
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر کردار ادا کریں، لیکن انہوں نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے تحریری دلائل جمع کرانے کیلئے وقت مانگتے ہوئے کہا کہ کورونا ہو گیا تھا اس وجہ سے تحریری دلائل جمع نہیں کروا سکا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے گا، صرف بنیادی حقوق کیخلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لینگے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی گئی ہیں، پلی بارگین کرنے والے کے شواہد کو ہی ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، فوجداری نظام میں گرفتاری کی ممانعت نہیں ہے، گرفتاری جرم کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے داغ نہیں دھلتے، اعلی عدلیہ نیب عدالت کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، سابق حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے بیٹھے ہیں، آدھے ارکان نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، اسمبلی میں موجود ارکان اپنے ذاتی فائدے کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، تحقیقات میں مداخلت پر ازخودنوٹس لیا تھا، ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ لیکر صرف دیکھ رہے ہیں کہ کیسز چلتے ہیں یا نہیں، آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کرینگے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس میں کہا عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی۔ سرکاری وکیل نے کہا حکومت نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ ہمیشہ منتخب حکومت کیساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا امریکی سپریم کورٹ کی مثال درست نہیں لگتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے، 90 دن کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا، فوجداری کیسز میں 14 دن سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا، عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم ستمبر تک ملتوی کر دی۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/9cjbndialiugug.jpg