خبریں

سوشل میڈیا کی خبریں

Threads
2.1K
Messages
18.8K
Threads
2.1K
Messages
18.8K

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
مرکزی حکومت کی طرف سے ملک کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے فیصلے بارے مختلف قانونی ماہرین کی طرف سے اپنی رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔ ماہر قانون حافظ احسان کا کہنا تھا کہ کسی کسی پارٹی پر آرٹیکل 17 کے تحت پابندی یا کسی سیاسی رہنما پر آرٹیکل 6 لگانا ہو اس کا فیصلہ کابینہ کرے گی اور معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آئین کا آرٹیکل 17 واضح ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی شخص سیاسی جماعت بنا سکتا ہے یا اس کا حصہ بن سکتا ہے تاہم اس کی کچھ شرائط ہیں۔ حافظ احسان کا کہنا تھا کہ اس آرٹیکل کے سب آرٹیکل 2 میں بتایا گیا ہے کہ اگر مرکزی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگاتی ہے تو اس کی دو بنیادیں ہو سکتی ہیں جس میں ایک فارن فنڈڈ پارٹی ہونا اور دوسرا ملکی مفاد کیخلاف کام کرنا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد 15 دنوں کے اندر حکومتی ڈکلیریشن سپریم کورٹ آف پاکستان بھیجا جائیگا اور اس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ الیکشن کمیشن کو سیکشن 212 اختیار دیتا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرے جس میں بیرونی فنڈنگ شامل ہے تو وہ وفاقی حکومت کو ریفرنس بھجوائے گا جس کی توثیق کر کے 7 دنوں میں سپریم کورٹ بھیجا جائیگا جس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ نتائج خطرناک ہیں جو سیکشن 213 میں ہے کہ سپریم کورٹ اگر وفاقی حکومت کے ریفرنس کی توثیق کر دے تو اس سیاسی جماعت کے سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلی اراکین وبلدیاتی نمائندوں کی رکنیت معطل ہو جائیگی۔ ماہر قانون اسد رحیم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 17 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کے متعلق ریفرنس دائر کرنا حکومتی صوابدید ہے، سپریم کورٹ کو اسی آرٹیکل کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فیصلہ کرے گی کہ کیا یہ سیاسی جماعت نے ملکی سالمیت کیخلاف کام کر رہی ہے تو اسے تحلیل کیا جا سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ اس سیاسی جماعت بارے کہہ چکی ہے کہ مخصوص نشستوں کے بعد یہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہو گی۔ حکومت نے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بھی نکات رکھے ہیں چاہے وہ سائفر سے متعلق ہوں یا کسی اور سے تو عدالت نے اسے کافی حد تک مسترد کر دیا ہے۔ میرے خیال میں جب ملک کی اتنی بڑی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ موجودہ حکومت کا شاید سب سے مہم فیصلہ ہو، آرٹیکل 17 کے مطابق آپ ملکی سالمیت کیخلاف ہیں تو عدالت سیاسی جماعت تحلیل کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ اسد رحیم کا کہنا تھا ریفرنس دائر کرنے میں تاخیر سے مسائل پیدا ہونگے، مخصوص نشستوں پر فیصلے کے بعد حکومت سخت اقدامات کر رہی ہے اور یہ وہ حکومت ہے کہ الیکشن کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ عوام انہیں نہیں چاہتے۔ حکومت نے مخصوص نشستوں کے کیس کا جواب سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے دیا ہے جسے بھرپور ووٹ ملے، تو یہ عوام کی رائے بھی کالعدم قرار دیدیں جو پارلیمانی نظام کیلئے انتہائی خطرناک ہو گا۔ معروف قانون دان ورہنما پی پی پی اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی مس لیڈ کر رہا ہے، یہ مذاق ہے، اس کا کیا دفاع ہو گا؟ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے اور اس لیے دائر کیا گیا کیونکہ عمران خان ہر کیس میں بری ہو رہا ہے۔ کچھ اور نہ ملنے پر اس طرف چل پڑے ہیں، فارم 45 ان کے گلے میں گھنٹی کی طرح بندھی ہے جس سے یہ بھاگنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا الیکشن کمیشن نے جب فارم 45 ویب سائٹ پر لگائی اور ہٹائی وہ امیدواروں کیلئے ایک کلیدی فارم ہےجس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوازشریف ہار گئے تھے تو اب یہ انہیں تباہ کرنے کی کوشش کرینگے۔ الیکشن فارم 47 سے جیت گئے ہیں تاہم اس ریفرنس سے سب کچھ باہر آجائیگا، جس کیخلاف یہ ڈاکومنٹس فائل کریں گے وہ اپنی دستاویزات سامنے لاے گا تو سب ظاہر ہو جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنس دائر کرنے کا کہنے والا بہت بیوقوف ہے، ان کی سیاست سکروٹنی کے اندر آ جائے گی، پیپلزپارٹی سے اس معاملے پر ن لیگ بات کرے گی تو مشورہ دینگے کہ یہ لوگ جال میں پھنس رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے وزراء کی طرف سے ایک دو دن میں اس پریس کانفرنس کی تردید ہو جائے گی، وکیل تو ان کے پاس اچھے ہیں لیکن ان کو ہوا کیا ہے سمجھ نہیں آرہا؟ سینیٹر جے یو آئی وماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا کوئی سیاسی جماعت بنانا اور اس کا برقرار رہنا بنیادی حق ہے، آرٹیکل 6 جیسے حکومت سمجھ رہی ہے ویسے استعمال نہیں ہو سکتا، نہ ہی کسی جماعت پر پابندی لگ سکتی ہے، یہ ادھار مانگ کر شرمندہ ہوں گے۔ حکومت جنہیں ثبوت کہہ رہی ہے اس کا مجھے علم نہیں کہ وہ ہیں یا نہیں تاہم جنہیں ثبوت کہا جا رہا ہے اس کی بنیاد پر تو 14 مہینے میں کوئی سزا نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا فرض کریں کوئی ثبوت ہے تو کسی کی پراپرٹی پر حملہ یا پھر فورسز کے کام میں مداخلت سے متعلق ہونگے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پر آرٹیکل 6 لگا دیا جائے یا سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جائے۔ ایک سوال پر کہا مرکزی حکومت کے پاس آرٹیکل 6 کے تحت عدالت کو ریفرنس بھیجنے کا اختیار ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ آرٹیکل 6 سیاسی جماعتوں پر لگانا شروع کر دیں۔ ماہر قانون ورہنما پی ٹی آئی علی ظفر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں کہا قانون کے تحت یہ سارے معاملات دیکھے جاتے ہیں، حکومت ناممکن بات کر رہی ہے، ایسی کوئی حرکت ہوئی تو عدالتیں موجود ہیں اور ہم بھی! ایک سیکنڈ کیلئے بھی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونے دینگے۔ وفاقی وزیر نے آرٹیکل بارے بات کی تو شاید وہ قانون نہیں پڑھتے، آرٹیکل 6 غداری کے جرم پر لگتا ہے، قانون کی خلاف ورزی غداری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ غداری کے مقدمے ایسے لگنے شروع ہو گئے تو پارلیمنٹیرینز کیخلاف بھی غداری کے مقدمے ہونگے، آرٹیکل 6 کا کوئی مقدمہ بن نہیں سکتا، اگر بنا تو اتنا بے بنیاد ہو گا کہ چل نہیں سکے گا۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ملک اور پاکستان تحریک انصاف ایک ساتھ نہیں چل سکتے، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی پرپابندی لگائی جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطاء اللہ تارڑ کی طرف سے آج پریس کانفرنس میں تحریک انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے، سابق وزیراعظم عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا۔ عطاء اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ بس بہت ہو گیا ملک کی معیشت نے آگے بڑھنا ہے تو پاکستان اور تحریک انصاف ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اعلان پر معروف قانون ورہنما پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومتی بدحواسی کا ثبوت ہے لیکن اس حکومت میں ایسا کرنے کا دم خم نہیں۔ عطا تارڑ کی باتیں آرٹیکل 6 یا پابندی کے زمرے میں نہیں آتی، پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ اسمبلی، کابینہ نے نہیں عدالت نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں ہزاروں غلط فیصلے ہو جاتے ہیں جسے ٹھیک کیا جاتا ہے، یہ معاملہ عدالت میں جائے گا تو ٹکے گا نہیں، عوامی عدالت ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ ملک میں نہ کوئی بغاوت ہوئی نہ سالمیت کو نقصان پہنچا تو آرٹیکل 6 کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ عوام میں موجودہ حکومت کی کوئی ساکھ نہیں، اس فیصلے سے صرف نفرت بڑھے گی۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی بات اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ حکومت سے کچھ نہیں ہو رہا اور یہ عوام میں اپنا مذاق بنا رہے ہیں جس کا انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے 8 سال کا کوئی بچہ ہائیر کیا ہوا ہے کہ ہمیں مقدمہ بنا کر دو، حکومت بدحواسی کی کیفیت میں اندھیرے میں دوڑ رہی ہے۔ سینئر رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز نے بھی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا عطا تارڑ کی باتیں چھوٹا منہ اور بڑی بات جیسی ہیں، ایسا فیصلہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں، انہیں ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتیں۔ عمران خان جیسا لیڈر انہیں کبھی ملا نہیں جو جمہوریت اور عوام کی بات کرتا ہے، یہ لوگ فکس میچ کھیلنے کے عادی، اپنے حق میں آنے والا عدالتی فیصلہ پسند کرتے ہیں، یہ ہمارا سیاسی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی ترجمان کی آج کی پریس کانفرنس اعتراف شکست ہے، سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں عوام کے لیے ہیں حالانکہ وہ کوئی ڈیل بھی کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے کیسز ختم کرنے کا نہیں کہتے لیکن انصاف کرنا چاہیے، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے کیسز میرٹ پر ایک ایک کر کے ختم ہوتے جا رہے ہیں، مسلم لیگ ن جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ڈکٹیٹر شپ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف پاکستان کی بڑی جماعت اور عمران خان بڑے ملکی لیڈر ہیں، ایک طرف کہتے ہیں سیاسی استحکام کے بگیر معاشی استحکام ممکن نہیں دوسری طرف سیاسی عدم استحکام بڑھانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف عوام کی نمائندہ جماعت ہے اور اپنی سیاست جاری رکھے گی، ہمیں عوام نے مینڈیٹ دیا، ان کے حقوق کا تحفظ کریں گے، چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کا فیصلہ حکومت کا اپنا ہے؟ تفصیلات کے مطابق جے یو آئی ف کے رہنما حافظ حمد اللہ نے پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس فیصلے سے عدالت کو آنکھیں دکھانا چاہتی ہے یا طاقت کی وکالت کررہی ہے؟ کیا یہ فیصلہ حکومت کا اپنا ہے؟ کیا اس فیصلے سے سیاسی و معاشی استحکام آئے گا ، تصادم بڑھے گا یا کم ہوگا؟ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کیلئے صاف وشفاف اور جلد از جلد انتخابات ناگزیر ہیں، ماضی میں جن جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی وہ جماعتیں آج بھی موجود ہیں، تاہم پابندی لگانے والوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔ رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے سے ملک و قوم کا کیا فائدہ ہوگا؟ کیا فارم 47 کی اس حکومت کو ایسے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے؟ خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے اس فیصلے کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، حکومت بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق صدر مملکت عارف علوی کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمات قائم کرے گی۔
ملک میں حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ٹیکسٹائل انڈسٹری بحران کا شکار ہوگئی ہے، پالیسی سازوں سمیت فیکٹری مالکان کی ٹیکسٹائل ملیں بند ہونا شروع ہوگئیں۔ تفصیلات کے مطابق موجودہ حکومت کی صنعت دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں اب تک 100 کے قریب لارج اسکیل ملیں بند ہوچکی ہیں جن میں50 کے قریب ٹیکسٹائل ملز بھی شامل ہیں،بند ہونے والی فیکٹریوں میں پالیسی سازوں کی فیکٹریاں بھی شامل ہیں، فیکٹریاں بند ہونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے ٹیکسٹائل فیکٹریز کے بند ہونے کی تصدیق کی، ملز مالکان نے موقف اپنایا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمت میں 170 فیصد تک اضافے اور حکومتی پالیسیوں کے سب فیکٹریاں بند ہورہی ہیں۔ ملز مالکان کا کہنا تھا کہ جو بجلی کے نرخ 2022 میں 16 روپے تک آج بڑھ کر 42 روپے تک پہنچ چکے ہیں، انڈسٹری کو 2022 میں 14 روپے میں گیس مل رہی تھی، آج گیس کا ریٹ 40 روپے تک پہنچ گیا ہے،ان دوسالوں میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 19 ڈالر سے کم ہوکر 16 ارب ڈالر تک آگئی ہے، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ ایسے ہی جاری رہا تو مزید فیکٹریاں بھی بند ہوجائیں گے۔ فیکٹریوں کی بندش کے حوالے سے لسٹڈ کمپنیوں نے اسٹاک ایکسچینج انتظامیہ کو بھی آگاہ کردیا ہے، بند ہونے والی فیکٹریوں میں وزراء و بڑے بڑے صنعتکاروں اور پالیسی سازی کا حصہ رہنے والے افراد کی فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن کے مری میں ہونے والے اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس کے ملتوی ہونے کی وجوہات سامنے آگئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن نے مری میں اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کررکھا تھاجسے اچانک ملتوی کردیا گیا، نجی خبررساں ادارے نے اجلاس کے موخر ہونے کی اندرونی کہانی سامنے لاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اجلاس کو پارٹی میں اختلاف رائے کی وجہ سے موخر کیا گیا۔ اے آروائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے چند رہنماؤن کو حکومت کے سیاسی فیصلوں پر تحفظات ہیں، پارٹی میں پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے پر ردعمل کے حوالے سے اختلافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں ایک لیگی رہنما کا نام لیے بغیر بیان شامل کیا گیا ہے جس میں لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے خلاف ہیں تاہم پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں، پارٹی صدر میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے مشاورت کرلی ہوگی اسی لیے ہمیں نہیں بلایا گیا۔ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم جیسے لوگ اجلاسوں میں کچھ اور کہہ دیتے ہیں تو معاملات بگڑ بھی سکتے ہیں،۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے طویل مشاورت کی، اس مشاورت میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی شامل تھے، مشاورتی عمل کے دوران بعض پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کی گئیں اور بعض سے ٹیلی فونک رابطہ کیا گیا اور مختلف آپشنز پر مشاورت کی گئی۔ مشاورتی اجلاس میں پارٹی قیادت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر شدید تنقید کی ، مشاورت کے دوران کچھ پارٹی رہنماؤں اسے معاملے پر پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کرنے کی تجویز دی، مشاورتی اجلاس میں نواز شریف کی جانب سے حتمی فیصلہ کیا گیا جس کو جلد پارٹی رہنماؤں تک پہنچا دیا جائے ۔
سینئر سیاستدان اور پیپلزپارٹی کے سابقہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی یا غداری کے مقدمے کی باتیں فضول ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سینئر سیاستدان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی یا کسی سیاسی رہنما کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں فضول ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر مستحکم اور سیاسی بحران کا شکار امریکی جمہوریت اس بحران سے نکل جائے گی تاہم خبردار رہیں پاکستانی جمہوریت ، درحقیقت ریاست خود اپنے خود ساختہ بحران کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھ سکے گی۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے اس فیصلے کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، حکومت بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق صدر مملکت عارف علوی کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمات قائم کرے گی۔
پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے پرردعمل آنا شروع ہوگیا ہے، انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے فیصلے کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کردیا جبکہ پی ٹی آئی نے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے اس فیصلے کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، حکومت بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق صدر مملکت عارف علوی کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمات قائم کرے گی۔ فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پابندی کا فیصلہ جعلی حکومت کی خواہش ہوسکتی ہے، تاہم فسطائیت اور تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود مینڈیٹ چور حکومت کو منہ کی کھانی پڑ ررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جعلی حکومت کو اپنا خاتمہ نظر آرہا ہے اور یہ مینڈیٹ چور حکومت حواس باختہ وہوچکی ہے اسی بوکھلاہٹ میں یہ احمقانہ بیانات دے رے ہیں،یہ جو کچھ بھی کریں ہم ان کا بھرپور مقابلہ کریں گے،جعلی طریقے سے اقتدار پر قابض مینڈیٹ چور اور فارم 47 کی بنیاد پر قائم حکومت پی ٹی آئی پابندی کیسےلگاسکتی ہے؟ پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے اس معاملے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیکنڈ کیلئے بھی اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونے دے گی، وفاقی حکومت کسی اور دنیا میں رہ رہی ہے اور قانون کی دنیا سے باہر کی بات کررہی ہے، قانون میں پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کی کوئی گنجائش نہی ہے اور حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرسکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے فیصلے کے بعد حکومت دھچکے میں ہے، پابندی کی بات ایک ناجائز فیصلہ ہے اور ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔ زلفی بخاری نے کہا کیا کسی نے عطا تارڑ کی ابھی کی گئی مضحکہ خیز پریس کانفرنس سنی ہے؟ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی کوشش نے میرے کام کو بہت آسان بنا دیا ہے تاکہ میں آپ اور آپ کے باسز کو بے نقاب کر سکوں۔ یہ وہ خود تباہی کی فاشزم ہے جو ہمیں اپنے نکتے کو مزید ثابت کرنے کے لیے درکار تھی۔ آپ نے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے فیصلے پر کوئی سوال کیوں نہیں کیا؟ آپ نے اسے مسلسل نظر انداز کیوں کیا؟ عالمی سطح پر آپ بے نقاب اور کمزور ہو چکے ہیں اور مزید ہوں گے۔ ایک اور ہفتہ انتظار کریں، مزید آنے والا ہے۔ آج یہ ثابت ہو گیا کہ اوورسیز پاکستانیوں نے کتنی اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ شاباش اوورسیز پاکستانیوں حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو مسترد کیا۔ دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا اور اس فیصلے سے ملک میں سیاسی افراتفری کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے، حکومت عوامی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کو اپنی ترجیح بنائے۔ انسانی حقوق کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ایچ آر سی پی کو پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر شدید تشویش ہے۔ نہ صرف یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت اراکینِ جماعت کے انجمن سازی کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے، بلکہ جمہوری اقدارکے لیے بھی بہت بڑا دھچکہ ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ عدالتِ عظمیٰ نے حال ہی میں اپنے متفقہ فیصلے میں پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ اقدام سیاسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ معلوم ہو رہا ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب عدالتِ عظمیٰ نے پی ٹی آئی کو عورتوں اور اقلیتوں کی نشستوں کا حق دار ٹھہرا کر اِسے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بنادیا ہے۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ یہ غیر آئینی فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔ اگر اس پر عملدرآمد کیا گیا تو اس سے مذید سیاسی انتشار، محاذ آرائی اور تشدد کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ کوئی بھی حکومت چیزوں کو صرف اپنے نقطہ نظر سے نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے اور انہیں ملک دشمن قرار دینے کے نتائج کو آسانی سے فراموش کر سکتی ہے۔ ورنہ، اِس طرح کے اقدامات سے وہ خود کو ہی نقصان پہنچائے گی۔ ایچ آر سی پی حکومت کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہے کہ اسے گھمبیر مسائل میں گِھرے شہریوں کی مدد کو ترجیح دینی چاہیے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی، تشدد، جرم اور شدت پسندی کا شکار ہیں۔ یہ مقصد وہ اپنے سیاسی اتحادیوں اور مخالفین کی حمایت کے بغیر حاصل نہیں کر سکتی۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاونٹس سے پابندی ہٹا دی گئی,فیس بک, انسٹا گرام اور واٹس ایپ کی سرپرست کمپنی ‘میٹا’ نے امریکی انتخابات میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس سے پابندیاں ہٹا دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر یہ پابندیاں 2021 میں ان کے حامیوں کی جانب سے کیپٹل ہل پر حملے کے بعد لگائی گئی تھیں,میٹا کے بیان میں کہا گیا ریپبلکن پارٹی کے نامزد امیدوار کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مزید پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔ ٹرمپ کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کو 6 جنوری 2021 کو ان کے حامیوں کے کیپیٹل ہل پر حملے کے ایک دن بعد غیر معینہ مدت کے لیے معطل کیا گیا تھا۔ جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پرتشدد کارروائیوں میں ملوث لوگوں کو سوشل میڈیا پر سراہا ہے. فروری 2023 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو کچھ پابندیوں کے ساتھ بحال کر دیا گیا تھا تاہم یہ پابندیاں بھی گزشتہ روز ہٹا دی گئیں,میٹا نے ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ سیاسی اظہار رائے کی اجازت دینے کی اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی عوام کو تمام صدارتی امیدواروں کو سننے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ دوسری جانب انتخابی ریلی کے دوران فائرنگ سے زخمی ہونے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا ہے کہ مجھے ایک گولی ماری گئی تھی جو میرے دائیں کان کے اوپری حصے میں لگی جب بہت زیادہ خون بہا تب مجھے پتہ چلا کہ کیا ہوا ہے,سابق صدر ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے گھناؤنے عمل کے دوران فوری طور پرحفاظتی اقدام کیا,طبی معائنے کے بعد سابق امریکی صدر ٹرمپ کو اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا,ٹرمپ کے ترجمان نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ٹھیک ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے مخصوص نشستوں کے کیس میں فیصلے پر سابق وزیراعظم وقائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف کی طرف سے حیرت کا اظہار کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم وقائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف کی پارٹی رہنمائوں سے ایک ملاقات ہوئی ہے جس میں ان کی طرف سے مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ نوازشریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملاقات میں پارٹی رہنمائوں سے مشاورت بھی کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف نے مخصوص نشستوں کے کیس پر فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنمائوں کا اجلاس سوموار کو مری میں بلا لیا ہے۔ میاں نوازشریف نے اپنی صاحبزادی ووزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کو بھی سوموار مری میں ہونے والے اجلاس کے لیے طلب کیا ہے جہاں پر اہم ترین فیصلے متوقع ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی بھی صدر مسلم لیگ ن نوازشریف سے چھانگلہ گلی مری میں ون ٹو ون ملاقات ہوئی ہے جس میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیے گئے حالیہ فیصلے کے محرکات اور اثرات پر بھی گفتگو کی گئی۔ نوازشریف نے اس ملاقات میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار ناگواری کیا اور پارٹی کے مرکزی رہنمائوں سے وسیع تر مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا۔ مری میں ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ کیا گیا ہے، اجلاس میں پارٹی کے مرکزی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ کابینہ اراکین کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ اجلاس میں لیگی قیادت مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کا تعین بھی کرے گی، تحریک انصاف کو سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے پر لائحہ عمل کے ساتھ سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے کا بھی فیصلہ ہو گا۔ واضح رہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے فیصلہ جاری ہونے کے بعد سے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی طرف سے سخت بیانات دیئے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اس فیصلے کی روشنی میں قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی پوزیشن مستحکم ہے۔
شہباز شریف ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات اپنی جیب سے دے رہے ہیں, وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف پرائم منسٹر ہاؤس کے اخراجات اپنی جیب سے دے رہے ہیں,اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’اعتراض‘ میں گفتگو کرتے ہوئے علی پرویز ملک نے کہا کہ حکومت اخراجات کو قابو میں رکھنے کیلیے اقدامات کر رہی ہے. انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور تمام کابینہ ارکان بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب 50 کروڑ روپے سالانہ تنخواہ چھوڑ کر 4 ماہ سے کام کر رہے ہیں، وہ نجی گاڑی میں گھوم پھر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہبازشریف اپنے سفری اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ وزیر مملکت نے مزید بتایا کہ سرکاری ملازمین اور نجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں فرق ہوتا ہے، نجی اداروں کی تنخواہیں سرکاری اداروں سے زیادہ ہوتی ہیں، تنخواہ میں 25 فیصد اضافہ کم گریڈ والے ملازمین کو دیا گیا ہے، مہنگائی زیادہ ہوگی تو تنخواہوں میں اضافہ بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ عالمی مالیاتی فنڈ سے متوقع معاہدے کے بارے میں علی پرویز ملک نے کہا آئی ایم ایف کو منانے کیلیے اب کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت میں شامل تمام لوگ معیشت کے استحکام کیلیے کام کر رہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ آئندہ 3، 4 سال میں 100 بلین ڈالر کا انتظام کرنا ہے جس کیلیے آئی ایم ایف ضروری ہے، پہلے ہمارے پاس ایل سیز کیلیے ڈالر نہیں ہوتے تھے کنٹینر پھنس جاتے تھے، اچھی خبر یہ ہے کہ معاشی استحکام کی جانب قدم بڑھا لیا, اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا یا نہیں، ضرورت اس بات کی ہے اب ہم اصلاحات کے ذریعے معیشت درست کریں، ٹیکس کے بوجھ کا احساس ہے کوشش کر رہے ہیں کہ آگے بند باندھیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں معاشی اہداف کے حصول کے لئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے، معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے کڑوے فیصلے اور اصلاحات کرنا ہوں گی،ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے کام میں سستی اور تاخیری حربے برداشت نہیں کیے جائیں گے.
پاکستانیوں کی زندگیاں بجلی اور بجلی کے بلوں پر اٹک کر رہ گئیں, ہر کسی کے لب پر اسی مسئلے کا حل کچھ نہیں,عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں, دوسری جانب پاورڈویژن نے ماہانہ 200 یونٹ تک والے کتنے فیصد بجلی صارفین کو 3 ماہ کے لیے ریلیف کےحوالے سے وضاحت جاری کردی,پاورڈویژن کا ماہانہ 200 یونٹ تک والے کتنے فیصد بجلی صارفین کو 3 ماہ کے لیے ریلیف ملنے کے حوالے سے اہم بیان آگیا۔ دستاویز میں بتایا گیا ماہانہ 200یونٹ تک کے86فیصدگھریلوصارفین کو3 ماہ کیلئےریلیف ملے گا اور تقریباً 5 فیصدلائف لائن صارفین کو نکال کر اصل ریلیف 82 فیصد گھریلو صارفین کو ملے گا۔ پاور ڈویژن کا کہنا تھا وزیراعظم شہباز شریف نے94فیصد گھریلوصارفین کو ریلیف دینے کادعویٰ کیا تھا۔دستاویز نے کہا کہ ماہانہ ایک سے100یونٹ تک کے34 فیصد پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین، ماہانہ101 سے 200 یونٹ تک کے 19 فیصد پروٹیکٹڈ گھریلوصارفین اور ماہانہ ایک سے100یونٹ تک کے20 فیصد نان پروٹیکٹڈ گھریلوصارفین کوفائدہ ہوگا۔ . پاور ڈویژن نے بتایا ماہانہ101سے200یونٹ تک کے9 فیصد نان پروٹیکٹڈگھریلوصارفین کوریلیف ملےگا، حکومت ریلیف دینے کے لیے49 ارب 72 کروڑ80 لاکھ روپےکی اضافی سبسڈی دے گی۔ دستاویز کے مطابق ماہانہ200 یونٹ تک کےگھویلو صارفین کوجولائی تاستمبر 2024 کے لیےریلیف ملے گا، اس حوالے سے پاورڈویژن گھریلوصارفین کو ریلیف کے اعدادوشمار کی تفصیلات سے نیپرا کو آگاہ کرچکا ہے۔
پڑوسی ملک بھارت میں انسانوں کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں پھر چاہے مسلمانوں کے ساتھ ہو یا اقلیتوں کے ساتھ اور اب تو مودی سرکار کے اس ملک میں کام کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا جارہا, ایئر انڈیا کے عملے کے ساتھ برے سلوک کا واقعہ سامنے آگیا. ایئر لائنز اپنے کیبن کریو کے لیے طویل پروازوں کے بعد ہوٹل بک کرواتی ہیں تاکہ ان کے آرام کا خیال رکھا جا سکے لیکن حال ہی میں ایئر انڈیا کو اپنے عملے کے ارکان کے لیے مناسب رہائش فراہم نہ کرنے پر تنقید کا سامناہے,بھارتی ایئر لائن کے کیبن کریو کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے عالمی میڈیا کو بھی متوجہ کرلیا, عملے کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے منیشا سیگل نے ایئر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر آپ ایئر انڈیا کو عالمی معیار کی ایئر لائن بنانا چاہتے ہیں تو ایک لمبی فلائٹ سے واپس آنے والے ائیر لائن کے عملے کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرناچاہیے۔ صارف نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 4 گھنٹے تک عملہ ہوٹل تلاش کرتا رہا اور آخر کار آپ نے ان کو ایسا کمرہ دیا جس میں نہ کوئی بیڈ شیٹ ہے نہ تولیے اوت سہولیات کا فقدان ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیند سے محروم جہاز کا عملہ آپ کے اس توہین آمیز سلوک کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ صارفین کی جانب سے اس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ائیر لائن کے عملے کو دی جانے والی سہولیات اتنی بری ہو سکتی ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ سستی ترین ایئر لائنز بھی اپنے عملے کے ساتھ اتنا برا سلوک نہیں کرتیں جتنا ایئر انڈیا نے اپنے عملے کے ساتھ کیا۔ سنجے نامی صارف نے لکھا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ایئر انڈیا نے اپنا معیار اتنا گرا لیا ہے۔ جہاں کئی صارفین اس پر تنقید کرتے نظر آئے وہیں ایک صارف نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بین الاقوامی پریکٹس ہے کہ کیبن کریو کو آرام کرنے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹل نہیں دیے جاتے بلکہ رہائش کے لیے الاؤنس دیا جاتا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7ارب ڈالر کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا, 37ماہ کےلیے توسیع فنڈ سہولٹ پروگرام کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹوبورڈ دے گا. پاکستان کے ترقیاتی اور دو طرفہ شراکت داروں کی جانب سے ضروری مالیاتی یقین دہانیوں کی بروقت تصدیق سے مشروط ہے۔ آئی ایم ایف نے اسپیشل اکنامک زونز کو دیے جانے والی ٹیکس مراعات اور فوج کی زیر قیادت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی نگرانی میں عمل میں لائے جانے والے منصوبوں پر منافع کی ضمانت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ مالیاتی معاہدے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے اور صوبوں نے اسٹاف لیول معاہدہ کرنے میں ہماری مدد کی ہے، بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو فنڈ کی مشاورت سے طے کیا جا رہا ہے ہم فنڈ اور اپنے دو طرفہ اور کثیرالطرفہ قرض دہندگان کے تعاون سے اس محاذ پر مشترکہ طور پر پیش رفت کریں گے۔ٓ آئی ایم ایف اعلامیہ کے مطابق آئی ایم ایف اور پاکستان حکام نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اقتصادی زونز کے لیے مراعات کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا، زرعی امدادی قیمتوں اور اس سے منسلک سبسڈیز کو بھی ختم کیا جائے گااور نئی ریگولیٹری یا ٹیکس پر مبنی مراعات سے پرہیز کیا جائےگااور کسی ایسی ضمانت شدہ واپسی جو سرمایہ کاری کے منظر نامے کو مسخ کر سکتی ہے، بشمول خصوصی سرمایہ کاری کے ذریعے چلائے جانے والے کےذریعےپروجیکٹ کو دی جانیوالی مراعات سے گریز کیا جائے گا، صوبے زرعی انکم ٹیکس اور خدمات پر سیلز ٹیکس کا نفاذ کریں گے ، تمام صوبے وفاقی ذاتی اور کارپوریٹ ٹیکس رجیم کےساتھ قانونی تبدیلیوں کےذریعے زرعی انکم ٹیکس رجیم میں مکمل ہم آہنگی لائیں گے اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2025 سے موثر ہو جائے گا، برآمدات، ریٹیل اور زراعت کے شعبوں سے حاصل ہونے والی خالص آمدنی کو ٹیکس کے نظام میں لایا جائے گا۔ پاکستان نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے بعد معاشی استحکام حاصل کیا نئے پروگرام سے ملک میں میکرواکنامک استحکام مزید بہتر کرنے ، مضبوط اور انکلوسیو گروتھ میں مدد ملے گی ، اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کی مضبوطی ، ٹیکس بیس میں توسیع کےلیے اصلاحات ، سرکاری انٹرپرائزز کی مینجمنٹ میں بہتری ، مسابقت ، سرمایہ کاری کےلیے مساوی مواقع ، انسانی وسائل بڑھانے ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کےذریعے سماجی تحفظ کو بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے ۔ نئے پروگرام کے مقاصد کےحصول کے لیے پاکستان کے ترقیاتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے پاکستان کی مالی سپورٹ کا تسلسل بہت اہم ہوگا،
حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئےبجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7روپے 12 پیسے کا اضافہ کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نیپرا نے وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی قیمتوں میں اضافے سے متعلق درخواست منظور کرتے ہوئے ماہانہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلوں صارفین کیلئے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں فی یونٹ 7 روپے 12 روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ نیپرا کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ماہانہ 200 یونٹ تک استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو وزیراعظم کی ہدایات پر 3 ماہ کیلئے ٹیرف میں اضافے سے استثنیٰ دیدیا گیا ہے۔ حالیہ اضافے کے بعد گھریلوصارفین کیلئے بجلی کا فی یونٹ ٹیرف 48روپے 84 پیسے ہوگیا ہے، 201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنےوالے صارفین کا ٹیرف7روپے 12 پیسے اضافے کے بعد 34 روپے 26 پیسے فی یونٹ ہوگیا ہے،301 سے 400 یونٹ کا ٹیرف7 روپے 12 پیسے اضافے کے بعد 39 روپے 15 پیسے کا ہوگیا ہے۔ اسی طرح 401 سے 500 یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کے بنیادی ٹیرف میں 6روپے 12 پیسے کا اضافہ ہوا ہے اور یہ ٹیرف 41 روپے 36 پیسے تک پہنچ گیا ہے، 501 سے 600 یونٹ والے صارفین کا ٹیرف 6روپے 12 پیسے اضافے کے بعد 42 روپے 78 پیسے ہوگیا ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری دورہ لاہور کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے استقبال نا کیےجانےپر شدید برہم ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری دورہ لاہور کیلئے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر پہنچے تو گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور چیف سیکرٹری نے ان کا استقبال کیا تھا۔ نجی خبررساں ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صدر آصف علی زرداری وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ نا آنے پر شدید برہم ہوئے اور انہوں نے بلاول ہاؤس لاہور میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران اس برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بطور صدر لاہور آیا ہوں، پورے پاکستان کا صدر ہوں مگر ان لوگوں کو آئینی عہدوں کا احترام بھی نہیں ہے۔ صدر مملکت نے مزید کہا کہ ن لیگ کو اسی وجہ سے نقصان ہوتا ہے کہ انہیں اپنے دوستوں کی بھی پہچا ن نہیں ہے۔ دوسری جانب پنجاب حکومت کی جانب سے اس معاملے پرردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے صدر مملکت نجی دورے پر لاہور آئے تھے، چیف سیکرٹری نے ایئرپورٹ پر پنجاب حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے صدر کا استقبال کیا۔ خیال رہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے دورہ لاہور کیلئے ایوان صدر نے سیکیورٹی کی 20 گاڑیاں طلب کی تھیں جن میں پانچ بم پروف گاڑیاں بھی شامل تھیں،، دورہ سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے ایوان صدر کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کی سیکیورٹی کیلئے14 سیکیورٹی آفیشل آصف علی زرداری کی آمد سے 2 روز قبل لاہور پہنچیں گے،صدر مملکت 2 روز لاہور میں قیام کریں گے اور اس دوران اراکین اسمبلی و پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔
معروف موٹیویشنل اسپیکر ساحل عدیم ایک بار پھر مشکل کا شکار ہوگئے, ساحل عدیم اپنے ایک اور متنازع بیان کے باعث تنقید کی زد میں آگئے,موٹیویشنل اسپیکر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا, ذرائع کے مطابق ساحل عدیم کے خلاف مقدمہ 148 وکیل فتاح چانڈیو کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔ وکیل فتاح چانڈیو نے کہا ساحل عدیم نے سندھی قوم کی بے عزتی کی ہے,ایف آئی آر متن میں وکیل نے بتایا انہوں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ساحل عدیم کو یہ کہتے سنا گیا کہ غزوہ ہند نہیں بلکہ غزوہ سندھی کرا لیں, ساحل عدیم نے یہ کہا تھا کہ سندھی اپنی بیٹیوں کو چودھریوں اور وڈیروں کی امانت سمجھتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں، یہ لوگ ہندو ہیں اور ان سے بھی بدتر ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ساحل عدیم نے کہا سندھیوں کو شرم آنی چاہیے اور اسکے علاوہ بھی ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو ناقابل استعمال ہیں,ساحل عدیم کی جانب سے سندھی قوم کی تذلیل کی گئی اور اس بیان کے خلاف کارروائی کی جائے وکیل کے مطابق انہیں ویڈیو ان کے وکیل دوست نے واٹس ایپ پر بھیجی تھی. ساحل عدیم گزشتہ کئی دنوں سے عوام کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں انہوں نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں پاکستان کی 95 فیصد خواتین کو جاہل قرار دیا تھا,موٹیویشنل اسپیکر ساحل عدیم کے خلاف رکن سندھ اسمبلی ماروی فصیح کی جانب سے مذمتی قرارداد سندھ اسمبلی میں جمع کروا گئی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ساحل کے خواتین مخالف تبصرے ہماری مذہبی، سماجی اور قانونی اقدار کی سخت خلاف ورزی ہیں، جس کے باعث خواتین کو بڑے پیمانے پر تکلیف ہوئی ہے۔ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ نام نہاد موٹیویشنل اسپیکر ساحل عدیم کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ اسکالر اور موٹیویشنل اسپیکر ساحل عدیم نے وضاحت کی ہے کہ گزشتہ ماہ انہوں نے ٹی وی شو میں عورتوں کو مذہبی حوالے سے جاہل کہا تھا اور انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی مذکورہ کلپ اتنی وائرل ہوگی,ساحل عدیم نے جون کے آخری ہفتے میں سما ٹی وی پر نشر ہونے والے عائشہ جہانزیب کے پروگرام میں بحث کے دوران ملک کی 95 فیصد خواتین جب کہ محض 25 فیصد مردوں کو جاہل قرار دیا تھا۔
کراچی کے ریڈ زون میں جعلی پولیس اہلکاروں نے غیر ملکی شہری کو تلاشی کے بہانے لوٹ لیا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے آرٹلری میدان کے نجی ہوٹل کے باہر ایک واردات پیش آئی جس میں ملزمان نے تلاشی کے بہانے ایک غیر ملکی مہمان کو لوٹ لیا۔ رپورٹ کے مطابق فرانس سے آئے ادریسی نامی شہری کو ایک سفید کار میں سوار افراد نے تلاشی کیلئے روکا اور خود کو پولیس اہلکار ظاہر کیا۔ ملزمان نے تلاشی کے دوران غیر ملکی شہری کا پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات چیک کرتے ہوئے 5 ہزار یورو چھینے اور فرار ہوگئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گاڑی کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی ہے ، تاہم غیر ملکی شہری کی جانب سے ابھی تک مقدمہ درج نہیں کروایا گیا ہے، ادریسی نامی شہری اپنی مذہبی تقریبات میں شرکت کیلئے کراچی پہنچا تھا۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپیل کیلئے مشاورت جاری ہے، اپیل کا فیصلہ پیر کو ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس نے انصاف مانگا ہی نہیں اس کو انصاف دیا گیا، فیصلہ ایک شخص کی دہلیز تک پہنچایا گیا جو سائل ہی نہیں تھا، فیصلے کی ہوم ڈیلیوری کی گئی۔ اس فیصلے کے سیاسی مضمرات بالکل واضح ہیں، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ غیر آئینی تھا، آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کرسکتی ہے، عدلیہ صرف آئین کی تشریح کرسکتی ہے آئین کو دوبارہ لکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ وزیر دفاع نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتائج بہت بھیانک ہو سکتے ہیں، بیورکریسی، عدلیہ اور فوج کے ملازمین کی مدت ملازمت بڑھائی جارہی تھی تاکہ پینشن کے بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ یہ عالمی مالیاتی اداروں کی شرط بھی تھی کہ یہ بوجھ کم کرنا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم آئین کی سربلندی کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں، آئین میں تمام اداروں کی ذمہ داریاں درج ہیں، آئین بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے ، دنیا بھر میں پاکستانی عدلیہ 134ویں نمبر پر آتی ہے، اس نمبر میں بہتری آئے گی تو ہماری قوم کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ وہ فیصلے بہتر ہوتے ہیں جو عام فہم ہوں، پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کیلئے کوئی دعویٰ بھی نہیں کیا ، عدالت سے سنی اتحاد کونسل نے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن اور پشاورہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر غیر آئینی اقدام کیا گیا جس سے جمہوری نظام پر اثر بڑے گا، الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ سب آئینی ادارے ہیں ان کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر آئین سے تجاوز کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنی ہے یا نہیں اس فیصلہ پیر کو پارلیمنٹ میں کیا جائے گا، اپیل کے معاملے پر حکومت اپنے اتحادیوں سے مشاورت کرے گی، ملک میں نئے انتخابات کی صورتحال پیدا ہوتی نظر نہیں آرہی۔
قومی کرکٹ ٹیم کے سینئر کھلاڑیوں کے درمیان اختلافات اور ناراضگی دور کرنے کیلئے سابق کرکٹرز نے کوششیں شروع کردی ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو سابق کپتانوں نے بابراعظم، شاہین آفریدی اور محمد رضوان کے درمیان اختلافات اور دوریوں کو ختم کروانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان سابق کپتانوں کی جانب سے تینوں کھلاڑیوں سے رابطے شروع کرلیے گئے ہیں اور تینوں کھلاڑیوں کو گلے شکوے دور کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ سابقہ کپتانوں نے بابر، شاہین اور رضوان سے رابطہ کرکے آپسی اختلافات اور دوریوں کو ختم کردینے کی درخواست کی ہے، ان کوششوں کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ شاہین آفریدی کی وطن واپسی کے بعد تینوں کرکٹرز کی سابق کپتا ن کے گھر ملاقات بھی کروائی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد ٹیم میں سرجری کی تیاری کی جارہی ہے، اس دوران ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کی جانب سے ایک رپورٹ بھی بورڈ انتظامیہ کو دی گئی جس میں کھلاڑیوں کے آپسی اختلافات اور دیگر معاملات میں عدم دلچسپی کا انکشاف کیا گیا۔ گیری کرسٹن نے کہا کہ میں جب سے پاکستانی ٹیم کا کوچ بنا ہوں میں نے یہی نوٹ کیا کہ اس ٹیم میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کہنے کو تو یہ ایک ٹیم ہے مگر یہ ٹیم نہیں ہے ، اس میں کوئی کھلاڑی کسی کو سپورٹ نہیں کرتا بلکہ دائیں بائیں سب الگ الگ ہیں، میں کئی ٹیموں کے ساتھ کام کرچکا ہوں مگر میں نے ایسی کوئی صورتحال نہیں دیکھی۔
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی سے سکھر کے لیے اڑان بھرنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پرواز PK-536 کا طیارہ راستہ بھٹک گیا تاہم کسی قسم کے حادثے کا شکار ہونے سے محفوظ رہا۔ ذرائع کے مطابق جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی سے سکھر کے لیے اڑان بھرنے والا طیارہ راستے سے بھٹک گیا تاہم ایئرٹریفک کنٹرولر نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طیارے کو کسی حادثے کا شکار ہونے سے بچاتے ہوئے بحفاظت اتروا لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی سے سکھر کیلئے روانہ ہونے والی پی آئی اے کی پرواز کے راستہ بھٹکنے پر ایئرٹریفک کنٹرولر نے بروقت اقدامات کیے اور کسی ہنگامی صورتحال سے دوچار ہونے سے بچا لیا۔ پی آئی اے کی پرواز PK-536 کے سکھر کے لیے کراچی سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد طیارے کا نیوی گیشن سسٹم خراب ہو گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق طیارے کا نیوی گیشن سسٹم خراب ہونے کے باعث اپنے روٹ سے ہٹ کر کسی دوسرے راستے کی طرف جا رہا تھا جس پر ایئرٹریفک کنٹرولر نے طیارے کے کپتان سے رابطہ کیا۔ ایئرٹریفک کنٹرول نے کپتان کو متنبہ کیا کہ طیارے کا نیوی گیشن سسٹم خراب ہو چکا ہے، آپ راستہ بھٹک گئے ہیں اور غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ طیارے کے کپتان سے ایئرٹریفک کنٹرولر نے براہ راستہ رابطہ کیا اور اس کی رہنمائی کی جس کے بعد طیارے کو واپس جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر بحفاظت اتار لیا گیا۔ علاوہ ازیں کراچی سے اسلام آباد کیلئے جانے والی پرواز PK-8300 کے طیارے کے نچلے حصے سے پانی سپلائی کرنے والی گاڑی ٹکرا گئی جس سے رجسٹریشن نمبر APBHHکے حامل طیارے کو نقصان پہنچا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ PK-8300 کے مسافر طیارے میں بیٹھنے کیلئے لائونج میں انتظار کر رہے تھے اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، حادثے کا شکار ہونے والی پرواز کو 4 گھنٹے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ اے ٹی آر طیارے اور پانی سپلائی کرنیوالی گاڑی میں تصادم کا پی انتظامیہ نے نوٹس لے کر ڈرائیور کو معطل کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں اور طیارے کے نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔

Back
Top