ایک صاحب حکیم کے پاس گئے اور کہا شادی کے بحد ان کی کوئی چیز کھڑی نہیں ہوتی - حکیم صاحب نے کہا کہ یہ دوا لو اور سمجھ لو کہ پہلے وہ چیز مزید بیٹھ جائے گی پھر آنا اور اگلی خوراکوں سے اٹھنا شروع ہو گی - وہ صاحب ایک مہینے بھد وہاں گئے مگر حکیم صاحب کو وہاں نہ پایا - ساتھ والوں سے پوچھا تو انہیں بتا یا گیا کہ حکیم صاحب فوت ہو گئے ہیں -
جس طرح یہ حکومت علاج کر رہی ہے عوام تب تک انتقال کر جائیں گے - یہی اسد عمر کہتا گیا اور اب آپ فرما رہے ہیں -
دنیا میں ترقی کا سب سے مستنند پیمانہ جی ڈی پی ہے اور یہ چھ فیصد سے کم ہو کر منفی ایک اعشاریہ پانچ پر آ چکی ہے اور خان صاحب کے پانچ سال میں اس لیول پر لے جانا بھی ممکن نہیں ہے اسی طرح مہنگائی جو چار فیصد پر ملی اور بے روزگاری دونوں پانچ سال میں اس لیول تک جانا بھی ممکن نہیں - ایکسپورٹ پہلے سے کم ہے تو کیا اچھا ہو رہا ہے جس سے ہم بہتری کی امید رکھیں - پاکستان کی تاریخ میں بہت بار امپورٹ کم کرنی پڑی مگر جی ڈی پی ڈالر اور مہنگائی کا طوفان پہلے نہیں آیا - خان کے ہر قدم کا دفاع کرنا چھوڑ دیں عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں - نواز اور فوج کی لڑائی نے قوم کو مہنگائی اور بے روزگاری کا تحفہ دیا یہی حقیقت ہے - خان کو اس خانے میں عوام کی مرضی کے خلاف لایا گیا جس پر بیس سال سے عوام اعتبار نہیں کر رہے تھے اور عوام کی رائے درست تھے - کچھ تو اچھا ثابت ہوا کہ عوام کا شعور درست ہے کوئی جرنیل ان کی رائے کو چرا تو سکتا ہے مگر آزاد الیکشن میں عوام درست انتخاب کرتے ہیں -
ایک اور صاحب حکیم صاحب کے پاس گئے، اور کہنے لگے کہ ویسے نہیں ہوتا جیسے فلموں میں ہوتا ہے۔ حکیم صاحب نے فوراً ایک ایسی دوا دی کے پھر تو صبح شام ویسے ہونے لگا جیسے فلموں میں ہوتا ہے۔ ایک دن جوش کی زیادتی کے باعث دل کے دورے کا شکار ہوگئے اور جہان فانی سے خود ہی کوچ کر گئے۔
جس طرح کے علاج کی یہ عوام عادی ہوچکی ہے، اس سے یہی حال ہوتا ہے۔
یہ آپکی سوچ ہے کہ ترقی کا سب سے مستند پیمانہ جی ڈی پی ہے۔ یہ اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ جب قرضے لے کر ملک میں اورنج لائن جیسے منصوبے چل رہے ہوں جنکو بنانے اور چلانے، دونوں کے لیئے پیسہ حکومت دے رہی ہو، تو جی ڈی پی تو پراجیکٹ بنتے ہوئے اوپر جاتا دکھائی دے گا، کہ کنسٹرکشن انڈسٹری یہاں اتنی ویلیو ایڈیشن کر رہی ہے۔ لیکن بعد از تکمیل ملک کے لیئے ایسے منصوبے کیا آمدنی کریں گے؟ اور قرض کے پیسے کون واپس کرے گا؟ بعد از تکمیل انھی منصوبوں کی وجہ سے جی ڈی پی دھڑام سے نیچے گرجاتا ہے۔ اگر وہی دو سو ارب روپیہ یہاں اسٹیل مل میں اس وقت لگایا ہوتا تو آج یہ ادارہ کما کر ملک کو واپس کر رہا ہوتا۔ لیکن اگر نواز اپنے دور میں یہاں پیسہ لگاتا تو جی ڈی پی گرتا ہوا نظر آتا کہ وہ تو بقایا جات ادا کرنے میں چلا گیا۔ لیکن اس کا اصل فائدہ واپس آنے تک نواز کی حکومت جا چکی ہوتی اور اسے ڈر تھا کہ معاشی استحکام کا کریڈٹ اگلی حکومت لے جائے گی۔
آپ قرضے لے کر مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت گرا کر رکھیں، اس سے آپ کے بیرونی قرضے بھی کم نظر آتے ہیں۔ پھر آپ قرض کے پیسوں سے سبسڈی دیں انڈسٹری کو، تو ایکسپورٹ بھی اوپر جاتی ہے۔ آپ کک بیک لے کر بیرونی سرمایہ کاروں کو ناجائز مراعات دیں، تو انویسٹمنٹ بھی ملک میں آتی نظر آتی ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پاکستان میں جب بجلی اگلے دس سال کے لیئے پوری ہے تو پھر مزید پیسہ بجلی بنانے کے پلانٹ میں کیوں جھونکا جا رہا ہے؟ جیسا کہ سی پیک کے منصوبوں میں ہوا۔ صرف پی ٹی آئی نے ملک کے مفاد کے بارے میں یہ سوال اٹھایا اور چین کو منع کیا قرض کے پیسے سے ایسے پراجیکٹ بنانے سے۔
پھر جی ڈی پی تو اس وقت بھی اوپر جاتا ہوا دکھائی دیا تھا جب آئ پی پی کے ساتھ وہ معاہدے کیئے گئے تھے جنکو آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔ جب تک بیرونی سرمایہ کار ان پراجیکٹ کو بناتے رہے، کاغذوں میں ترقیّ ہوتی نظر آتی رہی۔ جب پیسے بھرنے کی باری آئی، تب تک حکومت بدل چکی تھی۔
جی ڈی پی سے زیادہ انویسٹمنٹ کی اسٹریٹیجی دیکھی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار کا نہیں، عقل کا کھیل ہے۔
www.worldfinance.com
جس طرح کے علاج کی یہ عوام عادی ہوچکی ہے، اس سے یہی حال ہوتا ہے۔
یہ آپکی سوچ ہے کہ ترقی کا سب سے مستند پیمانہ جی ڈی پی ہے۔ یہ اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ جب قرضے لے کر ملک میں اورنج لائن جیسے منصوبے چل رہے ہوں جنکو بنانے اور چلانے، دونوں کے لیئے پیسہ حکومت دے رہی ہو، تو جی ڈی پی تو پراجیکٹ بنتے ہوئے اوپر جاتا دکھائی دے گا، کہ کنسٹرکشن انڈسٹری یہاں اتنی ویلیو ایڈیشن کر رہی ہے۔ لیکن بعد از تکمیل ملک کے لیئے ایسے منصوبے کیا آمدنی کریں گے؟ اور قرض کے پیسے کون واپس کرے گا؟ بعد از تکمیل انھی منصوبوں کی وجہ سے جی ڈی پی دھڑام سے نیچے گرجاتا ہے۔ اگر وہی دو سو ارب روپیہ یہاں اسٹیل مل میں اس وقت لگایا ہوتا تو آج یہ ادارہ کما کر ملک کو واپس کر رہا ہوتا۔ لیکن اگر نواز اپنے دور میں یہاں پیسہ لگاتا تو جی ڈی پی گرتا ہوا نظر آتا کہ وہ تو بقایا جات ادا کرنے میں چلا گیا۔ لیکن اس کا اصل فائدہ واپس آنے تک نواز کی حکومت جا چکی ہوتی اور اسے ڈر تھا کہ معاشی استحکام کا کریڈٹ اگلی حکومت لے جائے گی۔
آپ قرضے لے کر مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت گرا کر رکھیں، اس سے آپ کے بیرونی قرضے بھی کم نظر آتے ہیں۔ پھر آپ قرض کے پیسوں سے سبسڈی دیں انڈسٹری کو، تو ایکسپورٹ بھی اوپر جاتی ہے۔ آپ کک بیک لے کر بیرونی سرمایہ کاروں کو ناجائز مراعات دیں، تو انویسٹمنٹ بھی ملک میں آتی نظر آتی ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پاکستان میں جب بجلی اگلے دس سال کے لیئے پوری ہے تو پھر مزید پیسہ بجلی بنانے کے پلانٹ میں کیوں جھونکا جا رہا ہے؟ جیسا کہ سی پیک کے منصوبوں میں ہوا۔ صرف پی ٹی آئی نے ملک کے مفاد کے بارے میں یہ سوال اٹھایا اور چین کو منع کیا قرض کے پیسے سے ایسے پراجیکٹ بنانے سے۔
پھر جی ڈی پی تو اس وقت بھی اوپر جاتا ہوا دکھائی دیا تھا جب آئ پی پی کے ساتھ وہ معاہدے کیئے گئے تھے جنکو آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔ جب تک بیرونی سرمایہ کار ان پراجیکٹ کو بناتے رہے، کاغذوں میں ترقیّ ہوتی نظر آتی رہی۔ جب پیسے بھرنے کی باری آئی، تب تک حکومت بدل چکی تھی۔
جی ڈی پی سے زیادہ انویسٹمنٹ کی اسٹریٹیجی دیکھی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار کا نہیں، عقل کا کھیل ہے۔

Why GDP is no longer the most effective measure of economic success
As a macroeconomic indicator, GDP fails to capture much of the value created in the modern world. New metrics promise to track everything from happiness to natural capital
In an independent review of the UK’s economic statistics published in 2016, Sir Charles Bean wrote that GDP is often viewed as a “summary statistic” for the health of the economy. This means it is frequently conflated with wealth or welfare, though it only measures income. “Importantly, GDP… does not reflect economic inequality or sustainability (environmental, financial or [otherwise]),” Bean wrote. What’s more, GDP is not the precise and flawless figure that many believe it to be – it is merely an estimate. “This uncertainty surrounding official measures of GDP is inadequately recognised in public discourse, with commentators frequently attributing spurious precision to the estimates,” Bean continued.
Last edited: