سیاسی

پینڈورا پیپرز سے متعلق سوالات پوچھنے پر عمر چیمہ کا سنیٹر فیصل واڈا پر غلیظ زبان استعمال کرنے کا الزام انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے پنڈورا پیپرز نامی نئی تحقیقاتی رپورٹس سامنے آئی ہے جس میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں متعدد اہم سیاسی شخصیات اور وفاقی وزرا موجود ہیں۔ آئی سی آئی جے کے ساتھ پاکستان کے مشہور صحافی عمر چیمہ نے بھی کام کیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جب پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات سے متعلق پوچھنے کیلئے سابق وفاقی وزیر آبی وسائل و سینیٹر فیصل واؤڈا کو فون کیا تو انہوں نے انتہائی غلیظ زمان استعمال کی اور صحافی سے ذاتی نوعیت کی گفتگو پر اتر آئے۔ عمر چیمہ کے مطابق انہوں نے فیصل واؤڈا سے پنڈورا پیپرز میں ان کا نام آنے کے حوالے سے دریافت کرنے کیلئے فون کیا تھا لیکن جب ان سے اس متعلق پوچھا گیا تو وہ انتہائی تحقیر آمیز انداز میں بات کرنے لگے اور انہوں نے اپنی آف شور کمپنی سے متعلق پوچھے گئے سوالنامے کا بھی جواب نہیں دیا۔ عمر چیمہ نے کہا کہ انکی دہری شہریت نکلی لیکن انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا، اب انکی آفشور کمپنی نکلی ہے میں دعوے سے کہتا ہوں کہ انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوسکتا۔ صحافی کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیر خزانہ شوکت ترین سے بھی سوال کیا مگر انہوں نے بھی جوئی جواب نہیں دیا۔ اس سے قبل بھی فیصل واڈا کا جیو کے صحافیوں سے تنازعہ ہوچکا ہے جس پر فیصل واڈا اور جیو کے صحافیوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ یاد رہے کہ پنڈورا پیپرز میں مجموعی طور پر 200 سے زائد ممالک کی 29 ہزار سے زائد آف شور کمپنیوں کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ۔ اس میں 45 ممالک کے 130 سے زائد ارب پتی افراد کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اس لیکس کی تیاری میں 117 ملکوں کے 150 میڈیا اداروں سے وابستہ 600 سے زائد صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ پنڈورا پیپرز انسانی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی صحافتی تحقیق ہے جو ایک کروڑ 19 لاکھ خفیہ دستاویزات پر مشتمل ہے۔ اسی تنظیم نے 2016 میں پاناما پیپرز جاری کیے تھے جس میں 444 پاکستانیوں کے نام شامل تھے۔ پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی تفصیلات ہی کی بدولت اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
وزیراعظم عمران خان کا نام پینڈورا پیپرز میں نہ آنے پر غریدہ فاروقی پریشان؟ دھڑا دھڑ ٹویٹس آئی سی آئی جے نے وزیراعظم عمران خان کو کلئیر قرار دیدیا ہے جس پر ایسا تاثر مل رہا ہے کہ غریدہ فاروقی وزیراعظم عمران خان کا نام نہ آنے پر پریشان ہیں کیونکہ کچھ روز قبل غریدہ فاروقی نے ایک ٹویٹس میں پینڈرواپیپرز اور پانامہ پیپرز میں مماثلت پیدا کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وزیراعظم عمران خان کا نام بھی پینڈورا پیپرز میں آنیوالا ہے اور وہ جانیوالے ہیں۔ لیکن پینڈورا پیپرز کے منظرعام پر آنے سے غریدہ فاروقی کے دعوے ہوا ہوگئے اور انہوں نے دھڑا دھڑ ٹویٹس کرنا شروع کردئیے، کبھی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتیں کہ وزیراعظم کے اپنے نام سے کوئی کمپنی سامنے نہیں آئی (یعنی کسی اور کے نام پر ہوگی)، کبھی سوالات اٹھاتیں تو کبھی پول کرواتیں دلچسپ امر یہ ہے کہ غریدہ فاروقی نے جو پول کروایا، اسکے مطابق 76فیصد سوشل میڈیا صارفین نے وزیراعظم عمران خان کو انٹرنیشنل صادق اور امین قرار دیدیا۔ ایک روز قبل کئے گئے ٹویٹ میں غریدہ فاروقی نے دعویٰ کیا تھا کہ 3 اپریل ، اتوار کا دن حکومتی مدت پوری ہونے سے 2 سال پہلے جب پانامہ پیپرز ریلیز ہوئے تھے تو نوازشریف کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ اب 3 اکتوبر ، اتوار کا دن،حکومتی مدت پوری ہونے سے 2 سال پہلے بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ پینڈورا پیپرز منطرعام پر آئے تو غریدہ فاروقی کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ س پر غریدہ فاروقی پریشانی کا شکار نظر آئیں اور بار بار وزیراعظم عمران خان سے متعلق ٹویٹس کرتی رہیں کہ عمران خان کے نام سے کوئی کمپنی سامنے نہیں آئی۔ غریدہ فاروقی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں؛آئی سی آءی جے نے کن آف شور کمپنیز کے بارے میں عمران خان سے سوالات کیے۔۔ اُن آف شور کمپنیز/مالک کی تفصیلات آئی سی آئی جے سامنے لائے گا۔۔۔ غریدہ فاروقی نے مزید لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کا پینڈورا پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں بشمول اپنی کابینہ/پارٹی کے لوگوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ وزیراعظم صاحب ماضی میں کہتے رہے جس پر الزام ہو وہ استعفی دے تاکہ شفاف تحقیقات ہوں۔ کابینہ کے اراکین استعفی دے رہے ہیں؟ شفاف ہوں واپس آ جائیں۔ اپنے ایک اور ٹویٹ میں غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں ؛ ICIJ کے ڈاکیومنٹس ایسی کوئی بات نہیں کہتے۔ غریدہ فاروقی کے ٹویٹس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ بار بار مختلف انداز سے آرٹیکلز کا ترجمہ کرنیکی کوشش کررہی ہیں، غریدہ نےپھر ٹویٹ کیا کہ آئی سی آئی جے کے ڈاکیومنٹس ایسی کوئی بات نہیں کہتے کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی ہے۔ پہلے ترجمہ دو حصّوں میں کیا۔ مگر مفہوم ایک ہی ہے بعد ازاں غریدہ فاروقی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ کہنا دُرُست یا غلط یا قبل از وقت ہو گا کہ عمران خان پر ہر قسم کا الزام لگایا جا سکتا ہے مگر ان کی ذات پر مالی کرپشن کا الزام نہیں لگایا جا سکتا؟ کیا ٹیم پر کرپشن کے الزامات کا براہِ راست تعلق کپتان سے ہوتا ہے؟ کیا نااہلی بڑا جرم ہے یا کرپشن؟ آپ کیا کہتے ہیں؟ اسکے بعد غریدہ فاروقی نے ایک پول کروایا جس کے مطابق عمران خان کے اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہی-آئی سی آئی جے کے اس بیان کے بعد آپ کیا کہتے ہیں؛ کیا عمران خان اب انٹرنیشنل صادق اور امین بھی بن گئے ہیں۔۔؟ اس پر 76 فیصد نے وزیراعظم عمران خان کے حق میں رائے دی
پینڈورا پیپرز میں سیاستدانوں ، سابق ریٹائرڈ جنرلز سمیت میڈیا مالکان کے نام بھی شامل ہیں آئی سی آئی جے کیساتھ کام کرنیوالے عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز میں دی نیوز کے ایڈیٹرانچیف کانام بھی شامل ہے، دلچسپ امریہ ہے کہ دی نیوز، جنگ کے ایڈیٹرانچیف اور جیو نیوز کے سربراہ کا نام میرشکیل الرحمان ہے لیکن عمر چیمہ نام لینے سے کتراتے رہے علاوہ ازیں اس لسٹ میں بول ٹی وی کے سی ای او شعیب شیخ کا نام بھی شامل ہے جبکہ گورمے بیکرز اور جی این این کے مالکان، ایکسپریس نیوز کےسلطان لاکھانی، ڈان نیوز کے حمید ہارون بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے صوبائی وزیر عبدالعلیم خان جنہوں نے حال ہی میں سماء نیوز کا چارج سنبھالا ہے، انکا نام بھی پینڈورا پیپرز میں شامل ہے۔ عبدالعلیم خان نے مطابق انہوں نے اپنی آفشور کمپنی الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشواروں میں ڈیکلئیر کررکھی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جیو بار بار یہ ٹکرز چلارہاتھا کہ اگر قانون کے مطابق آفشور کمپنی ڈکلیر کی گئی ہو اور اس کمپنی نے کوئی غیر قانونی کام نہ کیا ہو تو ایسی کمپنی بنانا جرم نہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو کے قافلے پر ہونے والے بم دھماکے کی یاد میں 17 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کا جلسہ کراچی کے جناح باغ میں منعقد کیا جائے گا جس سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر پارٹی رہنما خطاب کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے جلسہ عام کے اعلان کے بعد پارٹی انتظامیہ نے بھرپور تیاریاں شروع کردی ہیں، پارٹی کے مقامی و صوبائی رہنماؤں نے کارکنان سے جلسہ گاہ آتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد کرنے کی اپیل کی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری سید وقار مہدی نے ڈپٹی کمشنرکراچی شرقی کو درخواست دے کر جلسے کی باقاعدہ اجازت بھی طلب کرلی ہے، درخواست میں جلسے کے دوران لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت بھی مانگی گئی ہے۔ یادرہے کہ سال 2007 میں اکتوبر کی 18 تاریخ کی شام سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹی تھیں، اس موقع پر پارٹی کے جیالوں نے کراچی ایئرپورٹ پر ان کا والہانہ استقبال کیا ، بینظیر بھٹو کی واپسی کے دوران قافلے پر یکے بعد دیگر ے 2 دھماکے ہوئے جس میں درجنوں پارٹی کارکنان جاں بحق اورسینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی رہنماؤں نے حمزہ شہباز کے دورے کے دوران مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے سیاسی رہنماؤں نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مہنگائی و بیروزگاری نےعوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حمزہ شہباز کا خانیوال پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا جہاں سے سابق ایم پی اے جمیل شاہ نے متعلقہ حلقے کے ایم این اے افتخار نذیر کی موجودگی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ جمیل شاہ 2008 میں ایم پی اے رہے ہیں۔ ملتان پہنچنے پر شاندار استقبال اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تین دفعہ ایم پی اے منتخب ہونے والے اسحاق بُچہ نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ اسحاق بُچہ 1988, 1993 اور 2002 میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے رہے ہیں۔ ملتان سے بریگیڈیئر (ر) قیصر مہے نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ راجن پور میں بھی پرتپاک استقبال کیا گیا اور وہاں سے سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی نے حمزہ شہباز سے ملاقات کی، اور مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ مظفر گڑھ کے حلقہ پی پی 271 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر اور سرکردہ رہنما اختر علی گوپانگ نے بھی لیگی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ ن کا حصہ بننے والے رہنماؤں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں جو جنوبی پنجاب کی مثالی خدمت کی، اس قافلے کا حصہ بننے جا رہے ہیں اور کہا کہ مسلم لیگ ن پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، فخر ہے کہ اس کا حصہ بن رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے سماء نیوز کا چارج سنبھال لیا، میڈیا کارکنوں اور منیجمنٹ سے گفتگو تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے سماء نیوز کا چارج سنبھالنے کے بعد چینل کے ملازمین اور منیجمنٹ سے گفتگو کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اس چینل کو نمبرون چینل بنانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں جتنی بھی محنت کرنی پڑے ہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس چینل کی ریٹنگ پہلے بھی اچھی ہے اور بڑا نام ہے ہم اسے مزید بہتر بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری سیاسی وابستگی ہے لیکن یہ میرا کاروبار ہے میری سیاست کا میرے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینل کو پروفیشنل لوگ چلا رہے ہیں پروفیشنل ہی چلے گا۔ اب کوئی پریشان نہ ہو میں علیم خان اور ادارہ آپکے پیچھے کھڑا ہے۔ آپ پروفیشنل کام کریں میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوں۔ علیم خان نے یہ بھی کہا کہ تنخواہ مقررہ وقت پر ملتی رہے گی بلکہ سب کی تنخواہ میں یکم اکتوبر سے 10 فیصد اضافہ جن کی 50 ہزار سے کم ہے ان کے لیے 10 ہزار کا اضافہ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں پر کام کرنے والے محنتی ہیں اور ہنرمند ہیں تو ان کو کوئی نہیں نکالے گا لیکن اس میں یہ خوبیاں نہیں تو اسے جلد یا دیر سے یہاں سے جانا ہی پڑے گا۔ واضح رہے کہ عبدالعلیم خان تحریک انصاف حکومت میں صوبائی وزیر خوراک بھی ہیں، انہوں نے کچھ عرصہ پہلے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ بھی پیش کیا تھا جسے وزیراعظم عمران خان نے تاحال منظور نہیں کیا۔۔ ذرائع کے مطابق یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ عبدالعلیم خان کچھ عرصہ بعد وزارت کے ساتھ ساتھ رکنیت سے مستعفی ہوجائیں اور چینل کا باقاعدہ انتظام سنبھال لیں گے۔ اس سے قبل دنیا نیوز کے میاں عامر محمود مسلم لیگ ق کا حصہ رہے ہیں اور 2 بار لاہور کے ناظم منتخب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بھی سیاست کو خیرباد کہہ کر دنیانیوز کو باقاعدہ طور پر سنبھال لیا تھا۔
پاکستانی صحافت کا مشہور نام اینکر پرسن کامران خان کا ایک ٹوئٹ سوشل میڈیا پر زیربحث ہے جس کے بارے میں سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ کامران خان نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی پروموشن کرنے کی کوشش کی۔ کامران خان نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بحریہ ٹاؤن کراچی کی ایک ویڈیو شئیر کی اور اس پر اپنی طرف سے رائے زنی بھی کی جس پر وہ تنقید کی زد میں آگئے۔ کامران خان نے لکھا کہ "امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹرز کے واٹس اپ گروپ پر چلنے والی وڈیو پر شرکا بحث کررہے تھے کیا یہ ویڈیو دبئی، امریکی یا کسی یورپی شہر کی ہے؟ گروپ کے شرکا کو یقین نہیں یہ کراچی ہے مجھ تک یہ سوال پہنچا تحقیق کے بعد میرا فخریہ جواب تھا کہ نہ صرف یہ پاکستان بلکہ کراچی ہے یہ بحریہ ٹاون کراچی کے مناظر ہیں۔ کامران خان کی جانب سے اس قدر جانبدار طرز کا ٹوئٹ سامنے آنے پر سوشل میڈیا صارفین کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہے ، انہوں نے اسے پیڈ ایڈورٹائزمنٹ قرار دیا اور کامران خان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کامران خان نے اس ٹوئٹ کیلئے پیسے لیے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ انہیں اس کے بدلے کوئی کارنر والا پلاٹ ملے گا۔ نجی چینل کے ایک صحافی وحید مراد نے کہا کہ واٹس ایپ تحقیقاتی صحافت جمع تشہیری مقصد۔ اگر مزید تحقیق کی جائے تو اس میں سے ایک ٹاور کامران خان کا بھی نکل سکتا ہے؟ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے کامران خان کو بحریہ ٹاؤن کے متاثرین پر ہونیوالے ظلم اور فراڈ کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ آپ بحریہ ٹاؤن کی تشہیر کررہے ہو، کبھی آپ نے بحریہ ٹاؤن متاثرین کیلئے آواز نہیں اٹھائی۔ نیمر خان نے طنز کیا کہ پہلے زمانے میں جب لوگ دیانت دار ہوتے تھے تو اس طرح کے مواد کے ساتھ paid content لکھاجاتا تھا! ابصارعالم کا کہنا تھا کہ ایسی صحافت سے توبہ ہی بہتر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی کامران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر آپ اسکی تشہیر کررہےہیں تو ویڈیو پر پیڈ کونٹینٹ لازمی لکھیں۔
وفاقی وزارت تجارت نے ڈاکٹر خالد امین شیخ کو تاجکستان بھیجنے پر ایف پی سی سی آئی (فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری) سے وضاحت طلب کر لی۔ ڈاکٹر خالد امین شیخ نے تاجکستان میں پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے تنقیدی اشعار پڑھے تھے ۔ وفاقی وزارت تجارت کی جانب سے ایف پی سی سی آئی کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر خالد امین شیخ کا اجلاس کے دوران رویہ سخت ناپسندیدہ تھا، وہ پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس کے دوران ملکی سبکی کا باعث بنے۔ بتایا جائےکہ ڈاکٹر خالد کو بزنس کونسل کے اجلاس کے لیے کس نے منتخب کیا؟ ڈاکٹر خالد کو اجلاس کے لیے منتخب کرنے کے پیچھے کیا ایجنڈا ہے؟ وزارت کی جانب سے نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر خالد نے اجلاس میں نجی یونیورسٹی کے جھنڈے میز پر رکھے ہوئے تھے۔ معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ایف پی سی سی آئی ناصر حیات مگوں نے بتایا کہ وزارت تجارت کا نوٹس موصول ہوا ہے، اس مراسلے کا جواب آئندہ ہفتے دیں گے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس میں شاعری کرنے والے خالد امین شیخ باقاعدہ طور پر ایف پی سی سی آئی کے 20 سال سے رکن ہیں اور ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن انہوں نے تقریب میں جو کہا وہ ذاتی حیثیت میں کہا۔ یاد رہے کہ پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس دوشنبے میں 16 ستمبرکو منعقد ہوا تھا، اجلاس کے بعد ڈاکٹر خالد امین شیخ نےکہا کہ حکومت پاکستان پبلک سیکٹر کے بچوں کو اسکالر شپ دے رہی ہے لیکن یہ اسکالر شپ پرائیویٹ سیکٹر کے بچوں کو نہیں دی جارہیں، میری مشیرِ تجارت و سرمایہ کاری رزاق داؤد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ اس پر بھی غور کریں۔ ڈاکٹر خالد امین نے ایک شعر سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کہہ رہا ہے: کچھ اپنے بھی دل پر زخم کھاؤ، میرے لہو کی بہار کب تک مجھے سہارا بنانے والوں میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ آخر میں عمران خان صاحب آپ کے لیے ایک شعر ہے اتنے ظالم نہ بنو ،عمران بھائی آپ کے لیے ،آپ تو اب ایک قیدی ہوگئے، جب کنٹینر پر تھے تو زبردست تھے ، اب تو پتہ نہیں کن کے چکروں میں آپ آگئے ہیں، وہ کہتا ہے کہ "اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت ہی سیکھو" شاعر کی جانب سے تنقیدی شعر و شاعری کرنے کے دوران رزاق داؤد نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکنے کی کوشش کی اور پھر سرکاری ٹی وی کی آواز بند کر دی گئی۔ بعد ازاں عمران خان نے کہا کہ سوال و جواب میں بزنس کی باتیں کریں، شعر و شاعری بعد میں ہوگی۔
وفاقی حکومت نے وزیر خزانہ شوکت ترین کی مدت ختم ہونے سے قبل انہیں اسحاق ڈار کی نشست پر سینیٹر بنانے کا پلان بنایا تھا جوکہ اب سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے ایک خط کے نتیجے میں فیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ وفاقی حکومت کواسحاق ڈارکی سینیٹ نشست خالی ہونےکا انتظار تھا۔ اسی لیے انہوں نے اسحاق ڈار کی خالی نشست پر شوکت ترین کو سینیٹ الیکشن لڑوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اب سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھ دیا ہے۔ انہوں نے اس خط میں کہا ہے کہ میری سینیٹ کی خالی نشست کا مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہے، اس لیے سینیٹ رکن کا حلف نہیں اٹھا سکا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے الیکشن کمیشن پاکستان کو بھیجے گئے خط میں کہا "40 روز میں حلف لینے کے قانون اور اصول کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جسے 8 مئی 2018 کو عدالت نے معطل کیا"۔ سابق وزیر خزانہ نے بتایا کہ عدالت میں اس حوالے سے میرامقدمہ زیرالتوا ہے، جس کے تحت الیکشن کمیشن کے جاری کیے جانے والے نوٹی فکیشن کو معطل کردیا گیا ہے، جب تک عدالتی فیصلہ نہیں آتا میں سینیٹ کا حلف نہیں لے سکتا۔ یکم ستمبر کے صدارتی آرڈیننس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے انہوں نےلکھا کہ جب تک عدالتی فیصلہ نہیں آتا میری رکنیت معطل رہےگی۔ اسحاق ڈار نے اپنے خط میں لاہور ڈویژن بینچ کے فیصلے کا بھی ذکر کیا انہوں نے اس خط کی کاپی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھی ارسال کی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے منسلک سینئر لوگوں کا خیال ہے کہ خط کے بعد شوکت ترین اسحاق ڈارکی سیٹ پر سینیٹر منتخب نہیں ہو سکتے۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات، صف بندیاں اور سیاسی ہلچل،وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں عمران خان کو ملا ایک اور دھچکا، اجلاس میں وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی ارکان پارٹی چھوڑنے والے ہیں، ساتھ ہی اجلاس میں خبر سامنے آئی کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع سے خبر سامنے آئی ہے کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان حکمراں جماعت سے نالاں ہیں، وفاقی وزیر نے غلام سرور خان سے اجلاس کے دوران ن لیگ میں شمولیت کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے، وزیراعظم بھی کچھ پریشان نظر آئے، انہوں نے بھی اجلاس میں سرور خان سے ڈھکے چھپے الفاظ میں سوالات کئے جس پر غلام سرور خان نے اپنی پوزیشن کو کلیئر کیا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر غلام سرور خان نے چوہدری نثار علی خان سے ہونے والی مشاورت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر چوہدری نثار کو پی ٹی آئی میں شامل کیا جاسکتا ہے تو میں کیوں ن لیگ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے کابینہ میں ردو بدل اور نئے ارکان کے آنے کا اشارہ بھی دے دیا، جس میں غلام سرور خان کی وزارت تبدیلی کی بھی تجویز سر فہرست تھی، اور وزیر اقتصادی امورعمر ایوب خان کو وزیر ہوابازی بنانے کا مشورہ دیا گیا، جب کہ غلام سرور خان کو وزارت سمندر پار پاکستانی بھجوایا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل خبریں سامنے آئی تھیں کہ اجلاس میں وزیردفاع پرویز خٹک کی قیادت میں بھی نیا گروپ ابھر کر سامنا آیا تھا، وزیراعظم نے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ارکان کو منایا۔ دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس کو کور کرنیوالے نجی رپورٹر فہیم اختر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں اگرچہ گروپ بندی ہے لیکن کوئی گروپ کہیں نہیں جارہا جب تک عمران خان حکومت ہے۔
نیب کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کیخلاف چلنے والے منی لانڈرنگ کیس میں العریبیہ اور رمضان شوگر ملز پر تحقیقات کے دوران 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے ثبوت مل گئے۔ تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ شوگر ملز کے چپڑاسی، کلرکس ودیگر ملازمین کے نام پر کروڑوں روپے منتقل کئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف 25 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں رمضان ملز کے چپڑاسی، کلرکس ودیگر ملازمین کے نام 57 مشکوک اکاؤنٹس سامنے آگئے۔ جن میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔ انکوائری میں العریبیہ ،رمضان شوگر ملز کے منی لانڈرنگ کے ثبوت سامنے آگئے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ رمضان شوگر ملز کے کم تنخواہ دار 20 ملازمین کے اکاؤنٹس میں 25 ارب روپے آئے، ٹی بوائے کے اکاؤنٹ میں 3 ارب 70 کروڑ روپے ٹرانسفر کئے گئے۔ فرنیچر دکان کے مالک حاجی نعیم کے اکاؤنٹ میں 2ارب 80 کروڑ روپے وصول ہوئے۔ جب کہ مشتاق چینی کے ڈرائیور وارث کے اکاؤنٹ میں ڈھائی ارب روپے آئے۔ رمضان شوگر ملزکے چپڑاسی اسلم کے اکاؤنٹ میں 1ارب 75 کروڑ روپے ، کلرک کے اکاؤنٹ میں 1ارب 67 کروڑ روپے اور کلرک غلام شبر کے نام پر 1ارب 57 کروڑ روپے آئے۔ گنا بیچنے والے چھوٹے کاشتکار کے اکاونٹ میں ایک ارب 55کروڑ آئے۔ رمضان شوگر ملز کے کلرک خضر حیات کے نام پر اکاونٹ میں 1ارب 42کروڑ ، اسی شوگر ملز کے معمولی ملازم قیصر عباس کے اکاؤنٹ میں 1ارب 37کروڑ اور 2015 میں مرنے والے کیشیئرکےاکاونٹ میں 1ارب 28کروڑ آئے۔ مشتاق چینی کی جعلی کمپنی اکبر ٹریڈرز کے اکاؤنٹ سے 1ارب 25کروڑ روپے اور رمضان شوگر ملزکلرک اقرار حسین کے اکاؤنٹ میں 1ارب 18کروڑ روپے منتقل کئے گئے۔ حکام کو یقین ہے کہ نئی تحقیقات میں سامنے آنے والے ثبوت ناقابل تردید ہیں اور ان کی بنیاد پر عدالت یقینی طور پر شہباز شریف اور دیگر ملزموں کو سزائیں دے گی۔
وزیرخزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ممبران کو کھلا چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ وزیرخزانہ کہیں جانے والا نہیں۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیرخزانہ نے کہا کہ ممبر کی جانب سے نازبیا الفاظ استعمال کیے گئے، میں تنخواہ نہیں لیتا، اپنے ‏گھر میں رہتا ہوں، اپنی گاڑی استعمال کرتا ہوں۔ اجلاس میں ملکی معیشت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آج ملک کی امپورٹس میں اضافہ ہو رہا ہے، 6.4 بلین ‏کی امپورٹس صرف ویکسین کی ہے ضروری نہیں آگے بھی ایسا ہو۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شرمندگی 3 سال والوں کوہونی چاہیے یا 30 سال والوں کو، زرعی ملک ہوکر بھی گندم امپورٹ کر رہے ہیں، پچھلے10سال میں زراعت کے لیے کیا کیا گیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملکی معیشت میں بہتری آنے کے حوالے سے کہا کہ معیشت اس وقت بہتر ہو رہی ہے، آج گندم کی پیداوار ‏‏27 ارب کی ہوئی تو اگلے سال30 ارب پر لے کرجائیں گے۔ انہوں نے ایف بی آر کے نظام پر سائبر حملوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کے نظام کو اوسطا مہینے میں تقریباً 71000 بار سائبر حملوں کانشانہ بنایا جاتا ہے، گزشتہ 2 سال میں سائبر حملے تیزی سے بڑھے ہیں جبکہ گزشتہ 3 سالوں میں ایف بی آرکا سسٹم 3 بار 0.0001 شرح سےمتاثرہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہیکنگ کمیونٹی کے پاس موجود ٹولز، طریقےزیادہ ‏طاقتور اور جدید ہیں، تیسرےفریق کی ‏مدد سے تحقیقات جاری ہیں۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے وزیرخزانہ شوکت ترین کو سینیٹر بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
کچھ روز سے یوٹیوب پر زیرگردش کررہی ہیں جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ مولانا طارق جمیل کی اپنی پہلی بیوی سے لڑائی ہوگئی ہے اور انہوں نے علیحدگی اختیار کرلی ہے ، یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مولانا طارق جمیل کی دوسری بیوی بھی منظرعام پر آگئی۔ خبر پھیلانے والے یوٹیوب چینل نے دعویٰ کیا کہ مولانا طارق جمیل نے اپنی اہلیہ کو گھر منتقل کردیا ہے جس پر جھگڑے کا خدشہ ہے لیکن مولانا صاحب نے معاملات سنبھال لئے ہیں کیونکہ دینی علماء میں دوسری شادی کو برائی نہیں سمجھاجاتا۔ سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو پر مولانا طارق جمیل کا ردعمل بھی سامنے آگیا اور انہوں نے کہا کہ غلط معلومات سے خبردار رہیں ۔ مولانا طارق جمیل نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر کچھ چینلز میری دوسری شادی کے بارے میں جعلی خبریں پھیلا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔ خیال رہے کہ ایک سال قبل بھی مولانا طارق جمیل سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے تیسری شادی کرلی جبکہ بعدازاں حقیقت یہ کھلی کہ ان کی ایک ہی بیوی ہے۔ انہوں نے تیسری کیا ، دوسری بھی شادی نہیں کی۔
کیا واقعی برطانیہ کی این سی اے نے شہبازشریف فیملی کو منی لانڈرنگ کے الزامات سے بری کردیا؟ این سی اے کا تحریری آرڈر منظرعام پر گزشتہ روز نجی چینل جیو اور دنیا نیوز کی جانب سے دعویٰ کیا کہ برطانیہ انٹی کرائم ایجنسی نیشنل کرائم ایجنسی نے انہیں منی لانڈرنگ الزامات سے بری کردیا ہے۔ نجی چینلز کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے سلیمان شہباز کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے بعد این سی اے نے ان کے بینک اکاؤنٹس کو غیر منجمد کردیا ہے۔ اس خبر پر شریف خاندان نے خوشی کا اظہار کیا اور شہبازشریف نے اظہار تشکر کیا ، ن لیگی رہنماؤں نے اس فیصلے پر جشن منایا لیکن بیرسٹر شہزاداکبر نے ان دعوؤں کو غلط قرار دیدیا بیرسٹر شہزاداکبر نے ردعمل دیا کہ برطانیہ کے NCA نے خود سلیمان شہباز کی مشکوک ٹرانزیکشن کی رقم کو منجمد کیا۔ بعد میں اس کی منجمدی ختم کر دی۔ نہ کوئی مقدمہ تھا نہ کوئی پاکستان کی شکایت نہ کوئی کیس چل رہا تھا۔اب خود کو بری قرار دے کر دھمالیں ڈال رہے ہیں کوئی یہ بھی پوچھے اثاثے منجمد کیوں ہوے آج این سی اے کے تحریری آرڈر نے شریف خاندان اور نجی چینلز کے دعوے کو غلط قرار دیدیا۔ فیصلے میں شہباز شریف کا نام اور بریت کا کوئی ذکر نہیں جبکہ سلیمان شہباز کے 2 اکاؤنٹس کی بحالی کا ذکر ہے۔ آرڈر کے مطابق سلیمان شہباز کے اکاؤنٹ منجمد کی تاریخ ستمبر 2021 تک سلیمان شہباز کی رضامندی سے بڑھائی گئی جبکہ فیصلہ یہ نہیں کہتا کہ شریف فیملی منی لانڈرنگ کے الزامات سے بری ہے۔ معاون خصوصی شہزاداکبر نے این سی اے کے آرڈر کو شئیر کیا ۔ شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کے یہ حربے کام نہیں کریں گے، انہیں عدالت میں جواب دینا ہوگا۔ شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو چاہیے کہ کسی اچھے وکیل سے یہ کورٹ آڈر کا ترجمہ کروا لیں کیونکہ ان کے سستے ترجمانوں نے تو چاچو کو ماموں بنا دیا یہ بتا کر کہ وہ منی لانڈرنگ میں بری ہوگے! ماموں آڈر تو سلیمان کا ہے آپکا تو نام ہی نہیں ویسے آپکا مقدمہ لاہور میں ہے اور اگلے ہفتے پیشی ہے بھولنا مت!
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سیاست میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہیں، آئندہ الیکشن میں ن لیگ کی جیت کیلئے بھی پرامید ہیں، لیکن مریم نواز کے حوالےسے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا بڑا دعویٰ سامنے آگیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز مقبول ضرور ہیں لیکن وہ انتخابات جیت حاصل نہیں کرسکتیں۔ سہیل وڑائچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کے بیانیے سے مریم نواز خوب مقبول ہوئیں لیکن وہ اس کے باوجود الیکشن نہیں جیت سکتیں کیونکہ وہ لیگی کارکنوں کو تو اپنے گرد اکٹھا کر رہی ہیں لیکن غیر جانبدار ووٹ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آتی۔ نجی ٹی وی کے پروگرام ’نقطہ نظر‘ میں مریم نواز کے حوالے سے گفتگو میں سہیل وڑائچ نے واضح کیا کہ مسلم لیگ ن میں نقطہ نظر اور حکمت عملی کا اختلاف ہے، جس نے ماضی میں تو پارٹی کو بہت فائدہ پہنچایا، کیونکہ وہ مزاحمتی بیانیے سے تقریریں کر کے تنظیم کو مضبوط اور عوام کو اکٹھا کر لیتے تھے اور پھر مفاہمتی بیانیے سے مذاکرات کو بھی ممکن بنالیتے تھے۔ سینیئر صحافی نے کہا کہ لیکن اب مسلم لیگ ن کو بیانیے کے اس تضاد سے نکلنا ہو گا کیونکہ مزاحمتی بیانیہ الیکشن میں کامیابی کا باعث نہیں بن سکتا،الیکشن میں کامیابی کے لیے انتخابی وعدے کرنے پڑتے ہیں جیسے جیسے انتخاب کا دور چلے گا مسلم لیگ ن میں بیانیے کا تضاد ختم ہو جائے گا،کیونکہ سب جاتے ہیں ہے کہ الیکشن میں جیت متحد ہوکر ہی ممکن ہے،اور اس جیت کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ضروری ہیں۔ دوسری جانب مریم نواز کا کہنا ہے کہ ان کی اور حمزہ شہباز کی سوچ مختلف ہے لیکن پارٹی کے سربراہ نوازشریف ہی ہیں، کنٹونمنٹ الیکشنز میں ڈکٹیٹرشپ دور سے بھی برے حربے استعمال کیے گئے لیکن ن لیگ کو بڑی کامیابی ملی، ن لیگ میں سوچ اور نظریات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن آخری فیصلہ نوازشریف کا ہی قبول ہوگا۔
نواز شریف کو لندن میں بیٹھ کر پاکستان سے ویکسین کیسے لگ گئی؟ حساس اداروں کی انکوائری رپورٹ تیار کرلی گئی جس کے مطابق اندراج باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا گیا۔ نوازشریف جو کہ علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں ان کے شناختی کارڈ نمبر پر پاکستان میں ویکسینیشن کا اندارج ہو چکا ہے جس نے پاکستانی طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں حساس اداروں نے تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم کا این سی او سی میں اندراج جعلی طریقے سے منصوبہ بندی کے تحت کرایا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اب حساس اداروں نے تحقیقاتی رپورٹ مرتب کر لی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کا شناختی کارڈ نمبر 1166 پر بھیج کر پن کوڈ حاصل کیا گیا، اسی کوڈ کے تحت جھوٹی انٹری کرائی گئی۔ جب کہ اس کے بعد 5 مختلف نمبروں سے ویکسینیشن کی تصدیق کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق جس نمبر سے نوازشریف کا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر ویکسینیشن کا اندارج کرایا گیا وہ نامعلوم شخص کے نام پر تھی۔ ویکسینیشن کے وقت سے 8 منٹ قبل اس نمبر سے میسج کیا گیا۔ جبکہ اسی روز شام 4 بجے اسی نمبر سے ویکسینیشن میسج دکھا کر ویکسین لگوائی گئی ہے۔ جب کہ اس کے بعد5 مختلف نمبروں سے نواز شریف کی ویکسینیشن کی تصدیق کیلئے میسج کیے گئے ہیں۔ حساس اداروں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب ان تمام نمبروں کا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے اور اب اس معاملے پر تحقیقات کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات بدستور برقرار ہیں جس کے باعث صوبے میں سیاسی بحران ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی ہدایت پر 3 صوبائی وزرا اور ایک رکن اسمبلی پر مشتمل 4 رکنی وفد پارٹی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کے خاتمے کے لیے حکومت بلوچستان کے خصوصی طیارے میں کراچی پہنچا۔ بلوچستان سے آنے والا وفد ضیا لانگو، سلیم کھوسہ، عارف محمد حسنی اور حاجی محمد خان طور اتمانخیل پر مشتمل تھا۔ بی اے پی کے ناراض اراکین نے وزیراعلیٰ کے حوالے سے اپنے خدشات اور تحفظات سے وفد کو آگاہ کیا جب کہ وفد نے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ناراض اراکین کو منانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں اور ناراض اراکین اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کہا ہے کہ جام کمال کہیں نہیں جا رہے، وہ مزید 2 سال بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہیں گے، ناراض اراکین کو جلد منالیں گے۔ یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف جہاں اپوزیشن متحد ہے وہیں ان کی اپنی سیاسی جماعت کے رہنما بھی ان سے شدید ناراض ہیں۔ جس کی وجہ سے جام کمال کو صوبے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر وزیراعلیٰ بلوچستان کچھ روز قبل وزیراعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ملاقات کے دوران معدنی شعبے میں وفاقی حکومت کی طرف سے معدنی ترقیاتی پروگرام پر بات ہوئی۔ یہی نہیں صوبائی ترقیاتی پیکیج کے تحت جاری منصوبوں پر ہونے والی پیشرفت پر بھی گفتگو ہوئی۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے ترقیاتی منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
لاہور کی بینکنگ کورٹ میں رمضان شوگر ملز سے متعلق منی لانڈرنگ پر سماعت ہوئی تو دوران سماعت ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز ودیگر ملزموں نے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی ہے اور تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے نے شواہد سے بھرے چار صندوق آج عدالت میں پیش کیے ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ 2020 میں شوگر انکوائری کمیشن بنا، جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شوگر ملز بڑے پیمانے پر مالیاتی فراڈ میں ملوث ہیں، اس پر ہمیں انکوائری کرنے کا کہا گیا، جس میں انکشاف ہوا کہ 20 ملازمین کے نام پر 57 اکاؤنٹس بنائے گئے جو کہ 2008 میں کھلے اور 2018 میں بند ہوئے۔ ان اکاؤنٹس میں 15 ہزار 8 سو بار رقوم ڈپازٹ ہوئیں، کراچی میں ایک اکاؤنٹ میں 13 فرضی ناموں سے 27 ارب کی ٹرانزیکشن سامنے آئیں، انہوں نے کہا اس کو کیس اسٹڈی کے طور پر بزنس اکاؤنٹنگ اور قانون کے اسکولوں میں پڑھایا جائے تا کہ آنے والی نسلوں کو منی لانڈرنگ کی لعنت سے چھٹکارا ملے۔ شہباز شریف نے عدالت میں بیان میں دیا کہ آفیسر نے عدالت کو جو باتیں عدالت میں بتائیں یہ غلط بیانی ہے، میں اس شوگر مل سے کوئی تنخواہ نہیں لیتا، میں اس شوگر مل میں نہ شیئر ہولڈر ہوں، نہ ڈائریکٹر ہوں، نہ عہدیدار ہوں، یہ اثاثہ میرے والد نے بنایا جسے میں نے اپنے بچوں کو منتقل کر دیا، میں نے تو اپنے خاندان کو شوگر کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے عدالت کو مزید بتایا کہ اتنے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ وزیر اعلیٰ اور اعلیٰ سرکار ی عہدوں کی مدد کے بغیر ناممکن تھی۔ سابق سی ایم پنجاب کو یہ تک یاد نہیں کہ ان کے خاندانی کاروبار حمزہ شہباز یا سلمان شہباز چلاتے تھے۔ حمزہ شہباز کو یہ یاد نہیں کہ ان کے بھی اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کا کیش کون جمع کرواتا رہا۔ عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت میں 9 اکتوبر تک توسیع کر دی اور دونوں کو تفتیشی ٹیموں سے مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کردی۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب میں مسئلہ کشمیر، افغانستان کی صورتحال، اسلاموفوبیا، کورونا وائرس، ماحولیات اور دیگر اہم امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ عمران خان کے اس خطاب کو معروف ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب پر دیگر عالمی رہنماؤں کی نسبت سب سے زیادہ بار سنا گیا۔ حتیٰ کے وزیراعظم پاکستان کو امریکی صدر جوزف بائیڈن سے بھی زیادہ صارفین نے سنا اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پسند کیا۔ اعدادو شمار کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو اب تک 2 لاکھ 24 ہزار سے زائد صارفین نے سنا اور اس پر اظہار پسندیدگی کیا، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک لاکھ 15 ہزار صارفین نے سنا اور اپنی رائے دی۔ جب کہ برطانوی وزیراعظم کو 3 روز میں صرف 44 ہزار یوٹیوب صارفین نے سنا۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کو اب تک 61 ہزار صارفین نے سنا اور ان کے خطاب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کیونکہ ایک جانب انہوں نے اپنے خطاب میں بلندو بانگ دعوے کیے ہیں تودوسری جانب وہ افغانستان میں 20 سال پرانی جنگ ہار چکے ہیں۔
فردوس عاشق اعوان کو 2 نومبر2020 کو وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و ثقافت مقرر کیا گیا جبکہ 6 اگست 2021 کو اس عہدے سے اچانک ہٹا دیا گیا۔ اس طرح عہدے سے ہٹائے جانے کے متعلق خود فردوس عاشق اعوان بھی نہیں جانتی تھیں۔ انہیں اس کا پتہ تب چلا جب وہ پنجاب اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی کی تقریب حلف برداری کیلئے گئیں تو سیکیورٹی نے انہیں آگے جانے سے روک دیا۔ فردوس عاشق اعوان کو ہٹائے جانے سے متعلق کئی طرح کی چہ مگوئیاں ہوتی رہیں کہ انہیں دوبارہ کوئی اہم ڈیوٹی دی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں صوبے میں بھی ان کا کام یہ تھا کہ وہ عثمان بزدار کی کارکردگی کو سامنے لائیں۔ جو مسائل ہیں پنجاب کی گورننس اور بزدار سرکار کی سستی بارے انکی نشاندہی کریں اور رپورٹ مرتب کریں۔ جس کیساتھ مسائل کے حل کیلئے تجاویز بھی شامل ہوں۔ نجی میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وفاق کی اعلیٰ شخصیت سے رابطہ کیا اور وقت مانگا کہ وہ پنجاب کی کارکردگی رپورٹ پیش کرنا چاہ رہی ہیں۔ گورننس کے کیا مسائل ہیں اور اسکی وجہ کیا ہے؟ آگے سے جواب آیا کہ ملاقات کا وقت مشکل ملے گا تمام تفصیل میسج کر دیجئے۔ فردوس عاشق اعوان کی جانب سے ایسا ہی کیا گیا لیکن وہ واٹس ایپ پیغام گھوم پھر کر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تک پہنچ گیا۔ جس وجہ سے ان کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ دراصل سیالکوٹ کے حلقہ پی پی 38 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار احسن سلیم بریار کی فتح جس میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کلیدی کردار تھا کے بعد انہوں نے 9 ماہ کی رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کا مقصد تھا کہ وزیراعظم کو ان مسائل کے بارے آگاہ کرسکیں۔ آیا کہ ان تجاویز پر اگرعمل کیا جائے تو پنجاب کی گورننس کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسی ٹاسک کو پورا کرنے کیلئے فردوس عاشق نے رپورٹ والا اقدام اٹھایا مگر یہ مسئلہ ان کے اپنے گلے پڑ گیا۔ فردوس عاشق کو 3 ماہ خاموش رہنے کا بولا گیا اور یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انکو دوبارہ کوئی اہم ذمہ داری سونپی جائے گی۔

Back
Top