آپ کی پیش کی گئی قرانی آیات برحق ہیں مگر معذرت کے ساتھ موضوع سے مطابقت نہیں رکھتیں
چلیں دو قرانی آیات کا ترجمہ اللہ کی توفیق سےمیں پیش کردیتا ہوں
کہو بھلا تم کو خشکی اور تَری کے اندھیروں سے کون نجات دیتا ہے (جب )تم اسے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر اللہ ہم کو اس (تنگی) سے نجات بخشے تو ہم اس کے بہت شکر گزار ہوں کہو کہ اللہ ہی تم کو اس (تنگی) سے اور ہر سختی سے نجات بخشتا ہے۔ پھر (تم) اس کے ساتھ شرک کرتے ہو
ہ(سورۃ الانعام،آیت 63تا64)ہ
یہی اللہ تم سب کا پالنے والا، اسی کی سلطنت ہے جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں، اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے آپ کو کوئی بھی حق تعالٰی جیسا خبردار خبر نہ دے گا۔
ہ(الفاطر۔١٣-١٤)ہ
یہ آیات قرآنیہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں که مصیبت میں سفر حضر میں ہر ہر لمحہ ہمیں اس وحدہ لاء شریک کو پکارنا چاہیےجو سننے اور قبول کرنے پر قادر ہے
اسکے سوا ہمیں ایسے موقع پر شٹ اور گالم گلوچ سے بچنا چاہیے که شیطان یہی چاہتا ہے که بندہ اللہ سے مدد طلب کرنے کے بجاے شیطانی جملے منہ سے نکالے...ساتھ ہی ہمیں ان ہستیوں کو بھی نا پکارنا چاہیے جو اس کائنات میں کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں بلکے قیامت والے دن ہماری پکار کا انکار کردینگے جیسا که دوسری آیت میں واضح ہے
وما توفیق الا باللہ