عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک امید کے طور پر ابھرا تھا، جب تک اس کی پارٹی میں بڑے بڑے نام شامل نہیں ہوئے تھے، تب تک وہ اپنی عقل استعمال کرتا تھا اور کافی معقول باتیں کرتا تھا۔۔ مگر پھر اس نے دوسروں کی دانش پر تکیہ کرنا شروع کردیا اور اس کی سیاست آئیڈیلزم سے ٹرن ہوتی ہوئی پریگمٹیزم کی سڑک پر مڑ گئی اور آخر میں آکر بالکل پاور پالیٹکس رہ گئی۔ عمران خان کی پچھلے چند سالوں کی سیاست کسی بھی طرح ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی سیاست سے مختلف نہیں ہے۔ آج عمران خان کی حکومت ایک دوراہے پر کھڑی ہے، آگے کھائی ہے اور دوسری طرف سیف ایگزٹ۔۔ میرے خیال میں عمران خان کے پاس سیف ایگزٹ کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے۔ عمران خان کے یارِ غار بابے ہارون الرشید نے بھی اپنے آج کے پروگرام میں یہ نوید سنادی ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کا سوچ رہا ہے، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔۔
بابے ہارون الرشید کی خبرکو قابلِ توجہ نہ بھی سمجھیں تو بھی لاجیکلی دیکھا جائے تو عمران خان کی حکومت بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اکانومی تھا اور ہے، جس کو حل کرنے میں عمران خان پوری طرح ناکام رہا ہے ۔ اسد عمر اور حفیظ شیخ کو آزمانے کے بعد اگلا تکیہ شوکت ترین پر کیا تھا، مگر اس نے تو گزشتہ رات شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں اس حکومت کی معاشی پالیسیوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں اور سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ فی الوقت پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ عوام آسمانوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی سے بلبلا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مہنگائی مزید اوپر کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کے پاس فی الوقت کوئی بھی ایسا ماہرِ فن شخص نہیں جس کو وہ وزارتِ خزانہ کی کرسی پر بٹھا سکے اور وہ حالیہ معاشی بدحالی کو درست کرسکے۔۔ میرے خیال میں اب اس حکومت کے آخری دن آگئے ہیں اور گمان غالب ہے کہ عمران خان شاید خود ہی اسمبلیاں توڑ دے۔۔
میری نظر میں عمران خان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے ملکی نظم و نسق چلانے کیلئے اپنی ذاتی عقل کے استعمال اور بہتر مشیروں کے سیلیکشن کی بجائے سارا دار ومدار اپنی زوجہ محترمہ کے استخاروں اور چلوں پر رکھا، عثمان بزدار کی پنجاب میں تعیناتی سے لے کر اب تک کے دوام تک محترمہ کا فیض ہی چل رہا ہے۔ جس دن میں نے اس بندے کو تقریر میں یہ کہتے سنا کہ ملک فلاحی ریاست پہلے بنتے ہیں اور ترقی بعد میں کرتے ہیں، اسی دن میں سمجھ گیا تھا کہ یہ روحانیت کو ملک پر اپلائی کرکے ملک کا بیڑا غرق کرنے جارہا ہے۔ کیونکہ اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ ملک میں اگر میں غریبوں میں پیسے بانٹوں گا تو ملک میں برکت آئے گی اور ملک ترقی کرے گا اور یہ کہہ کر اس نے چودہ پندرہ سو ارب روپیہ بانٹ دیا۔ چند لوگوں کو تو پیسے مل گئے، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باقی سب کو مہنگائی جھیلنی پڑی۔ تحریک انصاف کے کسی لیڈر میں اتنی جرات نہیں تھی کہ عمران خان کو سمجھا پاتا کہ امورِ مملکت روحانی ٹوٹکوں سے نہیں چلتے، اصل کہانی تو تب کھلے گی جب عمران خان حکومت کے ایوانوں سے باہر نکلے گا کہ بنی گالہ میں کس طرح جادو ٹونوں سے حکومت چلائی جاتی رہی، فی الحال تو میں عمران خان کو الودا ع کہنا چاہتا ہوں اور یہ مشورہ دیتا ہوں کہ جب وہ حکومت سے فارغ ہوکر گھر چلے جائیں گے تو کبھی اکیلے بیٹھ کر غور کریں کہ کس طرح انہیں ایک بہترین موقع میسر آیا تھا کہ وہ ملک کو بہتری کی راہ پر ڈال سکتے تھے، مگر انہوں نے جادوٹونوں کے چکر میں آکر یہ موقع گنوادیا اور اب یہ موقع انہیں دوبارہ کبھی نہیں ملنے والا۔۔۔
بابے ہارون الرشید کی خبرکو قابلِ توجہ نہ بھی سمجھیں تو بھی لاجیکلی دیکھا جائے تو عمران خان کی حکومت بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اکانومی تھا اور ہے، جس کو حل کرنے میں عمران خان پوری طرح ناکام رہا ہے ۔ اسد عمر اور حفیظ شیخ کو آزمانے کے بعد اگلا تکیہ شوکت ترین پر کیا تھا، مگر اس نے تو گزشتہ رات شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں اس حکومت کی معاشی پالیسیوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں اور سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ فی الوقت پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ عوام آسمانوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی سے بلبلا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مہنگائی مزید اوپر کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کے پاس فی الوقت کوئی بھی ایسا ماہرِ فن شخص نہیں جس کو وہ وزارتِ خزانہ کی کرسی پر بٹھا سکے اور وہ حالیہ معاشی بدحالی کو درست کرسکے۔۔ میرے خیال میں اب اس حکومت کے آخری دن آگئے ہیں اور گمان غالب ہے کہ عمران خان شاید خود ہی اسمبلیاں توڑ دے۔۔
میری نظر میں عمران خان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے ملکی نظم و نسق چلانے کیلئے اپنی ذاتی عقل کے استعمال اور بہتر مشیروں کے سیلیکشن کی بجائے سارا دار ومدار اپنی زوجہ محترمہ کے استخاروں اور چلوں پر رکھا، عثمان بزدار کی پنجاب میں تعیناتی سے لے کر اب تک کے دوام تک محترمہ کا فیض ہی چل رہا ہے۔ جس دن میں نے اس بندے کو تقریر میں یہ کہتے سنا کہ ملک فلاحی ریاست پہلے بنتے ہیں اور ترقی بعد میں کرتے ہیں، اسی دن میں سمجھ گیا تھا کہ یہ روحانیت کو ملک پر اپلائی کرکے ملک کا بیڑا غرق کرنے جارہا ہے۔ کیونکہ اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ ملک میں اگر میں غریبوں میں پیسے بانٹوں گا تو ملک میں برکت آئے گی اور ملک ترقی کرے گا اور یہ کہہ کر اس نے چودہ پندرہ سو ارب روپیہ بانٹ دیا۔ چند لوگوں کو تو پیسے مل گئے، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باقی سب کو مہنگائی جھیلنی پڑی۔ تحریک انصاف کے کسی لیڈر میں اتنی جرات نہیں تھی کہ عمران خان کو سمجھا پاتا کہ امورِ مملکت روحانی ٹوٹکوں سے نہیں چلتے، اصل کہانی تو تب کھلے گی جب عمران خان حکومت کے ایوانوں سے باہر نکلے گا کہ بنی گالہ میں کس طرح جادو ٹونوں سے حکومت چلائی جاتی رہی، فی الحال تو میں عمران خان کو الودا ع کہنا چاہتا ہوں اور یہ مشورہ دیتا ہوں کہ جب وہ حکومت سے فارغ ہوکر گھر چلے جائیں گے تو کبھی اکیلے بیٹھ کر غور کریں کہ کس طرح انہیں ایک بہترین موقع میسر آیا تھا کہ وہ ملک کو بہتری کی راہ پر ڈال سکتے تھے، مگر انہوں نے جادوٹونوں کے چکر میں آکر یہ موقع گنوادیا اور اب یہ موقع انہیں دوبارہ کبھی نہیں ملنے والا۔۔۔