Zafar Malik
Chief Minister (5k+ posts)
تسنیم نورانی کا استعفیٰ۔ انوکھالاڈلا کھیلنے کو مانگے چاند؟
جسٹس وجیہہ کے استعفیٰ کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ تسنیم نورانی نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس وجیہہ الدین کا بھی عمران خان سے اختلاف تھا۔ اس لئے انہیں پارٹی کو خیر باد کہنا پڑا۔ اب تسنیم نورانی کا بھی عمران خان سے اختلاف ہے۔ جس کے بعد نہ صرف انہیں بلکہ ان کی پوری ٹیم کو پارٹی کو خیرباد کہنا پڑا۔ ویسے تو جاوید ہاشمی کو بھی عمران خان سے اختلاف تھا اس لئے انہیں پارٹی کو خیرباد کہنا پڑا۔ حفیظ اللہ نیازی کا بھی عمران خان سے اختلاف تھا۔ اس لئے انہیں پارٹی سے جانا پڑا۔ یہ تحریک انصاف میں کیسی جمہوریت ہے کہ جس کو بھی عمران خان سے اختلاف ہو۔ ۔ اسے پارٹی چھوڑنی پڑتی ہے۔ یا اس کی پارٹی سے چھٹی کروا دی جاتی ہے۔
عمران خان یقیناًاپنی جماعت میں انٹرا پارٹی انتخابات کروا کر ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کی واہ واہ بھی ہو جائے اور انٹرا پارٹی میں نتائج بھی ان کی مرضی کے آجائیں۔ وہ جس کو چاہتے ہیں وہ منتخب ہو ۔ اور وہ جس کو نہیں چاہتے وہ منتخب نہ ہو۔ اس طرح پارٹی پر ان کی بلا شرکت غیرے حاکمیت بھی برقرار رہے۔ لیکن شاید عمران خان کو اندازہ نہیں کہ ایسا ممکن نہیں۔ اگر ایسا ممکن ہو تا تو باقی جماعتوں کے لیڈر بھی ایسا کر لیتے۔
جسٹس وجیہ الدین نے علیم خان اور جہانگیر ترین کو پارٹی کے گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کا مرتکب قرار دیا۔ اور انہیں پارٹی سے نکالنے کی ہدا یت کی۔ لیکن عمران خان کو یہ قبول نہیں تھا۔ یہی دو تو ان کے پیارے تھے۔ اس لئے جسٹس وجیہ الدین کی چھٹی ہو گئی۔ لیکن اس بار تو عمران خان پچھلی بار سے سبق سیکھ چکے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اگر پارٹی کی تمام سیٹوں پر انتخاب ہو گیا تو کئی ایسے لوگ بھی جیت جائیں گے۔ جن کو وہ نہیں چاہتے کہ جیت جائیں۔ اس لئے انہوں نے ایک نیا راستہ نکال لیا ۔ کہ صرف صدر کا انتخاب ہو۔ اور صدر باقی لوگ خود نامزد کرے۔ اب گیم تو اتنی رہ گئی تھی کہ صرف صدر اپنی مرضی کا منتخب کروانا تھا۔ جو نسبتا آسان کام تھا۔
اس ضمن میں پنجاب کی مثال سب کے سامنے ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ چودھری سرور پنجاب کے صدر بن جائیں۔ پہلے علیم خان نے چودھری سرور کو چیلنج کیا۔ لیکن علیم خان تو عمران خان کی گھر کی مرغی تھا۔ عمران خان پنجاب میں سب سے زیادہ لفٹ علیم خان کو ہی کرواتے ہیں۔ اس لئے انہیں سمجھا دیا گیا کہ آپ کو پنجاب کا صدر بننے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ تو ویسے ہی مضبوط ہیں۔ اس لئے علیم خان نے چودھری سرور کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اگر عمران خان کا دباؤ نہ ہو تا توعلیم خان چودھری سرور کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتے۔ لیکن وہ مجبور تھے۔
اسی طرح اعجاز چودھری جو تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات میں عمران خان کی مرضی کے خلاف پنجاب کے صدر منتخب ہو گئے تھے ۔ اور اسی وجہ سے انہیں اپنی بقا کی ایک لمبی جنگ لڑنا پڑی۔ وہ بھی پنجاب کی صدارت کا انتخاب لڑنا چاہتے تھے۔ اعجاز چودھری کا ابتدائی خیال تو یہی تھا کہ علیم خان اور چودھری سرور دونوں انتخاب لڑیں گے تو ان کا ایک اچھا چانس ہے۔ پھر نظریاتی گروپ نے بھی اعجاز چودھری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ سیف اللہ نیازی جو اعجاز چودھری گروپ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے بھی ایک انجانے دباؤ کی وجہ سے اپنے گروپ کو متحرک کرنے میں بہت دیر کی۔ ان کے سپورٹرز بھی حیران تھے۔ کہ کیا ہو گیا۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے سیف اللہ نیازی کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہوں۔ اور پھر وہی ہوا کہ علیم خان کی طرح اعجاز چودھری نے بھی چودھری سرور کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے نظریاتی گروپ کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ یہ اعجاز چودھری کاسٹائل نہیں تھا۔ دھڑے کی سیاست ہی تو ان کی پہچان تھی۔ لیکن وہ کیوں بھاگ گئے۔ ذمہ دار ذرائع کہتے ہیں کہ سیف اللہ نیازی نے بھی ہاتھ کھڑے کر د یے تھے۔ کہ اگر انتخاب لڑنا ہے تو اپنی ذمہ داری پر لڑنا ہے۔ عمران خان کا ایک ہی اعلان ہے جو چودھری سرور کے راستے میں آئے گا۔ گھر جائے گا۔ اس لئے اگر اعجازچو دھری چودھری سرور کے مقابلے میں انتخاب لڑتے ۔تو بھی گھر جاتے۔ اس لئے انہوں نے بھی چودھری سرور کی حما یت کا اعلان کر دیا۔ چودھری سرور کی حمایت کے اعلان کے بعد ہی انہیں عمران خان سے ملاقات کا وقت ملا۔ اور شاباش ملی کہ اچھا کیا کہ چودھری سرور کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
اب اتنا لمبا جوڑ توڑ اور سیاسی بدمعاشی صرف صرف صدر کے لئے تو کسی حد تک ممکن تھی لیکن اگر صدر کے ساتھ سیکرٹری ۔ نائب صدر ۔ اور دیگر عہدوں پر بھی انتخاب ہو تو ممکن نہیں۔ اس لئے خطرہ تھا کہ اگر اتنے لمبے جوڑ توڑ کے بعد عمران خان اپنی مرضی کا صدر منتخب کروا بھی لیتے ہیں تو باقی سیٹوں پر دوسرے دھڑے کے لوگ منتخب ہو جائیں گے ۔ اس لئے یہ نئی تھیوری نکالی گئی کہ صرف ایک سیٹ پر انتخاب ہو ۔ باقی صدر کا اختیار کے وہ جو مرضی کرے۔ اب بیچارے تسنیم نورانی اور ان کی ٹیم کو یہ عجیب منطق سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ بیچارے غیر سیاسی بیوروکریٹ۔ رضیہ پھنس گئی غنڈوں کی مصداق۔ پھنس گئے تھے۔ اس لئے استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہا جب عمران خان کو یہ قبول نہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی بھی الیکشن لڑے۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی جیت جائے۔ تو یہ انٹر ا پارٹی کا ڈھونگ کیوں۔ پہلے بھی اس میں تحریک انصاف کی بد نامی ہوئی تھی۔ اب پھر بدنامی ہو رہی ہے۔ ایک عجیب شوق ۔ ایک عجیب منطق ۔انوکھا لاڈلا کھیلنے کو مانگے چاند۔
عمران خان یقیناًاپنی جماعت میں انٹرا پارٹی انتخابات کروا کر ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کی واہ واہ بھی ہو جائے اور انٹرا پارٹی میں نتائج بھی ان کی مرضی کے آجائیں۔ وہ جس کو چاہتے ہیں وہ منتخب ہو ۔ اور وہ جس کو نہیں چاہتے وہ منتخب نہ ہو۔ اس طرح پارٹی پر ان کی بلا شرکت غیرے حاکمیت بھی برقرار رہے۔ لیکن شاید عمران خان کو اندازہ نہیں کہ ایسا ممکن نہیں۔ اگر ایسا ممکن ہو تا تو باقی جماعتوں کے لیڈر بھی ایسا کر لیتے۔
جسٹس وجیہ الدین نے علیم خان اور جہانگیر ترین کو پارٹی کے گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کا مرتکب قرار دیا۔ اور انہیں پارٹی سے نکالنے کی ہدا یت کی۔ لیکن عمران خان کو یہ قبول نہیں تھا۔ یہی دو تو ان کے پیارے تھے۔ اس لئے جسٹس وجیہ الدین کی چھٹی ہو گئی۔ لیکن اس بار تو عمران خان پچھلی بار سے سبق سیکھ چکے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اگر پارٹی کی تمام سیٹوں پر انتخاب ہو گیا تو کئی ایسے لوگ بھی جیت جائیں گے۔ جن کو وہ نہیں چاہتے کہ جیت جائیں۔ اس لئے انہوں نے ایک نیا راستہ نکال لیا ۔ کہ صرف صدر کا انتخاب ہو۔ اور صدر باقی لوگ خود نامزد کرے۔ اب گیم تو اتنی رہ گئی تھی کہ صرف صدر اپنی مرضی کا منتخب کروانا تھا۔ جو نسبتا آسان کام تھا۔
اس ضمن میں پنجاب کی مثال سب کے سامنے ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ چودھری سرور پنجاب کے صدر بن جائیں۔ پہلے علیم خان نے چودھری سرور کو چیلنج کیا۔ لیکن علیم خان تو عمران خان کی گھر کی مرغی تھا۔ عمران خان پنجاب میں سب سے زیادہ لفٹ علیم خان کو ہی کرواتے ہیں۔ اس لئے انہیں سمجھا دیا گیا کہ آپ کو پنجاب کا صدر بننے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ تو ویسے ہی مضبوط ہیں۔ اس لئے علیم خان نے چودھری سرور کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اگر عمران خان کا دباؤ نہ ہو تا توعلیم خان چودھری سرور کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتے۔ لیکن وہ مجبور تھے۔
اسی طرح اعجاز چودھری جو تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات میں عمران خان کی مرضی کے خلاف پنجاب کے صدر منتخب ہو گئے تھے ۔ اور اسی وجہ سے انہیں اپنی بقا کی ایک لمبی جنگ لڑنا پڑی۔ وہ بھی پنجاب کی صدارت کا انتخاب لڑنا چاہتے تھے۔ اعجاز چودھری کا ابتدائی خیال تو یہی تھا کہ علیم خان اور چودھری سرور دونوں انتخاب لڑیں گے تو ان کا ایک اچھا چانس ہے۔ پھر نظریاتی گروپ نے بھی اعجاز چودھری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ سیف اللہ نیازی جو اعجاز چودھری گروپ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے بھی ایک انجانے دباؤ کی وجہ سے اپنے گروپ کو متحرک کرنے میں بہت دیر کی۔ ان کے سپورٹرز بھی حیران تھے۔ کہ کیا ہو گیا۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے سیف اللہ نیازی کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے ہوں۔ اور پھر وہی ہوا کہ علیم خان کی طرح اعجاز چودھری نے بھی چودھری سرور کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے نظریاتی گروپ کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ یہ اعجاز چودھری کاسٹائل نہیں تھا۔ دھڑے کی سیاست ہی تو ان کی پہچان تھی۔ لیکن وہ کیوں بھاگ گئے۔ ذمہ دار ذرائع کہتے ہیں کہ سیف اللہ نیازی نے بھی ہاتھ کھڑے کر د یے تھے۔ کہ اگر انتخاب لڑنا ہے تو اپنی ذمہ داری پر لڑنا ہے۔ عمران خان کا ایک ہی اعلان ہے جو چودھری سرور کے راستے میں آئے گا۔ گھر جائے گا۔ اس لئے اگر اعجازچو دھری چودھری سرور کے مقابلے میں انتخاب لڑتے ۔تو بھی گھر جاتے۔ اس لئے انہوں نے بھی چودھری سرور کی حما یت کا اعلان کر دیا۔ چودھری سرور کی حمایت کے اعلان کے بعد ہی انہیں عمران خان سے ملاقات کا وقت ملا۔ اور شاباش ملی کہ اچھا کیا کہ چودھری سرور کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
اب اتنا لمبا جوڑ توڑ اور سیاسی بدمعاشی صرف صرف صدر کے لئے تو کسی حد تک ممکن تھی لیکن اگر صدر کے ساتھ سیکرٹری ۔ نائب صدر ۔ اور دیگر عہدوں پر بھی انتخاب ہو تو ممکن نہیں۔ اس لئے خطرہ تھا کہ اگر اتنے لمبے جوڑ توڑ کے بعد عمران خان اپنی مرضی کا صدر منتخب کروا بھی لیتے ہیں تو باقی سیٹوں پر دوسرے دھڑے کے لوگ منتخب ہو جائیں گے ۔ اس لئے یہ نئی تھیوری نکالی گئی کہ صرف ایک سیٹ پر انتخاب ہو ۔ باقی صدر کا اختیار کے وہ جو مرضی کرے۔ اب بیچارے تسنیم نورانی اور ان کی ٹیم کو یہ عجیب منطق سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ بیچارے غیر سیاسی بیوروکریٹ۔ رضیہ پھنس گئی غنڈوں کی مصداق۔ پھنس گئے تھے۔ اس لئے استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہا جب عمران خان کو یہ قبول نہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی بھی الیکشن لڑے۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی جیت جائے۔ تو یہ انٹر ا پارٹی کا ڈھونگ کیوں۔ پہلے بھی اس میں تحریک انصاف کی بد نامی ہوئی تھی۔ اب پھر بدنامی ہو رہی ہے۔ ایک عجیب شوق ۔ ایک عجیب منطق ۔انوکھا لاڈلا کھیلنے کو مانگے چاند۔
Last edited by a moderator: