ہم توہمیشہ سے اقبال کے ناقد رہے ہیں خاص طور اقبال کی تنقید برائے تنقید کی عادت کےایک ایسی عادت کے جو اقبال کی زبان و بیان پر کامل دسترس کی وجہ سے عوام میں بھی مقبول ہوتی چلی گئی- اقبال جو خود دوسروں سے نظریات ادھار مانگتے تھے- اور جن سے مانگتے تھے پھر انہی کو تنقید کی چکی میں بھی پیستے تھے
حقیقت حال یہ ہے کہ اقبال کا خودی کا سارا فلسفہ نطشے کا دیا ہوا ہے- نطشے نے جب اپنی مشہور تحریر "خدا مر چکا ہے " لکھی اور یہ کہا کہ اب دنیا کو مذاہب کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اپنے لئے عظیم و شان اور بہترین اخلاقیات اور انسانی اقدار کی کھوج کرنی چاہیے کیوں کہ مذاہب نے انسانیت کو مایوس کیا ہے اور یہ کہ اب انسانیت کی بقا، خطرناک ہتھیاروں کے اس دور میں' صرف اور صرف ایسی انسانی اقدار اور اخلاقیات میں پنہاں ہے جس میں انسان پہلے آتا ہو- انسانیت پہلے آتی ہو- اور دوسرے تعصّب جیسے کہ مذہب، رنگ، اور نسل، وہ بات میں آتے ہوں- نطشے نے ایسے انسان کو جو اس درجہ اخلاقیات اور اعلی انسانی اقدار کا حامل ہو اسے بی آنڈ ہیومن " کے نام پکارا- ہالی ووڈ نے اسے سپر مین بنا دیا اور اقبال نے اسے خودی کہہ دیا"
پھر نطشے کے اس آئیڈیا کو خودی کا نام دے کے اس میں اسلام کا حسب ذائقہ تڑکا لگا دیا اور مسلمانان ہندوستان جو بے انتہا علمی خلا کا شکار تھے انہوں نے لبیک کہتے ہوئے اقبال کے ہر ہر خیال کو اپنانا شروع کر دیا- حیرت کی بات یہ ہے کہ اقبال نے اس سارے پراسیس میں کہیں بھی نطشے یا اور فیلوسفرز کو جن کا ادھر اقبال برت رہے تھے- انکی علمیت کا نہ اعتراف کیا اور نہ ہی تشکر
کبھی اقبال ایک دم سے قوم پرست بن جاتے تھے اور کہتے تھے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا اور کبھی ایک دم سے قوم کو پس پشت ڈالتے ہوئے مذہب و ملت کا راگ الاپنے لگتے تھے"ایک ہوں "مسلم حرم ہی پاسبانی کے لئے کبھی اقبال پچھلے طریقوں اور مسلمانوں کو رد کرتے تھے
آئین نو سے ڈرنا' طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اور اگلی سانس میں ہی وہ "آئین نو " کا مذاق اڑا رہے ہوتے تھے- جیسے کہ جمہوریت کی تنقید کچھ ایسے بھی کمزور لمحات آتے تھے کہ بس زبان و بیان کے جوش میں ہر دہ چیزوں کو رد کر دیتے تھے- یعنی جمہوریت کو بھی اور آمری کو بھی کبھی وہ آمریت کی گناؤنی ترین شکل "خلافت " بچانے میں پیش پیش تھے- یعنی ایسی آمریت جسکو مذہب کا ٹھپا بھی مل جائے- اور کبھی وہ جناح جیسے لبرل اور انگلش طرز زندگی والے شخص کو اس بات پہ قائل کر رہے ہوتے تھے کہ انڈیا تشریف لا کر مسلمانان ہند کی رہنمائی کی جائے
آئین نو سے ڈرنا' طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اور اگلی سانس میں ہی وہ "آئین نو " کا مذاق اڑا رہے ہوتے تھے- جیسے کہ جمہوریت کی تنقید کچھ ایسے بھی کمزور لمحات آتے تھے کہ بس زبان و بیان کے جوش میں ہر دہ چیزوں کو رد کر دیتے تھے- یعنی جمہوریت کو بھی اور آمری کو بھی کبھی وہ آمریت کی گناؤنی ترین شکل "خلافت " بچانے میں پیش پیش تھے- یعنی ایسی آمریت جسکو مذہب کا ٹھپا بھی مل جائے- اور کبھی وہ جناح جیسے لبرل اور انگلش طرز زندگی والے شخص کو اس بات پہ قائل کر رہے ہوتے تھے کہ انڈیا تشریف لا کر مسلمانان ہند کی رہنمائی کی جائے
پھر آخر کار اپنے جرمن پروفیسر کو خط لکھ کے یہ بھی انکار کر دیا کہ انہوں نے کبھی کسی علیحدہ وطن کی حمایت کی ہے- یعنی پھر سے پلتا کھا کے قوم پرستی کی طرف- ایک ایسی قوم جس میں اکثریت ہندوؤں کی ہونہ کوئی ربط نہ رشتہ- نہ نظریات میں نہ الفاظ میں- شاید اسی لئے انکے بیٹے نے کہا تھا کے رات کا اقبال اور ہے اور صبح کا اور
ان ساری چیزوں کے باوجود علمی داد رسی کے لئے ترسے ہوئے مسلمانان ہند نے اقبال کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بجائے اسکے کہ اقبال کے ہر ہر نظریہ کو کسی کسوٹی میں تولتے' اندھی تقلید میں اقبال کے پریشان خیالات اور منتشر سوچوں کو بھی ایسی ہی خوش گمانی سے اپنایا جیسے کہ کچھ اچھے خیالات کو
اقبال کی جمہوریت کے بارے میں الجھن اور خود اقبال کی بالغ نظری اور جمہوری تجربے پر سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی ہے مگر یہاں بس یہی بیان مقصود ہے کہ اقبال کے جمہوریت کے بارے میں خیالات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا- انہیں اقبال کے زور بیان کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے- جب اقبال جمہوریت کے خلاف بول رہے تھے تو اس وقت تک تو مکمل جمہوریت دنیا کے کسی کونے میں بھی رائج نہیں تھی خدا جانے اقبال نے جمہوریت کو کس شکل میں دیکھا' سوچا' سمجھا' اور بات کی
مغرب کے خلاف اپنی بھڑاس نکالتے ہوئے اقبال نے جمہوریت کو یکسر رد کر دیا مگر اس طرز حکومت یا نظام حکومت کے میرٹ اور ڈی میرٹ پر کوئی بات نہیں کیپتا نہیں اقبال کا جمہوریت کے ارتقا اور فرد کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ' کا کوئی مطالعہ تھا یا نہیں مگر اتنے آرام سے جمہوریت کی پوری تاریخ' اہمیت ضرورت' اور بالیدگی کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا اقبال جیسے انسان کو روا نہ تھا-
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت انسانی شعور کے ارتقا پزیر ہونے کی علامت ہے- فرد کی آزادی' حرمت اور احترام کا مظہر ہے- جمہوریت ذات اور زندگی کی نشونما کی ضما نت ہے- کب دیتے تھے مغرب کے مطلق العنان بادشاہ یہ حق عوام کو کہ وہ اپنے حکمران منتخب کر سکیں ایک ایسا یورپ جس میں پاپ ایک اور بادشاہ مل کے عوام کا استحصال کر رہے تھے اور یہ نعرہ لگا دیا گیا تھا کہ بادشاہ کا مذہب ہی عوام کا مذہب ہے اور ایک ایسا یورپ جس میں ادب تک کے سوتے بادشاہوں کی ذات سے ہی پھوٹتے تھے جس میں بادشاہ کا المیہ عوام کا المیہ ہوتا تھا اور اسی بنیاد پر سارا ادب لکھا جاتا تھا- اس یورپ میں انسانی شعور اتنا طاقتور ہونا شروع ہوا کہ اپنے حق کا مطلبہ کرنے لگا اورحق کی یہ آگہی ایک ایسی تحریک میں ظہور پزیر ہوئی جسکا نتیجہ جمہوریت کی شکل میں لوگوں کے سامنے آیا میگنا کارٹا سے لیکر موجودہ جمہوری ڈھانچے تک دنیا کو آٹھ سو سال لگے- جسےاقبال پل بھر میں رد کر کے ایک طرف پھینک رہے ہیں
جمہوریت انسانی شعور کی عظمت اور احترام کی ایک عظیم مثال ہے اور اس بات کی ضمانت بھی کہ اگلے انسانی ارتقائی ،مراحل نسبتا آسان ہونے
Last edited by a moderator: