اگر تقریروں سے مسئلہ فلسطین حل ہونا ہوتا تو بھٹو کی اقوام متحدہ میں تقریر سے بہتر کوی تقریر نہیں کی گئی۔ اگر اکٹھے ہوکر ایک قرارداد لانے سے مسئلہ فلسطین حل ہونا ہوتا تو آج کے اجلاس میں جو قرارداد پیش ہوگی ایسی درجنوں قراردادیں ایسے ہی اجلاسات میں پیش ہوچکی ہیں۔ یعنی یہ اقدامات فضول ہیں یا پھر ڈنگ ٹپاو پالیسیز ہیں
تو پھر اس مسئلے کاحل کیا ہے۔ اسرائیل کو اس ظلم وبربریت سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟
سب سے پہلے بتا دوں کہ فلسطین کے اندر مہاجر یہودیوں نے غریب فلسطینیوں سے زمینیں خرید کر بڑے بڑے زرعی فارمز بنانے سے ابتدا کی تھی اور اب ان زمینوں کو ایک چار دیواری کے اندر سمو کر اپنی الگ ریاست بنا چکے ہیں۔ اسرائیلوں کے پاس زرخیز دماغ اور انتہای جینیس سائنسدانوں کی کمی نہیں یہی وجہ ہے کہ جو ٹیکنالوجی انکے پاس ہے وہ امریکہ کے پاس بھی نہیں ڈرون اور سمارٹ میزائیل ان سے امریکہ بھی خریدتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی ایسے میزائل نہیں دیکھے جو کسی بھاری بھرکم بلڈنگ کی بنیادوں پر مارے جائیں اور پوری بلڈنگ کسی اونٹ کی طرح بل کھاتی ہوی زمین بوس ہوجاے
اسرائیل کے اندر ایک سب سے پرانا شہر ہے یروشلم جس کو فتح کرنے کے بعد خلیفہ دوئم حضرت عمر نے ایک مسجد بنای تھی جس کا نام مسجد اقصی ہے یہ وہ متبرک مسجد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معراج کی رات نبی پاک اس جگہ تشریف لاے تھے ۔اس مسجد کو رسول خدا اور اپنے خلیفہ عمر کی ایک انتہای قیمتی نشانی کے طور پر فلسطینی سینے سے لگاے رکھتے ہیں ، ان کے پاس ایسی عظیم اور متبرک مسجد ہے تو رمضان شریف میں ادھر نمازیں پڑھنا بھی ان کا حق ہے۔ بس یہی ہے ان کا قصور کہ رمضان میں وہاں نمازیں کیوں پڑھ لیں ؟ یہ بے چارے آخری جمعہ کے دن وہاں جمع ہوے تھے ۔ جمعہ پڑھنے مسجد اقصی گئے تھے اور یہودیوں کو گوارا نہ ہوا۔ یہ جنگ ایک سجدے کی جنگ ہے جو فلسطینی مسجد اقصی کے اندر دینا چاہتے جہاں کبھی ان کے خلیفہ حضرت عمر بھی سربسجود ہوے تھے۔
کیا ہم مسجد نبوی جاکر روضہ رسول کے سامنے یا آگے پیچھے جہان جہاں سرور کائینات کے سجدے ہوتے تھے وہاں وہاں سجدے نہیں کرنا چاہیں گے؟ بس سمجھیں کہ آج کا رولا مسجد اقصی میں فلسطینیوں کا سربسجود ہونا ہی ہے
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ دنیا ایک عالمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی لہذا مسلمان اس کمزوری کو استعمال کرتے ہوے فورا اپنی افواج کو اسرائیلی بارڈر کے ساتھ جمع کرنا شروع کردیں جس سے اسرائیل کی توجہ ان کی افواج کی طرف بٹ جاے گی اور فلسطینیوں کو ریلیف مل جاے گا ۔ جن ملکوں کے بارڈر اسرائیل کے ساتھ نہیں لگتے وہ اپنی افواج لبنان، اردون اور سعودیہ وغیرہ بھیجنا شروع کریں ۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کو ڈیڈ لائین بھی دے دیں ۔پاکستان، انڈونیشیا، سعودیہ، مصر، ترکی اور دیگر ممالک اپنی افواج اور فضائیہ کو اسرائیلی بارڈر کے ساتھ ساتھ جمع کردیں اور پھر اٹیک کی ڈیڈلائین دے دیں
آپ دیکھنا کیسے مسئلہ حل نہیں ہوتا؟
تو پھر اس مسئلے کاحل کیا ہے۔ اسرائیل کو اس ظلم وبربریت سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟
سب سے پہلے بتا دوں کہ فلسطین کے اندر مہاجر یہودیوں نے غریب فلسطینیوں سے زمینیں خرید کر بڑے بڑے زرعی فارمز بنانے سے ابتدا کی تھی اور اب ان زمینوں کو ایک چار دیواری کے اندر سمو کر اپنی الگ ریاست بنا چکے ہیں۔ اسرائیلوں کے پاس زرخیز دماغ اور انتہای جینیس سائنسدانوں کی کمی نہیں یہی وجہ ہے کہ جو ٹیکنالوجی انکے پاس ہے وہ امریکہ کے پاس بھی نہیں ڈرون اور سمارٹ میزائیل ان سے امریکہ بھی خریدتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی ایسے میزائل نہیں دیکھے جو کسی بھاری بھرکم بلڈنگ کی بنیادوں پر مارے جائیں اور پوری بلڈنگ کسی اونٹ کی طرح بل کھاتی ہوی زمین بوس ہوجاے
اسرائیل کے اندر ایک سب سے پرانا شہر ہے یروشلم جس کو فتح کرنے کے بعد خلیفہ دوئم حضرت عمر نے ایک مسجد بنای تھی جس کا نام مسجد اقصی ہے یہ وہ متبرک مسجد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معراج کی رات نبی پاک اس جگہ تشریف لاے تھے ۔اس مسجد کو رسول خدا اور اپنے خلیفہ عمر کی ایک انتہای قیمتی نشانی کے طور پر فلسطینی سینے سے لگاے رکھتے ہیں ، ان کے پاس ایسی عظیم اور متبرک مسجد ہے تو رمضان شریف میں ادھر نمازیں پڑھنا بھی ان کا حق ہے۔ بس یہی ہے ان کا قصور کہ رمضان میں وہاں نمازیں کیوں پڑھ لیں ؟ یہ بے چارے آخری جمعہ کے دن وہاں جمع ہوے تھے ۔ جمعہ پڑھنے مسجد اقصی گئے تھے اور یہودیوں کو گوارا نہ ہوا۔ یہ جنگ ایک سجدے کی جنگ ہے جو فلسطینی مسجد اقصی کے اندر دینا چاہتے جہاں کبھی ان کے خلیفہ حضرت عمر بھی سربسجود ہوے تھے۔
کیا ہم مسجد نبوی جاکر روضہ رسول کے سامنے یا آگے پیچھے جہان جہاں سرور کائینات کے سجدے ہوتے تھے وہاں وہاں سجدے نہیں کرنا چاہیں گے؟ بس سمجھیں کہ آج کا رولا مسجد اقصی میں فلسطینیوں کا سربسجود ہونا ہی ہے
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ دنیا ایک عالمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی لہذا مسلمان اس کمزوری کو استعمال کرتے ہوے فورا اپنی افواج کو اسرائیلی بارڈر کے ساتھ جمع کرنا شروع کردیں جس سے اسرائیل کی توجہ ان کی افواج کی طرف بٹ جاے گی اور فلسطینیوں کو ریلیف مل جاے گا ۔ جن ملکوں کے بارڈر اسرائیل کے ساتھ نہیں لگتے وہ اپنی افواج لبنان، اردون اور سعودیہ وغیرہ بھیجنا شروع کریں ۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کو ڈیڈ لائین بھی دے دیں ۔پاکستان، انڈونیشیا، سعودیہ، مصر، ترکی اور دیگر ممالک اپنی افواج اور فضائیہ کو اسرائیلی بارڈر کے ساتھ ساتھ جمع کردیں اور پھر اٹیک کی ڈیڈلائین دے دیں
آپ دیکھنا کیسے مسئلہ حل نہیں ہوتا؟