الیکشن کمیشن فوری انتخابی نشان کیس کاتحریری حکم نامہ جاری کرے، پی ٹی آئی

5902b9c57e956.jpg


پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ اسے آنے والے عام انتخابات کے لیے اس کا انتخابی نشان ’بلا‘ فوری طور پر الاٹ کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے پر شکوہ کناں پی ٹی آئی انتخابی نشان کے اجرا میں تاخیر کو غیر منصفانہ اور ناقابل برداشت قرار دے رہی ہے۔

ترجمان پی ٹی آئی نے ایک پریس ریلیز میں کہا الیکشن کمیشن کو فوری طور پر پارٹی کے انتخابی نشان سے متعلق اپنا تفصیلی تحریری حکم نامہ جاری کرنا چاہیے، 30 اگست کو اس حوالے سے کیے گئے مختصر زبانی فیصلے کے اجرا میں غیرمعمولی تاخیر تشویش کا باعث بن رہی ہے۔

انہوں نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ 30 اگست کو دیے گئے زبانی حکم کے مطابق تفصیلی فیصلہ فوری طور پر جاری کرے کیونکہ اس کے پاس پارٹی کے انتخابی نشان کو الاٹ نہ کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی جواز نہیں ہے۔

ترجمان نے واضح کیا ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط سیاسی قوت کے بغیر آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا تصور بےمعنیٰ ہے,پی ٹی آئی کو نامعلوم تکنیکی بنیادوں پر انتخابی میدان سے باہر رکھنے کی سازش ملک کے آئین اور سیاسی نظام پر حملے کے مترادف ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات 9 جون 2022 کو پارٹی کے 2019 کے آئین کے مطابق ہوئے تھے، جسے الیکشن کمیشن نے درست تسلیم کیا تھا اور 30 اگست کے اپنے زبانی حکم میں اس کی تصدیق کی تھی۔

انہوں نے کہا الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریری فیصلے کے اجرا میں بلاجواز اور غیر ضروری تاخیر نے اس خیال کو تقویت بخشی ہے کہ فیصلہ تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ انتخابات سے قبل پارٹی کو مسلسل غیر یقینی کیفیت سے دوچار رکھا جائے۔

انہوں نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ غیرآئینی اور غیرقانونی سیاسی انجینئرنگ سے گریز کرے اور پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کے لیے بلا تاخیر تحریری فیصلہ جاری کرے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن نے اپنے آئینی مینڈیٹ سے انحراف کیا اور پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کو غیر قانونی طور پر ہتھیانے کی کوشش کی تو قوم اسے کبھی قبول نہیں کرے گی۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے حکم پر سی ڈی اے میں تعینات ڈیپوٹیشن افسران کے تبادلے سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے غلطی تسلیم کرتے ہوئے نوٹی فکیشن میں ترمیم کی یقین دہانی پر الیکشن کمیشن کو تبادلے کے نوٹی فکیشن میں ایک ہفتے میں ترمیم کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے درخواست گزار ممبر سی ڈی اے وسیم حیات باجوہ کو دی گئی سہولیات واپس نہ لینے کا حکم دیتے ہوئے درخواست گزار کو گھر خالی کرنے سے روک دیا اور کہا کہ بادی النظر میں درخواست گزار کو سی ڈی اے نے انتقام کا نشانہ بنایا الیکشن کمیشن کو موقع دیا جا رہے کہ اس نوٹی فکیشن میں ترمیم کی جائے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو تعصب پر مبنی فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کریں کہ جو نوٹی فکیشن جاری ہو رہے ہیں انہیں دیکھیں۔

دوران سماعت عدالت نے خواجہ آصف کیس کا حوالہ دیا اور ایک ہفتے کے بعد فریقین سے دلائل طلب کرتے ہوئے کہا کہ سب کو سنا جائے گا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نےعدالت طلبی کے باوجود ڈی جی کی عدم حاضری پر الیکشن کمیشن حکام پر برہمی کا اظہار کیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ڈی جی صاحب کی بیٹی کی شادی ہے اس لیے نہیں آئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ تبادلے کے نوٹی فکیشن کی زبان دیکھیں ایسے ٹرانسفر کیا جاتا ہے؟ آپ اپنا اسٹیٹس خراب کر رہے ہیں تبھی ڈی جی کو بلایا تاکہ نوٹی فکیشن ان کی نظر سے گزر سکے، کہا گیا اس غلط آدمی کو ہٹا کر اچھے آدمی کو لگایا جائے، اس نوٹی فکیشن میں ترمیم کریں، نوٹ کریں اور بتائیں چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو۔