سیاسی جاگیرداروں نے مضبوط حدبندیاں کرلیں تھیں ۔۔۔۔ دولت کی کثرت نے انہیں بے فکر بنایا ہوا تھا ۔۔۔ ہر علاقے میں اکابر مجرمین کی صورت میں بااثر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا کونسا مشکل کام تھا۔۔۔۔ انہیں بااثر مجرمین کے توسط سے اس علاقے کے لوگوں کو خریدا جاتا تھا ،،، جو بکنے پر آمادہ نہ ہوتے انہیں ڈرا دھمکا کر اپنی حمایت پر مجبور کردیا جاتا تھا ۔۔۔ آکاس بیل کی طرح شجر قومی پر مسلط یہ مافیائی سیاستدان تھے یا پھر مذہبی بہروپیئےتھے جو استحصال کررہے تھے اس طبقے کا جو اس ملک کا سب سے مظلوم طبقہ تھا۔۔۔
ان کا اپنا سر مفادات کی کڑھائی میں اور اور ہاتھوں اور پائوں کی بیسیوں انگلیاں اقتدار کی دیسی گھی میں تھیں ۔۔۔ غریب طالب علموں اور دین پر مرمٹنے والے عوام کو اسلامی انقلاب خلافت اور قرون اولیٰ کے طرز پر حکومت لانے کے مژدے سنا کر اپنے پیچھے چلنے پر آمادہ کرلیا گیا تھا۔۔۔۔ جتنی بار موقع ملا کبھی اس مظلوم طبقے کے مفادات کےلئے آواز بلند نہیں کی ۔۔۔
غریبو ں کی اولاد جو مدارس میں دین کا علم سیکھنے آتی تھی ۔۔۔ کوبے دردی سے عرب اور عجم کی لڑائی کے الائو میں ڈال دیا جاتا تھا یا پھر دشت لیلیٰ میں غریب الوطنی کی حالت میں بے گوروکفن ان کی لاشوں کو صحرائی پرندوں کی غذا بنالیا جاتا تھا۔۔۔۔
مگر اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور دیر بھی کسی نہ کسی مصلحت کی وجہ سے ہوتی ہے جس کا ہم انسانوں کو ادراک نہیں ہوپاتا۔۔۔۔ مظلوموں کی دعا رنگ لانے لگی ،،،بے کسوں کی فریاد زنجیر عدل ہلانے لگی ۔۔۔۔ نان جویں کو ترسنے والے مفلوک الحال رورو کر اللہ کی دربار میں جو فریاد کررہے تھے اس کا اثر ظاہر ہونے لگا۔۔۔۔۔
ایک نادر روزگار ہستی ایک ناز و نعم میں پرورش پانے والا کھلنڈرا نوجوان منتخب کرلیا گیا تھا۔۔۔۔ فرام ایم ٹی وی ٹو مکہ کی مصنفہ تحریر کرتی ہیں میں لندن میں خان کے فلیٹ میں داخل ہوئی ۔۔کچن میں گئی ۔۔ چولہا جلانے لگی تو گیس کہیں سے لیک ہوگئی تھی۔۔۔۔ آگ جل اٹھی۔۔۔۔ میں بڑی مشکل سے جان بچا کر باہر آگئی۔۔۔ میں نے دیکھا خان کا فلیٹ جلنے لگا ہے ۔۔۔۔ میں ڈرنے لگی خان کوکیسے بتائوں وہ تو غصے سے پاگل ہوجائے گا۔۔۔۔ ڈرتے ڈرتے خان کو فون ملایا اور فلیٹ جلنے کی خبر دی۔۔۔۔۔
آگے سے ایک سکون بھری آواز سنائی دی۔۔۔۔خان کہنے لگا۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر ہے ۔۔۔۔میرے گناہوں کا ٹھکانہ جل گیا۔۔۔۔۔ اس کا دل مغربی زندگی سے اچاٹ ہوگیا تھا ۔۔۔۔ اللہ کی طرف لوٹنے کا عمل شروع ہوچکا تھا ۔۔۔۔ فطرتا صالح خان مذہب کی طرف متوجہ ہونے لگا۔۔۔۔ اسلام سے محبت اور پیغمبر اسلام سے محبت اس کے دل کو جلا اور روشنی بخشنے لگی ۔۔۔۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ فلاحی کاموں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد سیاست کا رخ کرنے لگا ہے ۔۔۔
لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا، اس پر بھپتیاں کسی گئیں ،،،اس کی پارٹی کو ٹانگہ پارٹی کہا گیا ۔۔۔مگر جس سے اللہ نے کام لینا ہوتا ہے ایسے لوگوں کی ہمت عام لوگوں جتنی نہیں ہوتی ۔۔۔ ایسے لوگوں کا عزم اپنی بلندی میں ہمالہ کو شرمندہ کرتا ہے ،، ایسے لوگوں کا یقین چٹانوں سے زیادہ مستحکم ہوتا ہے ، ایسے لوگوں کی نظر مخلوق پر نہیں خالق پر ہوتی ہے ، اسباب پر نہیں مسبب الاسباب پر ہوتی ہے ۔۔۔
مایوسی کو گناہ سب سمجھتے ہیں مگر ایسے لوگوں کے دل مایوسی سے آشنا ہی نہیں ہوتے ۔۔۔۔کوئٹہ میں چند سو کے لوگوں کے جلسے سے خان خطاب کررہا تھا جب اس نے کہا ایک دن آئے گا کہ میرے سامنے لاکھوں کا مجمع ہوگا اور وہ سب میری بات توجہ سے سن رہے ہوں گے تو حاضرین میں بہت سے لوگ ہنسنے لگے ۔۔۔مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ خان تقریر کررہا ہے اور کروڑوں لوگ توجہ سے سن رہے ہیں ۔۔۔ کہنے والوں نے بہت کچھ کہا۔۔۔ الزام لگانے والوں نے ہر الزام لگایا ۔۔۔۔
ایک مرحوم لیڈر نے کہا میرا وجدان کہتا ہے کہ وہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے ۔۔۔۔۔ اس کا وجدان اسے یہ بات بتانے سے قاصر تھی کہ بہت جلد اسی خان کے ہاتھوں اس کی سیاسی موت واقع ہونے والی ہے ۔۔۔ اور واقع ہوکر رہی ۔۔۔۔خیبر پختونخواہ میں اپنی مضبوط سیٹیں گنوا بیٹھا۔۔۔ اگلے الیکشن میں اپنی آبائی سیٹ بھی گنوا کر یہ مرحوم سیاستدان اپنے تشخص سے بھی محروم ہوجائے گا۔۔۔۔فدائے ملت عمران خان جس نےسیاست کے معنی بدل دیئے ۔۔۔۔
جس کے ہاتھوں سیاسی پنڈتوں کی دکانیں خطرے مین پڑ گئی ہیں ۔۔۔۔ پاکستانی عوام کو پتہ چل گیا ہے کہ کیا زرداری کیا نواز شریف ، کیا اچکزئی اور کیا مولانا فضل مرحوم ۔۔۔سب رانگ نمبر ہیں ۔۔۔ستاسٹھ سال سے قوم انہی رانگ نمبرز پر کال کئے جارہی تھی اور نتیجے میں ریموٹوا ان کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اب رائٹ نمبر مل گیا ہے تو ریموٹوا بھی مل جائے گا اور قوم اپنے نئے پاکستان کے گولے پر بھی پہنچ جائے گی وہ گولا جہاں امن ہوگا خوشحالی ہوگی اور انصاف ہوگا۔۔۔