The Story Of Appreciation !!!

canadian

Chief Minister (5k+ posts)
bismillah.jpg



In the name of Allah, the Most Beneficent, The Most Merciful


RahmatullahWa Barakatahu

The "Story of Appreciation" may be someone's wishful thinking but it carries a powerful message for our modern society.



**Story of Appreciation**
One young academically excellent person went to apply for a managerial position in a big company. He passed the first interview, the director did the last interview, made
the last decision.

The director discovered from the CV that the youth's academic achievements were excellent all the way, from the secondary school until the postgraduate research, never had a year when he did not score.

The director asked, "Did you obtain any scholarships in school?" the youth answered "none".

The director asked, " Was it your father who paid for your school fees?" The youth answered, "My father passed away when I was one year old, it was my mother who paid for my school fees.

The director asked, " Where did your mother work?" The youth answered, "My mother worked as clothes cleaner.
The director requested the youth to show his hands. The youth showed a pair of hands that were smooth and perfect.


The director asked, " Have you ever helped your mother wash the clothes before?" The youth answered, "Never, my mother always wanted me to study and read more books. Furthermore, my mother can wash clothes faster than me.

The director said, "I have a request. When you go back today, go and clean your mother's hands, and then see me tomorrow morning.*

The youth felt that his chance of landing the job was high. When he went back, he happily requested his mother to let him clean her hands. His mother felt strange, happy but with mixed feelings, she showed her hands to the kid.

The youth cleaned his mother's hands slowly. His tear fell as he did that. It was the first time he noticed that his mother's hands were so wrinkled, and there were so many bruises in her hands. Some bruises were so painful that his mother shivered when they were cleaned with water.

This was the first time the youth realized that it was this pair of hands that washed the clothes everyday to enable him to pay the school fee. The bruises in the mother's hands were the price that the mother had to pay for his graduation, academic excellence and his future.

After finishing the cleaning of his mother hands, the youth quietly washed all the remaining clothes for his mother.

That night, mother and son talked for a very long time.

Next morning, the youth went to the director's office.

The Director noticed the tears in the youth's eyes, asked: " Can you tell me what have you done and learned yesterday in your house?"

The youth answered, " I cleaned my mother's hand, and also finished cleaning all the remaining clothes'

The Director asked, " please tell me your feelings."

The youth said, Number 1, I know now what is appreciation. Without my mother, there would not the successful me today. Number 2, by working together and helping my mother, only I now realize how difficult and tough it is to get something done. Number 3, I have come to appreciate the importance and value of family relationship.

The director said, " This is what I am looking for to be my manager. I want to recruit a person who can appreciate the help of others, a person who knows the sufferings of others to get things done, and a person who would not put money as his only goal in life. You are hired.

Later on, this young person worked very hard, and received the respect of his subordinates. Every employee worked diligently and as a team. The company's performance improved tremendously.

A child, who has been protected and habitually given whatever he wanted, would develop "entitlement mentality" and would always put himself first. He would be ignorant of his parent's efforts. When he starts work, he assumes that every person must listen to him, and when he becomes a manager, he would never know the sufferings of his employees and would always blame others. For this kind of people, who may be good academically, may be successful for a while, but eventually would not feel sense of achievement. He will grumble and be full of hatred and fight for more. If we are this kind of protective parents, are we really showing love or are we destroying the kid instead?*

You can let your kid live in a big house, eat a good meal, learn piano, watch a big screen TV. But when you are cutting grass, please let them experience it. After a meal, let them wash their plates and bowls together with their brothers and sisters. It is not because you do not have money to hire a maid, but it is because you want to love them in a right way. You want them to understand, no matter how rich their parents are, one day their hair will grow gray, same as the mother of that young person. The most important thing is your kid learns how to appreciate the effort and experience the difficulty and learns the ability to work with others to get things done.

You would have forwarded many mails to many and many of them would have back mailed you too...but try and forward this story to as many as possible...this may change somebody's fate...

----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Courtesy: [email protected]; on behalf of; Fatima Shah [[email protected]]
 

billo786

Senator (1k+ posts)
تجربہ تو کرنے دیجیئے

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔

انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا بلکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔


مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟


نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔


مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟


نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔


مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔


مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟


نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔


مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔


نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔


گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔


نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔


نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔


ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔ وہ رات اُس نے ماں کے ساتھ باتیں کرتے گُزاری، تھوڑے سے کپڑے دھونے سے اُسکا جسم تھکن سے شل ہو گیا تھا۔ سارا سارا دن بغیر کوئی شکوہ زبان پر لائے کپڑے دھونے والی ماں سے باتیں کرنا آج اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا، دِل تھا کہ کسی طرح بھی باتوں سے بھر نہیں پا رہا تھا۔


دوسرے دِن اُٹھ کر نوجوان دوبارہ اُس کمپنی کے دفتر گیا، مُدیر نے اُسے اپنے کمرے میں ہی بُلا لیا۔ نوجوان کے چہرے سے اگر جگ راتے کی جھلک نُمایاں تھی تو آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کسی ندامت اور افسردگی کی کہانی سُنا رہی تھی۔


مُدیر نے نوجوان سے پوچھا، کل گھر جا کر تُم نے کیا کیا تھا؟


نوجوان نے مختصرا کہا کہ کل میں نے گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوئے تھے اور پھر اُس کے باقی بچے ہوئے کپڑے بھی دھوئے تھے۔


مُدیر نے کہا میں تمہارے محسوسات کو پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سُننا چاہتا ہوں۔


نوجوان نے کہا: کل مُجھے لفظ قُربانی کے حقیقی معانی معلوم ہوئے۔ اگر میری امی اور اُسکی قُربانیاں ناں ہوتیں تو میں آج اِس تعلیمی مقام پر ہرگز فائز نہ ہوتا۔ دوسرا میں نے وہی کام کر کے اپنے اندر اُس سخت اور کٹھن محنت کی قدر و قیمت کا احساس پیدا کیا جو میری ماں کرتی رہی تھی اور مُجھے حقیقت میں اُسکی محنت اور مشقت کی قدر کا اندازہ ہوا۔ تیسرا مُجھے خاندان کی افادیت اور قدر کا علم ہوا۔


مُدیر نے نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنی کمپنی میں موجود ادارتی منصب کیلئے ایک ایسے شخص کی تلاش تھا جو دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھنے والا ہو، دوسرے کا اِحساس کرنے والا ہو اور صرف مال کا حصول ہی اُسکا مطمعِ نظر نہ ہو۔ نوجوان تمہیں مبارک ہو، میں تمہیں اِس منصب کیلئے منتخب کرتا ہوں۔


اور کہتے ہیں کہ نوجوان نے اُس کمپنی میں بہت محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ کام کیا، دوسروں کی محنت کی قدر اور احساس کرتا تھا، سب کو ساتھ لیکر چلنا اور سارے کام مِل جُل کر ایک فریق کی حیثیت سے انجام دینا اُسکا وطیرہ تھا، اور پِھر اُس کمپنی نے بھی بہت ترقی کی۔


اِس کہانی سے اخذ کیئے گئے کُچھ نتائج ملاحظہ فرمائیے:


جِس بچے کو مُحبت اور شفقت کے علاوہ اُسکے منہ سے نکلنے والی ہر خواہش کی فوری تعمیل کے ماحول میں پرورش کی جائے وہ بچہ ہر چیز پر حقِ ملکیت محسوس کرتا ہے اور ہمیشہ اپنی خواہشات اور اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے۔


ایسا بچہ اپنے باپ کی محنت اور مشقت سے بے خبر رہتا ہے، جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو ہر کسی سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اُسکا ماتحت اور تابع فرمان ہو۔


ایسا بچہ عملی زندگی میں کسی ادارتی منصب یا ذمہ داری پر فائز ہو جائے تو اپنے ماتحتوں کا دُکھ درد اور تکلیفوں کو سمجھتا ہی نہیں اُلٹا کسی قسم کی ناکامی کی صورت میں اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے۔


دوسروں کو حقارت اور کمتر سمجھنا تو معمولی بات ہے ایسا بچہ اپنے مفادات اور کامیابیوں کیلئے دوسروں کو راستے سے ہٹانا معمولی بات سمجھتا ہے۔


دیکھ لیجیئے اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت اِسی انداز سے کر رہے ہیں تو ہمارے کیا مقاصد ہیں؟ ہم اُنکی حفاظت کر رہے ہیں یا اُن کی بربادی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں؟


ہو سکتا ہے آپکا بچہ ایک بڑے گھر میں رہتا ہو، انواع و اقسام کے اعلٰی کھانے کھاتا ہو، پیانو کی تعلیم حاصل کرتا ہو، کسی پروجیکٹر یا بڑی سکرین والے ٹیلیویژن پر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتا ہو، لیکن اگر کبھی وہ گھر کے لان کی گھاس کاٹنا چاہے تو اُسے اِس کام کا تجربہ تو کرنے دیجیئے۔


اگر وہ کھانا کھا چُکے تو اُسے بہنوں کے ساتھ یا ماں کے ساتھ باورچی خانے میں جا کر اپنی پلیٹ بھی دھونے دیجیئے۔


اِسکا یہ مطلب ہرگز نہیں بنے گا کہ آپکے پاس گھر میں خادمہ رکھنے کی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اِسکا یہ مطلب بنے گا کہ آپ اپنے بچے سے صحیح اُصولوں کے مطابق محبت کرتے ہیں۔


کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے کے اندر اِس بات کا شعور اور احساس پیدا ہو کہ اُس کے باپ نے اُس کیلئے جو دولت چھوڑ کر جانی ہے وہ آسانی سے نہیں کمائی گئی تھی جس طرح مذکورہ بالا کہانی میں نوجوان کی ماں کی محنت و مشقت والی کمائی کا ذکر ہے۔


اِن سب باتوں سے قطع نظر، آپ اپنے بچے کو ایثار اور قُربانی کا مفہوم سمجھانا چاہتے ہیں، آپ اُسے کام کی تکلیف اور مصائب و مشاکل سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔


آپ اُسے بتانا چاہتے ہیں کہ دوسروں کی محنت و مشقت کی قدر اور احساس کیا جائے تاکہ نتائج سے سب مل کر لطف اُٹھا سکیں۔




 
Last edited by a moderator:

angryoldman

Minister (2k+ posts)
Re: تجربہ تو کرنے دیجیئے

billo baaji ur sroty is corrupted by overwriting.plz do some extra job to make it clear.(bigsmile)
 

Muhammad Tauseef A. Bajwa

Senator (1k+ posts)
Story of Appreciation

One young academically excellent person went to apply for a managerial
position in a big company.

He passed the first interview; the director did the last interview, made
the last decision.

The director discovered from the CV that the youth's academic
achievements were excellent all the way, from the secondary school until the
postgraduate research, never had a year when he did not score.

The director asked, "Did you obtain any scholarships in school?" the
youth answered "none".

The director asked, “Was it your father who paid for your school fees?"
The youth answered, "My father passed away when I was one year old, it was
my mother who paid for my school fees.

The director asked, “Where did your mother work?" The youth answered, "My
mother worked as clothes cleaner. The director requested the youth to show
his hands. The youth showed a pair of hands that were smooth and perfect.

The director asked, “Have you ever helped your mother wash the clothes
before?" The youth answered, "Never, my mother always wanted me to study and
read more books. Furthermore, my mother can wash clothes faster than me.

The director said, "I have a request. When you go back today, go and
clean your mother's hands, and then see me tomorrow morning.*

the youth felt that his chance of landing the job was high. When he went
back, he happily requested his mother to let him clean her hands. His mother
felt strange, happy but with mixed feelings, she showed her hands to the
kid.

The youth cleaned his mother's hands slowly. His tear fell as he did that. It
was the first time he noticed that his mother's hands were so wrinkled, and
there were so many bruises in her hands. Some bruises were so painful that
his mother shivered when they were cleaned with water.

This was the first time the youth realized that it was this pair of hands
that washed the clothes everyday to enable him to pay the school fee. The
bruises in the mother's hands were the price that the mother had to pay for
his graduation, academic excellence and his future.

After finishing the cleaning of his mother hands, the youth quietly washed
all the remaining clothes for his mother.

That night, mother and son talked for a very long time.

Next morning, the youth went to the director's office.

The Director noticed the tears in the youth's eyes, asked: “Can you tell
me what have you done and learned yesterday in your house?"

The youth answered,” I cleaned my mother's hand, and also finished
cleaning all the remaining clothes'

The Director asked, “please tell me your feelings."

The youth said, Number 1, I know now what appreciation is. Without my
mother, there would not the successful me today. Number 2, by working
together and helping my mother, only I now realize how difficult and tough
it is to get something done. Number 3, I have come to appreciate the
importance and value of family relationship.

The director said, “This is what I am looking for to be my manager.
I want to recruit a person who can appreciate the help of others, a person
who knows the sufferings of others to get things done, and a person who
would not put money as his only goal in life. You are hired.

Later on, this young person worked very hard, and received the respect of
his subordinates. Every employee worked diligently and as a team. The
company's performance improved tremendously.

A child, who has been protected and habitually given whatever he wanted,
would develop "entitlement mentality" and would always put him first. He
would be ignorant of his parent's efforts. When he starts work, he assumes
that every person must listen to him, and when he becomes a manager, he
would never know the sufferings of his employees and would always blame
others. For this kind of people, who may be good academically, may be
successful for a while, but eventually would not feel sense of achievement.
He will grumble and be full of hatred and fight for more. If we are this
kind of protective parents, are we really showing love or are we destroying
the kid instead?*

You can let your kid live in a big house, eat a good meal, learn piano,
watch a big screen TV. But when you are cutting grass, please let them
experience it. After a meal, let them wash their plates and bowls together
with their brothers and sisters. It is not because you do not have money to
hire a maid, but it is because you want to love them in a right way. You
want them to understand, no matter how rich their parents are, one day their
hair will grow gray, same as the mother of that young person. The most
important thing is your kid learns how to appreciate the effort and
experience the difficulty and learns the ability to work with others to get
things done.
 

عثمان

Voter (50+ posts)
تجربہ تو کرنے دیجیئے‏

علٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا بلکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔
مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔
مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟
نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔
نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔
ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔ وہ رات اُس نے ماں کے ساتھ باتیں کرتے گُزاری، تھوڑے سے کپڑے دھونے سے اُسکا جسم تھکن سے شل ہو گیا تھا۔ سارا سارا دن بغیر کوئی شکوہ زبان پر لائے کپڑے دھونے والی ماں سے باتیں کرنا آج اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا، دِل تھا کہ کسی طرح بھی باتوں سے بھر نہیں پا رہا تھا۔
دوسرے دِن اُٹھ کر نوجوان دوبارہ اُس کمپنی کے دفتر گیا، مُدیر نے اُسے اپنے کمرے میں ہی بُلا لیا۔ نوجوان کے چہرے سے اگر جگ راتے کی جھلک نُمایاں تھی تو آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کسی ندامت اور افسردگی کی کہانی سُنا رہی تھی۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا، کل گھر جا کر تُم نے کیا کیا تھا؟
نوجوان نے مختصرا کہا کہ کل میں نے گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوئے تھے اور پھر اُس کے باقی بچے ہوئے کپڑے بھی دھوئے تھے۔
مُدیر نے کہا میں تمہارے محسوسات کو پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سُننا چاہتا ہوں۔
نوجوان نے کہا: کل مُجھے لفظ قُربانی کے حقیقی معانی معلوم ہوئے۔ اگر میری امی اور اُسکی قُربانیاں ناں ہوتیں تو میں آج اِس تعلیمی مقام پر ہرگز فائز نہ ہوتا۔ دوسرا میں نے وہی کام کر کے اپنے اندر اُس سخت اور کٹھن محنت کی قدر و قیمت کا احساس پیدا کیا جو میری ماں کرتی رہی تھی اور مُجھے حقیقت میں اُسکی محنت اور مشقت کی قدر کا اندازہ ہوا۔ تیسرا مُجھے خاندان کی افادیت اور قدر کا علم ہوا۔
مُدیر نے نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنی کمپنی میں موجود ادارتی منصب کیلئے ایک ایسے شخص کی تلاش تھا جو دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھنے والا ہو، دوسرے کا اِحساس کرنے والا ہو اور صرف مال کا حصول ہی اُسکا مطمعِ نظر نہ ہو۔ نوجوان تمہیں مبارک ہو، میں تمہیں اِس منصب کیلئے منتخب کرتا ہوں۔
اور کہتے ہیں کہ نوجوان نے اُس کمپنی میں بہت محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ کام کیا، دوسروں کی محنت کی قدر اور احساس کرتا تھا، سب کو ساتھ لیکر چلنا اور سارے کام مِل جُل کر ایک فریق کی حیثیت سے انجام دینا اُسکا وطیرہ تھا، اور پِھر اُس کمپنی نے بھی بہت ترقی کی۔
اِس کہانی سے اخذ کیئے گئے کُچھ نتائج ملاحظہ فرمائیے:
جِس بچے کو مُحبت اور شفقت کے علاوہ اُسکے منہ سے نکلنے والی ہر خواہش کی فوری تعمیل کے ماحول میں پرورش کی جائے وہ بچہ ہر چیز پر حقِ ملکیت محسوس کرتا ہے اور ہمیشہ اپنی خواہشات اور اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے۔
ایسا بچہ اپنے باپ کی محنت اور مشقت سے بے خبر رہتا ہے، جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو ہر کسی سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اُسکا ماتحت اور تابع فرمان ہو۔
ایسا بچہ عملی زندگی میں کسی ادارتی منصب یا ذمہ داری پر فائز ہو جائے تو اپنے ماتحتوں کا دُکھ درد اور تکلیفوں کو سمجھتا ہی نہیں اُلٹا کسی قسم کی ناکامی کی صورت میں اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے۔
دوسروں کو حقارت اور کمتر سمجھنا تو معمولی بات ہے ایسا بچہ اپنے مفادات اور کامیابیوں کیلئے دوسروں کو راستے سے ہٹانا معمولی بات سمجھتا ہے۔
دیکھ لیجیئے اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت اِسی انداز سے کر رہے ہیں تو ہمارے کیا مقاصد ہیں؟ ہم اُنکی حفاظت کر رہے ہیں یا اُن کی بربادی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں؟
ہو سکتا ہے آپکا بچہ ایک بڑے گھر میں رہتا ہو، انواع و اقسام کے اعلٰی کھانے کھاتا ہو، پیانو کی تعلیم حاصل کرتا ہو، کسی پروجیکٹر یا بڑی سکرین والے ٹیلیویژن پر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتا ہو، لیکن اگر کبھی وہ گھر کے لان کی گھاس کاٹنا چاہے تو اُسے اِس کام کا تجربہ تو کرنے دیجیئے۔
اگر وہ کھانا کھا چُکے تو اُسے بہنوں کے ساتھ یا ماں کے ساتھ باورچی خانے میں جا کر اپنی پلیٹ بھی دھونے دیجیئے۔
اِسکا یہ مطلب ہرگز نہیں بنے گا کہ آپکے پاس گھر میں خادمہ رکھنے کی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اِسکا یہ مطلب بنے گا کہ آپ اپنے بچے سے صحیح اُصولوں کے مطابق محبت کرتے ہیں۔
کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے کے اندر اِس بات کا شعور اور احساس پیدا ہو کہ اُس کے باپ نے اُس کیلئے جو دولت چھوڑ کر جانی ہے وہ آسانی سے نہیں کمائی گئی تھی جس طرح مذکورہ بالا کہانی میں نوجوان کی ماں کی محنت و مشقت والی کمائی کا ذکر ہے۔
اِن سب باتوں سے قطع نظر، آپ اپنے بچے کو ایثار اور قُربانی کا مفہوم سمجھانا چاہتے ہیں، آپ اُسے کام کی تکلیف اور مصائب و مشاکل سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
آپ اُسے بتانا چاہتے ہیں کہ دوسروں کی محنت و مشقت کی قدر اور احساس کیا جائے تاکہ نتائج سے سب مل کر لطف اُٹھا سکیں۔
 

famamdani

Minister (2k+ posts)
Story of inspiration.............must read and share this .........

1185349_503372993091065_605094083_n.jpg


MUST READ AND SHARE THIS .........

STORY OF INSPIRATION.............

One young man went to apply for a managerial position in a big company. He passed the initial interview, and now would meet the director for the final interview.

The director discovered from his CV that the youths academic achievements were excellent. He asked, Did you obtain any scholarships in school? the youth answered no.

Was it your father who paid for your school fees?

My father passed away when I was one year old, it was my mother who paid for my school fees. he replied.

Where did your mother work?

My mother worked as clothes cleaner.

The director requested the youth to show his hands. The youth showed a pair of hands that were smooth and perfect.

Have you ever helped your mother wash the clothes before?

Never, my mother always wanted me to study and read more books. Besides, my mother can wash clothes faster than me.

The director said, I have a request. When you go home today, go and clean your mothers hands, and then see me tomorrow morning.

The youth felt that his chance of landing the job was high. When he went back home, he asked his mother to let him clean her hands. His mother felt strange, happy but with mixed feelings, she showed her hands to her son.

The youth cleaned his mothers hands slowly. His tear fell as he did that. It was the first time he noticed that his mothers hands were so wrinkled, and there were so many bruises in her hands. Some bruises were so painful that his mother winced when he touched it.

This was the first time the youth realised that it was this pair of hands that washed the clothes everyday to enable him to pay the school fees. The bruises in the mothers hands were the price that the mother had to pay for his education, his school activities and his future.

After cleaning his mother hands, the youth quietly washed all the remaining clothes for his mother.

That night, mother and son talked for a very long time.

Next morning, the youth went to the directors office.

The Director noticed the tears in the youths eyes, when he asked: Can you tell me what have you done and learned yesterday in your house?

The youth answered, I cleaned my mothers hand, and also finished cleaning all the remaining clothes

I know now what appreciation is. Without my mother, I would not be who I am today. By helping my mother, only now do I realize how difficult and tough it is to get something done on your own. And I have come to appreciate the importance and value of helping ones family.

The director said, This is what I am looking for in a manager. I want to recruit a person who can appreciate the help of others, a person who knows the sufferings of others to get things done, and a person who would not put money as his only goal in life.

You are hired.

This young person worked very hard, and received the respect of his subordinates. Every employee worked diligently and worked as a team. The companys performance improved tremendously.

A child, who has been protected and habitually given whatever he wanted, would develop an entitlement mentality and would always put himself first. He would be ignorant of his parents efforts. When he starts work, he assumes that every person must listen to him, and when he becomes a manager, he would never know the sufferings of his employees and would always blame others. For this kind of people, who may be good academically, they may be successful for a while, but eventually they would not feel a sense of achievement. They will grumble and be full of hatred and fight for more. If we are this kind of protective parents, are we really showing love or are we destroying our children instead?

You can let your child live in a big house, eat a good meal, learn piano, watch on a big screen TV. But when you are cutting grass, please let them experience it. After a meal, let them wash their plates and bowls together with their brothers and sisters. It is not because you do not have money to hire a maid, but it is because you want to love them in a right way. You want them to understand, no matter how rich their parents are, one day their hair will grow gray, same as the mother of that young person. The most important thing is your child learns how to appreciate the effort and experience the difficulty and learns the ability to work with others to get things done.
 

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Story of inspiration.............must read and share this .........

پاکستان میں ایسے لوگ بے روزگار پھرتے ہیں یھاں ماں کی قدر یا اکسیلنٹ ڈگری کوئی نہیں دیکھتا یھاں ڈگری ڈگری ہوتی ہےچاہے اصلی ہو یا جعلی, یھاں انگریز کی غلامی اور سب سے بڑھکر پیسہ یا چودری باپ یعنی بڑے عھدے پر فائز باپ ہو تو عھدہ گارنٹی کے ساتھ ملتا ہے- ہمارے ملک میں قصے کہانیاں صحابہ کرام کے سنائے جاتے ہیں لیکن عملی زندگی میں چور ڈاکو جائیداد والوں خزانے والوں امیروں کی قدر ہوتی ہے جو انگریز کے دور سے اس ملک اس قوم کے ساتھ غدار ہیں
اپ ہمارے ساتھ دھوکہ نہ کریں وہی طریقے بتائیں جس سے ان پاکستانی لوگوں کو پاکستان میں نوکری ملے جن کے پاس حقیقی اکسلینٹ ڈگریاں اور والدین کی قدر و عزت تو ہیں لیکن وہ سب کچھ نہیں جو پاکستان میں نوکری کے لئے لازم ہوتا ہے




 

famamdani

Minister (2k+ posts)
Re: Story of inspiration.............must read and share this .........

پاکستان میں ایسے لوگ بے روزگار پھرتے ہیں یھاں ماں کی قدر یا اکسیلنٹ ڈگری کوئی نہیں دیکھتا یھاں ڈگری ڈگری ہوتی ہےچاہے اصلی ہو یا جعلی, یھاں انگریز کی غلامی اور سب سے بڑھکر پیسہ یا چودری باپ یعنی بڑے عھدے پر فائز باپ ہو تو عھدہ گارنٹی کے ساتھ ملتا ہے- ہمارے ملک میں قصے کہانیاں صحابہ کرام کے سنائے جاتے ہیں لیکن عملی زندگی میں چور ڈاکو جائیداد والوں خزانے والوں امیروں کی قدر ہوتی ہے جو انگریز کے دور سے اس ملک اس قوم کے ساتھ غدار ہیں
اپ ہمارے ساتھ دھوکہ نہ کریں وہی طریقے بتائیں جس سے ان پاکستانی لوگوں کو پاکستان میں نوکری ملے جن کے پاس حقیقی اکسلینٹ ڈگریاں اور والدین کی قدر و عزت تو ہیں لیکن وہ سب کچھ نہیں جو پاکستان میں نوکری کے لئے لازم ہوتا ہے





Is all story was not goal only job opportunity............other hand the main cos is first u know how u achieved this grade to avail this chance if u understand individually then u are sure useful for others too.....:)
 

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Story of inspiration.............must read and share this .........

Is all story was not goal only job opportunity............other hand the main cos is first u know how u achieved this grade to avail this chance if u understand individually then u are sure useful for others too.....:)
آپکی بات درست ہے لیکن قصے کہانیوں سے پاکستان کے لوگ کچھ نہیں سیکھتے ہمارے نوجوان وہی سیکھتے ہیں جو حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں- اگر صرف تیوری سے سیکھنا ہوتا تو یہی قدریں تو اسلام نے ہمیں سکھائی ہیں البتہ پاکستان جیسے مسلمان ملک میں حکومت سیاست اور ریاست ان اقدار کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جبکہ ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک میں اب بھی اس کا بہت خیال رکھا جاتا ہے
میرا مقصد یہ تھا کہ آپکی اس کہانی پر اگر سیاست دان یا حکمران توجو دے دیتے تو اسکا فائدہ حاصل کرنا ممکن ہوجاتا
-----------
@famamdani

میں آپکو حقیقی کہانی سناتا ہوں اپنے بارے میں پہلے اپ یہ بتائیں کیا پاکستان میں جو لوگ والدین کی خدمت کرتے ہیں یا ان کی مالی مدد کرتے ہیں ان کو کوئی ٹیکس میں سہولت ملتی ہے؟

میرے نے جب جرمنی میں جاب کا آغاز کیا تو پہلے دو سال تک مجھے کوئی علم نہیں تھا کہ یھاں سالانہ انکم ٹیکس کے فارم حساب کتاب خود داخل کرنا پڑھتا ہے- میں صرف یہی دیکھتا تھا کہ جو تنخوا ہے اس سے سارے ٹکس کٹینگ ہوچکی ہے اور مجھے با قی پیسے ملتے ہیں جن میں سے میں کچھ والدہ کو ارسال کرتا تھا دو سال بعد ایک دوست نے پوچھا کہ تم نے ٹکس کلیرنس جمع کیا ہے تو میں نے کھا کہ نہیں لیکن اس بعد خیال آیا کہ جمع کرنا چاہئےاور جمع کئے تو مجھے ٹیکس آفس میں بلایا گیا میں سمجھا شاید اب اور بھی ٹیکس دینا ہوگا غلطی کی دوست کی بات سن کر خیر اسی کش مکش میں وہاں گیا
مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اپ نے اتنے پیسے والدہ کو ارسال کئے ہیں میں نے جواب دیا ہاں اور اس کی کاپی میں نے رکھی ہے جو فارم میں نے بھر دیئے ہیں ان کے ساتھ- تو پھر کہتا ہے یھاں کی قانون میں یہ پیسے آپکو واپس مل سکتے ہیں صرف ہمیں کنفرم کرنا لازم ہے تو میری دل میں خوشی کے ساتھ حرس پیدہ ہوئی میں نے کھا ہاں صرف والدہ نہیں ساتھ میں ایک چھوٹی بہن بھی ہے اور یہ پیسے دونوں کے لئے ہیں جو میں نے نہیں لکھا یہ حقیقت بھی تھی - تو اکدم سے اس نے جو کاغذات بھر دیئے تھے وہ ضائع کئے اور دوسرے بهرنے لگا میں سمجھا شاید اب اور بھی زیادہ پیسے ملنے والے ہیں
تو آخر میں وہ کہتا ہے کہ آپکو ٦٠٠٠ یورو واپس ملیں گے جبکہ پہلے اس نے کافی زیادہ کا بتایا تھا- تو میں حیران ہوا کہ شائد میری غلطی کی وجہ سے جو میں نے بہن کے بارے نہیں لکھا تھا اور اس وقت زبانی بتانے سے قبول نہیں ہورہے اسلئے میں نے وضاحت مانگی- تو جواب ملا کہ بہن کا حق تم پر نہیں لیکن جب تم خود اقرار کرتے ہو تو اس لئے بہن کا خرچہ میں نے منفی کیا ان پیسوں سے اس لئے جو تمہیں ملیں گے وہ ٦٠٠٠ یورو بنتے ہیں اگر اپ کا اعتراض ہے تو پھر اس کا فیصلہ میں نہیں کرسکتا اور اپ اعتراض داخل کرسکتے ہیں
میں نے یہ سنا تو بہت اعتماد پیدہ ہوا اس شخص پر اور دل میں سوچنے لگا کہ یھاں کے لوگ اور حکومت تو اصلی مسلمان ہیں اسلئے میں نے جواب دیا کہ نہیں کوئی اعتراض نہیں جو کچھ کھا ہے وہ درست ہے اگر کچھ بھی نہ ملے اسکے باوجود بھی اپ پر اعتماد ہے

دل میں سوچتا رہا اگر میں اپنی زبانی باتوں سے انکار کرتا تو وہ یہ بندہ ثابت نہیں کرسکتا تھا اور مجھے زیادہ پیسے ملتے لیکن جب ایسی حکومت ہو تو اس کے ساتھ جو دھوکہ کریگا اس سے بڑا منافق کوئی نہیں ہوگا - اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے لالچ پر بہت غصہ آیا جو آغاز میں دل میں پیدہ ہوگئی تھی ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے اللہ اس وقت دل کی کیفیت کو جان کر فیصلے کررہا ہے کہ مجھے کچھ ملنا چاہئے یا نہیں

 
Last edited:

famamdani

Minister (2k+ posts)
Yes in Pakistan also have u same as it is Income tax Law.....................but there is not awareness about this all system because we use short cut every time and everywhere...............I was last full year in Pakistan 1 Aug 2012 to 6 Aug 2013.................... and I see all my friends done big job in different branches but nobody knows clear what can he use this Law.................and take advantage through the Law.................I say only one thing ........we born as the Law Breaker.....................that's it...........(clap)(clap)(clap)