سیاسی

پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ پنجاب کے بغیر حکومت کا فائدہ نہیں جس پر میں نے کہا تھا آپ فکر نہ کریں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر خان ترین اپنے حلقے لودھراں میں ایک تقریب سے خطاب کررہے تھےجس میں انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت بنوانے کیلئے نمبر گیمز پورے کرنے کا کریڈٹ لیا اور آزاد اراکین کو پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے جہاز کے استعمال کا ذکر بھی کرڈالا۔ اس موقع پر جہانگیر خان ترین نے کہا کہ الیکشن میں تحریک انصاف کو کامیابی ملی مگر ہماری کچھ سیٹیں کم تھیں تو آپ کو پھر پتا چلا کہ جہاز چلا ہے، الیکشن کے بعد پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے تحریک انصاف کے پاس ن لیگ کے مقابلے میں 8 سیٹیں کم تھیں، خان صاحب نے مجھے پیغام بھجوایا کہ پنجاب کے بغیر مرکز میں حکومت کا فائدہ نہیں ہے جس پر میں نے کہا آپ فکر نہ کریں۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ الیکشن سے 6 ماہ قبل ایک فضول فیصلے کے تحت مجھے نا اہل کروایا گیا اور جب الیکشن کے بعد ہماری حکومت بن گئی تو ایک منظم سازش کے ذریعے مجھے عمران خان سے دور کیا گیا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز وفاقی وزرا اور اعلیٰ عسکری حکام کے مابین ملاقات ہوئی جس میں موجودہ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ ملاقات میں طے ہوا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر لیفٹننٹ جنرل ہی مقرر رہیں گے۔ نجی میڈیا کے مطابق نئے ڈی جی آئی ایس آئی آئندہ ہفتے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن 13 اکتوبر تک جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ 6 اکتوبر کو پاک فوج میں اعلیٰ سطح پر تقرر و تبادلے کیے گئے تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور جب کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر کئی روز تک ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ وزیراعظم عمران خان اس تقرری سے ناخوش ہیں۔ البتہ ان دعوؤں اور افواہوں کی کسی حکومتی یا عسکری شخصیت کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی تھی مگر سوشل میڈیا پر نامور صحافی اس بارے میں ڈھکے چھپے الفاظ میں باتیں کر رہے تھے۔ نوٹیفکیشن کے معاملے پر وزیراعظم نے ڈی جی آئی ایس آئی نوٹیفیکیشن معاملے پر کابینہ کو اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ معاملے کو غلط رنگ نہ دیا جائے،ہم سب ایک پیج پر ہیں،جلد معاملہ حل کر لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں، اس معاملے میں ہونے والی قیاس آرائیوں پر توجہ نہ دیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نجی اخبار روزنامہ جنگ کیلئے سیاسی، سماجی، عسکری اور دیگر موضوعات پر خصوصی کالم لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے آخری کالم میں لکھا ہے کہ اب تک مجھے ہزاروں ہمدردوں سے نیک خواہشات بذریعہ ای میل اور واٹس ایپ موصول ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان کا کہنا تھا کہ میری صحت پہلے سے بہتر اور خطرے سے باہر ہے، بس تھوڑی کمزوری ہے وہ بھی ان شااللہ جلد دور ہوجائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے عوام کو ایک مشورہ دیا کہ ریڈیو پاکستان صبح 7بجے سے رات تک صوت القرآن کے نام سے تلاوت قرآن مع اردو ترجمہ پیش کرتا ہے یہ بہت ہی اعلیٰ پروگرام ہے آپ دکان میں، بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں نرم آواز یعنی ہلکی آواز میں اس کو لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ آواز اُونچی، لوگوں کو ہراساں کرنے والی نہ ہو۔ آپ اللہ کے احکامات سن سن کر ان پر عمل کرنے لگیں گے۔ اور عوام بھی۔ یاد رہے گذشتہ روز ایٹمی پاکستان کے خالق اور سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی طبیعت اچانک خراب ہونے کے باعث 85 برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے، وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ بعد ازاں ایٹمی سائنس داں قومی ہیرو پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایچ ایٹ قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان، صدر مملکت سمیت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ن نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر کے انتقال پر اظہارافسوس کیا تھا۔
زادکشمیر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کوئی کامیابی حاصل نہ کرپائی اور بدترین شکست سے دو چار ہوئی ۔ نتائج کے مطابق میرپور،چڑہوئی ضمنی الیکشن دونوں حلقوں کے عوام نے مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو مسترد کردیا ہے۔ ایل اے 12 میں پیپلزپارٹی نے میدان مار لیا۔مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر جبکہ تحریک انصاف تیسرے نمبر پر تھی کچھ ماہ قبل عام اتنخابات میں ایل اے 12 سے مسلم لیگ ن کو 20080 جبکہ تحریک انصاف کو 17 ہزار 525 ووٹ ملے تھے۔گزشتہ روز ایل اے 12 میں تحریک انصاف کو 18858 اور ن لیگ کو 17892 ووٹ ملے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر سے دوسرے نمبر پر آگئی ۔ نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی یہ سیٹ 24335 ووٹ لیکر جیت چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایک بار پھر ایل اے 3 میرپور کی نشست اپنے نام کرلی ، یہاں سے آزادکشمیر عام انتخابات میں بیرسٹرسلطان محمود جیتے تھے لیکن انکے آزادکشمیر کے صدر بننے کے بعد یہ سیٹ خالی ہوگئی جہاں سے انکے بیٹے نے حصہ لیا اور واضح مارجن سے ن لیگ کے چوہدری سعید کو ہرادیا۔ ایل اے 3 سے بیرسٹر سلطان کے صاحبزادے یاسرسلطان نے 20142 ووٹ حاصل کئے ، مسلم لیگ ن کے چوہدری سعید کو 11608 جبکہ پیپلزپارٹی کے چوہدری اشرف کو 1450 ووٹ ملے۔ یاسر سلطان نے چوہدری سعید کو 9 ہزار ووٹ سے شکست دی جبکہ یاسر سلطان کے والد نے چوہدری سعید کو 3000 سے زائد ووٹوں سے شکست دی جولائی میں ہونیوالے عام انتخابات میں بیرسٹرسلطان نے 18703 ووٹ جبکہ انکے صاحبزادے نے موجودہ ضمنی الیکشن میں 20142 ووٹ یعنی 1439 ووٹس زیادہ حاصل کئے، اسی طرح ن لیگ کے چوہدری سعید نے پچھلے انتخابات میں 15556 ووٹس لئے تھے لیکن اس بار 11608ووٹ حاصل کئے یعنی 3908 ووٹس کم حاصل کئے۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حیران ہوں کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل ہونے کے باوجود میں 17 ملکوں کا دورہ کرچکا ہوں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یوسف رضا گیلانی نے اپنے آبائی حلقے ملتان میں ایک سیمینار سے خطاب کیا اور کہا کہ بیرون ملک جانے کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے منعقد کی گئی ایک بین الاقومی کانفرنس میں شرکت کی دعوت تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حیرانی کی بات ہے کہ میرا نام ای سی ایل میں موجود ہے اور اس کے باوجود میں 17 ملکوں تک جاچکا ہوں ۔ یوسف رضا گیلانی نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں آئین کو اپنی اصل شکل میں بحال کیا ہے، صحافت پر قدغن کی مخالفت اور صحافیوں کے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ 6 اکتوبر کو اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر یوسف رضا گیلانی کو بین الاقومی کانفرنس میں شرکت کیلئے اٹلی جانے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد پیپلزپارٹی نے شدید احتجاج کیا تھا۔ یادرہے کہ یوسف رضا گیلانی کا ای سی ایل میں نام 2013 میں نیب کی سفارش پر شامل کیا گیا تھا جس کے پیچھے یوسف رضا گیلانی کی جانب سے توقیر صادق کی بطور چیئرمین اوگرا تعیناتی کا معاملہ تھا، 2020 میں سپریم کورٹ نے انہیں ایک بار ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی تاہم ان کا نام بدستور ای سی ایل لسٹ میں درج ہے۔
بلوچستان کے تین ناراض وزیروں کے استعفیٰ گورنر سید ظہور احمد آغا نے منظور کرلیے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2 روز قبل گورنر بلوچستان کو استعفیٰ پیش کرنےو الے ناراض وزراء کے استعفیٰ منظور کرلیے گئے ہیں ان وزراء میں وزیر خزانہ ظہور بلیدی، سردار عبدالرحمان کھیتران اور اسد بلوچ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وزراء کے استعفوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن محکمہ ایس اینڈ جی اے کی جانب سے جاری کیا جائے گاتاہم مستعفیٰ ہونے والے4 پارلیمانی سیکریٹریز کے استعفی منظور نہیں کیے گئے ہیں۔ ذرائع گورنر ہاؤس کے مطابق قانون کے مطابق پارلیمانی سیکریٹریز کا استعفیٰ گورنر منظور نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ وزیراعلی بلوچستان سے اختلافات شدید ہونے کے بعد 2 روز قبل 3صوبائی وزراء اور 2 مشیروں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے استعفے وزیر خزانہ ظہور بلیدی کو جمع کروادیئے تھے جو بعد میں گورنر بلوچستان کو بھجوادیئے گئے تھے۔
بلوچستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے لگا، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سے اختلافات پر کابینہ سے تین وزراء اور دو مشیروں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق ناراض اراکین نے اپنے استعفے ظہور بلیدی کو جمع کروا دیئے، وزرا اور مشیروں کے علاوہ 4 پارلیمانی سیکریٹریز نے بھی اپنے استعفیٰ جمع کروا دیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ استعفیٰ جمع کرانے والے وزرا میں وزیر خزانہ ظہور بلیدی، عبدالرحمان کھیتران، اسد بلوچ شامل ہیں، جب کہ مشیروں میں اکبر آسکانی، محمد خان لہڑی شامل ہیں، چار پارلیمانی سیکریٹریز میں بشریٰ رند، رشید بلوچ، سکندر عمرانی اور ماہ جبین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں حکمران جماعت کے ناراض اراکین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ تین سال کے دوران بلوچستان میں شدید مایوسی، بدامنی اور بے روزگاری رہی ہے اور اداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی، آج بلوچستان میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں ،جام کمال کو چاہیے بلوچستان کے وسیع تر مفاد کیلئے خود مستعفیٰ ہو جائیں۔ ناراض اراکین کی جانب سے مستعفی ہونے کا اعلان وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو استعفیٰ دینے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے پارٹی عہدیداروں اور کارکنان نے ترقیاتی فنڈز، صفائی کی صورتحال سمیت دیگر مسائل پر جذباتی تقاریر کیں جب کہ 14 سے زائد کارکنان کی تقاریر کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے تحمل سے سنا۔ کارکنان نے شکوہ کیا کہ لاہور کے بعض علاقوں میں صفائی کی صورتحال ناقص ہے، شاہدرہ کے علاقے میں سیوریج سسٹم بھی ناقص ہے۔ ملاقات کے دوران ایک کارکن نے عثمان بزدار سے شکوہ کیا کہ آپ 3 سال بعد ہم سے مل رہے ہیں جس پر وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ اپنے اسٹاف سے کہتا ہوں کہ کارکنوں سے ملاقات کے لیے کوئی سسٹم بنایا جائے۔ دوسری جانب لاہور کی خواتین ارکان اسمبلی نے بھی ترقیاتی فنڈزکامطالبہ کیا۔ ٹکٹ ہولڈرز نے بھی کم فنڈز ملنے کی شکایت کی جس پرعثمان بزدار نے کہا کہ ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کو فنڈز دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے لاہور کے ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز دگنا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پنڈورا پیپرز اسکینڈل پر چیف جسٹس آف پاکستان سے نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امیر جماعت اسلامی لاہور کے علاقے منصورہ میں پریس کانفرنس کررہے تھے ، انہوں نے کہا کہ سابق فوجی افسران کے نام بھی پنڈورا لیکس میں آئے ہیں، جن حاضر سروس اور سابق افسران کے نام اس اسکینڈل میں موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنا انہی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پنڈورا پیپرز میں جن پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں، ہم اداروں سے آئین و قانون کی پاسدار ی کی امید رکھتے ہیں، جن حکومتی وزراء اور مشیران کے نام اس لیکس میں آئے ہیں یا وہ خود مستعفیٰ ہوجائیں یا ان سے استعفیٰ لیا جائے ۔ سراج الحق نے اس معاملے میں حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پاناما لیکس کے دوران تو وزیراعظم عمران خان نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اس بار انہوں نے صرف ایک ٹویٹ کی اور اپنے ہی دفتر میں ایک تحقیقاتی سیل قائم کردیا، ہم وزیراعظم کی تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں یہ تحقیقاتی سیل اپنے لوگوں کو بری کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک نیوٹرل امپائر کا مطالبہ کرتے ہیں، پنڈورا لیکس میں جن شخصیات کے نام آئے ہیں ان کی تحقیقات کسی نیوٹرل فورم پر ہونی چاہیے، غیر جانبدار احتساب ہونا چاہیے، اس معاملے میں چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیں اور اعلی عدالتی کمیشن تشکیل دیں۔ امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ ہم اس معاملے پر سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کریں گے ، ماضی میں ہم نے پاناما لیکس میں ملوث تمام افراد کے خلاف تحقیقا ت کا بھی مطالبہ کیا تھا لیکن چند ایک شخصیات کے احتساب کے بعد سپریم کورٹ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے پنڈورا پیپرز کے معاملے میں وزیراعظم عمران خان کو ماضی یاد دلا دیا۔ انہوں نے عمران خان کا 2016 میں کیا گیا آف شور کمپنیوں سے متعلق ٹوئٹ 5 سال بعد شیئر کیا اور ان سے ایک سوال کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے 2016 میں کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ لوگ عموماً دو وجوہات کی بنا پر آف شور کمپنیاں بناتے ہیں، یا تو اپنی دولت چھپانے کیلئے یا پھر ٹیکس دینے سے بچنے کیلئے۔ شرمیلا فاروقی نے وزیراعظم کا یہ ٹوئٹ اب پنڈورا پیپرز کے سامنے آنے کے بعد شیئر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کچھ وزرا بھی پنڈورا لیکس میں بے نقاب ہوئے ہیں، کیا وہ انہیں برطرف کریں گے؟ انہوں نے عمران خان کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کا اصل امتحان ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کے سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل و سینیٹر فیصل واؤڈا اور تحریک انصاف ہی سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کا نام بھی پینڈورا پیپرز میں آ گیا ہے۔ واضح رہے کہ پنڈورا پیپرز ایک کروڑ 19 لاکھ فائلوں پر مشتمل تحقیقات کا مجموعہ ہے جس میں دنیا کے 117 ملکوں کے 150 میڈيا اداروں کے 600 سے زائد صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ اس لیکس کی تحقیقات میں 2 پاکستانی صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی بھی شریک ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ جام کمال کے استعفے کے سوا کوئی آپشن قابل قبول نہیں، بی اے پی و اتحادی ارکان کوئٹہ میں بلوچستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر مشاورت کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان اور اتحادیوں کا اجلاس منعقد ہوا ،جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔ بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے دوران ناراض بی اے پی اور اتحادی اراکین نے وزیراعلیٰ جام کمال کے استعفی سے ہٹ کر کوئی فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق رکن صوبائی اسمبلی عبدالرحمان کھیتران کی جانب سے بے اے پی کے ناراض ارکان اور اتحادیوں کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) عوامی کے اسد بلوچ سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے۔اجلاس میں عبدالرحمان کھیتران، لالہ رشید، محمد خان لہڑی، سکندر عمرانی، بشریٰ رند، مہ جبیں شیران اورلیلیٰ ترین بھی شریک ہوئیں۔ اجلاس کے دوران ناراض اور اتحادی اراکین اسمبلی نے موقف اپنایا کہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال کے استعفے سے ہٹ کر کوئی آپشن قابل قبول نہیں، بی اے پی اورتمام اتحادی متفق ہیں سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ سوشل میڈیا پر مطالبات سے دستبردارہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی لیکن تکنیکی وجوہات کی بناء پر پیش نہ ہوسکی اور چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے مداخلت کرکے معاملے کو ٹال دیا لیکن جام کمال اپنی جماعت کے ایم پی ایز اور اتحادیوں کو قائل کرنے میں تاحال کامیاب نہ ہوسکے۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی زیرگردش ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے استعفے کی صورت میں عبدالقدوس بزنجو مضبوط امیدوار ہیں۔
حکومت پنجاب نے لاہور میٹرو بس سروس میں 64 نئی بسوں کا اضافہ کردیا ۔وزیراعلیٰ کے ترجمانوں کا شہبازشریف دور سے سستا معاہدہ ہونے کا دعویٰ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ لاہور کے شہریوں کو بہترین سفری سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ نے مین بلیو وارڈ گلبرگ سے موٹر وے ایم ٹو تک ایلیویٹڈ ایکسپریس وے بنانے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے معاون خصوصی حسن خاور نے 2013 میں شہبازشریف دور اور 2021 میں عثمان بزدار دور میں کئے گئے کنٹریکٹ کی ویلیو کا موازنہ کیا ہے۔ حسن خاور کے مطابق 8 سال قبل 2013 میں کیا گیا کنٹریکٹ جس میں 64 بسیں تھی اسکی ویلیو 12.9ارب روپے تھی، آج کی مہنگائی کو مدنظر رکھیں تو ویلیو 26 ارب روپے بنتی ہے۔ حسن خاور نے مزید لکھا کہ ہم نے 2021 میں 64 بسوں کا کنٹریکٹ کیا، جس کی ویلیو 10.8ارب روپے بنتی ہے اور ہم نے شہبازشریف کے کنٹریکٹ کے مقابلے میں 2.1 ارب روپے کی سیونگ کی ہے۔ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کے آج مہنگائی، روپے کی ویلیو کا 2013 سےموازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 15.1ارب روپے بچائے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے فوکل پرسن اظہر مشوانی کے مطابق شہبازشریف دور میں میٹروبسوں کا کیا گیا معاہدہ 368روپے فی کلو میٹر تھا جبکہ عثمان بزدار دور میں معاہدہ 304 روپے فی کلو میٹر ہے۔
پینڈورا پیپرز سے متعلق سوالات پوچھنے پر عمر چیمہ کا سنیٹر فیصل واڈا پر غلیظ زبان استعمال کرنے کا الزام انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے پنڈورا پیپرز نامی نئی تحقیقاتی رپورٹس سامنے آئی ہے جس میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں متعدد اہم سیاسی شخصیات اور وفاقی وزرا موجود ہیں۔ آئی سی آئی جے کے ساتھ پاکستان کے مشہور صحافی عمر چیمہ نے بھی کام کیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جب پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات سے متعلق پوچھنے کیلئے سابق وفاقی وزیر آبی وسائل و سینیٹر فیصل واؤڈا کو فون کیا تو انہوں نے انتہائی غلیظ زمان استعمال کی اور صحافی سے ذاتی نوعیت کی گفتگو پر اتر آئے۔ عمر چیمہ کے مطابق انہوں نے فیصل واؤڈا سے پنڈورا پیپرز میں ان کا نام آنے کے حوالے سے دریافت کرنے کیلئے فون کیا تھا لیکن جب ان سے اس متعلق پوچھا گیا تو وہ انتہائی تحقیر آمیز انداز میں بات کرنے لگے اور انہوں نے اپنی آف شور کمپنی سے متعلق پوچھے گئے سوالنامے کا بھی جواب نہیں دیا۔ عمر چیمہ نے کہا کہ انکی دہری شہریت نکلی لیکن انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا، اب انکی آفشور کمپنی نکلی ہے میں دعوے سے کہتا ہوں کہ انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوسکتا۔ صحافی کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیر خزانہ شوکت ترین سے بھی سوال کیا مگر انہوں نے بھی جوئی جواب نہیں دیا۔ اس سے قبل بھی فیصل واڈا کا جیو کے صحافیوں سے تنازعہ ہوچکا ہے جس پر فیصل واڈا اور جیو کے صحافیوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ یاد رہے کہ پنڈورا پیپرز میں مجموعی طور پر 200 سے زائد ممالک کی 29 ہزار سے زائد آف شور کمپنیوں کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ۔ اس میں 45 ممالک کے 130 سے زائد ارب پتی افراد کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اس لیکس کی تیاری میں 117 ملکوں کے 150 میڈیا اداروں سے وابستہ 600 سے زائد صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ پنڈورا پیپرز انسانی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی صحافتی تحقیق ہے جو ایک کروڑ 19 لاکھ خفیہ دستاویزات پر مشتمل ہے۔ اسی تنظیم نے 2016 میں پاناما پیپرز جاری کیے تھے جس میں 444 پاکستانیوں کے نام شامل تھے۔ پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی تفصیلات ہی کی بدولت اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
وزیراعظم عمران خان کا نام پینڈورا پیپرز میں نہ آنے پر غریدہ فاروقی پریشان؟ دھڑا دھڑ ٹویٹس آئی سی آئی جے نے وزیراعظم عمران خان کو کلئیر قرار دیدیا ہے جس پر ایسا تاثر مل رہا ہے کہ غریدہ فاروقی وزیراعظم عمران خان کا نام نہ آنے پر پریشان ہیں کیونکہ کچھ روز قبل غریدہ فاروقی نے ایک ٹویٹس میں پینڈرواپیپرز اور پانامہ پیپرز میں مماثلت پیدا کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وزیراعظم عمران خان کا نام بھی پینڈورا پیپرز میں آنیوالا ہے اور وہ جانیوالے ہیں۔ لیکن پینڈورا پیپرز کے منظرعام پر آنے سے غریدہ فاروقی کے دعوے ہوا ہوگئے اور انہوں نے دھڑا دھڑ ٹویٹس کرنا شروع کردئیے، کبھی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتیں کہ وزیراعظم کے اپنے نام سے کوئی کمپنی سامنے نہیں آئی (یعنی کسی اور کے نام پر ہوگی)، کبھی سوالات اٹھاتیں تو کبھی پول کرواتیں دلچسپ امر یہ ہے کہ غریدہ فاروقی نے جو پول کروایا، اسکے مطابق 76فیصد سوشل میڈیا صارفین نے وزیراعظم عمران خان کو انٹرنیشنل صادق اور امین قرار دیدیا۔ ایک روز قبل کئے گئے ٹویٹ میں غریدہ فاروقی نے دعویٰ کیا تھا کہ 3 اپریل ، اتوار کا دن حکومتی مدت پوری ہونے سے 2 سال پہلے جب پانامہ پیپرز ریلیز ہوئے تھے تو نوازشریف کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ اب 3 اکتوبر ، اتوار کا دن،حکومتی مدت پوری ہونے سے 2 سال پہلے بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ پینڈورا پیپرز منطرعام پر آئے تو غریدہ فاروقی کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ س پر غریدہ فاروقی پریشانی کا شکار نظر آئیں اور بار بار وزیراعظم عمران خان سے متعلق ٹویٹس کرتی رہیں کہ عمران خان کے نام سے کوئی کمپنی سامنے نہیں آئی۔ غریدہ فاروقی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں؛آئی سی آءی جے نے کن آف شور کمپنیز کے بارے میں عمران خان سے سوالات کیے۔۔ اُن آف شور کمپنیز/مالک کی تفصیلات آئی سی آئی جے سامنے لائے گا۔۔۔ غریدہ فاروقی نے مزید لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کا پینڈورا پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں بشمول اپنی کابینہ/پارٹی کے لوگوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ وزیراعظم صاحب ماضی میں کہتے رہے جس پر الزام ہو وہ استعفی دے تاکہ شفاف تحقیقات ہوں۔ کابینہ کے اراکین استعفی دے رہے ہیں؟ شفاف ہوں واپس آ جائیں۔ اپنے ایک اور ٹویٹ میں غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں ؛ ICIJ کے ڈاکیومنٹس ایسی کوئی بات نہیں کہتے۔ غریدہ فاروقی کے ٹویٹس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ بار بار مختلف انداز سے آرٹیکلز کا ترجمہ کرنیکی کوشش کررہی ہیں، غریدہ نےپھر ٹویٹ کیا کہ آئی سی آئی جے کے ڈاکیومنٹس ایسی کوئی بات نہیں کہتے کہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی ہے۔ پہلے ترجمہ دو حصّوں میں کیا۔ مگر مفہوم ایک ہی ہے بعد ازاں غریدہ فاروقی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ کہنا دُرُست یا غلط یا قبل از وقت ہو گا کہ عمران خان پر ہر قسم کا الزام لگایا جا سکتا ہے مگر ان کی ذات پر مالی کرپشن کا الزام نہیں لگایا جا سکتا؟ کیا ٹیم پر کرپشن کے الزامات کا براہِ راست تعلق کپتان سے ہوتا ہے؟ کیا نااہلی بڑا جرم ہے یا کرپشن؟ آپ کیا کہتے ہیں؟ اسکے بعد غریدہ فاروقی نے ایک پول کروایا جس کے مطابق عمران خان کے اپنے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہی-آئی سی آئی جے کے اس بیان کے بعد آپ کیا کہتے ہیں؛ کیا عمران خان اب انٹرنیشنل صادق اور امین بھی بن گئے ہیں۔۔؟ اس پر 76 فیصد نے وزیراعظم عمران خان کے حق میں رائے دی
پینڈورا پیپرز میں سیاستدانوں ، سابق ریٹائرڈ جنرلز سمیت میڈیا مالکان کے نام بھی شامل ہیں آئی سی آئی جے کیساتھ کام کرنیوالے عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز میں دی نیوز کے ایڈیٹرانچیف کانام بھی شامل ہے، دلچسپ امریہ ہے کہ دی نیوز، جنگ کے ایڈیٹرانچیف اور جیو نیوز کے سربراہ کا نام میرشکیل الرحمان ہے لیکن عمر چیمہ نام لینے سے کتراتے رہے علاوہ ازیں اس لسٹ میں بول ٹی وی کے سی ای او شعیب شیخ کا نام بھی شامل ہے جبکہ گورمے بیکرز اور جی این این کے مالکان، ایکسپریس نیوز کےسلطان لاکھانی، ڈان نیوز کے حمید ہارون بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے صوبائی وزیر عبدالعلیم خان جنہوں نے حال ہی میں سماء نیوز کا چارج سنبھالا ہے، انکا نام بھی پینڈورا پیپرز میں شامل ہے۔ عبدالعلیم خان نے مطابق انہوں نے اپنی آفشور کمپنی الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشواروں میں ڈیکلئیر کررکھی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جیو بار بار یہ ٹکرز چلارہاتھا کہ اگر قانون کے مطابق آفشور کمپنی ڈکلیر کی گئی ہو اور اس کمپنی نے کوئی غیر قانونی کام نہ کیا ہو تو ایسی کمپنی بنانا جرم نہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو کے قافلے پر ہونے والے بم دھماکے کی یاد میں 17 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کا جلسہ کراچی کے جناح باغ میں منعقد کیا جائے گا جس سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر پارٹی رہنما خطاب کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے جلسہ عام کے اعلان کے بعد پارٹی انتظامیہ نے بھرپور تیاریاں شروع کردی ہیں، پارٹی کے مقامی و صوبائی رہنماؤں نے کارکنان سے جلسہ گاہ آتے ہوئے کورونا ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد کرنے کی اپیل کی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری سید وقار مہدی نے ڈپٹی کمشنرکراچی شرقی کو درخواست دے کر جلسے کی باقاعدہ اجازت بھی طلب کرلی ہے، درخواست میں جلسے کے دوران لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت بھی مانگی گئی ہے۔ یادرہے کہ سال 2007 میں اکتوبر کی 18 تاریخ کی شام سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹی تھیں، اس موقع پر پارٹی کے جیالوں نے کراچی ایئرپورٹ پر ان کا والہانہ استقبال کیا ، بینظیر بھٹو کی واپسی کے دوران قافلے پر یکے بعد دیگر ے 2 دھماکے ہوئے جس میں درجنوں پارٹی کارکنان جاں بحق اورسینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی رہنماؤں نے حمزہ شہباز کے دورے کے دوران مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے سیاسی رہنماؤں نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مہنگائی و بیروزگاری نےعوام کی کمر توڑ دی ہے۔ حمزہ شہباز کا خانیوال پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا جہاں سے سابق ایم پی اے جمیل شاہ نے متعلقہ حلقے کے ایم این اے افتخار نذیر کی موجودگی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ جمیل شاہ 2008 میں ایم پی اے رہے ہیں۔ ملتان پہنچنے پر شاندار استقبال اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تین دفعہ ایم پی اے منتخب ہونے والے اسحاق بُچہ نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ اسحاق بُچہ 1988, 1993 اور 2002 میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے رہے ہیں۔ ملتان سے بریگیڈیئر (ر) قیصر مہے نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ راجن پور میں بھی پرتپاک استقبال کیا گیا اور وہاں سے سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی نے حمزہ شہباز سے ملاقات کی، اور مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ مظفر گڑھ کے حلقہ پی پی 271 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر اور سرکردہ رہنما اختر علی گوپانگ نے بھی لیگی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ ن کا حصہ بننے والے رہنماؤں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں جو جنوبی پنجاب کی مثالی خدمت کی، اس قافلے کا حصہ بننے جا رہے ہیں اور کہا کہ مسلم لیگ ن پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، فخر ہے کہ اس کا حصہ بن رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے سماء نیوز کا چارج سنبھال لیا، میڈیا کارکنوں اور منیجمنٹ سے گفتگو تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے سماء نیوز کا چارج سنبھالنے کے بعد چینل کے ملازمین اور منیجمنٹ سے گفتگو کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اس چینل کو نمبرون چینل بنانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں جتنی بھی محنت کرنی پڑے ہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس چینل کی ریٹنگ پہلے بھی اچھی ہے اور بڑا نام ہے ہم اسے مزید بہتر بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری سیاسی وابستگی ہے لیکن یہ میرا کاروبار ہے میری سیاست کا میرے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینل کو پروفیشنل لوگ چلا رہے ہیں پروفیشنل ہی چلے گا۔ اب کوئی پریشان نہ ہو میں علیم خان اور ادارہ آپکے پیچھے کھڑا ہے۔ آپ پروفیشنل کام کریں میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوں۔ علیم خان نے یہ بھی کہا کہ تنخواہ مقررہ وقت پر ملتی رہے گی بلکہ سب کی تنخواہ میں یکم اکتوبر سے 10 فیصد اضافہ جن کی 50 ہزار سے کم ہے ان کے لیے 10 ہزار کا اضافہ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں پر کام کرنے والے محنتی ہیں اور ہنرمند ہیں تو ان کو کوئی نہیں نکالے گا لیکن اس میں یہ خوبیاں نہیں تو اسے جلد یا دیر سے یہاں سے جانا ہی پڑے گا۔ واضح رہے کہ عبدالعلیم خان تحریک انصاف حکومت میں صوبائی وزیر خوراک بھی ہیں، انہوں نے کچھ عرصہ پہلے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ بھی پیش کیا تھا جسے وزیراعظم عمران خان نے تاحال منظور نہیں کیا۔۔ ذرائع کے مطابق یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ عبدالعلیم خان کچھ عرصہ بعد وزارت کے ساتھ ساتھ رکنیت سے مستعفی ہوجائیں اور چینل کا باقاعدہ انتظام سنبھال لیں گے۔ اس سے قبل دنیا نیوز کے میاں عامر محمود مسلم لیگ ق کا حصہ رہے ہیں اور 2 بار لاہور کے ناظم منتخب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بھی سیاست کو خیرباد کہہ کر دنیانیوز کو باقاعدہ طور پر سنبھال لیا تھا۔
پاکستانی صحافت کا مشہور نام اینکر پرسن کامران خان کا ایک ٹوئٹ سوشل میڈیا پر زیربحث ہے جس کے بارے میں سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ کامران خان نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی پروموشن کرنے کی کوشش کی۔ کامران خان نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بحریہ ٹاؤن کراچی کی ایک ویڈیو شئیر کی اور اس پر اپنی طرف سے رائے زنی بھی کی جس پر وہ تنقید کی زد میں آگئے۔ کامران خان نے لکھا کہ "امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹرز کے واٹس اپ گروپ پر چلنے والی وڈیو پر شرکا بحث کررہے تھے کیا یہ ویڈیو دبئی، امریکی یا کسی یورپی شہر کی ہے؟ گروپ کے شرکا کو یقین نہیں یہ کراچی ہے مجھ تک یہ سوال پہنچا تحقیق کے بعد میرا فخریہ جواب تھا کہ نہ صرف یہ پاکستان بلکہ کراچی ہے یہ بحریہ ٹاون کراچی کے مناظر ہیں۔ کامران خان کی جانب سے اس قدر جانبدار طرز کا ٹوئٹ سامنے آنے پر سوشل میڈیا صارفین کچھ زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہے ، انہوں نے اسے پیڈ ایڈورٹائزمنٹ قرار دیا اور کامران خان کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کامران خان نے اس ٹوئٹ کیلئے پیسے لیے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ انہیں اس کے بدلے کوئی کارنر والا پلاٹ ملے گا۔ نجی چینل کے ایک صحافی وحید مراد نے کہا کہ واٹس ایپ تحقیقاتی صحافت جمع تشہیری مقصد۔ اگر مزید تحقیق کی جائے تو اس میں سے ایک ٹاور کامران خان کا بھی نکل سکتا ہے؟ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے کامران خان کو بحریہ ٹاؤن کے متاثرین پر ہونیوالے ظلم اور فراڈ کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ آپ بحریہ ٹاؤن کی تشہیر کررہے ہو، کبھی آپ نے بحریہ ٹاؤن متاثرین کیلئے آواز نہیں اٹھائی۔ نیمر خان نے طنز کیا کہ پہلے زمانے میں جب لوگ دیانت دار ہوتے تھے تو اس طرح کے مواد کے ساتھ paid content لکھاجاتا تھا! ابصارعالم کا کہنا تھا کہ ایسی صحافت سے توبہ ہی بہتر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی کامران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر آپ اسکی تشہیر کررہےہیں تو ویڈیو پر پیڈ کونٹینٹ لازمی لکھیں۔
وفاقی وزارت تجارت نے ڈاکٹر خالد امین شیخ کو تاجکستان بھیجنے پر ایف پی سی سی آئی (فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری) سے وضاحت طلب کر لی۔ ڈاکٹر خالد امین شیخ نے تاجکستان میں پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے تنقیدی اشعار پڑھے تھے ۔ وفاقی وزارت تجارت کی جانب سے ایف پی سی سی آئی کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر خالد امین شیخ کا اجلاس کے دوران رویہ سخت ناپسندیدہ تھا، وہ پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس کے دوران ملکی سبکی کا باعث بنے۔ بتایا جائےکہ ڈاکٹر خالد کو بزنس کونسل کے اجلاس کے لیے کس نے منتخب کیا؟ ڈاکٹر خالد کو اجلاس کے لیے منتخب کرنے کے پیچھے کیا ایجنڈا ہے؟ وزارت کی جانب سے نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر خالد نے اجلاس میں نجی یونیورسٹی کے جھنڈے میز پر رکھے ہوئے تھے۔ معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ایف پی سی سی آئی ناصر حیات مگوں نے بتایا کہ وزارت تجارت کا نوٹس موصول ہوا ہے، اس مراسلے کا جواب آئندہ ہفتے دیں گے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس میں شاعری کرنے والے خالد امین شیخ باقاعدہ طور پر ایف پی سی سی آئی کے 20 سال سے رکن ہیں اور ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ لیکن انہوں نے تقریب میں جو کہا وہ ذاتی حیثیت میں کہا۔ یاد رہے کہ پاک تاجک بزنس کونسل اجلاس دوشنبے میں 16 ستمبرکو منعقد ہوا تھا، اجلاس کے بعد ڈاکٹر خالد امین شیخ نےکہا کہ حکومت پاکستان پبلک سیکٹر کے بچوں کو اسکالر شپ دے رہی ہے لیکن یہ اسکالر شپ پرائیویٹ سیکٹر کے بچوں کو نہیں دی جارہیں، میری مشیرِ تجارت و سرمایہ کاری رزاق داؤد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ اس پر بھی غور کریں۔ ڈاکٹر خالد امین نے ایک شعر سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کہہ رہا ہے: کچھ اپنے بھی دل پر زخم کھاؤ، میرے لہو کی بہار کب تک مجھے سہارا بنانے والوں میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ آخر میں عمران خان صاحب آپ کے لیے ایک شعر ہے اتنے ظالم نہ بنو ،عمران بھائی آپ کے لیے ،آپ تو اب ایک قیدی ہوگئے، جب کنٹینر پر تھے تو زبردست تھے ، اب تو پتہ نہیں کن کے چکروں میں آپ آگئے ہیں، وہ کہتا ہے کہ "اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت ہی سیکھو" شاعر کی جانب سے تنقیدی شعر و شاعری کرنے کے دوران رزاق داؤد نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکنے کی کوشش کی اور پھر سرکاری ٹی وی کی آواز بند کر دی گئی۔ بعد ازاں عمران خان نے کہا کہ سوال و جواب میں بزنس کی باتیں کریں، شعر و شاعری بعد میں ہوگی۔

Back
Top