25 فروری 2016.
اینٹ کسی بھی عمارتی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہوتی ہے۔ اینٹ سے اینٹ جڑتی ہے تو عمارت مکمل ہوتی ہے اور اینٹوں کا آپس میں اتحاد باہمی برقرار رکھنا ہی عمارت کی مضبوطی کی ضمانت ہوتا ہے۔ اینٹوں کو یقین اور اعتماد کا سیمنٹ آپس میں جوڑے رکھتا ہے اور جہاں بے یقینی اور شک کی دراڑ آجائے وہاں اینٹیں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔
مٹی میں پانی کا مِلنا۔ پھر اس گارے کا سانچے میں ڈھلنا۔ پھر آگ میں جلنا اور سیاہی مائل گارے سے سرخ اینٹ میں ڈھلنا۔ غرض اینٹ کی تخلیق ایک مکمل سائنسی عمل ہے جس کو معاشرے کی عام فہم مثالوں سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے لیکن یہ موضوع کسی اور تھریڈ کے لیے سنبھال رکھتے ہیں۔ اس تھریڑ کا موضوع اینٹ کے استعمال یا یوں کہیے کہ کاروبار تک محدود ہے۔
اینٹ کاسب سے زیادہ استعمال عمارت بنانے میں ہوتا ہے۔ تعمیراتی کمپنیاں اینٹوں کی سب سے بڑی خریدار ہیں جو بھٹّہ خشت پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ تخلیق ہونے والی اینٹوں کو ربط اور خوش اسلوبی سے ترتیب دیتی ہیں اور ان کے درمیان اعتماد اور یگانگت کا سیمنٹ لگاتی ہیں۔ خلوص کے پانی سے آبیاری کرتی ہیں اور یوں وہ اینٹیں جو اپنی جداگانہ حیثیت میں ایک ٹوٹے ستارے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہو سکتی تھیں اب عمارت کی کہکشاں میں دمکتے مقدّر کے ہزاروں ستاروں کی مانند اتحاد باہمی کا مظہر بن جاتی ہیں۔
اچھی تعمیراتی کمپنیاں اپنی لگائی ہوئی اینٹوں کے ایمان کو مزید مضبوط کرنے اور عمارت کی لرزتی زمین اور بھٹکتی ہواؤں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے انہیں ایک اور کلمہ بھی پڑھاتی ہیں جو کچھ یوں ہے۔
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اس کے مقابلے میں کچھ کمپنیوں کا کاروبار یکسر مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیمولیشن کمپنیاں کہلاتی ہیں جن کا کام ہی عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہوتا ہے۔ اکثر بڑی تعمیراتی کمپنیوں کو اگر عمارت کے کسی حصّے کو گرا کر وہاں کچھ اور تعمیر کرنا مقصود ہو یا پھر تمام عمارت ہی گرا کر اس کی زمین کے حصّے بخرے کرنے کا ارادہ ہو تو ان کرائے کی ڈیمولیشن کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں ایک حقیقت مسلّمہ ہے اور وہ یہ کہ تعمیرات کی دنیا میں اصل کاروبار بہر حال تعمیراتی کمپنیوں کا ہی ہے۔
یہ ڈیمولیشن کمپنیاں اپنے کنٹریکٹ کے مطابق عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجا تو لیتی ہیں لیکن ان کی تخریبی کام میں مہارت کی وجہ سے انہیں کسی بھی تعمیری کام میں حصّہ نہیں ملتا خواہ وہ تعمیری کام انہی کی ڈھائی گئی عمارت کی جگہ پر ہی ہو رہا ہو۔
بات اینٹ سے اینٹ بجانے کی چل نکلی ہے تو کچھ ذکر سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب سردار آصف علی زرداری کا بھی ہو جائے جہنوں نے اپنی کاوشوں سے اینٹ سے اینٹ بجانے کے غیر معروف محاورے کو زباں زدِ عام کر دیا۔ آج کل ایسے مجدّد کہاں ملتے ہیں جو بھولے بسرے اسباق عوام الناس کو اس طرح یاد دلائیں کہ پھر ان اسباق کو بھول جانا عوام کی خواہش پر بھی منحصر نہ ہو۔ بلکہ معاملہ اس کے بر عکس ہو جائے کہ جتنا بھلانا چاہیں اتنا ہی یاد آئیں۔
اینٹ سے اینٹ بجانے والا سبق ہی کیا کم تھا کہ حضرت نے پتھروں سے سر پھوڑنا بھی مناسب سمجھا؟ بہت عرصہ قبل کسی دانا کا قول پڑھا تھا کہ خاموش انسان پہاڑ کی مانند با رعب ہوتا ہے۔ زرداری صاحب نے اینٹوں والا بھاشن دینے کے بعد سمجھا ہو گا کہ شاید دوسری طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے آئے گا تو پتھر پھینکنے والوں کی پوزیشن واضع ہو جائے لیکن دوسری جانب سے مستعدی مستقل مزاجی اور خاموشی کی پالیسی قائم رہی۔
پھر جب ساری دنیا گھوم کر وہ بھٹّہ ہی نہ مل سکا کہ جس کی بنائی ہوئی اینٹ بجا کر اس نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ شور شرابہ کیا جا سکے تو حضرت نے ایک اور روپ دکھایا اور بھوکی لومڑی کی مانند خوشامد شروع کر دی۔ اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر کہ خوشامد میں آجانے والے کوّے اور شکار دبوچ کر بیٹھے عقاب میں فرق ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں تو بات ایک حد اور آگے نکل چکی ہے کہ عقاب کے دبوچے ہوئے سانپوں میں ہی لومڑی کی جان ہے۔
اینٹ کا جواب پتھر سے لے کر پتھر پھینکنے والوں کو دنیا میں رسوا کرنے کی شدید خواہش نے زرداری صاحب سے کنفیوژن میں وہ کچھ کروایا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اینٹ کا جوابی پتھر اور کہیں نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی عقل پر پڑ چکا ہے۔
[email protected]
اینٹ کسی بھی عمارتی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہوتی ہے۔ اینٹ سے اینٹ جڑتی ہے تو عمارت مکمل ہوتی ہے اور اینٹوں کا آپس میں اتحاد باہمی برقرار رکھنا ہی عمارت کی مضبوطی کی ضمانت ہوتا ہے۔ اینٹوں کو یقین اور اعتماد کا سیمنٹ آپس میں جوڑے رکھتا ہے اور جہاں بے یقینی اور شک کی دراڑ آجائے وہاں اینٹیں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔
مٹی میں پانی کا مِلنا۔ پھر اس گارے کا سانچے میں ڈھلنا۔ پھر آگ میں جلنا اور سیاہی مائل گارے سے سرخ اینٹ میں ڈھلنا۔ غرض اینٹ کی تخلیق ایک مکمل سائنسی عمل ہے جس کو معاشرے کی عام فہم مثالوں سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے لیکن یہ موضوع کسی اور تھریڈ کے لیے سنبھال رکھتے ہیں۔ اس تھریڑ کا موضوع اینٹ کے استعمال یا یوں کہیے کہ کاروبار تک محدود ہے۔
اینٹ کاسب سے زیادہ استعمال عمارت بنانے میں ہوتا ہے۔ تعمیراتی کمپنیاں اینٹوں کی سب سے بڑی خریدار ہیں جو بھٹّہ خشت پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ تخلیق ہونے والی اینٹوں کو ربط اور خوش اسلوبی سے ترتیب دیتی ہیں اور ان کے درمیان اعتماد اور یگانگت کا سیمنٹ لگاتی ہیں۔ خلوص کے پانی سے آبیاری کرتی ہیں اور یوں وہ اینٹیں جو اپنی جداگانہ حیثیت میں ایک ٹوٹے ستارے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہو سکتی تھیں اب عمارت کی کہکشاں میں دمکتے مقدّر کے ہزاروں ستاروں کی مانند اتحاد باہمی کا مظہر بن جاتی ہیں۔
اچھی تعمیراتی کمپنیاں اپنی لگائی ہوئی اینٹوں کے ایمان کو مزید مضبوط کرنے اور عمارت کی لرزتی زمین اور بھٹکتی ہواؤں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے انہیں ایک اور کلمہ بھی پڑھاتی ہیں جو کچھ یوں ہے۔
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اس کے مقابلے میں کچھ کمپنیوں کا کاروبار یکسر مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیمولیشن کمپنیاں کہلاتی ہیں جن کا کام ہی عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہوتا ہے۔ اکثر بڑی تعمیراتی کمپنیوں کو اگر عمارت کے کسی حصّے کو گرا کر وہاں کچھ اور تعمیر کرنا مقصود ہو یا پھر تمام عمارت ہی گرا کر اس کی زمین کے حصّے بخرے کرنے کا ارادہ ہو تو ان کرائے کی ڈیمولیشن کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں ایک حقیقت مسلّمہ ہے اور وہ یہ کہ تعمیرات کی دنیا میں اصل کاروبار بہر حال تعمیراتی کمپنیوں کا ہی ہے۔
یہ ڈیمولیشن کمپنیاں اپنے کنٹریکٹ کے مطابق عمارت کی اینٹ سے اینٹ بجا تو لیتی ہیں لیکن ان کی تخریبی کام میں مہارت کی وجہ سے انہیں کسی بھی تعمیری کام میں حصّہ نہیں ملتا خواہ وہ تعمیری کام انہی کی ڈھائی گئی عمارت کی جگہ پر ہی ہو رہا ہو۔
بات اینٹ سے اینٹ بجانے کی چل نکلی ہے تو کچھ ذکر سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب سردار آصف علی زرداری کا بھی ہو جائے جہنوں نے اپنی کاوشوں سے اینٹ سے اینٹ بجانے کے غیر معروف محاورے کو زباں زدِ عام کر دیا۔ آج کل ایسے مجدّد کہاں ملتے ہیں جو بھولے بسرے اسباق عوام الناس کو اس طرح یاد دلائیں کہ پھر ان اسباق کو بھول جانا عوام کی خواہش پر بھی منحصر نہ ہو۔ بلکہ معاملہ اس کے بر عکس ہو جائے کہ جتنا بھلانا چاہیں اتنا ہی یاد آئیں۔
اینٹ سے اینٹ بجانے والا سبق ہی کیا کم تھا کہ حضرت نے پتھروں سے سر پھوڑنا بھی مناسب سمجھا؟ بہت عرصہ قبل کسی دانا کا قول پڑھا تھا کہ خاموش انسان پہاڑ کی مانند با رعب ہوتا ہے۔ زرداری صاحب نے اینٹوں والا بھاشن دینے کے بعد سمجھا ہو گا کہ شاید دوسری طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے آئے گا تو پتھر پھینکنے والوں کی پوزیشن واضع ہو جائے لیکن دوسری جانب سے مستعدی مستقل مزاجی اور خاموشی کی پالیسی قائم رہی۔
پھر جب ساری دنیا گھوم کر وہ بھٹّہ ہی نہ مل سکا کہ جس کی بنائی ہوئی اینٹ بجا کر اس نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ شور شرابہ کیا جا سکے تو حضرت نے ایک اور روپ دکھایا اور بھوکی لومڑی کی مانند خوشامد شروع کر دی۔ اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر کہ خوشامد میں آجانے والے کوّے اور شکار دبوچ کر بیٹھے عقاب میں فرق ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں تو بات ایک حد اور آگے نکل چکی ہے کہ عقاب کے دبوچے ہوئے سانپوں میں ہی لومڑی کی جان ہے۔
اینٹ کا جواب پتھر سے لے کر پتھر پھینکنے والوں کو دنیا میں رسوا کرنے کی شدید خواہش نے زرداری صاحب سے کنفیوژن میں وہ کچھ کروایا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اینٹ کا جوابی پتھر اور کہیں نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی عقل پر پڑ چکا ہے۔
[email protected]
Last edited: