خبریں

جیو نیوز کے ملازمین مہنگائی کے اس دور میں بھی تنخواہیں نہ بڑھنے کی وجہ سے پریشان دکھائی دیتے ہیں، دور حاضر میں جہاں پاکستان کے ہر طبقے کیلئے پریشانی اور مسائل کے انبار ہیں وہیں صحافی برادری کی پریشانیاں بھی بڑھی ہیں اور نتجتاً ہر کسی کے حق کیلئے آواز اٹھانے والوں کی اپنی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ پاکستان میں جہاں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اشیائے ضروریہ سمیت خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں وہیں ضرورت کے مطابق تنخواہ دار طبقے کی آمدنی میں اضافہ یقینی طور پر ہونا بھی چاہیے مگر چند طبقات اور شعبہ ہائے زندگی ایسے بھی ہیں جہاں استحصال جوں کا توں برقرار ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران جب مہنگائی کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا تو چند چینلوں نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا مگر جیو نیوز نے نا تب اپنے ملازمین کیلئے کچھ کیا اور ناہی اب تک ادارہ ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ جیو نیوز اور معروف انگریزی اخبار دی نیوز کے ملازمین اپنے استحصال پر پریشان ہیں مگر افسوس کے دوسروں کے لیے آواز اٹھانے والوں کیلئے اپنی آواز مالکان کے کانوں تک پہنچانا انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ کیے جانے پر جیوملازمین نے تنگ آکر احتجاج کا راستہ اپنایا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ جیو نیوز کے اسلام آباد دفتر میں عملے نے احتجاج کیا اور مالکان سے صحافیوں کے معاشی قتل بند کرنے کا مطالبہ کیا، اس احتجاج کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر متعدد صارفین کی جانب سے شیئر کی گئیں تاہم جیو سے وابستہ سینئر ایگزیکٹو پروڈیوسر نارتھ مدثر سعید نے جو ویڈیو شیئر کی اس میں نیوز روم میں موجود تمام ملازمین نے ہم آواز ہو کر میرشکیل الرحمان سے مطالبہ کیا کہ ان کی تنخواہوں میں 150 فیصد تک اضافہ کیا جائے جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ مدثر سعید نے لکھا کہ جیو کے ملازمین اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں جو کہ کچھ انوکھا نہیں مانگ رہے بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، بروقت تنخواہیں دی جائیں، پروویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی دی جائے۔
لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت کے کیس میں فواد چوہدری کی فریق بننے کی درخواست مسترد کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے فواد چوہدری کی درخواست پر سماعت کی ۔ فواد چوہدری نے کیس میں فریق بننے کی استدعا کی ۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ جب آپکے پاس اختیار تھا تب آپ نے یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا جو اب اٹھا رہے ہیں. عدالت نےاستفسار کیا کہ فواد چوہدری اس کیس میں کیسے فریق بن سکتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اس میں بائیس کروڑ عوام متاثر ہیں، حکومت نے پچیس ارب روپے کے بانڈز کی شرط رکھی اور انہیں پچاس روپے کے اسٹام پر باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دئیے کہ آپکی گفتگو ہم نے کافی سوشل میڈیا پر سنی ہے اور وہ ہمارے ذہن میں ہے ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ میں عدالت میں بھی یہ سنانا چاہتا ہوں نواز شریف نے لندن کا کوئی ریسٹورینٹ نہیں چھوڑا وہ واپس آ کر اس پر الگ سے ایک کتاب لکھ سکتے ہیں ، نواز شریف کو کیسے باہر بھیجا گیا کس نے رپورٹس بنانے میں انکی مدد کی میں یہ سب بھی عدالت کے سامنے لاؤں گا۔ بنچ نے ریمارکس دئیے کہ اس بارے میں نیب درخواست دائر کر سکتا ہے جس نے پچاس روپے کا اسٹام جمع کرایا وہ اب وزیر اعظم ہےان لوگوں نے کورٹ کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ نواز شریف بیرون ملک پارٹی کر رہے ہیں ۔ عدالت نے واضح کیا کہ یہ سیاسی باتیں نہ کریں جب آپکے پاس اختیار تھا تب آپ نے یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا جو اب اٹھا رہے ہیں ۔ لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کی فریق بننے کی درخواست خارج کر دی۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈرز کے خلاف صحافیوں کو ہراساں کررہی ہے، نیشنل پریس کلب میں صحافیوں نے صدیق جان سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ علامہ راجا ناصر نے کہا معروف صحافی بیورو چیف بول نیوز صدیق جان کے خلاف امپورڈیڈ حکومت کی ایما پر ایف آئی اے کی جانب سے من گھڑت نوٹس اور گرفتاری کی سازش قابل مذمت ہے۔ظلم اور جبر سے حق گوئی کو نہیں روکا جا سکتا صدیق جان کو وطن سے محبت اور انقلابی صحافت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہا حکومتی انتقام صدیق جان تک پہنچ گیا، ایف آئی اے نے 20 فروری کو نوٹس کیا کہ صدیق جان 24 فروری کو انکوائری میں پیش ہوں لیکن مبینہ نوٹس آج منظر عام پر آیا تاکہ گرفتار کیا جا سکے، انہی ہتھکنڈوں سے یہ قانون کو مذاق بنا کر استعمال کرتے ہیں۔ فرخ حبیب نے لکھا صدیق جان کو ہراساں کرنے کے لئے ایف آئی اے کا ناجائز استعمال کررہے ہے، صدیق جان حق اور سچ کی آواز ہے اس انتقامی کاروائی کی مزمت کرتے ہے اور ہر طرح صدیق جان کیساتھ کھڑے ہے ثاقب ورک نے لکھا صدیق جان ہم سب کے دلوں پہ راج کرتے ہیں !! اقرار الحسن نے لکھا صدیق میری جان، تگڑا رہنا، آپ کی رائے سے سب کو اختلاف کا حق ہے، لیکن اُس رائے کی بنیاد پر آپ کو نشانہ بنانے کا حق کسی کو نہیں۔ ہم اپنی بساط کے مطابق آپ کے ساتھ ہیں اور ہر اُس صحافی کے ساتھ رہیں گے جسے صرف اس کے نظریے اور رائے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے گا۔ فرخ درانی نے لکھا صدیق جان کے خلاف ایف آئی اے کی کاروائی قابل مذمت ہے۔ عمران خان کے دور میں جب صحافیوں کیخلاف ایف آئی اے نے قانونی کاروائی کی تھی تو تب بھی اس کو غلط کہا تھا اور اگر موجودہ دور میں کسی صحافی کے خلاف کاروائی ہوگی تو اب بھی اسکو غلط ہی کہوں گا۔ ہر انسان کو اپنی بات کرنے کی آزادی ہے۔ جنید سلیم نے لکھا پھر ہر گزرتے دن کیساتھ انتھک محنت اور انتہا درجے کی ایمانداری سے اپنے فیصلے کو درست ثابت کیا۔ ہمیشہ صدیق بھی رہا اور ہماری جان بھی۔ اس کمزور سے نوجوان پر فیض،ساحر اور فراز کا ہر انقلابی شعر فٹ بیٹھتا ہے۔ پرلے درجے کے احمق ہیں جو سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ اس ایک نوٹس سے سہم جائیگا۔ مغیث علی نے لکھا ایف آئی اے کے نوٹس کیخلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں صحافیوں کا صدیق جان سے اظہار یکجہتی، صبح اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس لگا ہے انشاء اللہ حفاظتی ضمانت ہوجائے گی۔
سابق وزیراعظم عمران خان جب سے لاہور میں اپنی رہائشگاہ زمان پارک میں قیام پذیر ہوئے ہیں تب سے سوسائٹی میں مختلف مقامات پر انکروچمنٹ سے نہ صرف ٹریفک کے بہاؤ میں مسائل ہیں بلکہ موجودہ کشیدہ سیاسی صورتحال میں چلنے والے بلند آواز پارٹی ترانوں اور گانوں سے بھی اہل علاقہ پریشان ہیں۔ صحافی عمر چیمہ کے مطابق زمان پارک میں ہی رہنے والی پی پی رہنما اعتزازاحسن کی دو بڑی بہنوں نے اس حوالے سے عمران خان سے شکایت کی ہے۔ ڈاکٹر شیرین ظفر اللہ اور مسز نسرین خالد چیمہ نے سب سے پہلے 14 فروری کو عمران خان کو خط لکھ کر ان سے اس صورتحال کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ صورتحال لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ زمان پارک میں عمران خان کی فیملی کو پلاٹ الاٹ کیے جانے سے بہت پہلے یعنی آزادی سے قبل شکایت کنندگان کے والد چودہدری محمد احسن نے 1933 میں زمان پارک میں آبائی مکان تعمیر کرایا تھا۔ اعتزاز احسن کے صاحبزادے علی بھی اسی گھر میں رہتے ہیں۔ خط میں لکھا ہے کہ انکروچمنٹ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک کا بہاؤ متاثر ہو رہا ہے بلکہ صبح چار بجے تک جاری رہنے والی تیز موسیقی ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب اُن لوگوں کیلئے قابل قبول ہو جو آپ (عمران خان) کی سیاست کے حامی ہیں لیکن ہر شخص کیلئے نہیں۔ خط میں انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ عمران خان ان تحفظات کو دور کریں گے کیونکہ اس طرح کی مداخلت کی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خط لکھنے کے بعد دونوں خواتین نے چار روز تک جواب کا انتظار کیا اور اس کے بعد ایک اور خط لکھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ دوسرے خط میں انہوں نے لکھا کہ ہمیں امید تھی کہ آپ ہماری درخواست پر عمل کرتے ہوئے فوری ایکشن لیں گے لیکن ہمیں بڑی مایوسی ہوئی ہے کہ یہ تماشہ جاری ہے۔ مثلاً گزشتہ رات کی بات کریں تو رات چار بج کر 23 منٹ تک شور کے ساتھ موسیقی جاری رہی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے پڑوسیوں کی بالکل پرواہ نہیں۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ناقابل قبول ہے اور اب ہمارے پاس آپشن نہیں رہتا کہ ہم آپ کیخلاف قانونی راستہ اختیار کریں۔ دوسرے خط کا جواب نہ ملنے پر دونوں بہنوں نے 8 مارچ کو غیر قانونی انکروچمنٹ کیخلاف درخواست دائر کر دی اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن ایکٹ 2015 کے تحت بھی درخواست دائر کر دی۔ درخواست چیف سیکریٹری پنجاب، آئی جی پولیس پنجاب، کمشنر لاہور اور ایس ایچ او ریس کورس پولیس اسٹیشن کو لکھی گئی۔
عمران خان کےخلاف تھانہ ریس کورس میں ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا،مقدمہ میں اقدام قتل، دہشت گردی سمیت 20 دفعات شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہکاروں اور بالخصوص ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد شہزاد بخاری کو زخمی اور سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر لاہور کے تھانہ ریس کورس میں عمران خان پر مقدمہ درج کرلیا۔ مقدمہ میں عمران خان پر دہشتگردی اور اقدام قتل سمیت 20 دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ میں کہا گیا کہ زمان پارک میں شرپسند واقعات کی سازش کے پیچھے عمران احمد خان نیازی تھا اور کارکنوں کو عمران خان نے ایسا کرنے پر اکسایا
مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے الزام عائد کیا ہے کہ آصف سعید کھوسہ کی بطور چیف جسٹس توسیع کے لیے نواز شریف سے جیل میں رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے مسترد کر دیا،پھر نواز شریف قابل قبول نہیں تھے کیونکہ وہ اس قسم کے فیصلے نہیں کرتے تھے۔ نجی ٹی وی ڈان نیوز کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے ماضی میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر نواز شریف کے خلاف سازش کا حصہ بننے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ”قرآن پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا بطور چیف جسٹس آپ کی توسیع کی بات نہیں ہو رہی تھی“۔ انہوں نے کہا کہ ”اگر نواز شریف مان گئے ہوتے اور ان کو بطور چیف جسٹس توسیع مل جاتی تو آج عمر عطا بندیال صاحب چیف جسٹس نہ ہوتے ،ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی بات کی جارہی تھی، تو وہ کیوں کی جارہی تھی کہ تم میرے سے کچھ لے لو اور میں تمہیں کچھ دے دیتا ہوں“۔ کیا مریم نواز کی یہ بات درست ہے؟کیا آرمی چیف کی طرح چیف جسٹس کو بھی وزیراعظم ایکسٹنشن دے سکتا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ نوازشریف تو اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں تھے تو وہ آصف سعید کھوسہ کو کیسے ایکسٹنشن دے سکتے تھے؟کیا کرپشن مقدمات میں ملوث ایک قیدی اتنا طاقتور ہوگیا کہ ایکسٹنشن دے سکے؟ جسٹس کھوسہ جنوری 2019 میں چیف جسٹس بنے اور ریٹائرڈ دسمبر 2019 میں ہوئے اس دوران نواز شریف جیل میں تھے اور عمران خان وزیراعظم تھے لیکن جسٹس کھوسہ نواز شریف سے ایکسٹینشن مانگ رہے تھے۔ اینکر عمران ریاض خان نے اسے لطیفہ قرار دیا اور کہا کہ آرمی چیف کو ایکسٹنشن وزیراعظم دے سکتا ہے لیکن چیف جسٹس کو نہیں، چیف جسٹس کی تقرری میں بھی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا، یہ قانون ہے کہ جو جج سب سے سینئر ہوتا ہے وہ ریٹائرمنٹ تک چیف جسٹس رہتا ہے چاہے کتنی ہی مدت ہو۔ وزیراعظم کے اختیار میں ہی نہیں ہے کہ فلاں چیف جسٹس میری مرضی کا آئے اور فلاں نہ آئے۔اینکر عمران کے مطابق جھوٹ یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب جسٹس کھوسہ ریٹائر ہوئے تو نوازشریف اس وقت ملک سےباہر چلے گئے تھے۔ اینکر عمران ریاض کے مطابق مریم نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ نوازشریف کی نیب کے حراست کے دوران زہردیا گیا اسی وجہ سے انکے پلیٹ لیٹس گرے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف کے جب پلیٹ لیٹس گرےتو وہ اس وقت نیب حراست میں تھے۔
صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب نے صوبے میں سیکیورٹی کے غیر تسلی بخش انتظامات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں عام انتخابات کیلئے امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ جاری ہے، اس دوران ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں اس موقع پر متعدد ناخوشگوار واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس صورتحال پر صوبائی الیکشن کمشنر سعید گل نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف اضلاع میں ریٹرننگ افسران کو سیکیورٹی سے متعلق مشکلات پیش آرہی ہیں، سیکیورٹی عملے کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے کاغذات نامزدگی کی وصولی کے دوران متعدد ناخوشگوار واقعات پیش آرہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں نگراں حکومت نے سیکیورٹی کے غیر اطمینان بخش انتظامات کیے ہیں، انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی صوبے میں امن و امان کے حالات شدید خراب ہورہے ہیں، حکومت نے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات نا کیے تو الیکشن کمیشن کو خط لکھیں گے، حکومت اور انتظامیہ ریٹرننگ افسران کی اطمینان بخش سیکیورٹی فراہم کرے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وارنٹ فوری ختم کیے جائیں، عمران خان کو رانا ثناء اللہ کے حوالے نہیں کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رانا ثناءاللہ کا ورانٹ گرفتاری پڑا ہے اس پرشورکیوں نہیں؟ عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ فوری ختم کیے جائیں، ہم اپنے قائد کو رانا ثناءاللہ کے حوالے نہیں کریں گے، عمران خان ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ میں ہماری ٹیمیں موجود ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہماری درخواستیں نہیں سنی جا رہی، سی سی پی او اسلام آباد اپنی شیلنگ سے بے ہوش ہوگیا، پاکستان بڑے بحران کا شکار ہے۔ ادھر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری اور عمران خان کی لیگل ٹیم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی عدالت میں پیش ہوئی، اس دوران عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، فواد چوہدری نے عدالت سے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ غلط برتاؤ برتا جا رہا ہے، اس پر چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ پٹیشن کے بغیرکیسے سن سکتے ہیں؟ وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہم پٹیشن تیار کررہے ہیں۔ فواد چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ سی سی پی او کو طلب کرکے آپریشن کو روکیں، اس پر جج نے استفسار کیا کہ پٹیشن کے بغیر کیسے آرڈر جاری کر سکتے ہیں؟ عدالت نے سوال کیا کہ ناقابل ضمانت وارنٹ کب جاری ہوئے ہیں، اس پر وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ یہ پرسوں جاری ہوئے اور 18 مارچ کو پیش ہونا ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ اسلام آباد کا معاملہ ہے آپ وہاں جائیں، اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ یہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے، ہم آدھے گھنٹے میں پٹیشن دائر کر رہے ہیں، آپ حکم جاری کردیں کہ پٹیشن کو فوری فکس کیا جائے۔ فواد چوہدری کی استدعا پر عدالت نے کہا کہ میں کیوں ایسا حکم جاری کروں جو سسٹم ہے اسی کے مطابق کیس فکس ہوگا، رات سے معاملہ چل رہا تھا تو آپ کو صبح ساڑھے 8 بجے پٹیشن لانی چاہیے تھی۔ اس پر وکیل نے کہا کہ ہم نے عمران خان کے دستخط کرانے کی کوشش کی لیکن ممکن نہیں ہوسکا، اس پر عدالت نے کہا کہ ان کے دستخط کی ضرورت نہیں، کوئی اور کر دے۔ دوسری جانب مونس الٰہی کا کہنا تھا کہ راناثنااللہ کےخلاف انسداددہشت گردی عدالت گوجرانوالہ نے وارنٹ جاری کیےہوئےہیں اوراس کی گرفتاری کاحکم دیاہواہے۔ رانا ثنا اللہ جو خود عدالت کا مفرور ہے یہ کس قانون کے تحت عمران خان کے خلاف آپریشن کررہا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اورمحسن نقوی پہلے راناثنا اللہ کوگرفتارکرے پھر بات کرے
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے احتساب کا مطالبہ پورا ہونے کے پیش نظر شریف خاندان کی نوجوان قیادت، مریم نواز اور حمزہ شہباز لاہور سے انتخابی سیاست کے میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق حمزہ شہباز کے بیرون ملک طویل قیام سے واپسی بظاہر پارٹی میں اپنی پوزیشن دوبارہ سنبھالنے کی کوشش سمجھی جارہی ہے جس کی سیاسی مہم فی الحال مریم نواز چلا رہی ہیں، توقع ہے کہ دونوں کزن اب صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز گزشتہ روز امریکا سے سعودی عرب کے راستے وطن واپس پہنچ گئے، انہوں نے گزشتہ برس بطور وزیر اعلیٰ پنجاب مختصر عرصہ گزارا تھا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے بتایا کہ عمران خان کے جیل جانے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کا ’انتخابات سے پہلے احتساب‘ کا مقصد پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ مطالبہ کوئی راز نہیں ہے کیونکہ دونوں صوبوں میں انتخابات کرانے کی پیشگی شرط کے طور پر مریم نواز بار بار عمران خان کے خلاف کارروائی اور اپنے والد نواز شریف کے لیے ریلیف کا مطالبہ کررہی ہیں۔ لیگی رہنما نے جولائی 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اب اگر عمران خان جیل جاتے ہیں تو ان کے مخالفین، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے لیے پنجاب میں الیکشن لڑنا بہت آسان ہو جائے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’جب نواز شریف کو 2018 کے عام انتخابات سے قبل گرفتار کیا گیا تھا تو ان کی پارٹی انتخابات میں ہار گئی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے الزام ان طاقتوں پر عائد کیا تھا جو اس وقت اپنی پسندیدہ جماعت پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کر رہی تھیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’اب عمران خان جیل میں ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) پنجاب میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوگی جو اس وقت طاقتور حلقوں کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے ہوئے ہے‘۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی اندرونی سیاست کا تعلق ہے، حمزہ شہباز مبینہ طور پر اپنے والد کی ہدایت پر وطن واپس آئے ہیں، پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ’حمزہ شہباز کی واپسی کو پارٹی صفوں میں پنجاب کے انتخابات کے لیے سینیئر قیادت کی جانب سے نوجوان قیادت کو آگے بڑھنے کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے اور ایک مختصر مدت کے لیے وزیر اعلیٰ بھی رہے، اس لیے وہ پنجاب میں پارٹی امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرنے میں مریم نواز کے ساتھ شامل ہوں گے‘۔ حمزہ شہباز گزشتہ برس جولائی میں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی کے ہاتھوں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے محروم ہونے کے بعد سے سیاسی منظر نامے سے غائب تھے، پرویز الٰہی نے اس کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ حمزہ شہباز، مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کا چیف آرگنائزر بنائے جانے کے بعد ناخوش ہیں کیونکہ اس پیشرفت نے شہباز کیمپ اور حمزہ کیمپ کو واضح پیغام دیا ہے کہ پارٹی کی حتمی قیادت مریم نواز کے ہی پاس ہوگی اور وہی حقیقی طور پر والد کی جانشین ہوں گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کی صورت میں مریم نواز وزیر اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں، اس تناظر میں حمزہ شہباز کو لگتا ہے کہ ان کی پوزیشن مکمل طور پر خطرے میں ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ پنجاب میں امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ کے لیے دونوں کزنز کو آن بورڈ لیا جائے گا، حتمی فیصلہ پارٹی سربراہ نواز شریف کریں گے۔ عمران خان کو زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کے لیے پولیس آپریشن کے پس منظر میں مریم نواز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سیاسی میدان میں اتر چکی ہے اور پنجاب میں الیکشن جیتے گی۔ انہوں نے گزشتہ روز شیخوپورہ میں ایک جلسہ عام میں پارٹی کارکنوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور وہ بھاری اکثریت سے جیتے گی‘۔ مریم نواز شریف اور ان کے والد نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا، مریم نواز نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے والد نے 2018 میں لندن واپسی پر بغیر کسی مزاحمت کے اپنی گرفتاری پیش کردی تھی۔ لندن میں موجود نواز شریف نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’گرفتاری کے ڈر سے عمران خان نے سرکس لگا دیا ہے، انہیں بزدلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سیاست چھوڑ دینی چاہیے تھی‘۔
وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری مشکل نہیں، پولیس صبر سے کام لے رہی کہ جانی نقصان نہ ہو۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر زمان پارک میں کشیدگی کے حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پولیس صبر سے کام لے رہی کہ جانی نقصان نہ ہو، ورنہ عمران خان کی گرفتاری مشکل نہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ جانی نقصان ہو تاکہ سیاست کرے، اگر یہ عزت آبرو والا شخص ہو تو جرات کرے اور گرفتاری دے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ عمران خان ہمت اور دلیری نواز شریف سے ادھار مانگ لے، جو لندن سے گرفتاری دینے آگیا تھا۔ واضح رہے کہ آج صبح سے ہی زمان پارک لاہور میں کشیدگی برقرار ہے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے لئے 22 گھنٹے سے جاری آپریشن کے دوران زمان پارک کا علاقہ آج بھی میدان جنگ بنا ہوا ہے، پولیس اور کارکنان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے، اور رینجرز کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے ربر گن کا استعمال کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے پولیس اور رینجرز کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، کارکنان نے پولیس اور رینجرز اہلکاروں پر شدید پتھراؤ کر کے پیچھے دھکیل دیا، جب کہ کارکنان نے پولیس کی گاڑی کو آگ لگا دی ہے۔
اداکار و گلوکار فرحان سعید پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حق میں بول اٹھے، ٹوئٹر پیغام میں واضح کیا قوم کے سب سے پسندیدہ اور مقبول لیڈر کو اپنی قوم سے دور رکھنے والے سن لیں! ایسا کرنے سے آپ اس قوم کو ہمیشہ کے لیے ایک ہجوم بنا دیں گے،وہ اور بات ہے اگر آپ چاہتے ہی یہ ہیں لیکن اللہ نے اس قوم کا مقدر کچھ اور لکھا ہے، انشاءاللہ۔ عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ گزشتہ روز سے زمان پارک پر موجود ہے جہاں اسے پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے،کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی اسلام آباد پولیس زمان پارک سے عمران خان کو اب تک گرفتار نہ کرسکی۔ زمان پارک کے اردگرد پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے جس نے علاقے کو مکمل طور پر گھیر رکھا ہے جب کہ قصور ،گوجرانوالا اور شیخوپورہ سے پولیس کی بھاری نفری بھی پہنچ گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف احتجاج پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف متعدد مقدمات درج کرلیے گئے۔ مقدمات اسلام آباد راولپنڈی اور کراچی میں درج کیے گئے راولپنڈی کے تھانہ سٹی میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، مقدمہ ڈی ایف سی حسنین رضا بھٹی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ مقدمے میں کار سرکار میں مزاحمت، راستہ روکنے سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔ مقدمے میں واثق قیوم عباسی، اعجازجازی، عمرتنویر، آصف محمود اور پی ٹی آئی کے 14 رہنماؤں سمیت 30 کارکنان کو نامزد کیا گیا ہے۔ ادھر اسلام آباد کے تھانہ ترنول میں بھی پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، کارکنان کے خلاف مظاہرہ اور روڈ بند کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جبکہ کراچی کے ایم ٹی خان روڈ پر احتجاج کرنے پر پی ٹی آئی ایم پی اے شاہ نواز جدون کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔ صوبائی رکن اسمبلی شاہ نواز جدون کے خلاف بھی چیئرمین پی ٹی آئی کی ممکنہ گرفتاری کے خلاف احتجاج پر مقدمہ درج کیا گیا ہے، کراچی میں درج ہونے والا پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف یہ تیسرا مقدمہ ہے۔ مقدمہ ڈاکس تھانے میں ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ شام 6 بجے تحریک انصاف کے کارکنان سڑک پر پہنچے، شاہ نواز جدون اور طارق جدون کے ہمراہ 90 کے قریب کارکنان تھے، ڈنڈوں اور پتھروں سے لیس افراد نے مین شاہراہ ایم ٹی خان روڈ بند کر دی۔ نیٹی جیٹی پل کی طرف آنے والا روڈ مکمل بند کر دیا گیا، ٹائروں کو آگ لگا کر عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلائی گئی۔ ایف آئی آر کے مطابق حکمت عملی سے ہجوم کو منتشر کرتے ہوئے 12 ملزمان کو پکڑا گیا، گرفتار ملزمان میں شاہ نواز جدون، رفیق، ایوب، خالد شاہ اور طارق خان، امین خان، مدثر، حارث، ارسلان اور کامران شامل ہیں۔ یہی نہیں کراچی میں احتجاج کے معاملے پر پی ٹی آئی کراچی ڈویژن کے نائب صدر مسرور سیال اور کارکنوں کے خلاف بھی مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مقدمہ نیشنل ہائی وے پر احتجاج کرنے پر شاہ لطیف تھانے میں درج کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق احتجاج نیشنل ہائی وے مرغی خانہ کے قریب دونوں روڈ پر کیا گیا تھا، ڈاکٹر مسرور سیال نے کارکنان کو اشتعال دلاکر اور ورغلا کر اکھٹا کیا۔ پولیس کے مطابق مقدمے میں 250 کے قریب نامعلوم عہدیداران اور کارکنان کے نام بھی شامل کیے گئے۔
اسلام آباد میں ایک بینک کی خاتون برانچ مینجر نے کسٹمر کے اکاؤنٹ سے2 کروڑ روپے چرا کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) نے شواہد کی روشنی پر بینک کی خاتون برانچ مینجر کے خلاف دفعہ420 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق نجی بینک کی برانچ کی مینجر نے جعلی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے ایک کسٹمر کے اکاؤنٹ سے 20 ملین روپے نکلوائے ،جب صارف کو اپنے اکاؤنٹ سے اتنی بڑی رقم نکلوانے کی خبر ہوئی تو خاتون مینجر نے کسٹمر کو ایک جعلی بینک اسٹیٹ منٹ دکھا کر مطمئن کرنے کی کوشش بھی کی۔ خاتون بینک مینجر نے فراڈ کے بعد بینک کی نوکری سے استعفیٰ بھی دیدیا، پولیس ملزمہ کی گرفتاری کیلئے چھاپے ماررہی ہے۔ دوسری جانب ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل لاہور نے ہنڈی حوالہ میں ملوث ملزمان کے گھر پر چھاپہ مار کر 2 افراد کو گرفتار کرلیا۔ڈپٹی ڈائریکٹر کارپوریٹ کرائم سرکل لاہور کی زیر نگرانی چھاپہ مار ٹیم نے کارروائی کی۔ ملزمان کے قبضے سے 14 کروڑ روپے، 9لاکھ 16 ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈ، 190 ملین ایرانی ریال، 10 ملین عراقی دینار اور ہنڈی حوالہ سے متعلق رسیدیں برآمد کر لی گئیں۔
کراچی توشہ خانہ کے تحائف کے حوالے سے فہرست میں اہم انکشافات سامنے آگئے، سیاستدانوں کے نام اور ان کے خریدے گئے تحائف کی تفصیلات تو دلچسپ ہیں ہی مگر سب سے زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز مگر مبہم تفصیلات جو درج ہیں وہ یہ کہ درجنوں قیمتی اشیاء جن کی مالیت لاکھوں روپے میں تھی ان کو چند ہزار میں نیلام کر دیا گیا۔ تفصیلات میں یہ تحریر نہیں کیا گیا ان کا خریدار کون تھا،ذرائع کے مطابق زیادہ تر خریدار سرکاری افسران ہی تھے۔ ان تمام قیمتی اشیا کی سرکاری قیمت تحفہ کی مارکیٹ ویلیو سے صرف دس سے بیس فیصد مقرر کی گئی۔ 446 صفحات پر مشتمل فہرست کے مطابق سب سے پہلی "نیلامی" 20 فروری 2002 نے 33 پی کف لنک سیٹ کی ہوئی جس کی کوئی سرکاری قیمت کا تعین نہیں کیا گیا اور اس کو 150 روپے میں نیلام کرکے کسی کے حوالے کر دیا گیا. دوسری "نیلامی" چیف کوآرڈینیٹنگ افسر سارک یعقوب مجید کو ملنے والا تحفہ جو ان کو بنگلہ دیش کے دورے میں ملا اس کی سرکاری قیمت 300 روپے لگائی گئی اور اس کو 1150 میں "نیلام" کردیا گیا۔ ایک قیمتی شاٹ گن رائفل جوکہ 30 اپریل 2002 کو ایک وفاقی وزیر کو غیر ملکی دورے پر تحفے میں دی گئی اس کی سرکاری قیمت 6 ہزار 800 روپے مقرر کی گئی اور اس کو 14 ہزار میں "نیلام" کر دیا گیا اس وقت اس ہتیار کی قیمت کم از کم دس لاکھ تھی۔ اسی برس جون کے مہینے میں وزارت خارجہ کے دفتر میں موجود "نامعلوم قیمتی تحائف" جو فہرست میں 136 سے 144 پر تحریر ہیں ان کو 25 ہزار میں "نیلام" کر دیا گیا۔ اس سے پہلے حکومت توشہ خانہ سے تین سو ڈالر سے زائد کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی لگاچکی ہے، حکومت نے صدر، وزیراعظم اور کابینہ ارکان پر پابندی لگادی، ججز، سول اور ملٹری افسران تحائف نہیں لے سکیں گے، ملکی اور غیر ملکی شخصیات سے نقد رقم وصول کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے موٹر سائیکل اور رکشا چلانے والوں کو رعایتی پیٹرول کی فراہمی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسلام آباد میں 10لاکھ افراد کو رمضان المبارک میں مفت آٹا بھی فراہم کیا جائیگا،وزیراعظم کی زیرصدارت غریب و متوسط طبقے کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کیلیے اقدامات پر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کو موٹر سائیکل اور رکشا والوں کیلیے رعایتی پٹرول پر بھی بریفنگ دی گئی،اس حوالے سے مختلف تجاویز بھی پیش کی گئیں،وزیرِ اعظم نے پروگرام کو حتمی شکل دے کر جلد پیش کرنیکی ہدایت کی،شہباز شریف نے کہا کہ موٹر سائیکل اور رکشا والے معاشی طور پر کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور حکومت ان کو مہنگائی سے بچانے کیلیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں موٹرسائیکل سواروں کو 25سے50روپے لٹر سستا پٹرول دینے پر غور کیا گیا، حکومت سالانہ 150ارب روپے کی سبسڈی کے ذریعے سستا پٹرول فراہم کرنا چاہتی ہے اور آئی ایم ایف کے اعتراض سے بچنے کیلئے سبسڈی کی رقم کارمالکان سے وصول کرنے کا منصوبہ ہے۔ اجلاس میں تجویز دی گئی کار مالکان کیلئے پٹرول قیمت بڑھا کر300سے325روپے لٹر جبکہ موٹر سائیکل سواروں کیلئے قیمت کم کر کے 225سے250روپے لٹر کر دی جائے۔ سستا پٹرول دینے کیلئے ابھی کوئی میکنزم طے نہیں کیا گیا تاہم صارفین کو پری پیڈکارڈز یا نقد رقم دینے کے آپشنز زیر غور ہیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی موٹرسائیکل والوں کو مہینے میںکم از کم ایک ہزار روپے کی پٹرول سبسڈی دی جانی چاہئے، ذرائع کے مطابق حکومت آئی ایم ایف اور اپنے ووٹرز کیساتھ جوا کھیل رہی ہے کیونکہ نہ تو آئی ایم ایف اس تجویز کی حمایت کر سکتا ہے اور نہ ہی کار مالکان اضافی رقم دینے پر راضی ہوں گے اور یہ امتیازی اقدام عدالتوں میں چیلنج ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں رمضان کے دوران غریب و متوسط طبقے کو مفت آٹے کی فراہمی کا فیصلہ کیا ہے، اسکیم کے تحت اسلام آباد کے 10 لاکھ لوگوں کو رمضان المبارک میں مفت آٹا فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو بھی اس سکیم میں شامل ہونے کی دعوت دی، اور کہا رمضان المبارک میں غریب و متوسط طبقے کے مسائل کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ مفت آٹے کی تقسیم کو شفاف بنانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ لاہور میں وزیراعظم کی زیر صدارت رمضان پیکج کے تحت مفت آٹے کی فراہمی پر جائزہ اجلاس ہوا،جس میں حکومت پنجاب کی طرف سے رمضان میں مفت آٹے کی تقسیم کے پروگرام پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، احمد چیمہ اور دیگر حکام شریک ہوئے۔ شہباز شریف نے کہا ملکی تاریخ میں پہلی بار غریب عوام کیلئے رمضان میں مفت آٹے کی فراہمی کا پیکج تیارکیا گیا ہے، مفت آٹے کی تقسیم شفاف طریقے سے یقینی بنائی جائے، رمضان میں پنجاب بھرکے ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں کو مفت آٹا تقسیم کیا جائیگا، آٹے کی فراہمی کے دوران چوری روکنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ن) نے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور الیکشن میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کر لی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 30 اپریل کو ہونا ہیں جس کے لیے الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آج آخری روز ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب نے منگل کو ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ حاصل کرنے والے امیدوار 18 مارچ تک اپنی درخواستیں پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیں۔ دوسری جانب احسن اقبال نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند ن لیگ کےامیدوار اپنی درخواستیں 18 مارچ تک مرکزی سیکرٹریٹ، 180 ایچ، ماڈل لاہور میں جمع کرا دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ درخواست جمع کرانے کی آخری تاریخ 18 مارچ ہے۔ پارٹی کے فیصلے کے مطابق امیدواروں کو پھر مطلع کیا جاتا ہے کہ جلد از جلد درخواستیں جمع کرادیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع ہونے کا عمل منگل کو مکمل ہونے کےبعد 22 مارچ تک ان کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے صوبے بھر میں 297 ریٹرننگ افسران پر مشتمل آن لائن اسکروٹنی سیل قائم کر دیا گیا ہے۔ ریٹرننگ افسران امیدوار کے کوائف کا اندراج اسکروٹنی سافٹ ویئر میں کریں گے جسے نادرا، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، نیب، اور ایف آئی اے سے منسلک کیا گیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار پانچ اپریل تک کاغذات نامزدگی واپس لےسکیں گے جب کہ الیکشن کمیشن چھ اپریل کو انتخابی نشانات الاٹ کرے گا۔
پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان براہ راست قرض کے معاملے پر گزشتہ روز مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ وزارت خزانہ اور دفترخارجہ کے امریکا اور دیگر ممالک سے رابطوں میں پیشرفت ہوئی ہے، جس کے بعد اب وزیر خارجہ و وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی مشکل شرائط پر دوست ممالک سے مدد کی درخواست کی ہے۔ گزشتہ روز مذاکرات میں وقفے وقفے سے وزیرخزانہ بھی شریک ہوئے جب کہ مذاکرات میں رواں سال بیرونی فنانسگ 7 ارب ڈالرکے بجائے 6 ارب ڈالر کرنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ چین سے 2 ارب ڈالر رول اوور کرنے پر بھی بات ہوئی ہے اور چین کی طرف سے 80 کروڑ بھی جلد ملنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف حکام ترمیم شدہ ایم ای ایف پی پر بات کرچکے ہیں، اگلے دو روز میں وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف ترمیم شدہ ایم ای ایف پی تیارکریں گے، نئی ایم ای ایف پی میں گردشی قرض میں کمی کا شیڈول شامل کرنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب وزارت خزانہ نے ایک مرتبہ پھر آئندہ دو روز میں اسٹاف لیول معاہدے کے لیے امید ظاہر کی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جی 13 سیکٹر 4 میں ڈکیتی مزاحمت پر 21 سالہ حسنین کو قتل کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق 13 مارچ کی شب ساڑھے 9 بجے 21 سالہ حسنین اپنی بہن اور ان کے دو بچوں کے ہمراہ گھر سے واک کرنے کیلئے سیکٹر میں نکلے گلی نمبر 136 کے قریب پہنچتے ہی ان کا سامنا موٹر سائیکل سوار مسلح ڈاکوؤں سے ہوا۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکوؤں نے مقتول سے نقدی موبائل فون اور دیگر قیمتی چیزیں اسلحے کی ںوک پر چھین لیں، 21 سالہ حسنین نے ڈاکوؤں سے پستول چھیننے کی کوشش کی تو ڈاکوؤں نے اس کے پیٹ کے نچلے حصے پر گولیاں مار دیں۔ زخمی ہونے پر حسنین کو پمز اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ ڈاکوؤں کی عمر 22,23 سال کے لگ بھگ تھی، ڈاکوؤں کے کپڑوں کا رنگ اور موٹر سائیکل کا رنگ بھی بتایا گیا ہے تاہم اسلام آباد پولیس ابھی تک ملزموں کو پکڑنے میں ناکام ہے۔
ایک سال سے بھی کم عرصہ وزیراعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی نے 23 کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت کے توشہ خانہ تحائف اپنی تحویل میں رکھ کر اپنی قسمت بنائی۔ ان تحائف کی فروخت سے شاہد خاقان عباسی کو 18 کروڑ 70 لاکھ روپے کا فائدہ ہوا۔ انہیں تحائف کےبدلے محض 4 کروڑ 65 لاکھ روپے ادا کرنے پڑے تھے۔ ریکارڈ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ کے وزراء اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، سید نوید قمر، راجا پرویز اشرف اور آفتاب شیرپاؤ نے بھی معمولی قیمت ادا کرکے قیمتی تحائف کو برقرار رکھا۔ تاہم تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر، مراد سعید، عمر ایوب، شفقت محمود، عبدالرزاق داؤداور اتحادی شیخ رشید احمد ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے دیئے گئے قیمتی تحائف اپنی تحویل میں نہیں رکھے۔ اسدعمرکو لاکھوں روپے مالیت کا گھڑی سیٹ تحفے میں ملا جو انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کرادیا ۔ مراد سعید کوبھی بیرون ممالک سے 7 تحائف ملے جو انہوں نے تمام توشہ خانہ میں جمع کرادیئے۔ شہباز شریف نے 2009 سے 2013 کے درمیان جب وہ وزیراعلی پنجاب رہے انہیں 100 تحائف ملے اب وہ وزیراعظم ہیں انہوں نے ایک بھی تحفہ توشہ خانے سے نہیں ملا بلکہ نیلام کرادیا یا فروخت کےلیے توشہ خانے میں جمع کرا دیا۔ 50؍ ہزار روپے سے بھی کم مالیت کے تحائف وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پاس رکھے۔ شاہد خاقان عباسی نے 2017 میں اپنے دور وزارت عظمی ٰکے دوران 50 تحائف اپنے پاس رکھے جن میں ان کی اہلیہ اور 3؍ بیٹوں کوملنے والے تحائف بھی شامل ہیں۔ 23 کروڑ 30؍ لاکھ روپے مالیت کے یہ تحائف قیمت کا 20 فیصد ادا کرکے حاصل کئے گئے جبکہ جو تحائف ہزاروں روپے کے تھے وہ مفت لے لئے گئے انہیں جو گھڑیاں ملیں وہ 9 کروڑ روپےمالیت کی تھیں۔
سابق وفاقی وزير فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کی آڈیو لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے لیک کی ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف سمیت گزشتہ دنوں جو آڈيوز ریکارڈ کی گئيں وہ ریکارڈ کرنے والوں کو فیض حمید نے ہی تعینات کیا تھا۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ ان لوگوں نے پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد 20، 25 دن تک کام کیا تھا، اسی دوران یہ ریکارڈنگز کرکے فیض حمید تک پہنچائيں۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ کہ یہ عمران خان کو کس طرح گرفتار کر سکتے ہیں جب انہوں نے پی ڈی ایم میں شامل سبھی چوروں کو آزاد چھوڑ دیا ہے، اگر مولانا فضل الرحمان، مریم نواز اور پی پی کے سبھی کرمنلز کو آزاد چھوڑ دیا جائے گا ک جاؤ اور جا کر حکومت کرو اور صرف عمران خان کو گرفتار کریں گے تو یہ بات قوم کو ہضم نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری نالائقی، خودکشی اور گدھا پن ہے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر عمران خان نے توہین عدالت کی ہے تو مریم نے جو کیا اور جلسے میں جس طرح ججز پر الزامات لگائے کیا وہ توہین عدلیہ نہیں تھی۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ اس ہفتے ایک دھواں دار پریس کانفرنس کرنے والے تھے جس میں تمام اندرونی حقائق سامنے لانا چاہتے تھے مگر ابھی وہ ملتوی ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیرٹ ازم اور نظریہ ضرورت کو چھوڑ کر جب تک گند صاف نہیں کیا جائے گا اصل تبدیلی نہیں آ سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ پرانے چہروں کو چھوڑ کر نئی پود کو موقع ملنا چاہیے پھر ہی ہمارا سسٹم سیدھا ہو گا۔

Back
Top