جان ہے تو جہاں ہے
قومی اسمبلی میں آج تقریر کرتے ہوۓ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ سیاسی لیڈر کی سب سے بڑی میراث
(legacy)
اس کی جماعت، ووٹرز، اور منتخب نمائندے ہوتے ہیں- عوام میں جماعتی اثرو نفوذ ہی لیڈر کا سرمایہ ہوتا ہے- مزید کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کی گارنٹی ایوان میں بیٹھے 80 اراکین دیتے ہیں
تاریخی شواہد اور معروضی حالات کی روشنی میں اگر ان کا یہ بیان پرکھا جاۓ تو ن لیگ پر شاید یہ منطبق نہیں ہوتا- 99ء میں جب مارشل لاء لگا تو نوازشریف پارٹی ووٹرز اور قیادت کو اعتماد لیے بغیر معاہدہ کرکے نکل گۓ- کہا جاتا ہے کہ اتنا بھی گوارا نہ کیا کہ اٹک قلعے اندر ملحقہ کمرے میں قید غوث علی شاہ (سندھ گورنر) کو ہمراز کرتے، فقط اپنی جان بخشی پر قناعت کی
ادھیڑ عمری میں جب جذبے جوان اور عزائم بلند تھے، دوتہائی اکثریت سے جیتے ووٹ کا لحاظ نہ کیا- سب کچھ تیاگ کر دیارغیر سدھار لیے- اب تو عمر ڈھل چکی، سپریم کورٹ سے سزا یافتہ اور کسی بھی عہدے کے لیے نااہل ہوچکے، اب کونسی سیاسی میراث باقی رہ گئی- سیاسی مبصرین کی یہ بات کہ اولاد کی پارٹی جانشینی کے لیے اتنے جھمیلے جھیلے جا رہے ہیں- دو کم ظرف بیٹے باہر اپنی من موج میں ہیں اور جو بیٹی یہاں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، کیسوں کے سبب اس کا مستقبل مخدوش دیکھائی دیتا ہے- ویسے بھی جب انتقام سرمیں سما جاۓ تو پھرعقل والے فیصلوں کی امید نہیں رکھی جاسکتی
ایک مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ اپنی مرحومہ اہلیہ کو بسترمرگ پر چھوڑ کر وطن آۓ- تو جواب یہ ہے کہ انتخابات سے قبل میاں صاحب کو یقین تھا کہ وہ بازی مار لیں گے اور یوں قانونی سازی کرکے حالات اپنے حق میں کرلیں گے جو کہ نا ہوسکا
!بہتریہی ہوگا کہ مالی گارنٹی رکھوائیں اور علاج کے لیے دی گئی سہولت کا فائدہ اٹھائیں- جان ہے تو جہان ہے
قومی اسمبلی میں آج تقریر کرتے ہوۓ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ سیاسی لیڈر کی سب سے بڑی میراث
(legacy)
اس کی جماعت، ووٹرز، اور منتخب نمائندے ہوتے ہیں- عوام میں جماعتی اثرو نفوذ ہی لیڈر کا سرمایہ ہوتا ہے- مزید کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کی گارنٹی ایوان میں بیٹھے 80 اراکین دیتے ہیں
تاریخی شواہد اور معروضی حالات کی روشنی میں اگر ان کا یہ بیان پرکھا جاۓ تو ن لیگ پر شاید یہ منطبق نہیں ہوتا- 99ء میں جب مارشل لاء لگا تو نوازشریف پارٹی ووٹرز اور قیادت کو اعتماد لیے بغیر معاہدہ کرکے نکل گۓ- کہا جاتا ہے کہ اتنا بھی گوارا نہ کیا کہ اٹک قلعے اندر ملحقہ کمرے میں قید غوث علی شاہ (سندھ گورنر) کو ہمراز کرتے، فقط اپنی جان بخشی پر قناعت کی
ادھیڑ عمری میں جب جذبے جوان اور عزائم بلند تھے، دوتہائی اکثریت سے جیتے ووٹ کا لحاظ نہ کیا- سب کچھ تیاگ کر دیارغیر سدھار لیے- اب تو عمر ڈھل چکی، سپریم کورٹ سے سزا یافتہ اور کسی بھی عہدے کے لیے نااہل ہوچکے، اب کونسی سیاسی میراث باقی رہ گئی- سیاسی مبصرین کی یہ بات کہ اولاد کی پارٹی جانشینی کے لیے اتنے جھمیلے جھیلے جا رہے ہیں- دو کم ظرف بیٹے باہر اپنی من موج میں ہیں اور جو بیٹی یہاں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، کیسوں کے سبب اس کا مستقبل مخدوش دیکھائی دیتا ہے- ویسے بھی جب انتقام سرمیں سما جاۓ تو پھرعقل والے فیصلوں کی امید نہیں رکھی جاسکتی
ایک مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ اپنی مرحومہ اہلیہ کو بسترمرگ پر چھوڑ کر وطن آۓ- تو جواب یہ ہے کہ انتخابات سے قبل میاں صاحب کو یقین تھا کہ وہ بازی مار لیں گے اور یوں قانونی سازی کرکے حالات اپنے حق میں کرلیں گے جو کہ نا ہوسکا
!بہتریہی ہوگا کہ مالی گارنٹی رکھوائیں اور علاج کے لیے دی گئی سہولت کا فائدہ اٹھائیں- جان ہے تو جہان ہے