سابق وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ امریکا کی پاکستان میں اپنے وفاداروں کی تلاش کب سے شروع ہے اور اس نے یہاں اپنے کون کونسے عزائم اس طریقے سے حاصل کیے ہیں۔
شیریں مزاری نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ امریکہ نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی سازش کاآغازاس وقت کیا جب عمران خان نے آزاد خارجہ پالیسی کا آغاز کیا جو تمام فریقین کی مرضی سے یوکرین پر رائے شماری کی قراردادوں پرغیرجانبداریت پر تمام ہوا۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو کے بعد امریکا کو ہمیشہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے فرمانبردار قائدین کی تلاش رہی جو اسے ہمیشہ ملے۔ شیریں مزاری نے یہ بھی کہا حتیٰ کہ لیاقت علی خان سے فوجی آمروں تک ہماری ابتدائی تاریخ میں بھی مطالبات کے سامنے ڈھیر ہونا ایک رسم تھی۔
ان کا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سے متعلق کہنا تھا کہ 1989میں ادائیگیوں کےعوض خریدے گئےF16 طیاروں کی فراہمی اکتوبر1990میں روک دی گئی۔ان طیاروں کو کھڑا کرنے کا کرایہ بھی بٹورا گیا، نوازشریف حکومت میں آئے تو دسمبر1998میں مضحکہ خیز معاہدہ کر ڈالا کہ ان طیاروں کےادا شدہ 324 ملین ڈالر تو نہیں لوٹائے گا البتہ ان کےعوض کو گندم اور سویابین مہیا کریگا۔
سابق وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ نوازشریف نے معاملہ عدالتوں میں لڑنے کا وعدہ تو کیا کیونکہ یہ ایک کاروباری معاہدہ تھا مگرجب امریکا نے دباؤ ڈالا تو لیٹ گئے۔ 1999میں کارگل کے دوران نوازشریف کلنٹن سے ملنے واشنگٹن گئے تو کسی کارروائی نویس کےبغیرہی ملاقات کی اور انخلاء کا معاہدہ کر ڈالا جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس انخلاء کے دوران افواج پاکستان کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ 2008 میں ممبئ حملے ہوئے تو اس وقت کے صدر زرداری نے DGI کو تفتیش کیلئے بھجوانے کی رضاکارانہ پیشکش کرڈالی۔ کسی سربراہِ ریاست کیجانب سے دشمن ملک کیلئےاس پیشکش (کےخوفناک نتائج) تو ذرا تصور کیجئے۔
ان کا کہنا ہے کہ زرداری کے جوہری اسلحے سےمتعلق "استعمال میں پہل نہ کرنے" کی حکمت عملی کا اعلان پر ہمیں امریکا کی خفیہ ایجنسیوں، حسین حقانی، سی آئی اے اور بلیک واٹر کو ریوڑیوں کی طرح ہزاروں ویزے بانٹنے پڑے۔ تبھی میمو گیٹ کا معاملہ بھی سامنے آیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کیس میں اس امریکی شہری نے لاہور میں ہمارے 2 شہریوں کو گولیاں ماریں جہاں ن لیگ کی حکومت تھی۔ مرکز اور پنجاب کی باہم ملی بھگت سے اسے بھگایا گیا حالانکہ وہ ایک سفارتکار نہیں بلکہ قتل کا مرتکب مجرم تھا۔ تاثر یہی ہے کہ سیاہ آسیب بھی انکے ہمنوا تھے۔
مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت سے متعلق انہوں نے کہا کہ 2013 میں حکومت نوازشریف کے ہاتھ لگی تو قومی سلامتی کے بھارتی مشیر کو پاکستان میں بلا روک رسائی دے ڈالی۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس دوران کبھی کشمیر پر بات نہیں کی۔
شیریں مزاری نے کہا کہ چنانچہ مقامی سہولتکاروں کی مدد سے ان ”بھکاریوں“ اور سمجھوتے کرنے والوں کو اقتدار میں لانے کی امریکی سازش پر کوئی حیرت نہیں! انہیں انکا صلہ جلد ہی مل گیا۔ امریکہ و بھارت کے”ڈومور“ کے مطالبے کا جواب شہباز شریف کو منتخب ہونے کےبعد مبارکباد سے ملا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ شہبازشریف نے بغیر پیشگی شرط کے گفتگو کیلئے بھی مودی کو خط بھجوایا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں، آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششوں میں مسلمانوں پر ظلم اور ان کے قتلِ عام کی انہیں رتی بھر پرواہ نہیں۔
جو سوال واقعتاً پریشان کن ہے وہ یہ کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی جانب سے پاکستان کے دفاع و سلامتی پر بڑے سمجھوتوں کی ایک تاریخ کے باوجود یہ امپورٹڈ حکومت ایک غیرمرئی حفاظتی غلاف میں کیوں لپیٹی گئی ہے۔ انہوں نے اس کے ساتھ عام انتخابات کا مطالبہ بھی کیا۔