گزشتہ روز جسٹس اطہرمن اللہ نے غیر معمولی ریمارکس دئیے ان کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے ایک کیس میں ضمانت منظور کی گئی اور اس عدالت کے آرڈر کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے زریعے عدالت کے فیصلے کو روندا گیا۔
سپریم کورٹ کی کاروائی کور کرنیوالے صحافیوں کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومتی وکلاء اور اٹارنی جنرل کو ریسکیو کرنیکی کافی کوشش کی اور ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 76 سال سے ملک کیساتھ یہ ہو رہا ہے
جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایم پی او کا سہارا لیکر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی آپ کی حکومت کر رہی ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایم پی او سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہونے کے باوجود ایم پی او آرڈر جاری کیا گیا
جسٹس منصور علی شاہ بھی کافی برہم نظر آئے اور کہا کہ آپ ایم پی او کا سہارا لیکر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں دوسری طرف کہہ رہے ہیں یہ حکومت کچھ نہیں کر رہی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے، ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت عدلیہ کی آزادی کیلئے بہت سنجیدہ ہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے مخصوص کیس میں ضمانت کے فیصلے کے بعد ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا
احتشام کیانی نے اس پر کہا کہ 9 مئی مقدمہ میں ضمانت پر رہائی پانے والے پی ٹی آئی کارکنوں کی دوبارہ گرفتاری کیلئے ایم پی او آرڈر جاری کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس کے بعد اگر اُس ایم پی او آرڈر کے خلاف لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ میں درخواست دائر ہوتی ہے تو غیرمعمولی آرڈر آ سکتا ہے
زبیر علی خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے 9 مئی واقعے میں ملوث ملزمان کی ضمانت منظور ہونے کے باوجود تھری ایم پی او کے تحت گرفتاریوں پر سوال اٹاھ دیے ایک بار ہھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اٹارنی جنرل کو ریسکیو کرنے آگئے