وقت اور معاشرے کے حوالے سے سیکولر سٹیٹ ان تمام مسائل پر قانون سازی کر سکتی ہے۔
یورپ میں مہلک منشیات پر سخت پابندی ہے۔
شراب اور تمباکو نوشی مہلک منشیات میں شمار نہیں ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی آہستہ آہستہ ان پر ٹیکس اور دیگر پابندیوں میں اضافہ کی وجہ سے انکے استعمال میں کمی ہو رہی ہے۔ انڈیا کی کیرالہ سٹیٹ نے شراب پر مکمل پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔
اگر معاشرہ حرام کاری کے خلاف ہے، تو وہ اسکے خلاف بھی قانون سازی کر سکتا ہے جیسا کہ انڈیا میں زنا کاری کے خلاف معاشرے کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے۔
آپ کے ذہن میں ہر وقت "کافر" ۔۔۔ "جہاد" ۔۔۔ دنگا فساد چلتا ہے۔ کبھی انسانیت کے حوالے سے بھی سوچنے کی کوشش کریں۔
اسلامی ریاست اگر واقعی شریعت پر عمل کرے تو اس پر لازم ہو گا کہ وہ غلامی کو پھر سے زندہ کرے اور بازاروں میں پھر کنیز باندیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بیچا جا رہا ہو۔
حجاب کا قانون فطرت سے ٹکرا رہا ہے۔ فطرت بتلا رہی ہے کہ آزاد عورت اور کنیز باندی میں یہ فرق کرنا انسانیت کی تذلیل تھا۔
حجاب کا قانون سائنس سے ٹکرا رہا ہے۔ سورج کی شعاعیں وٹامن ڈی پیدا کرتی ہیں، جبکہ پاکستان میں غذائی طور پر وٹامن ڈی کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔ اس وجہ سے کراچی میں 90 فیصد خواتین وٹامن ڈی کا شکار نظر آئیں۔ یہی صورتحال ہر ہر اسلامی ملک کی ہے، بلکہ یورپ میں موجود خواتین میں یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ وہاں پر سورج ویسے ہی کم ہے۔