کراچی میں آج جو ہوا وہ اس ملک میں کون سا پہلی بار ہوا ہے ناانصافی بدمعاشی زور زبردستی دھونس دھاندلی گالی گولی مارا ماری دھتکار تضحیک پامالی بدحالی پھٹکار ان سب اجزا سے مل کر ہی تو کلمہ کے نام پہ لی گئی ریاست چلائی جارہی ہے اس پہ کسی کو کوئی شک ہے کہ یہاں کوئی قانون نہیں ہے حتی کہ جنگل کا قانون بھی یہاں لاگو نہیں ہے ۔کیا اس سب میں کسی کو شک ہے ؟؟ کیا یہاں کبھی جمہور کی آواز یا خواہش کو کسی نے سنا ہے ؟ پروان چڑھنے دیا ہے ؟؟؟ کیا یہاں سب برائے فروخت نہیں ہے ؟؟ بتائیں قانون نہیں بکتا انصاف نہیں بکتا عدل نہیں بکتا پیشہ ور لوگ نہیں بکتے ؟؟؟ بابوں سے امیر شہر تک یہاں کیا ہے جسکی قیمت نہیں ہے ؟؟ اور جو نہیں بکتا وہ کٹتا ہے۔۔ اسے کاٹ کہ باقی ماندہ زندہ ضمیروں کے سامنے واسطہ عبرت رکھا جاتا ہے ۔ یہاں کون سی تہذیب ہے ؟؟؟ ماسوائے بدتہذیب مساشرتی چلن کی تہذیب کے یہاں کیا ساکت ہے ؟؟ یہ ملک ہم نے کلمہ کے نام پہ دھوکہ دہی سے ہی تو لیا ہے اور دھوکہ بھی کسے دینے کا ڈھونگ رچا رہے ۔۔کلمہ کے مالک کو یعنی کہ اس اللہ کو جو دل کے لاکھ پردوں میں چھپی نیتوں کو بھی جان رہا جبھی تو آج یہ مملکت باقی دنیا کے لیئے نشان عبرت کدہ بنی کھڑی جہاں تعلیم ہے تو علم نہیں علم ہے تو عمل نہیں ۔ڈگری ہے پر شعور نہیں ۔عدالت ہے پر عدل نہیں۔ جمہور ہیں پر جمہوریت نہیں۔ حکومت ہے مگر بر انصاف حکم نہیں ۔انتخابات ہیں مگر حسن انتخاب نہیں ۔معاشرہ ہے مگر معاشرت نہیں ۔قائد ہیں مگر قائدانہ صلاحیت نہیں ۔ایٹم بم ہے مگر قومی عزت و وقار نہیں۔ آئین ہے مگر اس کی آواز نہیں ۔ دین کو لین دین میں بدل دیا گیا ہے ۔مولوی ہے مگر شرع نہیں ۔ مسجد ہے نمازی نہیں نمازی ہیں تو لگن نہیں ۔ شہر ہیں شہرزاد نہیں۔ قوم ہے قومی حمیت نہیں ۔ اجتماع ہے تو اجتماعی سوچ نہیں۔ الغرض دھوکہ دراصل ہماری ہی طرف لوٹا دیا گیا ہے صاحب تدبیر و واقف دل نے دھوکہ بازوں کا دھوکہ انہی پہ پھیر دیا ہے یہاں کچھ ڈھکا نہیں کچھ چھپا نہیں یہ ہمارا ہی دھوکہ ہے جو اب بڑا ہوچکا اور اس پہ دھوکوں کی ایک فصل ناتمام ہمیں کاٹتے رہنا ہے ۔ کہ مالک المک سے دھوکہ کرنے کی کوشش کہ بھی یہی سزا ہے کلمہ کے نام پہ لیئے ملک میں