سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ آمد پر سینئر صحافی و تجزیہ کار بھی سوالات اٹھانے لگے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان شدید کشیدگی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ، سپریم کورٹ کے اندر بھی مبینہ تقسیم کی باتیں زبان زد عام ہیں ، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی سے متعلق اجلاس میں پہنچ گئے اور جناب وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی ساتھ والی نشست پر براجمان رہے ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی پر سیاسی تقاریر بھی ہوئیں، جس میں عدلیہ پر تنقید بھی شامل رہی، تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب کے دوران ان سیاسی باتوں سے متفق نا ہونے کا اعلان بھی کردیا۔
اس پیش رفت پر غیر جانبدار حلقے اور سینئر صحافی و تجزیہ کار شدید حیران و پریشان دکھائی دے رہے ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیوں کیا۔
سینئر صحافی واینکر پرسن مہر بخاری نے آصف علی زرداری کی تقریر کے دوران سرجھکائے بیٹھے قاضی فائز عیسیٰ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کیا ساری ذہانت اور تدبیریں ختم ہو گئی ہے؟ جب جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کے 50 سال پورے ہونے پر اس مضحکہ خیز خصوصی دعوت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا وہ تو کیا سوچ رہے تھے؟
مہر بخاری نے مزید کہا کہ یقیناً جشن منانے کے اور بھی بہتر طریقے ہوسکتے تھے، سپریم کورٹ کے لیے ایک نازک اور متنازعہ وقت میں اس سے بدتر آپٹکس کیا ہو سکتی ہے؟
مہر بخاری نے ٹویٹ کو شیئر کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار و اینکر پرسن کامران خان نے کہا کہ یہ بیشک عقل سے بالا تر فیصلہ ہےیا کچھ ایسے معاملات ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔
کامران خان نےمزید کہاکہ سپریم کورٹ پہلے کچھ کم متنازعہ تھی کہ جسٹس فائز عیسی نے آج اس جلسے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا اور زرداری صاحب کے کندھے سے کندھا جوڑ کر گھنٹوں عمران خان مخالف اور عدلیہ مخالف تقاریر سنیں۔
ارشاد بھٹی نے کہا وہ کہنا یہ تھا کہ وہ جو ہم خیال بنچز،ہم خیال ججز کےبیانئیےبنا رہے ہیں،وہ جنہیں ہم خیال ججز،ہم خیال بنچز ہر سازش کرتےنظر آتے ہیں ان سب کو آج کیسا لگا جب سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر بیٹھے نظرآ ئےاور وہ بھی اُن لمحوں میں جب حکومت بمقابلہ سپریم کورٹ ماحول ہے۔
ماہر قانون انتظار حسین نے کہاآئین کی پچاس سالہ تقریب کے موقع پر یہ تصویر آئین کے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ ہے کہ جس آئین نے عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کی حدیں مقرر کیں صرف اس لیے کہ یہ وفاق کی اکائیوں کو جوڑ کے رکھے اور تمام ادارے اپنی حد میں رہ کر ایک دوسرے پر نظر بھی رکھ سکیں اور آئین کا تشخص برقرار رہے لیکن آج سپریم کورٹ کے حکم کو ناماننے کے لیے بلائے گئے اجلاس کا نام پچاس سالہ جشن رکھا گیا ہے۔
جہاں اسی سپریم کورٹ کا ایک جج ایویں دل پشوری کرنے آیا ہوا اور سازش یہ رچی جا رہی کہ سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو کسی بھی طرح محدود کیا جا سکے۔