سیاسی

ذلفی بخاری نے ریحام خان کیخلاف ہتک عزت کامقدمہ جیت لیا ذلفی بخاری نے لندن ہائی کورٹ میں براڈ کاسٹر اور عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا، وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ پر ذلفی بخاری کےمقدمہ جیتنے کی خبر دی، فواد چوہدری نے ٹویٹ پر لکھا کہ برطانوی عدالت نے ریحام خان پر ذلفی بخاری پر جھوٹےالزامات پر ہرجانے اور معافی مانگنے کا حکم دیا ہے۔ وزیراطلاعات نے مزید لکھا کہ اس طرح کا قانونی نظام پاکستان میں لانے کی کوشش کو آزادی اظہار کے خلاف کہ کر میڈیا مالکان مہم شروع کر دیتے ہیں، بہرحال ریحام کا جھوٹا ہونا ایک بار پھر ثابت ہوا دراصل وہ عادی جھوٹی ہے۔ لندن ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ریحام خان نے ذلفی بخاری کو مقدمے کے اخراجات اور ہرجانہ ادا کرنے پر رضامندی کا اظہار کردیا، ریحام خان ذلفی بخاری کو مقدمے کے اخراجات اور ہرجانے کے طور پر50ہزار پونڈ ادا کرینگی اور تمام الزامات واپس لینے پر اتفاق کرتے ہوئے ذلفی بخاری پر لگائے گئے الزامات کی معافی بھی مانگ لی ہے۔ ریحام خان نے ویڈیو پیغام میں ذلفی بخاری سے ہتک انگیز الزامات پر معافی بھی مانگتے ہوئے بتایا کہ 6 اور 7 دسمبر 2019 کو انھوں نے اپنے یو ٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ٹوئٹر اکاونٹ سے ویڈیو جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ سید ذوالفقار عباس بخاری جو ذلفی بخاری کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ اپنے کرپٹ پلان میں ملوث ہے، جس کے تحت وہ وزیراعظم کے ساتھ مل کر نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل اپنے فائدے کیلئے کم قیمت پر فروخت یا حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ الزامات جھوٹے تھے اور حقیقت پر مبنی نہیں تھے، اب میں سمجھتی ہوں کہ ذلفی بخاری وزیراعظم کے ساتھ مل کر روز ویلٹ ہوٹل کو فروخت یا حاصل کرنے کے کرپٹ پلان میں ملوث نہیں تھے۔ ریحام خان نے مزید کہا کہ 7 دسمبر 2019 کو سید توقیر بخاری کی ٹوئٹ اور ویڈیو کو ری ٹوئٹ کیا جس میں ذلفی بخاری پر حکومت پاکستان کے قیمتی اثاثہ روز ویلٹ ہوٹل کو کم قیمت پر فروخت کر کے اقرباپروری اور دھوکہ دہی سے پیسہ بنانے کے الزامات لگائے گئے تھے، وہ بھی غلط اور حقائق کے برعکس تھے۔ ریحام خان نے یوٹیوب ویڈیو میں بتایا کہ 15 مارچ 2020 کو میں نے سید توقیر بخاری کا ایک اور ٹوئٹ اور ویڈیو ری ٹوئٹ کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ذلفی بخاری نے ٹی وی پر جھوٹ بولا تھا، لوگوں کو جعلی دستاویزات دکھائیں، یہ بھی کہا گیا کہ ذلفی بخاری نے غیر قانونی اور دھوکہ دہی سے پیسہ بنایا اور غیر قانونی طریقے سے لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا، یہ الزامات بھی جھوٹے اور غلط تھے،ذلفی بخاری نے کبھی جعلی دستاویزات لوگوں کو نہیں دکھائیں،انھوں نے اپنا پیسہ بھی غیر قانونی طریقے سے نہیں کمایا،انھوں نے اپنا پیسہ سخت محنت کرکے کمایا جس میں کوئی غیر قانونی طرز عمل شامل نہیں تھا۔ وزیراعظم کی سابق اہلیہ نے مزید کہا کہ 17 مارچ 2020 کو انھوں نے انعام اللہ خٹک کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ذلفی بخاری نے کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے شکایات کرنے والوں کو قانونی نوٹس جاری کئے اور کہا کہ یہ اقدام آزادی صحافت پر ریاستی حملے کے مترادف ہے جس کا وہ ذمہ دار ہے، یہ الزامات بھی جھوٹے اور حقائق کے برخلاف تھے اور یہ کہ ذلفی بخاری کا کورونا وبا سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی کردار نہیں تھا، 23 مارچ 2020 کو سید توقیر بخاری کا ٹوئٹ میں نے ری ٹوئٹ کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا ذلفی بخاری نے پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے نا اہل انتظامات کے سبب لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا، یہ الزام بھی جھوٹا تھا کیونکہ وہ کورونا کے انسداد کیلئے مینجمنٹ کا حصہ ہی نہیں تھے۔ ریحام خان نے واضح طور پر کہا کہ وہ ذلفی بخاری کو ہونے والی پریشانی اور شرمندگی پر غیر مشروط معافی مانگتی ہیں اور وہ ہرجانے اور قانونی اخراجات ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جیونیوز کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان طے ہونے والے تصفیے کے مطابق ریحام خان نے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنی معافی اور وضاحت اردو اور انگریزی میں ٹوئٹ کریں گی جو مسلسل تین دن تک ان کے ٹوئٹر اکائونٹ پر “پن” رہے گی اور اردو اور انگریزی میں یہ معافی نامہ یو ٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر بھی لگایا جائے گا۔ 6 دسمبر 2019 کو ریحام خان نے روزویلٹ ہوٹل کی فروخت میں ذلفی بخاری کے مفاد کا الزام عائد کیا تھا،جس پر ذلفی بخاری نے روزویلٹ ہوٹل سے متعلق ریحام خان کی طرف سے الزامات پر برطانوی عدالت سے رجوع کیا تھا، آج ذلفی بخاری وہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔
مریم اور شہباز کی امریکی ناظم الامور سے الگ الگ ملاقات، ن لیگ میں تقسیم کی گونج۔۔ الگ الگ ملاقاتوں پر تجزیہ کار اور مختلف حلقے حیران امریکی ناظم الامور انجیلا پی ایگلر کی مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز سے ملاقات ہوئیں، دونوں رہنماؤں نے امریکی ناظم الامور سے الگ الگ ملاقات کی۔ پاکستان میں تعینات امریکی ناظم الامور انجیلا پی ایگلر نے شہباز شریف سے ان کی رہائشگاہ ماڈل ٹاؤن جبکہ مریم نواز سے جاتی امرا میں ملاقات کی،مریم نواز اور امریکی وفد کی ملاقات میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، پرویز رشید، خرم دستگیر، مریم اورنگزیب اور طارق فاطمی بھی موجود تھے۔ دونوں رہنماؤں سے ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات، علاقائی سیاست، افغانستان سمیت خطے کی صورتحال، تعلیم وصحت، خواتین اور بچوں کے حقوق پر تبادلہ خیال کیا گیا، وفد سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) پرامن بقائے باہمی، جمہوریت و ترقی اور سلامتی پر مبنی ایجنڈے کے فروغ میں یقین رکھتی ہے۔ امریکی ناظم الامور نے شہباز شریف سے ان کی صحت بارے دریافت کیا جبکہ شہباز شریف نے مہمان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے ساتھ علیحدہ ملاقاتیں ایک بار پھر پارٹی میں تقسیم کی قیاس آرائیاں پیدا کررہی ہیں، جبکہ ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے مختلف مقامات پر ملاقات پر پارٹی کے دیگر اران بھی حیران اور پریشان ہیں۔ مختلف صحافیوں نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے، کچھ کا کہنا تھا کہ اس سے م اور ش کی تقسیم واضح ہوگئی ہے، اگر چاہتے تو اکٹھے ملاقات کرسکتے تھے۔ان صحافیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح ملاقات سے ن لیگ کے ووٹرز اور دیگر حلقوں میں غلط تاثر گیا ہے کہ ن لیگ کی قیادت متحد نہیں ہے۔ اس سے قبل مریم سے قریبی تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف نے ایک نجی ٹی وی چینل پر شہباز شریف پر بلاواسطہ لفظی وار بھی کئے تھے، انہوں نے شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار کہا تھا جس پر ن لیگ میں دو دھڑوں کا شور مچ گیا تھا، پارٹی نے تو جاوید لطیف کو شوکاز نوٹس دیا تھا لیکن مریم نواز نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ دوسری جانب ڈان کی جانب سے اس حوالے سے پوچھا گیا توپارٹی ترجمان مریم اورنگزیب نے جواب دینے سے گریز کیا، لیکن پارٹی کے ایک اندورنی شخص نے ڈان سے گفتگو میں واضح کیا کہ مریم نواز امریکی ناظم الامور کو یہ تاثر دینا چاہتی تھیں کہ وہ اپنے نواز شریف کی غیرموجودگی میں ان کی نمائندگی کرتی ہیں، جو پارٹی کے سپریم لیڈر ہیں، اس لیے پارٹی کی سینئر قیادت ان کے ہمراہ تھی۔ ن لیگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی ناظم الامور نے شہباز شریف کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب خدمات کو سراہا اور مریم نواز نے اپنے والد کی جانب سے امریکی صدر جو بائیڈن کو ان کی انتخابی فتح پر مبارکباد اور پاکستانی عوام کی جانب سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔۔ ن لیگ نے کہا کہ امریکی سفیر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا اورخواتین، بچوں، میڈیا اور انسانی حقوق کے لیے مریم نواز کی کوششوں کو سراہا،دوسری جانب امریکی ناظم الامور نے پنجاب کے قائم مقام گورنر چوہدری پرویز الٰہی ، وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی اور مسلم لیگ (ق) کے ایم این اے سالک حسین اور حسین الٰہی سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات، افغانستان کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔
این اے 133 سے تحریک انصاف کا امیدوار کون ہوگا؟ تحریک انصاف کی قیادت نے امیدوار کا اعلان کردیا مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب کے ‏لیے سیاسی جماعتوں نے سرجوڑ لیے ہیں۔مسلم لیگ ن بھی موزوں امیدوار کی تلاش میں ہے، ایسے میں تحریک انصاف نے امیدوار کا نام فائنل کرلیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے جمشید اقبال چیمہ کو این اے 133 کیلئے میدان میں اتارا ہے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں لاہور کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس ہوا اور بورڈ نے NA -133 کے ضمنی الیکشن کے لئے متفقہ طور پر جمشید اقبال چیمہ کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ضمنی الیکشن میں امیدوار کے طور پر نامزد کر دیا پی ٹی آئی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے ضمنی انتخاب کے لیے امیدوار نامزد کیا ہے جب کہ مسلم لیگ ن اور ‏پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتیں اپنے امیدوار فائنل نہیں کر سکی ہیں۔مسلم لیگ ن کی طرف سے متوقع امیدوار کیلئے خواجہ احمد حسان، حافظ نعمان ، کرنل مبشر کے نام لئے جارہے ہیں لیکن ابھی تک طے نہیں ہوا۔ الیکشن 2018 میں تحریک انصاف کی طرف سے تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجازچوہدری امیدوار تھے جنہوں نے 77293 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ مسلم لیگ ن کے پرویز ملک نے اس سیٹ پر 89699 ووٹ لئے تھے اس طرح اعجاز چوہدری 12 ہزار سے زائد ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ جمشید اقبال چیمہ معاون خصوصی برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی بھی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ جمشید اقبال چیمہ 2011 سے تحریک انصاف کا حصہ ہیں جبکہ ان کی اہلیہ مسرت جمشید چیمہ وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی اور رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر ہونے والی قیاس آرائیاں درست نہیں، اس میں تکنیکی خامی تھی جو ٹھیک ہوجائے گی۔ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تکنیکی خامی تھی جو ٹھیک ہوجائے گی۔ تفصیلات کے کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں موجودہ صورتحال پر پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ عسکری قیادت سے مجھ سے زیادہ بہتر تعلقات کسی کے نہیں ہیں، ماضی میں ایسے تعلقات کی مثال نہیں ملتی۔ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی میں تکنیکی خامی تھی جو ٹھیک ہوجائے گی۔ میری اور آرمی چیف کی 3 گھنٹے تک کی ملاقات ہوئی ہے اور اپنے اپنے نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فوج میں کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے متعلق ابہام دور ہوگیا ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری جلد کر دی جائے گی۔ڈی جی آئی ایس کے تقرر کے تمام معاملات طے پاچکے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے خوشگوار قریبی تعلقات ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سول ملٹری تعلقات اتنے اچھے کبھی نہیں رہے جتنے آج ہیں اور اس کا سہرا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی جاتا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا اور اس حوالے سے تحریک انصاف کے تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو شرکت کی ہدایت کی گئی تھی۔
کراچی سنٹرل جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اشتعال انگیز تقریر کے معاملے پر سماعت کی تو مقدمے میں نامزد رکن قومی اسمبلی علی وزیر، محسن داوڑ اور پی ٹی ایم رہنما منظور پشتین کو اشتہاری قرار دے دیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے محسن داوڑ سمیت چار ملزمان کو اشتہاری قرار دیا۔ مفرور قرار دیئے گئے دیگر ملزمان میں محمد شفیع، ہدایت اللہ پشین اور دیگر شامل ہیں۔ عدالت نے چاروں مفرور ملزمان کا کیس داخل دفتر کردیا۔ عدالت میں مفرور ملزمان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ جس کے مطابق چاروں مفرور ملزمان کے نام پر کوئی جائیداد نہیں۔ رپورٹ مختیار کار سب ڈویژن کراچی، بلدیہ ٹاؤن، ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان اور ڈپٹی کمشنر پشاور کی جانب سے پیش کی گئی۔ پولیس کے مطابق ملزمان کیخلاف سہراب گوٹھ تھانے میں اشتعال انگیز تقریر کا کیس درج ہے۔ کیس میں علی وزیر گرفتار اور عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا معاملے پر حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور اور قومی اسمبلی میں چیف وہپ عامر ڈوگر سے وضاحت طلب کرلی۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عامر ڈوگر کے دیئے گئے انٹرویو سے سیاسی سطح پر غلط تاثر پیدا ہوا،پی ٹی آئی قیادت نے عامر ڈوگر سے ٹی وی پروگرام میں سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو پر سوالات اٹھادیئے اور ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے، جبکہ انٹرویو پر اعلیٰ حکومتی شخصیات اور سینیئر پارٹی قیادت نے بھی ناراضگی ظاہر کردی۔ پی ٹی آئی قیادت نے کہا کہ عامر ڈوگر کو قومی سلامتی امور پر محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا،قومی سلامتی پر سول وعسکری قیادت میں ہم آہنگی ہے لیکن عامر ڈوگر کے انٹرویو سے سیاسی سطح پر غلط تاثر پیدا ہو۔ سوشل میڈیا پر بھی عامر ڈوگر کے انٹرویو کا غلط استعمال ہوا، جبکہ اجلاسوں کی تفصیلات فراہم کرنا وزارت اطلاعات اور ترجمانوں کی ذمہ داری ہے۔ عامر ڈوگر نے گزشتہ روز نی ٹی وی کے اینکر پرسن ندیم ملک کو انٹرویو میں کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اس وقت تک کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی رکھنا چاہتے تھے جب تک افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے۔ وزیراعظم افغان صورتحال کی وجہ سے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدکو رکھنا چاہتے تھے، وزیراعظم چاہتے تھے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کچھ ماہ عہدے پر رہیں، کیونکہ وزیراعظم کا کہناتھاکہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اچھے پیشہ ور سپاہی ہیں۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے وزارت قانون سے نئے آرڈیننس پر وضاحت طلب کرتے ہوئے تمام ریجنل آفسز کو فیصلے لینے سے روک دیا، وزارت قانون کی وضاحت آنے تک نیب میں تمام معاملات پر فیصلے معطل رہیں گے۔ تفصیلات کے مطابق حال ہی میں منظور ہونے والے نیب ترمیمی آرڈیننس ابہام کی نشاندہی کے بعد نیب نے وزارت قانون سے وضاحت طلب کر لی ہے، نیب ہیڈ کوارٹر کی جانب سے تمام ریجنل آفسز کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وضاحت آنے تک کسی معاملے پر فیصلہ نہ لیا جائے۔ اس ضمن میں نیب نے بیان بھی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نیب نے وزارت قانون سے نئے آرڈیننس سے متعلق کئی سوالات پر وضاحت اور تشریح مانگی ہے۔ گزشتہ روز ماہر قانون اور سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کی جانب سے نیب ترمیمی آرڈیننس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ نئے آرڈیننس کے اندر درج ہےکہ زیر التوا مقدمات کو کیسے ڈیل کیا جائےگا۔ وسیم سجاد نے قانون میں ابہام کی نشاندہی کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر جنرل کے مؤقف سے اختلاف کیا اور کہا کہ اگر یہی تفریق کرنی ہے کہ پچھلے کیسوں پر اطلاق نہیں ہوگا، آئندہ پر ہوگا تو نیب آرڈیننس پہلے ہی بے معنی ہوجاتا۔ وسیم سجاد نے مزید کہا ہےکہ نیب ترمیمی آرڈیننس میں یہ تو کہا گیا ہے کہ کچھ چیزوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا،لیکن کیس ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ کون کرے گا ؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری کیا تھا کس کے تحت نیب ریفرنس کے ملزم کو پہلا ریلیف مل گیا، اسلام آباد کی احتساب عدالت نے عبداللہ نامی ملزم کا کیس سیشن جج کو بھیج دیا، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب احتساب عدالت کا اختیار عوام سے فراڈ کے کیس پر نہیں، اب عمومی قانون کے تحت دیگر عدالتوں اس طرح کے کیسز سنے جائیں گے۔ احتساب عدالت نے ملزم کو 15 اکتوبر کو متعلقہ کورٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نئے پلان پر اتحاد کی 2 بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام ف میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات پی ڈی ایم کے حکومت مخالف نئے پلان 'روڈ کاررواں' کے معاملے پر پیدا ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو حکومت مخالف ایک بار پھر متحرک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ پی ڈی ایم حکومت مخالف روڈ کارواں شروع کرنے والی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پلان کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی جانب سے مخالفت سامنے آئی ہے، ن لیگ کا مفاہمتی بیانیہ رکھنے والا گروہ روڈ کاررواں کے بجائے ملک گیر جلسوں کا حامی ہے۔ جے یو آئی ف اور ن لیگ میں روڈ کارواں کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا ہے جس کے بعد پی ڈی ایم کے اجلاس کو ملتوی کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف اور سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے ملک گیر جلسوں کے فیصلے اور نیب آرڈیننس کو چیلنج کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کی خبروں پر تحفظات کاا ظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ الیکشن چوری کرنے والوں سے مذاکرات کیسے کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ پنجاب کے بغیر حکومت کا فائدہ نہیں جس پر میں نے کہا تھا آپ فکر نہ کریں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر خان ترین اپنے حلقے لودھراں میں ایک تقریب سے خطاب کررہے تھےجس میں انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت بنوانے کیلئے نمبر گیمز پورے کرنے کا کریڈٹ لیا اور آزاد اراکین کو پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے جہاز کے استعمال کا ذکر بھی کرڈالا۔ اس موقع پر جہانگیر خان ترین نے کہا کہ الیکشن میں تحریک انصاف کو کامیابی ملی مگر ہماری کچھ سیٹیں کم تھیں تو آپ کو پھر پتا چلا کہ جہاز چلا ہے، الیکشن کے بعد پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے تحریک انصاف کے پاس ن لیگ کے مقابلے میں 8 سیٹیں کم تھیں، خان صاحب نے مجھے پیغام بھجوایا کہ پنجاب کے بغیر مرکز میں حکومت کا فائدہ نہیں ہے جس پر میں نے کہا آپ فکر نہ کریں۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ الیکشن سے 6 ماہ قبل ایک فضول فیصلے کے تحت مجھے نا اہل کروایا گیا اور جب الیکشن کے بعد ہماری حکومت بن گئی تو ایک منظم سازش کے ذریعے مجھے عمران خان سے دور کیا گیا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز وفاقی وزرا اور اعلیٰ عسکری حکام کے مابین ملاقات ہوئی جس میں موجودہ ملکی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ ملاقات میں طے ہوا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر لیفٹننٹ جنرل ہی مقرر رہیں گے۔ نجی میڈیا کے مطابق نئے ڈی جی آئی ایس آئی آئندہ ہفتے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن 13 اکتوبر تک جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ 6 اکتوبر کو پاک فوج میں اعلیٰ سطح پر تقرر و تبادلے کیے گئے تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور جب کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر کئی روز تک ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ وزیراعظم عمران خان اس تقرری سے ناخوش ہیں۔ البتہ ان دعوؤں اور افواہوں کی کسی حکومتی یا عسکری شخصیت کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی تھی مگر سوشل میڈیا پر نامور صحافی اس بارے میں ڈھکے چھپے الفاظ میں باتیں کر رہے تھے۔ نوٹیفکیشن کے معاملے پر وزیراعظم نے ڈی جی آئی ایس آئی نوٹیفیکیشن معاملے پر کابینہ کو اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ معاملے کو غلط رنگ نہ دیا جائے،ہم سب ایک پیج پر ہیں،جلد معاملہ حل کر لیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں، اس معاملے میں ہونے والی قیاس آرائیوں پر توجہ نہ دیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نجی اخبار روزنامہ جنگ کیلئے سیاسی، سماجی، عسکری اور دیگر موضوعات پر خصوصی کالم لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے آخری کالم میں لکھا ہے کہ اب تک مجھے ہزاروں ہمدردوں سے نیک خواہشات بذریعہ ای میل اور واٹس ایپ موصول ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان کا کہنا تھا کہ میری صحت پہلے سے بہتر اور خطرے سے باہر ہے، بس تھوڑی کمزوری ہے وہ بھی ان شااللہ جلد دور ہوجائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے عوام کو ایک مشورہ دیا کہ ریڈیو پاکستان صبح 7بجے سے رات تک صوت القرآن کے نام سے تلاوت قرآن مع اردو ترجمہ پیش کرتا ہے یہ بہت ہی اعلیٰ پروگرام ہے آپ دکان میں، بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں نرم آواز یعنی ہلکی آواز میں اس کو لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ آواز اُونچی، لوگوں کو ہراساں کرنے والی نہ ہو۔ آپ اللہ کے احکامات سن سن کر ان پر عمل کرنے لگیں گے۔ اور عوام بھی۔ یاد رہے گذشتہ روز ایٹمی پاکستان کے خالق اور سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی طبیعت اچانک خراب ہونے کے باعث 85 برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے، وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ بعد ازاں ایٹمی سائنس داں قومی ہیرو پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایچ ایٹ قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان، صدر مملکت سمیت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ن نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر کے انتقال پر اظہارافسوس کیا تھا۔
زادکشمیر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کوئی کامیابی حاصل نہ کرپائی اور بدترین شکست سے دو چار ہوئی ۔ نتائج کے مطابق میرپور،چڑہوئی ضمنی الیکشن دونوں حلقوں کے عوام نے مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو مسترد کردیا ہے۔ ایل اے 12 میں پیپلزپارٹی نے میدان مار لیا۔مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر جبکہ تحریک انصاف تیسرے نمبر پر تھی کچھ ماہ قبل عام اتنخابات میں ایل اے 12 سے مسلم لیگ ن کو 20080 جبکہ تحریک انصاف کو 17 ہزار 525 ووٹ ملے تھے۔گزشتہ روز ایل اے 12 میں تحریک انصاف کو 18858 اور ن لیگ کو 17892 ووٹ ملے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر سے دوسرے نمبر پر آگئی ۔ نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی یہ سیٹ 24335 ووٹ لیکر جیت چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ایک بار پھر ایل اے 3 میرپور کی نشست اپنے نام کرلی ، یہاں سے آزادکشمیر عام انتخابات میں بیرسٹرسلطان محمود جیتے تھے لیکن انکے آزادکشمیر کے صدر بننے کے بعد یہ سیٹ خالی ہوگئی جہاں سے انکے بیٹے نے حصہ لیا اور واضح مارجن سے ن لیگ کے چوہدری سعید کو ہرادیا۔ ایل اے 3 سے بیرسٹر سلطان کے صاحبزادے یاسرسلطان نے 20142 ووٹ حاصل کئے ، مسلم لیگ ن کے چوہدری سعید کو 11608 جبکہ پیپلزپارٹی کے چوہدری اشرف کو 1450 ووٹ ملے۔ یاسر سلطان نے چوہدری سعید کو 9 ہزار ووٹ سے شکست دی جبکہ یاسر سلطان کے والد نے چوہدری سعید کو 3000 سے زائد ووٹوں سے شکست دی جولائی میں ہونیوالے عام انتخابات میں بیرسٹرسلطان نے 18703 ووٹ جبکہ انکے صاحبزادے نے موجودہ ضمنی الیکشن میں 20142 ووٹ یعنی 1439 ووٹس زیادہ حاصل کئے، اسی طرح ن لیگ کے چوہدری سعید نے پچھلے انتخابات میں 15556 ووٹس لئے تھے لیکن اس بار 11608ووٹ حاصل کئے یعنی 3908 ووٹس کم حاصل کئے۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حیران ہوں کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل ہونے کے باوجود میں 17 ملکوں کا دورہ کرچکا ہوں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یوسف رضا گیلانی نے اپنے آبائی حلقے ملتان میں ایک سیمینار سے خطاب کیا اور کہا کہ بیرون ملک جانے کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے منعقد کی گئی ایک بین الاقومی کانفرنس میں شرکت کی دعوت تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حیرانی کی بات ہے کہ میرا نام ای سی ایل میں موجود ہے اور اس کے باوجود میں 17 ملکوں تک جاچکا ہوں ۔ یوسف رضا گیلانی نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں آئین کو اپنی اصل شکل میں بحال کیا ہے، صحافت پر قدغن کی مخالفت اور صحافیوں کے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ 6 اکتوبر کو اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر یوسف رضا گیلانی کو بین الاقومی کانفرنس میں شرکت کیلئے اٹلی جانے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد پیپلزپارٹی نے شدید احتجاج کیا تھا۔ یادرہے کہ یوسف رضا گیلانی کا ای سی ایل میں نام 2013 میں نیب کی سفارش پر شامل کیا گیا تھا جس کے پیچھے یوسف رضا گیلانی کی جانب سے توقیر صادق کی بطور چیئرمین اوگرا تعیناتی کا معاملہ تھا، 2020 میں سپریم کورٹ نے انہیں ایک بار ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی تاہم ان کا نام بدستور ای سی ایل لسٹ میں درج ہے۔
بلوچستان کے تین ناراض وزیروں کے استعفیٰ گورنر سید ظہور احمد آغا نے منظور کرلیے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2 روز قبل گورنر بلوچستان کو استعفیٰ پیش کرنےو الے ناراض وزراء کے استعفیٰ منظور کرلیے گئے ہیں ان وزراء میں وزیر خزانہ ظہور بلیدی، سردار عبدالرحمان کھیتران اور اسد بلوچ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق وزراء کے استعفوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن محکمہ ایس اینڈ جی اے کی جانب سے جاری کیا جائے گاتاہم مستعفیٰ ہونے والے4 پارلیمانی سیکریٹریز کے استعفی منظور نہیں کیے گئے ہیں۔ ذرائع گورنر ہاؤس کے مطابق قانون کے مطابق پارلیمانی سیکریٹریز کا استعفیٰ گورنر منظور نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ وزیراعلی بلوچستان سے اختلافات شدید ہونے کے بعد 2 روز قبل 3صوبائی وزراء اور 2 مشیروں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے استعفے وزیر خزانہ ظہور بلیدی کو جمع کروادیئے تھے جو بعد میں گورنر بلوچستان کو بھجوادیئے گئے تھے۔
بلوچستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے لگا، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سے اختلافات پر کابینہ سے تین وزراء اور دو مشیروں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق ناراض اراکین نے اپنے استعفے ظہور بلیدی کو جمع کروا دیئے، وزرا اور مشیروں کے علاوہ 4 پارلیمانی سیکریٹریز نے بھی اپنے استعفیٰ جمع کروا دیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ استعفیٰ جمع کرانے والے وزرا میں وزیر خزانہ ظہور بلیدی، عبدالرحمان کھیتران، اسد بلوچ شامل ہیں، جب کہ مشیروں میں اکبر آسکانی، محمد خان لہڑی شامل ہیں، چار پارلیمانی سیکریٹریز میں بشریٰ رند، رشید بلوچ، سکندر عمرانی اور ماہ جبین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں حکمران جماعت کے ناراض اراکین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ تین سال کے دوران بلوچستان میں شدید مایوسی، بدامنی اور بے روزگاری رہی ہے اور اداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی، آج بلوچستان میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں ،جام کمال کو چاہیے بلوچستان کے وسیع تر مفاد کیلئے خود مستعفیٰ ہو جائیں۔ ناراض اراکین کی جانب سے مستعفی ہونے کا اعلان وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو استعفیٰ دینے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے پارٹی عہدیداروں اور کارکنان نے ترقیاتی فنڈز، صفائی کی صورتحال سمیت دیگر مسائل پر جذباتی تقاریر کیں جب کہ 14 سے زائد کارکنان کی تقاریر کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے تحمل سے سنا۔ کارکنان نے شکوہ کیا کہ لاہور کے بعض علاقوں میں صفائی کی صورتحال ناقص ہے، شاہدرہ کے علاقے میں سیوریج سسٹم بھی ناقص ہے۔ ملاقات کے دوران ایک کارکن نے عثمان بزدار سے شکوہ کیا کہ آپ 3 سال بعد ہم سے مل رہے ہیں جس پر وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ اپنے اسٹاف سے کہتا ہوں کہ کارکنوں سے ملاقات کے لیے کوئی سسٹم بنایا جائے۔ دوسری جانب لاہور کی خواتین ارکان اسمبلی نے بھی ترقیاتی فنڈزکامطالبہ کیا۔ ٹکٹ ہولڈرز نے بھی کم فنڈز ملنے کی شکایت کی جس پرعثمان بزدار نے کہا کہ ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کو فنڈز دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے لاہور کے ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز دگنا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پنڈورا پیپرز اسکینڈل پر چیف جسٹس آف پاکستان سے نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امیر جماعت اسلامی لاہور کے علاقے منصورہ میں پریس کانفرنس کررہے تھے ، انہوں نے کہا کہ سابق فوجی افسران کے نام بھی پنڈورا لیکس میں آئے ہیں، جن حاضر سروس اور سابق افسران کے نام اس اسکینڈل میں موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنا انہی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پنڈورا پیپرز میں جن پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں، ہم اداروں سے آئین و قانون کی پاسدار ی کی امید رکھتے ہیں، جن حکومتی وزراء اور مشیران کے نام اس لیکس میں آئے ہیں یا وہ خود مستعفیٰ ہوجائیں یا ان سے استعفیٰ لیا جائے ۔ سراج الحق نے اس معاملے میں حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پاناما لیکس کے دوران تو وزیراعظم عمران خان نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اس بار انہوں نے صرف ایک ٹویٹ کی اور اپنے ہی دفتر میں ایک تحقیقاتی سیل قائم کردیا، ہم وزیراعظم کی تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں یہ تحقیقاتی سیل اپنے لوگوں کو بری کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک نیوٹرل امپائر کا مطالبہ کرتے ہیں، پنڈورا لیکس میں جن شخصیات کے نام آئے ہیں ان کی تحقیقات کسی نیوٹرل فورم پر ہونی چاہیے، غیر جانبدار احتساب ہونا چاہیے، اس معاملے میں چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیں اور اعلی عدالتی کمیشن تشکیل دیں۔ امیر جماعت اسلامی نے مزید کہا کہ ہم اس معاملے پر سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کریں گے ، ماضی میں ہم نے پاناما لیکس میں ملوث تمام افراد کے خلاف تحقیقا ت کا بھی مطالبہ کیا تھا لیکن چند ایک شخصیات کے احتساب کے بعد سپریم کورٹ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے پنڈورا پیپرز کے معاملے میں وزیراعظم عمران خان کو ماضی یاد دلا دیا۔ انہوں نے عمران خان کا 2016 میں کیا گیا آف شور کمپنیوں سے متعلق ٹوئٹ 5 سال بعد شیئر کیا اور ان سے ایک سوال کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے 2016 میں کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ لوگ عموماً دو وجوہات کی بنا پر آف شور کمپنیاں بناتے ہیں، یا تو اپنی دولت چھپانے کیلئے یا پھر ٹیکس دینے سے بچنے کیلئے۔ شرمیلا فاروقی نے وزیراعظم کا یہ ٹوئٹ اب پنڈورا پیپرز کے سامنے آنے کے بعد شیئر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کچھ وزرا بھی پنڈورا لیکس میں بے نقاب ہوئے ہیں، کیا وہ انہیں برطرف کریں گے؟ انہوں نے عمران خان کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کا اصل امتحان ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کے سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل و سینیٹر فیصل واؤڈا اور تحریک انصاف ہی سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کا نام بھی پینڈورا پیپرز میں آ گیا ہے۔ واضح رہے کہ پنڈورا پیپرز ایک کروڑ 19 لاکھ فائلوں پر مشتمل تحقیقات کا مجموعہ ہے جس میں دنیا کے 117 ملکوں کے 150 میڈيا اداروں کے 600 سے زائد صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ اس لیکس کی تحقیقات میں 2 پاکستانی صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی بھی شریک ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ جام کمال کے استعفے کے سوا کوئی آپشن قابل قبول نہیں، بی اے پی و اتحادی ارکان کوئٹہ میں بلوچستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر مشاورت کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان اور اتحادیوں کا اجلاس منعقد ہوا ،جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔ بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے دوران ناراض بی اے پی اور اتحادی اراکین نے وزیراعلیٰ جام کمال کے استعفی سے ہٹ کر کوئی فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق رکن صوبائی اسمبلی عبدالرحمان کھیتران کی جانب سے بے اے پی کے ناراض ارکان اور اتحادیوں کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) عوامی کے اسد بلوچ سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے۔اجلاس میں عبدالرحمان کھیتران، لالہ رشید، محمد خان لہڑی، سکندر عمرانی، بشریٰ رند، مہ جبیں شیران اورلیلیٰ ترین بھی شریک ہوئیں۔ اجلاس کے دوران ناراض اور اتحادی اراکین اسمبلی نے موقف اپنایا کہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال کے استعفے سے ہٹ کر کوئی آپشن قابل قبول نہیں، بی اے پی اورتمام اتحادی متفق ہیں سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں بے بنیاد ہیں۔ سوشل میڈیا پر مطالبات سے دستبردارہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی لیکن تکنیکی وجوہات کی بناء پر پیش نہ ہوسکی اور چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے مداخلت کرکے معاملے کو ٹال دیا لیکن جام کمال اپنی جماعت کے ایم پی ایز اور اتحادیوں کو قائل کرنے میں تاحال کامیاب نہ ہوسکے۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی زیرگردش ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے استعفے کی صورت میں عبدالقدوس بزنجو مضبوط امیدوار ہیں۔
حکومت پنجاب نے لاہور میٹرو بس سروس میں 64 نئی بسوں کا اضافہ کردیا ۔وزیراعلیٰ کے ترجمانوں کا شہبازشریف دور سے سستا معاہدہ ہونے کا دعویٰ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ لاہور کے شہریوں کو بہترین سفری سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ نے مین بلیو وارڈ گلبرگ سے موٹر وے ایم ٹو تک ایلیویٹڈ ایکسپریس وے بنانے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے معاون خصوصی حسن خاور نے 2013 میں شہبازشریف دور اور 2021 میں عثمان بزدار دور میں کئے گئے کنٹریکٹ کی ویلیو کا موازنہ کیا ہے۔ حسن خاور کے مطابق 8 سال قبل 2013 میں کیا گیا کنٹریکٹ جس میں 64 بسیں تھی اسکی ویلیو 12.9ارب روپے تھی، آج کی مہنگائی کو مدنظر رکھیں تو ویلیو 26 ارب روپے بنتی ہے۔ حسن خاور نے مزید لکھا کہ ہم نے 2021 میں 64 بسوں کا کنٹریکٹ کیا، جس کی ویلیو 10.8ارب روپے بنتی ہے اور ہم نے شہبازشریف کے کنٹریکٹ کے مقابلے میں 2.1 ارب روپے کی سیونگ کی ہے۔ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کے آج مہنگائی، روپے کی ویلیو کا 2013 سےموازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 15.1ارب روپے بچائے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے فوکل پرسن اظہر مشوانی کے مطابق شہبازشریف دور میں میٹروبسوں کا کیا گیا معاہدہ 368روپے فی کلو میٹر تھا جبکہ عثمان بزدار دور میں معاہدہ 304 روپے فی کلو میٹر ہے۔

Back
Top