سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی میں بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ دباؤ کے بعد سماعت سے انکار کرنے والی ایک جج کی جرات کو بڑا اقدام قرار دیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق اکتوبر 2019 میں اسلام آباد کی سول جج شائستہ کنڈی کی جانب سے جج ویڈیو اسکینڈل کے کیس میں سفارش کیے جانے اور دباؤ ڈالنے کے بعد کیس کی سماعت سے معذرت کرت کرلی تھی۔
سول جج شائستہ کنڈی نے اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ فریقین کے اپروچ کیےجانے پر کیس سننے سے معذرت کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نےاس معاملے پر بڑا فیصلہ کیا ،فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جج کی جرات کو بڑا اقدام قرار دیا اور ان کیلئے تعریفی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا۔
صحافی ثاقب بشیر نے لکھا کہ اسلام آباد ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے جج کو جس نے اپروچ کیا تھا اس کے خلاف اس وقت ایکشن بھی ہوا تھا اور جج کی جانب سے بروقت آگاہی پر چیف جسٹس کی جانب سے تعریفی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا تھا
ایک اور ٹویٹ میں کہاایک وقت یہ بھی تھا جب اسلام آباد ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے ججز کو اپروچ کرنے پر ایکشن بھی ہوتا تھا یاد رہے یہ بھی ہائی پروفائل کیس ہی تھا جسٹس اطہر من اللہ کا ہی دور تھا ۔۔۔ کس نے کیسے کیوں اپروچ کی تھی یہ بھی اہم ہے
اکتوبر 2019 میں جج ویڈیو اسکینڈل کیس میں جج شائستہ کنڈی کو اپروچ کرنے کے واقعے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ضلعی عدلیہ کے ججز کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا ۔
واضح رہے کہ ججز کے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ کی کارروائی کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھنے کے بعد سے جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مخصوص صحافیوں اور لیگی کارکنان کی جانب سے مہم چلائی جا رہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ پر الزامات لگائے جا رہے ہیں جب وہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تھے تو انہوں نے مداخلت پر سٹینڈ کیوں نہیں لیا تھا۔