حکومت کو اوپر تلے دو خوشخبریاں مل چکی ہیں جن پر خوش ہونا تو بنتا ہے چاہے وقتی طور پر ہی سہی۔ علامہ خادم رضوی کی موت کے بعد ایک ریلیف ملی اور حکومتی کراے کے طوطوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ علامہ خادم رضوی نے وزیر مذہبی کا معاہدے سے مکر جانے کا بیان سن لیا تھا۔ علامہ صاحب نے دو تین ماہ کی بجاے صرف ایک دو ہفتوں کے اندر ہی فیض آباد میں دوبارہ دھرنے کا پلان بنا لیا تھا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ خادم رضوی کی وفات پر پی ٹی آی کا ہر بندہ اوپر سے نیچے تک انتہای خوش ہے۔ اوپر سے منافقانہ افسوس کے ساتھ لبیک والوں کو پیغام بھجواے جارہے ہیں
دوسری خوشخبری یوتھیوں کو آج مریم نواز کی دادی کی وفات کی ملی ، یہ ایسی اچانک خوشی تھی کہ انہیں ہضم نہیں ہورہی۔ اب تو یوتھیئے رسما بھی افسوس کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے۔
ادھر پنجاب اور کے پی کے میں امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے اقلیتوں کو ٹارگٹ بنا کرمارا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہیومن رائٹس کی رپورٹ پاکستان کو فیٹف کے اگلے اجلاس میں بلیک لسٹ کروا سکتی ہے۔
ڈالر کی قیمت ڈبل کرنے والی نالائق معاشی ٹیم اب اتنے پریشر میں ہے کہ ڈالر دس پیسے بھی سستا ہوجاے تو بغلیں بجاتے ہیں۔ تھریڈ بناے جاتے ہیں مگر پچھلے دو دنوں سے ڈالر دوبارہ پانچ روپے مہنگا ہوچکا ہے مگر کراے کے جوتی چاٹ جانے کہاں غائب ہوچکے ہیں ؟
اگر ان نااہلوں کو ڈالر کی قدر کا اتنا ہی احساس ہوتا تو اس کی قیمت گراتے ہی کیوں؟
ان نالائق معیشت دانوں سے بہتر تو ایک اسکول کا کلرک ہوتا ہے جو اپنا بجٹ زیادہ اچھے طریقے سے ترتیب دے لیتا ہے
ان گندے انڈوں نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے اور اب وہاں قیامت بھی ٹوٹ پڑے تو یہ ٹس سے مس نہیں ہونگے، ہمارے ڈرامے باز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک آدھ بیان کے علاوہ حکومت کی طرف سے کوی ہلچل نہیں ہوتی۔ یہ مردہ بدست زندہ ہیں بلکہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ یہ زندہ ہیں پر انکی روحیں مردہ ہوچکی ہیں، یہ سیاچن کا نام ہی نہیں لیتے کہ مودی ناراض نہ ہوجاے ، یہ کشمیر اور دیگر مقبوضہ پاکستانی علاقے واپس لینے کا بھولے سے بھی ذکر نہیں کرتے کہ جنگ نہ لگ جاے حالانکہ پاکستان کی جنگ لڑنے والے اور اس ملک کی دھرتی پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے کوی اور وہ ڈرتے بھی نہیں مگر ہمارے یہ بزدل حکمران ہیں کہ بیڈروم کے اندر بھی ڈرتے ہیں