خبریں

سوشل میڈیا کی خبریں

Threads
2.1K
Messages
18.8K
Threads
2.1K
Messages
18.8K

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سرحدوں کی حفاظت کرنے والے بھارتی فوج اپنے ہی ساتھیوں کے دشمن بن گئے،بھارتی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں بارڈرسیکیورٹی فورس کے ہیڈکوارٹرز میں ایک اہلکار نے اپنے ساتھی اہلکاروں پر گولیاں برسادیں،جس سے 5 اہلکار ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بارڈرسیکیورٹی فورس کے ایک اہلکار نے غصے میں آکر اپنے ساتھیوں پرفائرنگ کی اور بعد میں خود کو بھی گولی مار لی،جسے شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا تاہم وہ دوران علاج ہلاک ہوگیا۔ واقعے کے بعد سینیئر افسران جائے وقوع پر پہنچے اور واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی،یہ ہیڈ کوارٹر پاک بھارت سرحد واہگہ سے محض 20 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ذہنی دباؤ اور پست ہمتی کے باعث بھارتی فوج کے اہلکاروں میں خودکشی اور آپسی جھگڑوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہاہے، جس کا اعتراف بھارتی محکمہ دفاع نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی کیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں بھارت میں ہر تین دن میں ایک فوجی جوان نے خود کشی کی، اندازے کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران گیارہ سو سے زائد جوانوں نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے خود اپنی جان لے لی۔
دل توڑنے کی سزا تو ملتی ہی ہے، جلد ملے یادیر ملتی ضرور ہے، وفاقی محتسب انسداد ہراسگی برائے خواتین کشمالہ طارق نے بھی انکشاف کیا کہ وہ بھی دل توڑنے کی سزا پاچکی ہیں، جیونیوز کے پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ میں سہیل وڑائچ کی مہمان بنیں اور انہیں اپنی زندگی کے حوالے سے بتایا۔ میزبان سہیل وڑائچ نے اپنے مخصوص انداز میں کشمالہ طارق سے پوچھا کہ آپ حسین ہیں خوبرو ہیں کتنے دل توڑے، کشمالہ طارق نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یہ تو یاد نہیں کتنے توڑے لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ دل توڑنے کی سزا بہت پائی ہے۔ میزبان سہیل وڑائچ نے سوال کیا کہ وفاقی محتسب انسداد ہراسگی کا ہی عہدہ کیوں منتخب کیا، جس پر انہوں نے بتایا کہ انہوں جنون تھا اس عہدے پر کام کرنا کا، انہوں نے بتایا کہ انہیں پوری زندگی ہراس کیا گیا ہے۔ میزبان کے سوال پر کہ کشمالہ طارق نے بتایا کہ گھورنا، فضول میسجز کرنا بھی ہراسگی کے زمرے میں آتا ہے،پروگرام کے میزبان سہیل وڑائچ کے مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کشمالہ خان کا مزید کہنا تھا کہ پہلی شادی ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ نہ چل سکی،لوگوں نے میری دشمنی میں بیٹے کو ٹارگٹ بنایا۔ ابھی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا ارادہ نہیں۔ کشمالہ طارق کے بیٹے اذان کیخلاف اس وقت مقدمہ درج کیا گیا جب کشمالہ طارق کے قافلے میں شامل تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے چار افراد ہلاک ہوگئے،اس معاملے میں فریقین کے درمیان صلح نامہ ہو چکا ہے، لواحقین نے سی سی ٹی وی ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد فی سبیل اللہ معاف کردیا تھا۔
مسلم لیگ ق کے صدر اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ نے وزیراعظم سے اپنے تحفظات کا اظہار کردیا،وزیراعظم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اپنے مشیروں سے محتاط رہیں،کیوں کہ وزیر اعظم کے مشیر غلط بیانی سے حکومت اور میڈیا کے درمیان خلیج حائل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے حیرانگی ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے میڈیا ہاؤسز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے،تحریک انصاف کے ممبران کو میڈیا میں جانے سے روکنے کی اطلاعات ہیں، اپنے ممبران کو مخصوص چینلز میں نہ جانے دینے پر تشویش ہے،اس سے تحریک انصاف اپنا نقطہ نظر متوازن طریقے سے عوام کے سامنے نہیں رکھ پائے گی،وزیر اعظم اور پارٹی قیادت سے فیصلے پر نظر ثانی کی دراخوست کرتے ہیں۔ چند اخبارات اور میڈیا ہاوسز کے اشتہارات بند کرنے پر بھی اظہار تشویش کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے جموریت کا حسن ہے،وزیر اعظم نے مجھے میڈیا ہاؤسز اور حکومت کے درمیان پیکا آرڈیننس کے حوالے سے معاملات سلجھانے کا ٹاسک دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے حیرانگی ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے میڈیا ہاوسز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، اشتہارات پر پابندی بظاہر پیکا آرڈیننس کے تناظر میں لگائی گئی ہے، سرکاری اشتہارات عوام کے پیسے ہیں جن کو مخصوص اخبارات اور چینل کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
موٹروہیکل ٹیکس کی مد میں صوبوں کے ریونیو میں اضافہ کردیا گیا،یہ اضافہ صوبوں کے ریونیومیں جاری مالی سال کی پہلی ششماہی میں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں ریکارڈکیاگیا۔ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے دسمبر2021 تک کی مدت میں موٹروہیکل ٹیکس کی مدمیں صوبوں نے 17 ارب، 41 کروڑ،50 لاکھ روپے کا ریونیوحاصل کیاجوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 37.88 فیصدزیادہ ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں موٹروہیکل ٹیکس کی مدمیں صوبوں کو12 ارب،63 کروڑِروپے کاریونیوحاصل ہواتھا،جاری مالی سال کی پہلی ششماہی میں پنجاب میں موٹروہیکل ٹیکس کی مدمیں 10 ارب، 74 کروڑ،40 لاکھ روپے، سندھ 5 ارب،38 کروڑ روپے ہے۔ خیبرپختونخوا 83 کروڑ 70 لاکھ روپے اوربلوچستان میں موٹروہیکل ٹیکس کی مدمیں 45 کروڑ،40 لاکھ روپے کاریونیوحاصل ہوا،گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں پنجاب میں موٹروہیکل ٹیکس کی مدمیں 7 ارب،7 کروڑ،60 لاکھ روپے،سندھ 4 ارب، 27 کروڑ، 60 لاکھ روپے ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق خیبرپختونخوا 86 کروڑ، 50 لاکھ روپے اوربلوچستان میں موٹروہیکل ٹیکس میں 41 کروڑ،30 لاکھ روپے کاریونیواکھٹا کیاگیاتھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے نجی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کا نوٹس لیا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس ریونیو کلیمز کے تقریباً 3.5 ٹریلین روپے قانونی چارہ جوئی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس بندیال نے اخبار کی جاری کردہ رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئےایف بی آر کو ہدایت کی کہ خبر میں درج معلومات کی صداقت پر رپورٹ ایک ہفتے میں اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) کے دفتر کے ذریعے پیش کی جائے۔ گزشتہ ماہ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ میں مختلف فورمز پر زیر التواء قانونی چارہ جوئی کی تفصیلات سامنے آئیں۔ یہی اعداد و شمار 22 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی زیر صدارت اجلاس میں شیئر کیے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو کے تقریباً 80 فیصد ٹیکس وصولی کے ادارے کے اندرونی فورمز، جیسے کلکٹر کمشنرز اور اپیلٹ ٹربیونلز میں زیر التوا تھے۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 25 جنوری تک مجموعی طور پر 90,426 ٹیکس کیسز مختلف فورمز پر زیر التوا تھے جن میں 3,303,740 ملین روپے کے ریونیو کلیمز شامل تھے۔ 3.5 ٹریلین روپے میں سے 2556 ارب روپے کے ٹیکس کلیمز اپیلٹ ٹربیونلز اور کلکٹر کمشنرز میں زیر التوا تھے۔ اپیلٹ ٹربیونلز میں کل 58,937 معاملات زیر التوا تھے جن میں 950 ارب روپے ٹیکس ریونیو شامل تھا۔ کلکٹر کمشنرز میں 19 ہزار 523 کیسز زیر التوا تھے جن میں ایف بی آر نے 1606 ارب روپے ٹیکس ریونیو کلیمز شامل ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں ریونیو کلیمز تقریباً 410 ارب روپے ٹیکس ریونیو کے دعوے اعلیٰ عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ میں کل 2959 کیسز زیر التوا تھے جن میں 72.208 ارب روپے ٹیکس ریونیو شامل تھا، آئی ایچ سی میں ایف بی آر کے 1,298 کیسز زیر التوا تھے جن میں 232.66 بلین روپے کے ٹیکس کلیمز شامل تھے۔ سندھ ہائی کورٹ میں 2238 کیسز زیر التوا تھے جن میں 195.49 ارب روپے ٹیکس ریونیو شامل تھا، آئی ایچ سی میں ایف بی آر کے 1,298 کیسز زیر التوا تھے جن میں 232.66 بلین روپے کے ٹیکس کلیمز شامل تھے۔ لاہور ہائی کورٹ میں 5,133 مقدمات میں کل 234.71 ارب روپے کے ٹیکس دعوے زیر التوا تھے جبکہ پشاور ہائی کورٹ میں 317 مقدمات زیر التوا تھے جن میں ایف بی آر نے 76.04 ارب روپے ٹیکس ریونیو کا دعویٰ کیا تھا، بلوچستان ہائی کورٹ میں ایف بی آر کے 21 مقدمات زیر التوا تھے جن میں 4 ارب روپے ٹیکس ریونیو کا دعویٰ کیا گیا تھا زیر التواء قانونی چارہ جوئی کے کسٹم کیسز کی تفصیلات کے بارے میں حکومت نے بتایا کہ کل 17,642 کیسز زیر التوا ہیں جن میں محکمہ کی جانب سے 273.67 بلین روپے ٹیکس ڈیوٹی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں کسٹم کے 1434 کیسز زیر التوا ہیں جن میں سرکاری خزانے کے 10 ارب روپے شامل ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں 568 کیسز زیر التوا تھے جن میں سرکاری خزانے کے 7.7 ارب روپے ملوث تھے جبکہ لاہور ہائیکورٹ میں 583 کیسز زیر التوا تھے جن میں 1.3 ارب روپے کے ٹیکس کلیمز شامل تھے۔ بی ایچ سی میں 110 کیسز زیر التوا تھے جن میں ایف بی آر نے 68 ملین روپے ٹیکس ڈیوٹی کا دعویٰ کیا تھا۔ کلکٹر اپیلوں میں 718 کیسز زیر التوا تھے جن میں 6.2 ارب روپے ٹیکس ریونیو شامل تھا۔ کسٹم اپیلٹ ٹربیونلز میں 4640 کیسز زیر التوا تھے جن میں 82 ارب روپے کی ٹیکس ڈیوٹی شامل تھی۔
داعش اور ٹی ٹی پی پاکستان کیلئے بڑا خطرہ ہے،سلیم صافی پشاور دھماکے پر ہر آنکھ اشکبار ہے، دہشت گردی کے اس واقعے کی تحقیقات جاری ہے، سانحے پر جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں سینیر تجزیہ کار سلیم صافی سے گفتگو کی گئی، میزبان شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ تحقیقات جاری ہیں،وزیرداخلہ نے اسے سازش قرار دیا ہے، آپ کا کیا خیال ہے۔ سلیم صافی نے جواب دیا کہ مغربی بارڈر پر دو طرح کے عناصر ہیں ، ٹی ٹی پی اور داعش، انہیں افغان طالبان روک رہے ہیں ،پاکستان میں کاروائی نہیں کرنے دے رہے اگر انہیں پاکستان کی طرف چھوڑا گیا تو پاکستان میں دہشت گردی کے حالات 2014 سےبھی خراب ہو سکتے ہیں۔ سلیم صافی نے بتایا کہ ٹی ٹی پی چھوٹی چھوٹی کارروائیاں کررہی ہے، روزانہ خیبرپختونخوا میں ٹی ٹی پی کی جانب سے سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے،ٹی ٹی پی نے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں کو ڈیویژنز کو اپنے صوبے بناکر ان کیلئے منتظمین اور امرا کا تقرر بھی کردیا ہے۔ سینیر تجزیہ کار نے داعش کے حوالے سے بتایا کہ تو افغانستان میں داعش کا کنٹرول تھا لیکن افغان طالبان بھی ان کے جیسے ہی ہیں تو ان کو کارروائیاں کرنے نہیں دے رہے، افغان طالبان نے داعش کیلئے جگہ بہت کم چھوڑی ہے،داعش کی مستقبل میں جتنی کارروائیاں ہونگی وہ پاکستان میں ہونگی۔ سلیم صافی نے خدشہ ظاہر کیا کہ داعش نے اب تک پشاور دھماکے کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی لیکن لگتا ہے کہ دھماکا داعش نے ہی کیا ہے، ٹی ٹی پی بھی پاکستان کیلئے خطرہ ہے، اور بدقسمتی سے ہماری حکومت کے پاس دونوں تنظمیوں سے نمٹنے کیلئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا۔ میزبان کی جانب سے خیبرپختونخوا کے عوام کو بھتے کی پرچیاں دوبارہ ملنے لگی ہیں، جس پر سلیم صافی نے جواب دیا کہ شاید ہی کوئی صاحب سرور شخص ہو جس کو بھتے کی پرچی نہ ملی ہو۔ سلیم صافی نے واضح کیا کہ پاکستان میں یہ کہا جارہا تھا کہ ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی کا آپس میں تعلق نہیں، ٹی ٹی پی بری اور ٹی ٹی اے اچھی ہے،آج ان لوگوں سے کوئی نہیں پوچھ رہا آج بھی دفاعی تجزیہ کار بنے قوم کو گمراہ کررہے ہیں،ٹی ٹی پی تو ٹی ٹی اے کے ذریعے ہی ڈیل کیا جاسکتا ہے،کیونکہ وہ ان کی ہی بات سنتے ہیں،مرکزی سطح پر ٹی ٹی پی سے کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے مقامی سطح پر ہی ان سے نمٹا جارہاہے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایمان مزاری کی دائر درخواست پر سماعت میں احکامات جاری کرتے ہوئے پولیس کو ایمان مزاری و دیگر کی گرفتاری سے روک دیا۔ عدالت نے ہدایت دی کہ ایف آئی آر کی کاپی درخواست گزار کو دی جائے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی دائر درخواست پر سماعت کی جس میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس کو پیر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احکامات جاری کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی کہ ایف آئی آر کی کاپی درخواست گزار کو بھی دیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ قائداعظم یونیورسٹی کا طالب علم لاپتہ ہوا جس کے لیے احتجاج کیا جارہا تھا، طلبا کے مظاہرے پر پولیس کی جانب سے طاقت کا استعمال کیا گیا، احتجاج کے دوران پولیس آپریشن میں درجنوں طالب علم زخمی ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کے طلبا کو تو سننا چاہیے، بلوچ طلبا کی آواز دبانے والوں کے خلاف بغاوت کے پرچے ہونے چاہییں۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری نے اپنے خلاف درج کیا گیا مقدمہ عدالت میں چیلنج کیا تھا، ایمان مزاری کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں ایف آئی آر کی کاپی فوراً فراہم کرنے اور کارروائی معطل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم کی جبری گمشدگی کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کے باہر زیرِ تعلیم بلوچ طلباء نے احتجاجی کیمپ لگایا جس میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤں، ایم این اے محسن داوڑ اور وفاقی وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری بلوچ نے بھی شرکت کی۔ اس احتجاج کے خلاف وفاقی وزیر شریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری اور ایم این اے محسن داوڑ سمیت احتجاج میں شریک سینکڑوں طلبا اپنے 2 طالب علم ساتھیوں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے ایف آئی آر سیل کر دی گئی ہے۔
بھارت میں صرف جمہوریت اور حکومت ہی نہیں بلکہ اس ملک کی صحافت کا بھی ستیاناس ہو چکا ہے، ٹی وی میزبان راہول شیو شنکر نامی صحافی نے پروگرام میں 2 غیر ملکی مہمانوں کو مدعو کیا اور ان سے روس اور یوکرین کے معاملے پر بحث کرنے لگا۔ پروگرام میں چلتے چلتے اینکر موصوف کا کسی بات پر پارہ ہائی ہو گیا اور مہمان ڈینیل مکیڈم جو کہ پال انسٹی ٹیوں کے ہیڈ ہیں ان پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے لگا، راہول شیو شنکر مہمان کا نام لے لے کر اسے ٹوکتا اور اسے بات کرنے کا موقع بھی نہ دیتا۔ تفصیلات کے مطابق اینکر 2 منٹ تک جس پر گرمی نکال رہا تھا اس بیچارے مہمان نے تو ابھی ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا۔ جس پر ڈینیل مکیڈم جو کہ ایک دوسرا مہمان تھا اس نے اپنی صفائی پیش کی اور اینکر کو کہا کہ وہ اس پر کیوں چیخ رہا ہے اس بیچارے نے تو ابھی تک ایک حرف بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا۔ دراصل راہول شیو شنکر جو کہ ٹی وی پر صحافت اور فصاحت و بلاغت کا چیمپئن بن رہا تھا وہ اپنے مہمانوں کے ناموں سے ہی لاعلم تھا اور کسی کا نام لیکر کسی دوسرے کو ڈانٹتا رہا جبکہ جس کا نام لے رہا تھا اس بیچارے نے تو کچھ بولا ہی نہیں تھا۔ اینکر نے بات بوہڈن نہائیلو سے کرنی تھی جو کہ یوکرین کے کیو پوسٹ نامی اخبار کا چیف ایڈیٹر تھا تاہم وہ ڈینیل مکیڈم کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا رہا جس پر وہ مہمان سیخ پا ہو گیا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے اس پر ہنسی کا تاثر دیا۔ اس پر جویریہ نامی صارف نے کہا کہ جب ارنب گوسوامی نے سرینا ہوٹل کے پانچویں فلور کا دعویٰ کیا تھا تب مجھے لگا تھا کہ اب اس سے برا بھارتی صحافی کیا کر سکتے ہیں مگر آپ اسے دیکھیں۔ روہنی سنگھ نے کہا کہ اس سے مضحکہ خیز اور کیا ہو سکتا ہے۔ سٹینلی پگنل نے کہا کہ یہ تو کمال ہے جب تک پتہ نہیں چلا کہ غلطی کیا تھی تب تک کسی بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔ انہوں نے چینل اور بھارتی صحافت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اس قسم کا چھچھورپن صرف بھارتی نیوز چینلوں پر ہی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ پاکستانی نژاد برطانوی صحافی احتشام الحق نے کہا کہ وہ اس پروگرام کی پوری ٹیم کو ملنا چاہتے ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران پڑوسی ملک ہیں جو کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔ تفصیلات کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی جریدے اٹلانٹک ایک خصوصی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے سعودی عرب کے اندر آنے والی تبدیلیوں اور خارجہ پالیسیوں سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کا اظہار کیا۔ انٹرویو کے دوران محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ 4 ماہ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، ہم ایران کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے دروازے کھلے رکھیں گے، امیدہے کہ دونوں ملک روشن مستقبل کی خاطر اتفاق پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شرعی طور پر ریاست کا سربراہ فتووؤں پر عمل درآمد کروانے کا پابند ہوتا ہے کسی مفتی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے، سعودی حکومت نے قرآن مجید میں متعین گروہ کے علاوہ سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد روک دیا ہے، ہمارا نصب العین ہے کہ اصل اسلام کی طرف جایا جاسکے، سعودی عرب میں اس وقت کسی بھی مذہبی نقطہ نظر کی اجارہ داری نہیں ہے۔ محمد بن سلمان نے کہا کہ امریکہ میں سعودی سرمایہ کاری 800ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے، اس وقت سعودی عرب کا شمار تیز ترین معیشت رکھنے والے ممالک میں کیا جاتا ہے، ملک میں 300 سال سے بادشاہت قائم ہے اس کو ایسے ہی ختم نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی علی نواز اعوان کی جانب سے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں الزامات لگانے پر خاتون اینکر وسینئر صحافی نے ہتک عزت کا قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عاصمہ شیرازی نے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ علی نواز اعوان جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد الزامات پر 14 دن کے اندر معافی مانگیں، ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یاد رہے کہ 28 فروری کو وزیراعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان نے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران سینئر صحافی عاصمہ شیرازی پر پیسے لے کر کالم لکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ پیسے لیکر حکومت کے خلاف کالم لکھتی ہیں۔ اس الزام پر عاصمہ شیرازی نے حکومتی ایم این اے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا تھا تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے پروگرام میں سوال اٹھایا تھا کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں صحافیوں پر پیسے لے کر گند لکھنے کا الزام لگایا ہے اگر اس بنیاد پر وزیراعظم کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ درج کرایا جائے تو کیا وزیراعظم الزام ثابت کر پائیں گے؟ جواب میں علی نواز اعوان نے سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کے کالم کا حوالہ دے کر ان پر پیسے لے کر کالم لکھنے کا الزام عائد کیا۔ سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کی طرف سے وکلا نگہت داد، ایمان زینب مزاری حاضر اور ثاقب جیلانی ایڈووکیٹ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان کو ہتک عزت کا نوٹس بھیجا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی نے سانحہ 12 مئی پر قوم سے معافی مانگ لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی نےکوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے وکلاء کی یاد میں رکھی گئی ایک تقریب میں شرکت کی، اس موقع پر جاں بحق وکلاء کیلئے فاتحہ خوانی کی اور بعد میں وکلاء سے خطاب بھی کیا۔ خطاب کے بعد تقریب میں شریک ایک وکیل نے خالد مقبول صدیقی سے سوال کیا کہ12 مئی 2007 کو کراچی میں آپ نے بطور اتحادی وفاقی حکومت کا اور اس وقت کے صدر پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا ، بطور اتحادی آپ پر بھی وہ داغ لگا ہے ، کیا آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟ اس سوال ک جواب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جی بالکل ہماری جماعت پر بھی داغ لگا اس کیلئے ایم کیو ایم کو اس معاملے پر معافی بھی مانگنی چاہیے تو میں آپ سب سے معافی مانگتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم فساد پھیلانے نکلتی تو اپنے ہمراہ خواتین اور بچوں کو لے کر نہیں نکلتی، ہم استعمال ہوئے تھے اور اسی لیے ہم شرمسار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بانی ایم کیو ایم سے علیحدگی کسی دباؤ میں آکر نہیں کی بلکہ یہ الطاف حسین کے پاکستان مخالف نعروں کی وجہ سے کی تھی۔ یادرہے کہ 12 مئی 2007 کو اس وقت کے معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری صدر مملک پرویز مشرف کے خلاف کراچی سے ایک احتجاجی تحریک شروع کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ 12 مئی کو کراچی پہنچے تھے مگر ان کے دورے کے دوران کراچی میں ایم کیو ایم کی جانب سے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے درمیان تصادم سے تقریبا48 لوگ جاں بحق ہوگئے تھے۔
دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں کو امریکا لے جانے والا بحری جہاز پرتگال کے قریب بحر اوقیانوس میں ڈوب گیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پورشے، لمبورگینی اور اوڈی جیسی بیش قیمت گاڑیوں کو امریکہ پہنچانے والا بحری جہاز میں پرتگال کے ایزورس جزائر کے قریب آگ بھڑک اٹھی، شدید آتشزدگی کے باعث جہاز گاڑیوں سمیت سمندر برد ہوگیا۔ پرتگال کی نیوی نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جہاز میں 13 روز قبل آگ بھڑک اٹھی تھی جس پر قابو پانے اور جہاز کو کھینچنے کی کوشش کی جارہی تھی، تاہم پرتگلا کی سمندری حدود سے باہر یہ جہاز ڈوب گیا ۔ پرتگالی حکام کے مطابق جہاز میں آگ لگنے کےبعد اس میں سوار 22 رکنی عملے کو بحفاظت باہر نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جہاز میں اوڈی، پورشے، لمبورگینی جیسی مہنگی گاڑیوں کو لے جایا جارہا تھا تاہم گاڑیوں کی تعداد کے حوالے سے ابھی تک مستند معلومات سامنے نہیں آسکی ہیں، دوسری جانب اس جہاز سے متعلق یہ معلومات بھی سامنےآ ئی ہیں کہ اس میں تقریبا 4ہزار کے قریب گاڑیوں کو ٹرانسپورٹ کرنے کی صلاحیت ہے۔ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے بھی اپنی تیار کردہ گاڑیوں کے نقصان اور تباہ ہونے والی کاروں کی تعداد کے حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اہم پالیسیوں کو بین الاقوامی سطح پر سراہے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 193 رکن ممالک کے ووٹوں سے گوبل ماحولیاتی کابینہ کا رکن منتخب ہوا، عالمی ماحولیاتی اسمبلی کی کابینہ کیلئے پاکستان کا انتخاب آئندہ 2 سال کیلئے کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس انتخاب کے بعد وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم کو اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی کا نائب صدر منتخب کیا گیا ہے، اس کے بعد پاکستان عالمی ماحولیاتی پالیسی تیار کرنےو الا ملک ہوگا۔ ماحولیاتی اسمبلی کے دیگر نائب صدور میں برطانیہ، پرتگال، برازیل، سینیگال اور سلواکیہ کے وزراء شامل ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو یہ اعزاز ملنے پر مسرت کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کیلئے یہ ایک عظیم کامیابی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار حامد میر نے وزیراعظم عمران خان اور وزیراطلاعات فواد چوہدری کو چینلج کرتے ہوئے کہا کہ میں بتاتا ہوں کہ آپ کی حکومت نے کون کون سے یوٹیوبر کو بڑے بڑے عہدے دیئے،نوٹیفکیشن باقاعدہ جاری کئے، پھر جب وہ وہاں نہیں چل سکے تو آپ نے ان کو بڑے بڑے چینلز پر بھرتی کروادیا۔ حامد میر نے کہا کہ وہ سب بھرتی کئے ہوئے آپ کی پارٹی اور حکومت کے پے رول پر کام کررہے ہیں،اور آپ ان کو پیسے دیتے ہیں،حامد میر نے واضح کیا کہ میں الزام نہیں لگارہا بلکہ دعویٰ کررہا ہوں، اور میں دونوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ مجھے غلط ثابت کریں۔ حامد میر نے کہا کہ آپ کہتے ہیں پیکا آرڈیننس دوہزار سولہ میں بنا تھا، تو اس وقت آپ نے کہا تھا یہ فاشسٹ قانون ہے،اس وقت آپ نے ہماری آواز میں آواز ملائی تھی،ہم نے بھی اس وقت کہا تھا یہ فاشسٹ قانون ہے،اب اس فاشسٹ قانون کو ترمیم کرکے آگے بڑھارہے ہیں،اس کا مطلب یہ ہوا آپ بھی ایک فاشسٹ قانون کو مزید فاشسٹ بنا ریے ہیں۔ دوسری جانب حکومت پیکا آرڈینسس واپس لینے کیلئے مشروط تیار ہوگئی ہے،فیصلے کا مینڈیٹ پرویزالہٰی کو دیا گیا ہے، وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر کامل یقین رکھتی ہے، موثر ریگولیشن پرکام کر رہے ہیں،اسپیکر پنجاب اسمبلی نے لاہور ملاقات میں پیکا قانون پر میڈیا پارٹیز کے تحفظات سے آگاہ کیا،پرویز الہی اور میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان جو بھی معاملات طے ہوں گے حکومت ان پرعملدرآمد کرے گی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں یوکرین پر روسی حملے کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔ رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے جنرل اسمبلی اجلاس خصوصی اجلاس طلب کیا گیا۔ واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے 1982 کے بعد جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس پہلی بار طلب کیا ہے۔ اس اجلاس میں یوکرین پر روسی حملے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی جس میں روس سے جنگ بندی اور افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت کی گئی ہے۔ جنرل اسمبلی کے 193 ارکان میں سے 141 نے روس کے خلاف قرارداد کی حمایت کی جبکہ روس، بیلاروس، شام اور شمالی کوریا سمیت 5 رکن ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی۔ یہی نہیں پاکستان، چین، بھارت اور ایران سمیت 35 ممالک نے ووٹ اس قرارداد کیلئے ووٹ ہی نہیں دیا۔ واضح رہے کہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد لازمی نہیں ہوتا تاہم اُن کا سیاسی وزن ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سے اب تک یوکرینی دارالحکومت کیف سمیت کئی شہر روسی افواج کے محاصرے میں ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپ نے روس پر مالی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ امریکا نے روسی شخصیات کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ روس کی رکنیت ختم کر دے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے بتایا کہ روس یوکرین میں اپنی جارحیت بڑھانے کیلئے تیار ہے، انہوں نے ارکان ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرین میں ہونے والی عالمی خلاف ورزیوں پر روس کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ انہوں نے روس کی یوکرین میں بھارتی ہتھیاروں کی ویڈٰو کا حوالہ دیا کہ وہاں کلسٹربموں سمیت ایسے ہتھیار منتقل کیے جا رہے ہیں جن پر عالمی قوانین کے مطابق پابندی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے آئندہ 48 گھنٹوں میں بڑی خوشخبری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت میں ہوتے تحریک آئی تودیکھ لیں گےیہ کہاں کھڑے ہیں اورہم کہاں ہیں، تحریک عدم اعتماد آنے دیں کوئی پرواہ نہیں ہم تگڑے ہیں۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے فوادچوہدری نے کہا کہ مولانا ایسی خوشخبریاں پہلے بھی کئی بار سنا چکے ہیں اپوزیشن کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ عدم اعتماد لاسکیں۔ اپوزیشن کے پاس نمبرز پورے ہوتے تو تحریک آ چکی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے وزیراعظم کا امیدوار کون ہے ایک کہتا ہے الیکشن کرادیں دوسرا کہتا ہے ہمیں ڈیڑھ ڈیرھ سال ملیں اپوزیشن ایک ڈرامہ ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات نے واضح کیا کہ پرویزالٰہی نے کہا ہم آپ کے اتحادی ہیں پرویزالٰہی سے آج صبح بھی بات چیت ہوئی ہے پہلے بھی ساتھ الیکشن لڑے تھےآئندہ بھی لڑیں گے، ق لیگ اتحادی ہےاس لئےتوچیمہ صاحب وزیر ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آئندہ 48 گھنٹوں کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا دعویٰ کیا ہے کہ بڑی خوشخبری آجائے گی اپوزیشن نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اگلے2 سے 3 دن بہت اہم ہیں انہوں نے اس کے ساتھ خوشخبری کا بھی عندیہ دیا ہے۔ سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ آصف زرداری اور نوازشریف سے مسلسل رابطےمیں ہوں تحریک عدم اعتماد اور اجلاس کی ریکوزیشن دونوں پر غور ہو رہا ہے ہماری لیگل ٹیم رابطے میں ہے سارےامور کو دیکھا جا رہا ہے حکومتی اتحادیوں سے بھی ہم سب رابطے میں ہیں۔
رکن پنجاب اسمبلی اور رہنما مسلم لیگ ن حنا پرویز بٹ کی حکومت کے "کامیاب جوان" پروگرام کے اشتہار پر شدید تنقید ، وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل کا ردعمل سامنے آگیا۔ تفصیلات کے مطابق ن لیگی رہنما حنا پرویز بٹ نے حکومت کے "کامیاب جوان" پروگرام کے اشتہار پر شدید تنقید کرتے ہوئےاپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ نیازی صاحب یہ پیسہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے آپکے والد صاحب کا نہیں جو اپنی پارٹی کے جھنڈے کی تشہیر کر رہے ہیں۔ ن لیگی رہنما نے اپنی ٹوئٹ میں حکومت سے جاری کردہ کامیاب جوان کا نیا اشتہار بھی شیئر کیا۔ رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ کی ٹوئٹ پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے معاونِ خصوصی شہباز گل نےاپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ کہاوت ہے کہ خدا لاٹھی نہیں مارتا ، مت مارتا ہے، یہ کہاوت کتنی ٹھیک ہے آپ ان محترمہ کے ٹویٹ اور شیئر کردہ تصویر سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شہباز گل نے مزید کہا کہ لیٹرینوں اور لوٹوں پرتصویریں لگانے، آٹھ آٹھ کیمپ آفس 70 کروڑ کی دیواریں قومی خزانے سے بنانے والوں کولال اور ہرا رنگ بھی برا لگنے لگا ہے ۔ واضح رہے کہ حکومت نے کامیاب جوان کاروباری قرضوں کے پروگرام کے لیے 39 ارب روپے کی منظوری دی جس سے آسان شرائط پر قرضوں کے لیے اہل 25 ہزار 700 نوجوان مستفید ہوسکیں گے۔ پہلے مرحلے میں اس اسکیم کو 10 ہزار ٹریکٹرز تک بڑھایا جائے گا، حکومت نے پروگرام کے تحت آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے ہیں اور تقریباً 3 ہزار نوجوان آنٹرپرینیورز (کاروبار کا آغاز کرنے والے) کو ماہانہ 3 سے 4 ارب روپے فراہم کر رہے ہیں جسے 8 سے 10 ارب روپے تک بڑھایا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان دوستی اور تناؤ کا ذکر تو چلتا ہی رہتا ہے، اس حوالے سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اظہار خیال کردیا، اے آر وائی نیوز کے مطابق پروگرام ”الیونتھ آور“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نےجہانگیر ترین پہلے کہتے تھے عمران خان کے ساتھ ہوں مگر اب خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین نے کچھ جگہوں پر رابطے بھی کیے وقت ہی بتائے گا، جہانگیر ترین کو پارٹی سے نہیں نکالا،جہانگیر ترین بیمار ہیں،شوکت خانم میں بھی زیرِ علاج رہے، وزیر اعظم نے تیمارداری کے لیے جہانگیر ترین فون کیا ہے تو ہرج نہیں، وزیر اعظم اور جہانگیر ترین کا قریبی تعلق رہا ہے۔ اپوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ خارجہ پالیسی ہو یا معیشت ہر میدان میں بہترین جا رہے ہیں، اپوزیشن نہیں ہمارا چیلنج مہنگائی ہے جس پر توجہ دی گئی، کچھ عرصہ سے پیکج تیار کر رہے تھے جس کا وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا، عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، عالمی سطح پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں، متوسط طبقے کو ریلیف دینے کے لیے مربوط پلان پرعمل کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم نے اسمبلی اور کابینہ میں وزارت خارجہ کی تعریف کی، ارباب شہزاد نے جو معیار بنایا ہے اس پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن چوہدری شجاعت کے پاس گئی لیکن انہوں نے کچھ حاصل نہیں کیا، مسلم لیگ ق نے آج بھی بتا دیا کہ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے ہیں، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن ممبران نے ہمیں سپورٹ کیا، امید ہے اپوزیشن کے ممبران ہماری سپورٹ کرتے رہیں گے، سیاست میں روابط بحال ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولینڈ اور یوکرین کے وزیر خارجہ سے بات چیت ہوئی، رومانیہ اور برطانیہ کے وزیر خارجہ سے بھی گفتگو ہوئی، اقوام متحدہ میں ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا جا رہا ہے، وزیر اعظم عمران خان سے عالمی صورتِ حال پر مشاورت ہے۔
سماء نیوز کے مطابق ایرانی کوکنگ آئل کراچی کی مارکیٹ میں نہ صرف قدم جما رہا ہے بلکہ اس نے پاکستانی مارکیٹ کو ہائی جیک کر لیا ہے اور کراچی شہر میں ہر طرف غیرقانونی اسمگلڈ ایرانی کوکنگ آئل بک رہا ہے۔ یہ آئل بلوچستان کے مختلف راستوں سے اداروں کی پلکوں کے سائے میں کراچی لایا جا رہا ہے۔ سماء کا دعویٰ ہے کہ لیاری کا غریب شاہ روڈ اس وقت کراچی والوں کے لیے غریب نواز روڈ بنا ہوا ہے مگر اس غریب نوازی کی بہت بھاری قیمت ملکی معیشت اور قومی خزانے کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ کیونکہ ایران سے پاکستان کی سمندری اور زمینی حدود میں اسمگل ہوکر آنے والے کوکنگ آئل کی کراچی میں سب سے بڑی پرچون مارکیٹ لیاری کا یہی بازار ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والے برانڈ کے مقابلے میں 30 سے 40 فیصد سستا ہونے کی وجہ سے کراچی کے کونے کونے سے لوگ غریب شاہ روڈ پہنچ رہے ہیں۔ ایک ایرانی آئل ڈیلر کا کہنا ہے کہ اس میں عوام کا فائدہ ہے کیونکہ کسٹم ڈیوٹی نہ ہونے کی وجہ سے یہ آئل سستا ہے۔ مارکیٹ اطلاعات کے مطابق پاکستانی تیل کا 5 کلو کا ڈبہ 22 سے 23 سو روپے کا ہے جبکہ ایرانی تیل کا ڈبہ 1500 روپے کا ہے۔ ایران سے پاکستان کی سمندری حدود سے گزر کر بلوچستان سمگلنگ کا گیٹ وے ان دنوں جیونی ساحل بنا ہوا ہے کیونکہ کسٹمز حکام نے قومی خزانے کو چونا لگانے کے لیے اسمگلرز کو سہولت دے رکھی ہے یقینا یہ سہولت مفت میں نہیں ملتی۔ جیونی ساحلی کے علاقہ کنٹانی میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی رفتار اتنی تیز ہے کہ دن میں تقریباً ہر ایک منٹ بعد تیل سے لدی ایک کشتی پہنچ رہی ہوتی ہے ۔ کنٹانی ساحل پر ہی بڑے بڑے زیرزمین ٹینک بنے ہوئے ہیں جہاں لانچوں کے ذریعے آنے والا تیل جمع کیا جاتا ہے۔ کسٹمز کی طرح سمندری حدود کی سیکیورٹی اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے ذمہ دار دیگر اداروں کو بھی ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے منظم کاروبار سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ جب پاکستانی آئل اینڈ گھی مینوفیکچررز نے ایرانی تیل اور اس تیل کی دھار کی ایسی روانی دیکھی تو انہوں بھی اس بہتی گنگا سے صرف ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ پانچوں انگلیوں کے ساتھ سر بھی ایرانی تیل کی کڑھائی میں ڈال دیا ہے۔ پاکستانی کوکنگ آئل کی ایک فیکٹری میں ایران سے اسمگلڈ کوکنگ آئل کے ڈرموں کے ڈھیر لگے ہیں ۔ جنہیں مقامی برانڈ کے لیبلز میں پیک کر کے بیچ دیا جاتا ہے۔ ٹیکس چوری کرکے قومی خزانے کا چونا لگانے والی یہ واحد کمپنی نہیں ہے۔ آئل ڈیلر کا کہنا ہے کہ بہت سی پاکستانی کمپنیاں اپنی پیکنگ میں ایرانی مال بیچ کر 3 گنا زیادہ منافع کما رہے ہیں۔ سما کی جانب سے اسمگلڈ تیل بیچنے سے متعلق غریب شاہ روڈ کے پرچون دکانداروں سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بازار میں تو معمولی پرچون فروش ہیں ، کارروائی کرنی ہے تو یوسف گوٹھ میں ہونی چاہیے جو ایرانی تیل کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں خوردنی تیل کی سالانہ کھپت 42 لاکھ ٹن ہے جس میں سے 38 لاکھ درآمد کیا جاتا ہے جبکہ 4 لاکھ مقامی سطح پر کاٹن سیڈ سے تیار کیا جاتا ہے۔ ایرانی تیل کی اسمگلنگ تقریبا 3 لاکھ ٹن سالانہ سے زائد ہے اور اس کی شرح مسلسل بڑح رہی ہے۔ اگر ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے متعلق آئل اینڈ گھی مینوفیکچررز کے دعوے کو درست مان لیا جائے تو اس سے قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں تقریبا 30 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایرانی تیل کے ساتھ چاکلیٹس، بسکٹس اور دیگر مصنوعات بھی غریب شاہ روڈ کی دکانوں میں موجود ہیں۔
یوکرین میں پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ روسی حملوں کے بعد پاکستانی شہریوں کو نکالنے کا پروگرام تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یوکرین میں پاکستانی سفیر نوئل کھوکھر نے نجی خبررساں ادارے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 1ہزار سے زائد پاکستانیوں کو یوکرین سے نکالا جاچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی شہریوں کے انخلا کا عمل تقریباً مکمل ہوچکا ہے، صرف 21 پاکستانی یوکرین کے مختلف بارڈرز کے انٹری پوائنٹس پر موجود ہیں جنہیں جلد نکال لیا جائے گا۔ یوکرین میں پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ ان کے علاوہ 50 سے 60 پاکستانی ایسے ہیں جو ترنوپل کے قریب ہیں جبکہ کچھ ترنوپل پہنچ بھی چکے ہیں، ان تمام لوگوں کو اگلے ایک سے 2 روز میں یوکرین سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انخلا کا عمل تقریبا مکمل ہے، مگر پھر بھی رومانیہ ، لویو، ترنوپل اور لویو کے بارڈر پر موجود رہیں گے تاکہ اگر کوئی پاکستانی پیچھے رہ گیا ہو تو انہیں نکالنے کے بھی انتظامات کیے جائیں۔

Back
Top