسف بن عمرو کے پاس بھیجا جیسا کہ محمد بن غزان کلبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس خاندان سے وہب کلبی ایک مرد مجاہد تھا جس نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین ع پر اپنا سر قربان کیا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ یوسف نے بھی محمد بن غزان کلبی کو سزا دی اور ایک بڑی رقم جرمانے کے طور پر عائد کی اور حکم دیا ہر جمعہ کے دن اس رقم کا ایک حصہ ادا کرتا رہے ورنہ عدم ادائیگی کی صورت میں پچیس درے لگائیں جائیں یہ رقم محمد بن غزان کلبی ادا نہ کر سکا اور درے کھاتا رہا جسکی وجہ سے اسکے ہاتھ کی انگلیاں سوکھ گئیں
یزید بن ولید بن عبدامللک نے ١٢٦ھ میں خلیفہ ہوتے ہی یوسف عمرو کی جگہ عراق کی گورنری منصور بن جمور کلبی کو دی جب یہ یوسف کو معلوم ہوا تو وہ ملک شام کی طرف بھاگ گیا منصور بن جمور نے عراق کا گورنر سندھ کی حکومت میں رد و بدل کیا اور یزید بن عرار کو معزول کرکے اسکی کی جگہ عمر بن محمد بن قاسم کے حریف محمد بن غزان کلبی کو مقرر کیا اسکے ساتھ انہیں سجستان اور سندھ کی حکومت بھی دی اس نے سندھ میں آکر سب سے پہلا کام یہ کیا عمر بن محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے قید کر دیا اور بعد میں عمرو محمد بن غزان کلبی کی قید میں اپنی ہی تلوار سے اپنا ہی پیٹ چاک کرکے مر گیا
مذکورہ محمد بن قاسم اور اسکے بیٹے کے بیان کردہ مختصر حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکا نہ صرف اموی خاندان سے تعلق تھا یہ سندھ میں اسلام پھیلانے کے لئے نہیں بلکہ انہیں حجاج بن یوسف نے سادات کو قتل کرانے کے لیے بھیجا تھا کیونکہ حجاج سادات کرام کی نسل کشی کا منصوبہ رکھتا تھا اور اہل بیت ع کے خون کا پیاسہ تھا یہ ہی وجہ تھی کہ سادات کرام اور محبان اہل بیت ع سندھ میں پناہ گزیں ہوئے اسطرح سندھ اولاد فاطمہ زہرا ع کے لیے آغوش مادر بنتی رہی اور سعادت در سعاد حاصل کرتی رہی

پس اسلام سندھ میں حضرت علی ع کے دور میں آیا ناں کہ محمد بن قاسم کے دور میں وہ بنوامیہ ہی کے لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی ع پر ٩٠ سال تک منبروں پر علی الاعلان سب و ستم کروایا کیونکہ یہ اہل بیت ع اور اسلام کے دشمن تھے پھر بھلا یہ سندھ میں کس طرح اسلام پھیلا سکتے تھے یہ لوگ تو سندھ میں صرف اپنا مطلب اور مقصد کے حصول کے لیے آئے تھے یعنی اہل بیت ع کے نام و نشان کو مٹانے اور سندھ میں بے گناہ اور مظلوم سادات کی نسل کشی کرنے



I do not find a single reference to Ghazi's special relationship with Raja Dahir, and that Muhammad Ibn Qasim killed Ghazi in this whole emotionally motivated sectarian write-up. What if Ghazi or his henchmen aided and abetted Ibn Qasim in his punitive campaign against Dahir? Please enlighten
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
I do not find a single reference to Ghazi's special relationship with Raja Dahir, and that Muhammad Ibn Qasim killed Ghazi in this whole emotionally motivated sectarian write-up. What if Ghazi or his henchmen aided and abetted Ibn Qasim in his punitive campaign against Dahir? Please enlighten
یہ قوٹ کرنے سے پہلے مرزا محمد علی اور مولانا اسحاق مرحوم کی ویڈیوز دیکھ لیتے تو بہتر تھا یہ آپ لوگوں کی عادت ہے کے اسلام کی غلط تصویر دنیا کو پیش کریںجو دنیا جہاں کا لٹیرا بدمعاش اجرتی قاتل ہو گا وہ آپ لوگوں کا ہیرو ہو گا کبھی سندھ کا سفر کریں تو آپ کو حقیقت معلوم ہو گی محمد بن قاسم ملعون نے اپنے چچا کے کہنے پر کتنے ظلم کیے
 

Night-Hawk

Senator (1k+ posts)
یہ قوٹ کرنے سے پہلے مرزا محمد علی اور مولانا اسحاق مرحوم کی ویڈیوز دیکھ لیتے تو بہتر تھا یہ آپ لوگوں کی عادت ہے کے اسلام کی غلط تصویر دنیا کو پیش کریںجو دنیا جہاں کا لٹیرا بدمعاش اجرتی قاتل ہو گا وہ آپ لوگوں کا ہیرو ہو گا کبھی سندھ کا سفر کریں تو آپ کو حقیقت معلوم ہو گی محمد بن قاسم ملعون نے اپنے چچا کے کہنے پر کتنے ظلم کیے
Did I write 'Islam' in any of my statement? My question is simple. I have confusion on the chronology of historical events. Did Ibn Qasim kill Ghazi? Did Ghazi side with Dahir in latter's war with Arabs? Who came to Sindh earlier? Ghazi or Ibn Qasim? Please enlighten as history has neither sect nor religion.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ہمارےہیرو عرب قاتل یا افغان ازبک مغل ترک لٹیرے نہیں ہمارے ہیرو پورس، راجہ دہر، دلا بھٹی ، رائے احمد خان کھرل، جیسے سپوت ہیں جنہوں نے بیرونی لٹیروں کے آگے پل باندھے اور اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی سلام ہو راجہ داہر پر جس نے سادات کی خاطر اپنی جان تک دے دی
M Ali Khan
یہ تو خود ہمایوں کے پیادے بن کر ایران سے برصغیر تشریف لائے تھے

ان سے بچ کر رہنا یہ کسی کے نہیں ہوتے. مسلمانوں کے خلاف لبرلز سے مل جاتے ہیں، وہابیوں کے خلاف سنیوں سے، دیوبندیوں کے خلاف بریلویوں سے. یہ اگر وفادار ہیں تو صرف ایران کے اس کے خلاف کچھ نہیں سنتے
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
Did I write 'Islam' in any of my statement? My question is simple. I have confusion on the chronology of historical events. Did Ibn Qasim kill Ghazi? Did Ghazi side with Dahir in latter's war with Arabs? Who came to Sindh earlier? Ghazi or Ibn Qasim? Please enlighten as history has neither sect nor religion.
مجھے سے سوال ہی ہر بندہ پوچھتا ہے ادھر اب وقت میرا ہے سوال کرنے کا کیا آپ حجاج بن یوسف کو اسلام پسند نیک رحم دل اور سادات پر مہربان سمجھتے ہیں ؟ کیا اس نے لاتعداد بیگناہ مسلمانوں کا اور سادات کا قتل عام نہیں کروایا ؟ غازی کی بات بھی بعد میں ہو جاے گی
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
M Ali Khan
یہ تو خود ہمایوں کے پیادے بن کر ایران سے برصغیر تشریف لائے تھے

ان سے بچ کر رہنا یہ کسی کے نہیں ہوتے. مسلمانوں کے خلاف لبرلز سے مل جاتے ہیں، وہابیوں کے خلاف سنیوں سے، دیوبندیوں کے خلاف بریلویوں سے. یہ اگر وفادار ہیں تو صرف ایران کے اس کے خلاف کچھ نہیں سنتے
بابا جی رمضان کا مہینہ ہے کیوں جھوٹ بولتے ہو جتنا تعلق تمارا ایران سے ہے کیا میرا بنتا ہے ؟ جب بات تنکلتی ہے تو تم کھڈ میں وڑ جاتے ہو اور پھر دوسرے تھریڈ میں نمودار ہو جاتے ہو ایک جگہ ٹک کر بات کرو حقائق کی روشنی میں ڈاکٹر اسرار جس کے تم نالائق شاگرد ہو وہ تو خود ایرانیوں کا متعرف تھا
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
محمد بن قاسم سندھ میں سادات کا قتل عام کرنے آیا تھا اسلام پھیلانے نہیں ٩٠ سال تک جنہوں نے منبروں سے حضرت علی ع پر الاعلان سب و شتم کرتے رہے انکو اسلام سے کیا لینا دینا ؟


مورخین نے لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف نے درج ذیل وجوہات کے باعث محمد بن قاسم کو لشکر دے کر سندھ بھیجا
١.ایک تجارتی قافلہ سراندیپ سے عورتوں اور بچوں کا آرہا تھا جسے بحری ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور عورتوں کو گرفتار کر لیا ایک عورت کی زبان سے بے اختیار فریاد نکلی کہ حجاج بن یوسف مدد کر حجاج بن یوسف تک اس عورت کی فریاد پہنچی تو اس نے کاروائی کا حکم دیا
یہ قصہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ حجاج بن یوسف ایک مظلوم عورت کی قید برداشت نہ کر سکا اسکے خلاف فوج کشی کی حالانکہ مورخین نے خود لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف کے مظالم سے ہزاروں لاکھوں خواتین اسلامی حکومت میں بیوہ اور ظلم کا شکار ہو رہی تھیں انکے شوہروں کو سرعام ذبح کیا جارہا تھا انکے گھروں کو جلایا جارہا تھا عورتوں بچوں کو بے گھر کیا جارہا تھا مسلمان عورتوں کو بیوہ کیا جارہا تھا عزت پر حملے ہو رہے تھے ایسے شخص کو ایسے انداز سے پیش کرنا کہ وہ ایک مسلمان عورت پر ظلم برداشت نہ کر سکا اور فوجی کشی کی بالکل احمقانہ اور مضحکہ خیز ہے
٢.دوسری وجہ مورخین نے درج کی کہ چونکہ سندھ کا راجہ داہر ہندؤ تھا اور عوام میں زیادہ بدھ مت کے پیروکار تھے لہذا وہ بدھ مت کے ماننے والوں ظلم کرتا تھا یہ بات بھی کتنی عقل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ غیر مسلم رعایا پر راجہ کا ظلم حجاج سے برداشت نہ ہو سکا جزبہ ہمدردی کے تحت محمد بن قاسم کو بھیجا حالانکہ مورخین نے حجاج کے متعلق لکھا کہ اسکے اپنے دور حکومت کسی کا مال و جان محفوظ نہ تھا حجاج اک ظالم تھا اس نے لاکھوں بے گناہ کے لہو سے ہاتھ رنگے اس نے کعبہ کی کوئی پروا نہ کی صحابیوں اور انکی اولاد کو قتل کرنے کے لیے کعبہ پر سنگ باری کی وہ خود کہتا تھا کہ مجھے لوگوں کا خون بہانے میں لذت محسوس ہوتی ہے جب وہ پیدا ہوا تو ماں کے دودھ کو منہ تک نہ لگایا حکماء نے تجویز دی کہ اسکو بھڑیے کا دودھ پلایا جائے اسکو تین دن تک مسلسل بھڑیے کا خون پلایا گیا عمر بن عبدالعزیر کا قول ہے کہ اگر دنیا اپنے تمام خبیث لے کر آئے ہم انکے مقابلے میں اکیلا حجاج کھڑا کرکے بازی لے سکتے ہیں لکھا ہے کہ اسکےدور میں ڈیڑھ لاکھ بے گناہ قتل ہوئےجبکہ ایک لاکھ بے گناہ قیدی تھے جو جیلوں میں سڑ رہے تھے جو مسلمان رعایا کے لیے ہمدردی نہ رکھتا ہو وہ غیر مسلم کے لیے جزبہ ہمدردی رکھتا ہو تعجب کی بات ہے رسول اکرم ع نے فرمایا میری امت میں ایک بدترین ظالم پیدا ہو گا جسکا نام حجاج ہو گا(ترمذی)
٣.مورخین نے تیسری وجہ سندھ پر حملے کی جو بیان کی قابل غور ہے عرب حکومت کے کچھ باغیوں نے راجہ دہر کے پاس سندھ میں پناہ لی تھی حجاج کے بار بار اصرار کرنے کے باوجود بھی راجہ دہر انکو واپس نہیں کر رہا تھا وہ باغی کون تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا وہ باغی اولاد رسول ع اور شیعان علی ع تھے جو حجاج کے مظالم سے تنگ آکر اپنی جان بچانے کے لیے سندھ چلے آئے تھے چونکہ خلافت امیرالمومنین ع میں سندھ فتح ہو چکا تھا اور اسکی عوام میں حضرت علی ع اور اولاد حضرت علی ع کی محبت پیدا ہو چکی تھی یہاں لوگ سادات کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا جب انہوں نے انکار کیا تو سندھ پر فوج کشی کی تو حجاج نے سادات کو قتل کرنے کے لیے محمد بن قاسم کو لشکر دے کر بھیجا ورنہ راجہ دہر تو کراچی میں مارا گیا تھا محمد بن قاسم ملتان لینے کیا آیا وہ یہاں سادات کی تلاش میں آیا تھا ملتان کے نزدیک سادات مل گئے لیکن انکی بزرگی پارسائی اور اخلاق سے متاثر ہوکر انکو چھوڑ دیا سرائیکی کتاب"تاریخ مہڑ" میں محمد بن قاسم کا یہاں ایک سید بزرگ کا مرید ہونا درج ہے جب یہ خبر حاکم عرب کو ملی تو اس نے محمد بن قاسم کو واپس بلوا کر قتل کر دیا چناچہ "سندھ اور سید" مصنف جی ایم سید بزرگ سیاستدان نے لکھا تاریخ اسلام پر پردہ ڈالنے کے لیے مورخین سراندیپ کے تاجروں اور عورت کی فریاد کا قصہ گھڑا اور نہ اس وقت سر اندیپ اور عرب کے درمیان کوئی تجارت تھی اور نہ تاجروں کو ڈاکوؤں نے لوٹا تھا یہ سارا افسانہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے سادات دشمنی میں گھڑا حقیقت میں حجاج نے سادات کی تلاش میں محمد بن قاسم کو بھیجا تھا
عبدالملک بن مروان کی خلافت (٦٥ھ) کے دسویں سال حجاج بن یوسف والی عراق ہوئے چونکہ سندھ وغیرہ کا تعلق عراقی حکومت سے تھا اس لیے حجاج نے اپنی حکومت کے پہلے ہی سال یعنی ٧٥ ہجری میں سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران اور سندھ کے سمندری کناروں کا گورنر مقرر کیا سعید بن اسلم مکران میں صفوی بن لام الحمامی کے قتل کرنے کے بدلے میں مارے گے جس کے بعد تاریخوں میں ایک واقعہ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کو دکھایا گیا ہے سراندیپ کے راجہ نے تحائف بھیجے بحری قزافوں کا لوٹنا وغیرہ اس واقعہ کی تفصیل اوپر لکھی جا چکی خلیفہ کے حکم سے حجاج نے بدیل کی نگرانی میں ایک فوج بھیجی جو بدیل سمیت لڑنے کے بعد ماری گی اور سندھ پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لیے حجاج نے محمد بن قاسم کو مقرر کیا
تاریخ سندھ کے مصنف مولانا ابوالظفر ندوی نے اس سلسلے میں سادات کشی کے متعلق بالکل صیح روایات لکھی ہیں اسی زمانے میں ایک اور بات پیدا ہو گئ جس کے باعث حجاج کو سندھ فتح کرنے کی ایک ضد ہو گئ عبدالرحمن بن محمد بن اشعت بغاوت کی پاداش میں قتل کیا گیا اور تمام ساتھی بھی اسی گھاٹ اتارے گئے لیکن اس جماعت کا اک بااثر شخص عبدالرحمن ابن عباس بن ربعیہ بن حارث بن عبدالمطلب جان بچا کر نکلا اور سندھ میں آکر پناہ گزین ہوا حجاج اس سے انتقام لینا اولین فرض سمجھتا تھا اس لیے اس مسئلے پر پہلے سے زیادہ توجہ کرنے لگا
اس سسلے میں ندوی صاحب پھر آگے لکھتے حجاج نے ان تمام امور پر غور و فکر کرکے ایک فوج تیار کی اور اسکی افسری کے لیے محمد بن قاسم کا انتخاب کیا جو صوبہ فارس میں تھا اور کسی ضروری امر کے واسطے رے جانے کا حکم پاچکا تھا وہ اسی تیاری میں تھا کہ حجاج کا حکم پہنچا کہ رے کے عوض تم سندھ جاؤ فی الحال اس فوج کا جو تمہارے لیے بھیج رہا ہوں انتظار کرو
مذکورہ بالا بیان سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ حجاج نے محمد بن قاسم کو سندھ میں صرف سادات کے قتل و غارت کے لیے بھیجا تھا سندھ میں حجاج کا یہ ہی مقصد اور مطلب تھا کہ یہاں اولاد اہل بیت ع اور اہل بیت ع کے ماننے والوں کا نام و نشان باقی نہ رہے اور علوم اہل بیت ع کی تعلیم بھی عام نہ ہو کیونکہ محمد بن قاسم اموی تھا اسکے علاوہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد بھی تھا
٨١ ہجری میں فتنہ ابن لاشعت نے حجاج بن یوسف کے مظالم کے خلاف خروج کیا جس میں بصرہ کے قراء عابدوں اور زاہدوں نے حصہ لیا اور اس تحریک کا خاتمہ ٨٣ ہجری میں ہوا اسی سال محمد بن قاسم فارس کے حکمران ہوئے انہیں بھی قراء عابدوں اور زاہدوں کے خلاف سخت کروائی کرنا پڑی ابن اشعت کے ساتھ خروج کرنے والوں میں عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی بھی تھا اور ناکامی کے بعد اشعت کے لوگ مصر کے مختلف شہروں میں جاکر پناہ گزیں ہوئے تو عطیہ عوفی فارس کے علاقے میں پہنچا اس وقت محمد بن قاسم فارس کا امیر اور حاکم تھا حجاج نے اسے عطیہ عوفی کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لیے لکھا اور محمد بن قاسم نے اسکے حکم کی تکمیل کی حافظ حقانی علامہ ابن سعد طبقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عطیہ نے ابن اشعت کے ساتھ حجاج کے خلاف خروج کیا جب ابن اشعت کی فوج نے شکست کھائی تو عطیہ فارس کی طرف بھاگ گیا حجاج نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ عطیہ کو گرفتار کرے اگر وہ حضرت علی ابن ابی طالب ع پر معاذ اللہ سب و شتم کرے تو چھوڑ دو ورنہ اسکو چار سو کوڑے لگاؤ اور اسکے سر اور داڑھی کے بال کٹواؤ
محمد بن قاسم نے عطیہ کو بلوایا اور حجاج بن یوسف کا خط پڑھ کر سنایا جب اس نے اس فعل سے انکار کیا تو اسے چار سو کوڑے لگائے گئے سر اور داڑھی کے بال کٹوائے عطیہ اس حادثہ کے بعد بھی فارس میں رہے اسکے بعد خراسان چلے گئے اور ١٠٢ ہجری میں جب عمر بن ہیمبرہ عراق کا جب امیر ہوا تو اسکی اجازت سے کوفے میں آکر زندگی کے باقی دن گزارے یہاں تک کہ ١١١ھ میں اسکا انتقال ہوا
محمد بن قاسم سندھ میں ٩٢ ہجری میں اس وقت آیا جب اسکی عمر ١٥ یا ١٧ سال بتائی جاتی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس نے مکران فزپور ارمائیل اور دیبل کو فتح کیا اسکے بعد نیرون کوٹ(حیدرآباد ) کو فتح کرکے حجاج سے آگئے بڑھنے کی اجازت مانگی حجاج نے اسے لکھا کہ جہاں تک فتح کرتے جاؤ گے وہاں تک تمہاری حکومت ہو گی اسکے بعد محمد بن قاسم نے اپنی فاتحانہ سرگرمیاں تیز کر دیں یہاں تک کہ سندھ عبور کرکے سدوسان کو فتح کیا اور ساحلی علاقوں میں راجہ دہر سے انکا مقابلہ ہوا جس میں وہ مارا گیا اسکے بعد آگے بڑھ کر اروڑ اور دوسرے بہت سارے شہر فتح کیے
محمد بن قاسم نے جب برہمن آباد کو بھی فتح کر لیا تو وہاں راجہ دہر کی بیوی رانی لاڈلی بھی تھی عرب سپاہی رانی لاڈلی اسکی دو بیٹیوں اور برہمن آباد کے قلعے میں دوسری راجہ دہر کی رانیوں کو دوسرے عالم لوگوں کے ساتھ قید کرکے بمعہ مال غنیمت محمد بن قاسم کے سامنے لائے اور اسے جب معلوم ہوا کہ یہ راجہ دہر کی مستورات ہیں تو اس نے حکم دیا کہ انکی عزت کی جائے اور انہیں اسطرح بے نقاب اور سر برہنہ نہ رکھا جائے چناچہ ان سب کے چہروں پر نقاب ڈالے گئے اور وہ ایک معتمد ملازم کے حوالے کی گئیں
کہا جاتا ہے کہ صرف ان قیدیوں کا شمار جو بیت المال کے لیے الگ رکھے گئے تھے بیس ہزار تھا اسکے علاوہ بچے ہوئے قیدی فوج میں تقسیم کیے گئے چھ ہزار لوگوں کو تہ تیغ کیا گیا چھ ہزار بے گناہوں کا قتل اور پھر بڑے فخر سے محمد بن قاسم کے اس قتل غارت کو سندھ میں اسلام پھیلانے کا نام دیا جاتا ہے تاریخ سندھ میں عبدالحلیم شرر نے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے شہر میں اعلان کروایا کہ راجہ دہر کی رانی لاڈلی جہاں کہیں بھی ہو میرے سامنے لایا جائے چناچہ محمد بن قاسم کے سامنے رانی کو پیش کیا گیا اس نے راجہ رانی کی لاڈلی سے شادی کی اور راجہ کی دونوں بیٹیوں کو جن میں سے ایک کا نام سورج دیوی اور چھوٹی کا نام پرمل دیوی تھا خلیفہ ولید بن عبدالملک کو بغداد بھیجیں ولید نے دونوں کو اپنے سامنے بلایا اور مترجم سے کہا ان سے پوچھو ان میں سے بڑی کون ہے سورج دیوی نے کہا میں بڑی ہوں خلیفہ نے بڑی بہن کو خلوت میں بلوایا اور چھوٹی کو دوسرے وقت کے لیے رکھا سورج دیوی نے جب خلیفہ کے سامنے گھونگٹ کو اٹھایا تو خلیفہ اس پر ہزار جان سے عاشق ہو گیا اور بیتابی سے سورج دیوی کو اپنی جانب کھینچا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور باادب عرض کی میں بادشاہ کے راحت بستر کے قابل نہیں ہوں کیونکہ محمد بن قاسم نے ہم دونوں کو تین دن تک اپنی خلوت میں رکھ کر حضور کے عشرت سرا میں بھیجا ہے شاید یہاں پر یہ ہی دستور ہو مگر بادشاہوں کو تو اس طرح رسوائی برداشت نہیں کرنی چاہیے یہ سن کر خلیفہ نے غصے میں محمد بن قاسم کو خط لکھا تم فورا" اپنے آپ کو کچی کھال میں بند کروا کے خلیفہ کے دربار میں حاضر ہو اس وقت محمد بن قاسم اڈھا پور میں تھا فورا حکم کی تکمیل میں اپنے آپ کو کھال میں بند کروا کر عراق کی طرف روانہ کیا مگر دو دن بعد خود ہی راستے میں مر گیا اور خلیفہ نے محمد بن قاسم کے مرنے کے بعد راجہ دہر کی بیٹیوں کو اپنے سامنے زندہ دیواروں میں چنوایا ایک اور روایت کے مطابق وہ لڑکیاں گھوڑے کی دم میں باندھ کر گھسیٹی گئیں جس کی تکلیف سے وہ مر گئیں اور آخر میں انکی لاش کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا
محمد بن قاسم کی موت کے بعد اسکا بیٹا عمر بن محمد بن قاسم بیس سال تک سندھ میں مختلف حثیتیوں میں رہا اور سندھ میں ہی مر گیا یہ ١٠٥ ھ سے ١٢٠ھ تک حکم بن عوانہ کلبی کی رفاقت اور معیت میں سندھ کی حکومت کے فرائض انجام دیتا رہا ١٢٢ ھ سے ١٢٦ھ تک سندھ پر مستقل امیر و حاکم بن فتح حاصل کی ١٢٥ھ میں انہیں معزول کیا گیا ١٢٦ھ میں سندھ کے والی محمد بن غزان کلبی انہیں گرفتار کیا اور اسی قید میں مر گیا
عمر بن محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنے دورہ حکومت محمد بن غزان کلبی کو گرفتار کیا اور انہیں زدوکوب کرکے والی عراق یوسف بن عمرو کے پاس بھیجا جیسا کہ محمد بن غزان کلبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس خاندان سے وہب کلبی ایک مرد مجاہد تھا جس نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین ع پر اپنا سر قربان کیا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ یوسف نے بھی محمد بن غزان کلبی کو سزا دی اور ایک بڑی رقم جرمانے کے طور پر عائد کی اور حکم دیا ہر جمعہ کے دن اس رقم کا ایک حصہ ادا کرتا رہے ورنہ عدم ادائیگی کی صورت میں پچیس درے لگائیں جائیں یہ رقم محمد بن غزان کلبی ادا نہ کر سکا اور درے کھاتا رہا جسکی وجہ سے اسکے ہاتھ کی انگلیاں سوکھ گئیں
یزید بن ولید بن عبدامللک نے ١٢٦ھ میں خلیفہ ہوتے ہی یوسف عمرو کی جگہ عراق کی گورنری منصور بن جمور کلبی کو دی جب یہ یوسف کو معلوم ہوا تو وہ ملک شام کی طرف بھاگ گیا منصور بن جمور نے عراق کا گورنر سندھ کی حکومت میں رد و بدل کیا اور یزید بن عرار کو معزول کرکے اسکی کی جگہ عمر بن محمد بن قاسم کے حریف محمد بن غزان کلبی کو مقرر کیا اسکے ساتھ انہیں سجستان اور سندھ کی حکومت بھی دی اس نے سندھ میں آکر سب سے پہلا کام یہ کیا عمر بن محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے قید کر دیا اور بعد میں عمرو محمد بن غزان کلبی کی قید میں اپنی ہی تلوار سے اپنا ہی پیٹ چاک کرکے مر گیا
مذکورہ محمد بن قاسم اور اسکے بیٹے کے بیان کردہ مختصر حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکا نہ صرف اموی خاندان سے تعلق تھا یہ سندھ میں اسلام پھیلانے کے لئے نہیں بلکہ انہیں حجاج بن یوسف نے سادات کو قتل کرانے کے لیے بھیجا تھا کیونکہ حجاج سادات کرام کی نسل کشی کا منصوبہ رکھتا تھا اور اہل بیت ع کے خون کا پیاسہ تھا یہ ہی وجہ تھی کہ سادات کرام اور محبان اہل بیت ع سندھ میں پناہ گزیں ہوئے اسطرح سندھ اولاد فاطمہ زہرا ع کے لیے آغوش مادر بنتی رہی اور سعادت در سعاد حاصل کرتی رہی

پس اسلام سندھ میں حضرت علی ع کے دور میں آیا ناں کہ محمد بن قاسم کے دور میں وہ بنوامیہ ہی کے لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی ع پر ٩٠ سال تک منبروں پر علی الاعلان سب و ستم کروایا کیونکہ یہ اہل بیت ع اور اسلام کے دشمن تھے پھر بھلا یہ سندھ میں کس طرح اسلام پھیلا سکتے تھے یہ لوگ تو سندھ میں صرف اپنا مطلب اور مقصد کے حصول کے لیے آئے تھے یعنی اہل بیت ع کے نام و نشان کو مٹانے اور سندھ میں بے گناہ اور مظلوم سادات کی نسل کشی کرنے


حجاج بن یوسف کا انجام
حجاج کی موت کے بعد جب قیدیوں کو شمار کیا گیا تو ان میں ایک لاکھ بیس ہزار مرد اور بیس ہزار عورتیں تھیں اور ان میں چار ہزار ایسی عورتیں تھیں جن کے جسم پر لباس نہیں تھا اور یہ قیدی ایک ہی چار دیواری میں قید تھے قید خانہ کی چھت نہیں تھی جب کوئی قید گرمی سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کا سایہ بناتا تو زندان کے سپاہی اسکو پھتر مارتے تھے انہیں جو کی روٹی میں ریت ملا کر کھانا دیا جاتا اور پینے کے لیے انہیں کڑوا پانی دیا جاتا.
حجاج لعین بے گناہ افراد اور اور بالخصوص سادات کے خون بہانے کو اعزاز سمجھتا تھا
ایک مرتبہ اس ملعون نے روزہ رکھنا چاہا تو نوکروں کو حکم دیا کہ اس کے لیے من پسند سحری اور افطاری کا انتظام کیا جائے چناچہ اشارہ فہم نوکروں نے اس کے لیے ایسی روٹیاں تیار کیں جنہیں سادات کے خون سے گوندھا گیا تھا اس لعین نے اسی روٹیوں سے سحری افطاری کی اس ملعون کو ہمیشہ اس بات کا دکھ رہتا تھا کہ وہ کربلا میں موجود نہ تھا ورنہ وہ شمر سے بھی بڑھ کر ظلم کرتا .
حجاج نے کوفہ و بصرہ کے درمیان شہر واسط کی بنیاد رکھی تھی جہاں وہ نو ماہ سے زیادہ قیام نہ کر سکا اور ٥٣ سال کی عمر میں جہنم پہنچ گیا.
ابن خلکان لکھتے ہیں حجاج کو عرضہ آکلہ لا حق ہو گیا تھا اس کے جسم کے اندر بچھو نما کیڑے پیدا ہو گئے ایک طبیب کو بلایا گیا تو اس نے گوشت کا اک ٹکڑا ریشم کی رسی کے ساتھ باندھا اور حجاج کو کہا وہ اس گوشت کے ٹکڑے کو نگل لے حجاج نے گوشت کا ٹکڑا نگلا اور کچھ دیر بعد ریشم کی ڈور سے اس ٹکڑے کو کھینچا تو اس ٹکڑے پر بہت سارے کیڑے چمٹے ہوئے تھے


اللہ تعالی نے حجاج کے جسم پر سردی کو مسلط کر دیا اس کے اطراف میں دن رات کوئلوں کی انگھٹیاں جلائی جاتی تھیں لیکن وہ پھر بھی سردی سے چلاتا رہتا تھا اس نے حسن بصری سے اپنے درد و الم کی شکایت کی تو انہوں نے کہا میں نے تجھے بے گناہ افراد اور بالخصوص سادات کے قتل سے بارہا منع کیا تھا لیکن تو باز نہ آیا آج تو اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے حجاج نے کہا میں خدا سے یہ دعا نہیں کرتا کہ وہ مجھے دوزخ سے آزاد فرمائے میری بس اتنی سی دعا ہے جلدی سے میری روح قبض کر لے تاکہ میں دنیا کے درد و الم سے چھٹکارہ حاصل کر سکوں
قاضی نور اللہ شوستری مجالس المومنین میں لکھتے ہیں موت کے وقت حجاج رونے لگا وزیر نے رونے کا سبب پوچھا تو کہا میں نے لوگوں پر ظلم کیا ہے بالخصوص اولاد پغیمبر ع پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں
خوشامدی وزیر کہنے لگا امیر آپ کیوں گھبراتے ہیں آپ نے جو کچھ بھی کیا ہے دلیل و برہان کے ساتھ کیا ہے اور اسے کسی طرح بھی ظلم نہیں قرار دیا جا سکتا حجاج نے کہا اگر قیامت کے دن مجھے حکومت دی جائے اور تو اس دن میرا وزیر ہو تو اس دن بھی یہ ہی دلیل و برہان ہمیں کام دے گی سنو میں بخوبی جانتا ہوں میری موت کا وقت آچکا ہے اور دوزخ میرا انتظار کر رہی ہے خدا نے چاہا تو دوزخ میں بھی تیری اور میری جوڑی قائم رہے گی
کتاب: تاریخ پند جلد ٣
صفحہ:١٦٤

LOL what a fake history, no doubt salahud din ayubi was traitor for you and hassan bin sabah was hero. By the way just today BLA terrorists have attacked Pak Army from Iran. We didnt join hands with saudia against Iran but iran has just back stabbed us.
Dahir wasnt local of sindh he was kashmiri brahmin who had oppressed local Buddhist population but you just have to make the case because M. Bin Qasim was sunni muslim and from ummyad dynasty. I know hajaj was just a barber but it doesnt make raja dahir a hero. It was a fight between two kings and the one win. The new one was helped by the locals because he promised them equality
 
Last edited:

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
S
محمد بن قاسم سندھ میں سادات کا قتل عام کرنے آیا تھا اسلام پھیلانے نہیں ٩٠ سال تک جنہوں نے منبروں سے حضرت علی ع پر الاعلان سب و شتم کرتے رہے انکو اسلام سے کیا لینا دینا ؟


مورخین نے لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف نے درج ذیل وجوہات کے باعث محمد بن قاسم کو لشکر دے کر سندھ بھیجا
١.ایک تجارتی قافلہ سراندیپ سے عورتوں اور بچوں کا آرہا تھا جسے بحری ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور عورتوں کو گرفتار کر لیا ایک عورت کی زبان سے بے اختیار فریاد نکلی کہ حجاج بن یوسف مدد کر حجاج بن یوسف تک اس عورت کی فریاد پہنچی تو اس نے کاروائی کا حکم دیا
یہ قصہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ حجاج بن یوسف ایک مظلوم عورت کی قید برداشت نہ کر سکا اسکے خلاف فوج کشی کی حالانکہ مورخین نے خود لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف کے مظالم سے ہزاروں لاکھوں خواتین اسلامی حکومت میں بیوہ اور ظلم کا شکار ہو رہی تھیں انکے شوہروں کو سرعام ذبح کیا جارہا تھا انکے گھروں کو جلایا جارہا تھا عورتوں بچوں کو بے گھر کیا جارہا تھا مسلمان عورتوں کو بیوہ کیا جارہا تھا عزت پر حملے ہو رہے تھے ایسے شخص کو ایسے انداز سے پیش کرنا کہ وہ ایک مسلمان عورت پر ظلم برداشت نہ کر سکا اور فوجی کشی کی بالکل احمقانہ اور مضحکہ خیز ہے
٢.دوسری وجہ مورخین نے درج کی کہ چونکہ سندھ کا راجہ داہر ہندؤ تھا اور عوام میں زیادہ بدھ مت کے پیروکار تھے لہذا وہ بدھ مت کے ماننے والوں ظلم کرتا تھا یہ بات بھی کتنی عقل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ غیر مسلم رعایا پر راجہ کا ظلم حجاج سے برداشت نہ ہو سکا جزبہ ہمدردی کے تحت محمد بن قاسم کو بھیجا حالانکہ مورخین نے حجاج کے متعلق لکھا کہ اسکے اپنے دور حکومت کسی کا مال و جان محفوظ نہ تھا حجاج اک ظالم تھا اس نے لاکھوں بے گناہ کے لہو سے ہاتھ رنگے اس نے کعبہ کی کوئی پروا نہ کی صحابیوں اور انکی اولاد کو قتل کرنے کے لیے کعبہ پر سنگ باری کی وہ خود کہتا تھا کہ مجھے لوگوں کا خون بہانے میں لذت محسوس ہوتی ہے جب وہ پیدا ہوا تو ماں کے دودھ کو منہ تک نہ لگایا حکماء نے تجویز دی کہ اسکو بھڑیے کا دودھ پلایا جائے اسکو تین دن تک مسلسل بھڑیے کا خون پلایا گیا عمر بن عبدالعزیر کا قول ہے کہ اگر دنیا اپنے تمام خبیث لے کر آئے ہم انکے مقابلے میں اکیلا حجاج کھڑا کرکے بازی لے سکتے ہیں لکھا ہے کہ اسکےدور میں ڈیڑھ لاکھ بے گناہ قتل ہوئےجبکہ ایک لاکھ بے گناہ قیدی تھے جو جیلوں میں سڑ رہے تھے جو مسلمان رعایا کے لیے ہمدردی نہ رکھتا ہو وہ غیر مسلم کے لیے جزبہ ہمدردی رکھتا ہو تعجب کی بات ہے رسول اکرم ع نے فرمایا میری امت میں ایک بدترین ظالم پیدا ہو گا جسکا نام حجاج ہو گا(ترمذی)
٣.مورخین نے تیسری وجہ سندھ پر حملے کی جو بیان کی قابل غور ہے عرب حکومت کے کچھ باغیوں نے راجہ دہر کے پاس سندھ میں پناہ لی تھی حجاج کے بار بار اصرار کرنے کے باوجود بھی راجہ دہر انکو واپس نہیں کر رہا تھا وہ باغی کون تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا وہ باغی اولاد رسول ع اور شیعان علی ع تھے جو حجاج کے مظالم سے تنگ آکر اپنی جان بچانے کے لیے سندھ چلے آئے تھے چونکہ خلافت امیرالمومنین ع میں سندھ فتح ہو چکا تھا اور اسکی عوام میں حضرت علی ع اور اولاد حضرت علی ع کی محبت پیدا ہو چکی تھی یہاں لوگ سادات کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے تھے جنکو حجاج طلب کر رہا تھا جب انہوں نے انکار کیا تو سندھ پر فوج کشی کی تو حجاج نے سادات کو قتل کرنے کے لیے محمد بن قاسم کو لشکر دے کر بھیجا ورنہ راجہ دہر تو کراچی میں مارا گیا تھا محمد بن قاسم ملتان لینے کیا آیا وہ یہاں سادات کی تلاش میں آیا تھا ملتان کے نزدیک سادات مل گئے لیکن انکی بزرگی پارسائی اور اخلاق سے متاثر ہوکر انکو چھوڑ دیا سرائیکی کتاب"تاریخ مہڑ" میں محمد بن قاسم کا یہاں ایک سید بزرگ کا مرید ہونا درج ہے جب یہ خبر حاکم عرب کو ملی تو اس نے محمد بن قاسم کو واپس بلوا کر قتل کر دیا چناچہ "سندھ اور سید" مصنف جی ایم سید بزرگ سیاستدان نے لکھا تاریخ اسلام پر پردہ ڈالنے کے لیے مورخین سراندیپ کے تاجروں اور عورت کی فریاد کا قصہ گھڑا اور نہ اس وقت سر اندیپ اور عرب کے درمیان کوئی تجارت تھی اور نہ تاجروں کو ڈاکوؤں نے لوٹا تھا یہ سارا افسانہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے سادات دشمنی میں گھڑا حقیقت میں حجاج نے سادات کی تلاش میں محمد بن قاسم کو بھیجا تھا
عبدالملک بن مروان کی خلافت (٦٥ھ) کے دسویں سال حجاج بن یوسف والی عراق ہوئے چونکہ سندھ وغیرہ کا تعلق عراقی حکومت سے تھا اس لیے حجاج نے اپنی حکومت کے پہلے ہی سال یعنی ٧٥ ہجری میں سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کو مکران اور سندھ کے سمندری کناروں کا گورنر مقرر کیا سعید بن اسلم مکران میں صفوی بن لام الحمامی کے قتل کرنے کے بدلے میں مارے گے جس کے بعد تاریخوں میں ایک واقعہ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کو دکھایا گیا ہے سراندیپ کے راجہ نے تحائف بھیجے بحری قزافوں کا لوٹنا وغیرہ اس واقعہ کی تفصیل اوپر لکھی جا چکی خلیفہ کے حکم سے حجاج نے بدیل کی نگرانی میں ایک فوج بھیجی جو بدیل سمیت لڑنے کے بعد ماری گی اور سندھ پر بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لیے حجاج نے محمد بن قاسم کو مقرر کیا
تاریخ سندھ کے مصنف مولانا ابوالظفر ندوی نے اس سلسلے میں سادات کشی کے متعلق بالکل صیح روایات لکھی ہیں اسی زمانے میں ایک اور بات پیدا ہو گئ جس کے باعث حجاج کو سندھ فتح کرنے کی ایک ضد ہو گئ عبدالرحمن بن محمد بن اشعت بغاوت کی پاداش میں قتل کیا گیا اور تمام ساتھی بھی اسی گھاٹ اتارے گئے لیکن اس جماعت کا اک بااثر شخص عبدالرحمن ابن عباس بن ربعیہ بن حارث بن عبدالمطلب جان بچا کر نکلا اور سندھ میں آکر پناہ گزین ہوا حجاج اس سے انتقام لینا اولین فرض سمجھتا تھا اس لیے اس مسئلے پر پہلے سے زیادہ توجہ کرنے لگا
اس سسلے میں ندوی صاحب پھر آگے لکھتے حجاج نے ان تمام امور پر غور و فکر کرکے ایک فوج تیار کی اور اسکی افسری کے لیے محمد بن قاسم کا انتخاب کیا جو صوبہ فارس میں تھا اور کسی ضروری امر کے واسطے رے جانے کا حکم پاچکا تھا وہ اسی تیاری میں تھا کہ حجاج کا حکم پہنچا کہ رے کے عوض تم سندھ جاؤ فی الحال اس فوج کا جو تمہارے لیے بھیج رہا ہوں انتظار کرو
مذکورہ بالا بیان سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ حجاج نے محمد بن قاسم کو سندھ میں صرف سادات کے قتل و غارت کے لیے بھیجا تھا سندھ میں حجاج کا یہ ہی مقصد اور مطلب تھا کہ یہاں اولاد اہل بیت ع اور اہل بیت ع کے ماننے والوں کا نام و نشان باقی نہ رہے اور علوم اہل بیت ع کی تعلیم بھی عام نہ ہو کیونکہ محمد بن قاسم اموی تھا اسکے علاوہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد بھی تھا
٨١ ہجری میں فتنہ ابن لاشعت نے حجاج بن یوسف کے مظالم کے خلاف خروج کیا جس میں بصرہ کے قراء عابدوں اور زاہدوں نے حصہ لیا اور اس تحریک کا خاتمہ ٨٣ ہجری میں ہوا اسی سال محمد بن قاسم فارس کے حکمران ہوئے انہیں بھی قراء عابدوں اور زاہدوں کے خلاف سخت کروائی کرنا پڑی ابن اشعت کے ساتھ خروج کرنے والوں میں عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی بھی تھا اور ناکامی کے بعد اشعت کے لوگ مصر کے مختلف شہروں میں جاکر پناہ گزیں ہوئے تو عطیہ عوفی فارس کے علاقے میں پہنچا اس وقت محمد بن قاسم فارس کا امیر اور حاکم تھا حجاج نے اسے عطیہ عوفی کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے لیے لکھا اور محمد بن قاسم نے اسکے حکم کی تکمیل کی حافظ حقانی علامہ ابن سعد طبقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عطیہ نے ابن اشعت کے ساتھ حجاج کے خلاف خروج کیا جب ابن اشعت کی فوج نے شکست کھائی تو عطیہ فارس کی طرف بھاگ گیا حجاج نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ عطیہ کو گرفتار کرے اگر وہ حضرت علی ابن ابی طالب ع پر معاذ اللہ سب و شتم کرے تو چھوڑ دو ورنہ اسکو چار سو کوڑے لگاؤ اور اسکے سر اور داڑھی کے بال کٹواؤ
محمد بن قاسم نے عطیہ کو بلوایا اور حجاج بن یوسف کا خط پڑھ کر سنایا جب اس نے اس فعل سے انکار کیا تو اسے چار سو کوڑے لگائے گئے سر اور داڑھی کے بال کٹوائے عطیہ اس حادثہ کے بعد بھی فارس میں رہے اسکے بعد خراسان چلے گئے اور ١٠٢ ہجری میں جب عمر بن ہیمبرہ عراق کا جب امیر ہوا تو اسکی اجازت سے کوفے میں آکر زندگی کے باقی دن گزارے یہاں تک کہ ١١١ھ میں اسکا انتقال ہوا
محمد بن قاسم سندھ میں ٩٢ ہجری میں اس وقت آیا جب اسکی عمر ١٥ یا ١٧ سال بتائی جاتی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس نے مکران فزپور ارمائیل اور دیبل کو فتح کیا اسکے بعد نیرون کوٹ(حیدرآباد ) کو فتح کرکے حجاج سے آگئے بڑھنے کی اجازت مانگی حجاج نے اسے لکھا کہ جہاں تک فتح کرتے جاؤ گے وہاں تک تمہاری حکومت ہو گی اسکے بعد محمد بن قاسم نے اپنی فاتحانہ سرگرمیاں تیز کر دیں یہاں تک کہ سندھ عبور کرکے سدوسان کو فتح کیا اور ساحلی علاقوں میں راجہ دہر سے انکا مقابلہ ہوا جس میں وہ مارا گیا اسکے بعد آگے بڑھ کر اروڑ اور دوسرے بہت سارے شہر فتح کیے
محمد بن قاسم نے جب برہمن آباد کو بھی فتح کر لیا تو وہاں راجہ دہر کی بیوی رانی لاڈلی بھی تھی عرب سپاہی رانی لاڈلی اسکی دو بیٹیوں اور برہمن آباد کے قلعے میں دوسری راجہ دہر کی رانیوں کو دوسرے عالم لوگوں کے ساتھ قید کرکے بمعہ مال غنیمت محمد بن قاسم کے سامنے لائے اور اسے جب معلوم ہوا کہ یہ راجہ دہر کی مستورات ہیں تو اس نے حکم دیا کہ انکی عزت کی جائے اور انہیں اسطرح بے نقاب اور سر برہنہ نہ رکھا جائے چناچہ ان سب کے چہروں پر نقاب ڈالے گئے اور وہ ایک معتمد ملازم کے حوالے کی گئیں
کہا جاتا ہے کہ صرف ان قیدیوں کا شمار جو بیت المال کے لیے الگ رکھے گئے تھے بیس ہزار تھا اسکے علاوہ بچے ہوئے قیدی فوج میں تقسیم کیے گئے چھ ہزار لوگوں کو تہ تیغ کیا گیا چھ ہزار بے گناہوں کا قتل اور پھر بڑے فخر سے محمد بن قاسم کے اس قتل غارت کو سندھ میں اسلام پھیلانے کا نام دیا جاتا ہے تاریخ سندھ میں عبدالحلیم شرر نے ایک اور روایت بیان کی ہے کہ محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے شہر میں اعلان کروایا کہ راجہ دہر کی رانی لاڈلی جہاں کہیں بھی ہو میرے سامنے لایا جائے چناچہ محمد بن قاسم کے سامنے رانی کو پیش کیا گیا اس نے راجہ رانی کی لاڈلی سے شادی کی اور راجہ کی دونوں بیٹیوں کو جن میں سے ایک کا نام سورج دیوی اور چھوٹی کا نام پرمل دیوی تھا خلیفہ ولید بن عبدالملک کو بغداد بھیجیں ولید نے دونوں کو اپنے سامنے بلایا اور مترجم سے کہا ان سے پوچھو ان میں سے بڑی کون ہے سورج دیوی نے کہا میں بڑی ہوں خلیفہ نے بڑی بہن کو خلوت میں بلوایا اور چھوٹی کو دوسرے وقت کے لیے رکھا سورج دیوی نے جب خلیفہ کے سامنے گھونگٹ کو اٹھایا تو خلیفہ اس پر ہزار جان سے عاشق ہو گیا اور بیتابی سے سورج دیوی کو اپنی جانب کھینچا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور باادب عرض کی میں بادشاہ کے راحت بستر کے قابل نہیں ہوں کیونکہ محمد بن قاسم نے ہم دونوں کو تین دن تک اپنی خلوت میں رکھ کر حضور کے عشرت سرا میں بھیجا ہے شاید یہاں پر یہ ہی دستور ہو مگر بادشاہوں کو تو اس طرح رسوائی برداشت نہیں کرنی چاہیے یہ سن کر خلیفہ نے غصے میں محمد بن قاسم کو خط لکھا تم فورا" اپنے آپ کو کچی کھال میں بند کروا کے خلیفہ کے دربار میں حاضر ہو اس وقت محمد بن قاسم اڈھا پور میں تھا فورا حکم کی تکمیل میں اپنے آپ کو کھال میں بند کروا کر عراق کی طرف روانہ کیا مگر دو دن بعد خود ہی راستے میں مر گیا اور خلیفہ نے محمد بن قاسم کے مرنے کے بعد راجہ دہر کی بیٹیوں کو اپنے سامنے زندہ دیواروں میں چنوایا ایک اور روایت کے مطابق وہ لڑکیاں گھوڑے کی دم میں باندھ کر گھسیٹی گئیں جس کی تکلیف سے وہ مر گئیں اور آخر میں انکی لاش کو دریائے دجلہ میں بہا دیا گیا
محمد بن قاسم کی موت کے بعد اسکا بیٹا عمر بن محمد بن قاسم بیس سال تک سندھ میں مختلف حثیتیوں میں رہا اور سندھ میں ہی مر گیا یہ ١٠٥ ھ سے ١٢٠ھ تک حکم بن عوانہ کلبی کی رفاقت اور معیت میں سندھ کی حکومت کے فرائض انجام دیتا رہا ١٢٢ ھ سے ١٢٦ھ تک سندھ پر مستقل امیر و حاکم بن فتح حاصل کی ١٢٥ھ میں انہیں معزول کیا گیا ١٢٦ھ میں سندھ کے والی محمد بن غزان کلبی انہیں گرفتار کیا اور اسی قید میں مر گیا
عمر بن محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنے دورہ حکومت محمد بن غزان کلبی کو گرفتار کیا اور انہیں زدوکوب کرکے والی عراق یوسف بن عمرو کے پاس بھیجا جیسا کہ محمد بن غزان کلبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس خاندان سے وہب کلبی ایک مرد مجاہد تھا جس نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین ع پر اپنا سر قربان کیا تھا یہ ہی وجہ ہے کہ یوسف نے بھی محمد بن غزان کلبی کو سزا دی اور ایک بڑی رقم جرمانے کے طور پر عائد کی اور حکم دیا ہر جمعہ کے دن اس رقم کا ایک حصہ ادا کرتا رہے ورنہ عدم ادائیگی کی صورت میں پچیس درے لگائیں جائیں یہ رقم محمد بن غزان کلبی ادا نہ کر سکا اور درے کھاتا رہا جسکی وجہ سے اسکے ہاتھ کی انگلیاں سوکھ گئیں
یزید بن ولید بن عبدامللک نے ١٢٦ھ میں خلیفہ ہوتے ہی یوسف عمرو کی جگہ عراق کی گورنری منصور بن جمور کلبی کو دی جب یہ یوسف کو معلوم ہوا تو وہ ملک شام کی طرف بھاگ گیا منصور بن جمور نے عراق کا گورنر سندھ کی حکومت میں رد و بدل کیا اور یزید بن عرار کو معزول کرکے اسکی کی جگہ عمر بن محمد بن قاسم کے حریف محمد بن غزان کلبی کو مقرر کیا اسکے ساتھ انہیں سجستان اور سندھ کی حکومت بھی دی اس نے سندھ میں آکر سب سے پہلا کام یہ کیا عمر بن محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے قید کر دیا اور بعد میں عمرو محمد بن غزان کلبی کی قید میں اپنی ہی تلوار سے اپنا ہی پیٹ چاک کرکے مر گیا
مذکورہ محمد بن قاسم اور اسکے بیٹے کے بیان کردہ مختصر حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکا نہ صرف اموی خاندان سے تعلق تھا یہ سندھ میں اسلام پھیلانے کے لئے نہیں بلکہ انہیں حجاج بن یوسف نے سادات کو قتل کرانے کے لیے بھیجا تھا کیونکہ حجاج سادات کرام کی نسل کشی کا منصوبہ رکھتا تھا اور اہل بیت ع کے خون کا پیاسہ تھا یہ ہی وجہ تھی کہ سادات کرام اور محبان اہل بیت ع سندھ میں پناہ گزیں ہوئے اسطرح سندھ اولاد فاطمہ زہرا ع کے لیے آغوش مادر بنتی رہی اور سعادت در سعاد حاصل کرتی رہی

پس اسلام سندھ میں حضرت علی ع کے دور میں آیا ناں کہ محمد بن قاسم کے دور میں وہ بنوامیہ ہی کے لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی ع پر ٩٠ سال تک منبروں پر علی الاعلان سب و ستم کروایا کیونکہ یہ اہل بیت ع اور اسلام کے دشمن تھے پھر بھلا یہ سندھ میں کس طرح اسلام پھیلا سکتے تھے یہ لوگ تو سندھ میں صرف اپنا مطلب اور مقصد کے حصول کے لیے آئے تھے یعنی اہل بیت ع کے نام و نشان کو مٹانے اور سندھ میں بے گناہ اور مظلوم سادات کی نسل کشی کرنے


This sadat story is just as real as hassan bin sabah was hero and salah ud din was traitor just like alternative facts of trump. No credible history author has considered it a valid opinion
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
LOL what a fake history, no doubt salahud din ayubi was traitor for you and hassan bin sabah was hero. By the way just today BLA terrorists have attacked Pak Army from Iran. We didnt join hands with saudia against Iran but iran has just back stabbed us.
Dahir wasnt local of sindh he was kashmiri brahmin who had oppressed local Buddhist population but you just have to make the case because M. Bin Qasim was muslim and from ummyad dynasty. I know hajaj was just a barber but it doesnt make raja dahir a hero. It was a fight between two kings and the one win and new one was helped by the local because he promised them equality
بی ایل اے کے دہشتگرد کون ہیں یہ تمارے ہی نجس مسلک سے ہیں یہ کوئی شیعہ نہیں نہ انکی بیک شیعہ حکومت کرتی ہے بلوچستان کی پٹی جو ایران سے منسلک ہے یہ کٹر دیو بندی ہیں پہلے اپنا جی پے ایس درست کرو پھر بات کرنا
رہی بے حسن بن صباح کی وہ تم لوگوں کا ہی ہیرو ہو سکتا ہے کیوں کے اسی کے نقش قدم پر چل کر تم لوگ خود کش حملے کرتے ہو جن کو کے وہ بھی فدائی حملے کہتا تھا فوٹو تم نے ایک لبرل منسٹر کی لگائی ہے اور اس کے پیچھے ایک غلیظ فرقہ پرست بیٹھا ہے کیا منافقت ہے
 
Last edited:

منتظر

Minister (2k+ posts)
S

This sadat story is just as real as hassan bin sabah was hero and salah ud din was traitor just like alternative facts of trump. No credible history author has considered it a valid opinion
تم کو ہر چیز فیک لگ رہی ہے تو پھر اپنے مذھب کو بھی فیک لکھ دو میںنے تو تمارے ہی علما کی ویڈیو لگائی ہے اگر تیرا اتنا علم ہے تو جا کر دونوں کو چیلنج کر لے مولانا اسحاق کا بیٹا جعفر اسحاق اببھی موجود ہے
 

Night-Hawk

Senator (1k+ posts)
مجھے سے سوال ہی ہر بندہ پوچھتا ہے ادھر اب وقت میرا ہے سوال کرنے کا کیا آپ حجاج بن یوسف کو اسلام پسند نیک رحم دل اور سادات پر مہربان سمجھتے ہیں ؟ کیا اس نے لاتعداد بیگناہ مسلمانوں کا اور سادات کا قتل عام نہیں کروایا ؟ غازی کی بات بھی بعد میں ہو جاے گی
Well actually you seem to have disagreement on my notion about Ghazi. You disliked my comment pertaining to him and labelled Dahir the one who lost his life for 'Sadaat' … My question is which 'Saadaat' are we talking about? Do you include Ghazi among those 'Sadaat' for whom Dahir fought against Arabs? I have no interest in Hajjaj Ibn Yusuf. I am curious about the history which in my opinion is concocted again to serve the sectarian view point.
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
Well actually you seem to have disagreement on my notion about Ghazi. You disliked my comment pertaining to him and labelled Dahir the one who lost his life for 'Sadaat' … My question is which 'Saadaat' are we talking about? Do you include Ghazi among those 'Sadaat' for whom Dahir fought against Arabs? I have no interest in Hajjaj Ibn Yusuf. I am curious about the history which in my opinion is concocted again to serve the sectarian view point.
پہلی بات تو یہ ہے کے آپ کی پوسٹ مجھ سے غلطی سے ڈس لائک ہوئی ہو گی میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں ایسا غلطی سے ہوا ہو گا
دوسری بات جو سوال میں نے پوچھا ہے اس سے آپ کو انٹرسٹ کیوںنہیں ہے ؟ اس کی وضاحت فرمائیں
تیسری بات عبداللہ شاہ کے بارے میرے پاس ایک آرٹیکل تھا وہ مل نہیں رہا میری کوشش ہوتی ہے کے ہوائی فائر مت کروں مجھے وہ آرٹیکل یا کوئی اور انفو ملتی ہے تو ضرور جواب دوں گا لیکن اس میںکوئی شک نہیں ہے کے ان کو شہید کیا گیا تھا یہ میں نے ان کے مزار پر بھی پڑھا تھا اور ایک اخبار میں کسی نقشبندی صاحب کا اس پر فیچر بھی تھا
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
I
بی ایل اے کے دہشتگرد کون ہیں یہ تمارے ہی نجس مسلک سے ہیں یہ کوئی شیعہ نھنّہ ھی انکی بیک شیعہ حکومت کرتی ہے بلوچستان کی پٹی جو ایران سے منسلک ہے یہ کٹر دیو بندی ہیں پہلے اپنا جی پے ایس درست کرو پھر بات کرنا
رہی بے حسن بن صباح کی وہ تم لوگوں کا ہی ہیرو ہو سکتا ہے کیوں کے اسی کے نقش قدم پر چل کر تم لوگ خود کش حملے کرتے ہو جن کو کے وہ بھی فدائی حملے کہتا تھا فوٹو تم نے ایک لبرل منسٹر کی لگائی ہے اور اس کے پیچھے ایک غلیظ فرقہ پرست بیٹھا ہے کیا منافقت ہے
Its been a first time that I have commented over such a issue. I have blamed both sunnis for siding with saudia and shias for siding with iran. So its been the fact that I am one of the most tolerant person when it comes to sects. The theory of saadat is just a made up history to malign bin qasim. You will only find people like tariq bin fateh to support this theory. All the main stream authors have not considered it a valid theory and the conquest of sindh had motives to get rid of piracy and the extension of empire. You cant say that it was a war to save islam but just like other conquests of iran iraq and central asia. But just because of you sectarian alignment you are misrepresenting the issue.
And No raja dahir wasnt a hero he was an oppressor. He persecuted local buddhists who sided with bin qasim

 
Status
Not open for further replies.