Resistance & Taqleed- In Response to Haroon Rashid

AbuOkasha

MPA (400+ posts)
مزاحمت اور تقلید
Shahnawaz_Farooqi.jpg

[FONT=&amp]
شاہ نواز فاروقی



[FONT=&amp]معروف کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ امت ِمسلمہ کی نجات کے لیے استعمارکی مزاحمت کافی نہیں، امت ِمسلمہ کے عروج کے لیے علم درکار ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری نجات صرف علم میں ہے۔ مگر ہارون الرشید صاحب کے بقول مسلمان علم کیسے پیدا کریں؟ ہمارے علماءتقلید میں مبتلا ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے طالبان کا حوالہ دیا ہے اور انہیں فرقہ پرست قرار دیتے ہوئے نرا مقلد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان امیرالمومنین کی بیعت پر اصرار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بیعت کیوں، الیکشن کیوں نہیں؟ طالبان مسواک پر زور دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسواک کی جگہ ٹوتھ پیسٹ کیوں نہیں؟ ہارون الرشید صاحب نے مزید فرمایا ہے کہ طالبان ایسے سوالات کا کیا جواب دیں؟ ملاّ اپنے ذہن سے نہیں اپنے اساتذہ کے ذہن سے سوچتا ہی، اُس کے لیے فقہ ہی دین ہے اور اُس کا مکتبہ فکر ہی اس کا مذہب ہے۔ ہمارے یہاں ”سقوط ِبغداد“ کا ذکر بہت ہوتا ہے مگر بغداد کا منظرنامہ کم ہی بیان ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تاتاریوں کے زمانے کا بغداد جنرل پرویزمشرف یا جنرل کیانی کا پاکستان نہیں تھا۔
بغداد جنید بغدادیؒ اور منصور حلاجؒ کے علم کا امین تھا۔ صرف بغداد میں اتنی جامعات تھیں کہ آج پورے عالم اسلام میں بھی اتنی جامعات نہیں ہیں۔ کہنے والوں نے کہا ہے کہ اُس زمانے کے ذہین طالب علم کا علم اتنا تھا جتنا علامہ اقبال کا۔ مگر اُس دورکے لوگوں کے علم میں یہ خرابی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ اُن کے لیے ”قابل عمل“ نہیں رہ گیا تھا۔ جس وقت تاتاریوں نے بغداد کو تاراج کیا اُس وقت بھی عراق کے طول وعرض میں بڑے بڑے اولیا موجود تھے۔ تذکرہ غوثیہ میں ہے کہ فریدالدین عطار بغداد سے کچھ فاصلے پر غالباً نیشا پور میں موجود تھے۔ تاتاری لشکر نیشاپور کی جانب بڑھا تو عطار نے اپنی خانقاہ میں سامنے رکھا پیالہ الٹ دیا۔ لمحہ بھر میں نیشاپور تاتاری لشکر کی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر حیران ہوا اور لوٹ گیا مگر اگلے دن پھرآیا۔ اگلے دن پھر عطار نے خانقاہ میں پیالہ الٹ دیا۔ شہر پھر غائب ہوگیا۔ تیسرے دن پھر یہی ہوتا مگر عطارکو ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ تاتاری لشکر نیشاپور میں داخل ہوا اور تاتاریوں کے ابتدائی حملوں میں جو لوگ شہید ہوئے ان میں عطار بھی شامل تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ایسے صاحب ِعلم اور صاحب ِکرامت لوگوں کی موجودگی بھی بغداد کو تاراج ہونے سے نہ بچاسکی۔ عمل سے محروم علم کی فراوانی کسی کے کام نہ آسکی۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں مجرد علم اہم ہے یا علم پر عمل سے پیدا ہونے والی مزاحمت؟بہادر شاہ کی دلّی بھی کوئی مذاق نہیں تھی۔ وہ ایک جانب قلی قطب شاہ سے میرتقی میر اور میر سے غالب تک کی عظیم اردو شاعری کی امین تھی۔
دوسری جانب وہ حضرت مجدد الف ثانیؒ، خواجہ معین الدین چشتیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے بے پناہ علم کی علامت تھی۔ دلّی تاراج ہورہی تھی تو وہاں کم ازکم ایسی سو شخصیات تھیں کہ پورے عالم اسلام میں اُن کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان میں سے ایک شخصیت مولانا ایوب دہلوی بھی تھے جنہیں ’رازی دوراں‘ کہا گیا ہے۔ مولانا کے علم کا یہ حال تھا کہ کسی نے اُن سے پوچھا کہ سنا ہے آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا: جی ہاں! آزاد ہمارے جوتے اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ مگر دلّی میں علم کی ایسی بہتات بھی اُسے مفتوح ہونے سے نہ بچاسکی۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی۔ دلّی کے مبلغ علم اور مبلغ عمل میں ایک فرق تھا۔ دلّی کا علم سو کلو تھا اور عمل ایک کلو۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں برپا ہونے والا ”مزاحمتی عمل“ کوئی کھیل تماشا نہیں۔ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تھا تو کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا۔ اورکہنے والے غلط نہیں کہتے تھے۔ سوویت یونین کی تاریخ یہی تھی۔ مگرافغانستان کے مزاحمتی عمل نے سوویت یونین کو ایسا لوٹایا کہ سوویت یونین ہی باقی نہ رہا۔ سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والوں کا ”علم “ یقیناً کم ہوگا مگر ان کے علم وعمل میں ہم آہنگی تھی۔ ان کا علم کم تھا مگر کھرا تھا۔ ان کا عمل بھی کم ہوگا مگر وہ بھی کھرا تھا۔ چنانچہ تاریخ بدل کر رہ گئی، صرف سوویت یونین کے حوالے سے نہیں، جہاد کے حوالے سے بھی۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سے پہلے جہاد ماضی کی یاد تھی، ماضی کا قصہ تھا اور اس کا ہمارے حال سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ مگر سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والوں نے ماضی کو زندہ کرکے اسے زندہ حال بنادیا۔
امریکا کے خلاف افغانستان میں ہونے والی مزاحمت سوویت یونین کے خلاف ہونے والی مزاحمت سے بڑھ گئی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں جہاد کرنے والوں کے ساتھ امریکا تھا، یورپ تھا، پاکستان تھا بلکہ سارا عالم اسلام تھا۔
لیکن امریکا کے خلاف مزاحمت کا کوئی کھلا حامی ومددگار نہیں۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان میں صرف امریکا ہی نہیں پورے مغرب کو شکست ہوگئی ہے۔ یہ ایسی شکست ہے کہ اس شکست کی خبر کے عام ہونے سے امریکا اور یورپ ہی نہیں عالم اسلام کے حکمران بھی لرز رہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ مزاحمت کی کامیابی ثابت ہوکر عوام تک پہنچ گئی تو عالم اسلام کی کایاکلپ ہوکر رہ جائے گی۔ مگر ہارون الرشید صاحب مزاحمت کا ذکر اس طرح کررہے ہیں جیسے یہ کچھ بھی نہ ہو۔ بلاشبہ مسلمانوں کو علم کی ضرورت ہی، مگر افغانستان میں ہونے والی مزاحمت ایسی ہے کہ اس نے عالم اسلام کی قلت ِ علم کا بھی فرض کفایہ ادا کیا ہے۔
لیکن تقلید کا معاملہ تو رہ ہی گیا۔ہارون الرشید صاحب نے تقلید کو منفی اور قابل مذمت عمل کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن تقلید اپنی نہاد میں ایک مطلوب اور محمود عمل ہے۔ تقلید کا مفہوم لفظ‘ معنی اور عمل کی صحت کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقلی کا عمل ہے۔ یہ ایک مخصوص دائرے میں معنی کو باربار دریافت کرنے کی سعی ہی، اور بلاشبہ ہمارے روایتی علماءنے یہ کام شاندار انداز میں کرکے دکھایا ہے۔ اتنے بہترین انداز میں کہ دوسرے مذاہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تقلید کا عمل اُس وقت بھی مطلوب و محمود ہے جب معاشرے میں انتشار برپا ہو اور لوگ ایک معنی کو اس کی مختلف صورتوں میں پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہوں۔ بلاشبہ نیا علم اجتہادی فکر سے پیدا ہوتا ہی، تقلید ِ محض سے نہیں۔ اسلامی تاریخ میں رومیؒ اور غزالیؒ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
برصغیر میں اس کی سب سے نمایاں مثال شاہ ولی اللہ ؒ ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اجتہادی فکر کے لیے کم سے کم اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی سطح درکار ہی، اور ظاہر ہے کہ یہ تمام سطحیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کو اجتہادی فکر اور اپنا علم پیدا کرنا چاہیی، لیکن جب تک یہ کام نہیں ہوتا تقلید مسلمانوں کا ایک بڑا سہارا ہے۔ اس سے اورکچھ نہیں تو ہماری مذہبی فکر کی روایت تو قائم و برقرار ہے اور پوری صحت کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہورہی ہے۔
ہارون الرشید صاحب نے اس سلسلے میں بیعت اور الیکشن کو ایک دوسرے کا متبادل قراردیا ہے اور مسواک اور ٹوتھ پیسٹ کو ہم معنی بنایا ہے۔ لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہماری تاریخ میں معنی اور اس کی صورت یا [/FONT][FONT=&amp]Form[/FONT][FONT=&amp] کے درمیان اکثر ایسا گہرا رشتہ پایا جاتا ہے کہ صورت یا [/FONT][FONT=&amp]Form[/FONT][FONT=&amp]کے بدلنے سے معنی بھی بدل کر رہ جاتے ہیں۔
ہارون الرشید کی بات کو مان لیا جائے تو کل کوئی اٹھے گا اورکہے گا کہ اصل بات تو ”عبادت“ کرنا ہے چنانچہ نماز تو ”گیان دھیان“سے بھی ہوسکتی ہی، اس کے لیے رکوع اور سجدے کی کیا ضرورت ہی؟ لیکن ہم جانتے ہیں کہ نماز میں نماز کی روح اور اس کی ادائیگی کا طریقہ دونوں باہم لازم وملزوم ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مسواک اور بیعت کا بھی ہے۔ بیشک ٹوتھ پیسٹ سے منہ صاف ہوجاتا ہے مگر چونکہ اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی استعمال نہیں فرمایا اس لیے اس میں وہ برکت اور تقدیس نہیں ہوسکتی جو مسواک میں ہے۔ ہارون الرشید غورکریں تو بیعت کا معاملہ اس سے بھی بڑا ہے۔[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[/FONT]
 
Last edited by a moderator:

textillian

MPA (400+ posts)
Well, i agree with you.
But Haroon Point is debatable too. according to Haroon Taliban are doing only Taqleed, because of lack of knowledge.
Jo jehad ker rahe hay, khalis allah k liye but there are exmples, which u can't justify at any cost, and thats all just because of that.
Taqleed is must but you cannot ignore the importance of knowledge, which is much more than taqleed.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ایسے دم کٹے "دانشوروں" کی اسلام فہمی سے اللہ محفوظ رکھے. خود کچھ کرنا نہیں اور دوسروں کو مفت مشورے
 

iceburg

Banned
Re: Great Words from a Great Man....

aadmi cheap hai ... itni baat se pechana ja skta hai k innocent girls ko human shield k tor per istimal kere aur muskil waqt dekh ker burqa pehan ker frar ho jae .. pakkrra jae magar phir bhi sharam na aaye
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: Great Words from a Great Man....

جس دن مسلمان ہارون رشید اور اقبال کو سمجھ جایں گے ، اس دن دنیا میں فاتح بھی ہو جایں گے- انشا الله

ابھی تو خیر سے بندوق بھی مانگ کر چلاتے ہیں

اس کا مطلب ہے کہ طالبان کو لڑائی بھی تیر کمان اور نیزے سے ہی کرنی چاہے

یہ بندوق اور راکٹ تو لڑائی کا کوئی مزہ نہی دے سکتے ، اور نہ بدل ہو سکتے ہیں

اسی لے افغان جنگ گیارہ سال سے ختم نہی ہوئی

اللہ مسلمانوں کو جہالت سے بچاے اور دنیا کا بھی علم عطا فرماے ، جیسے اس نے حضرت آدم کو عطا فرمایا

اور انہوں نے اس بیابان دنیا میں اکیلے زندگی کی ابتدا کی تھی
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: Great Words from a Great Man....

جس دن مسلمان ہارون رشید اور اقبال کو سمجھ جایں گے ، اس دن دنیا میں فاتح بھی ہو جایں گے- انشا الله
ابھی تو خیر سے بندوق بھی مانگ کر چلاتے ہیں
اس کا مطلب ہے کہ طالبان کو لڑائی بھی تیر کمان اور نیزے سے ہی کرنی چاہے
یہ بندوق اور راکٹ تو لڑائی کا کوئی مزہ نہی دے سکتے ، اور نہ بدل ہو سکتے ہیں
اسی لے افغان جنگ گیارہ سال سے ختم نہی ہوئی
اللہ مسلمانوں کو جہالت سے بچاے اور دنیا کا بھی علم عطا فرماے ، جیسے اس نے حضرت آدم کو عطا فرمایا
اور انہوں نے اس بیابان دنیا میں اکیلے زندگی کی ابتدا کی تھی

ایٹم بم والوں نے فون پر پر ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے، شکر کرو افغان جنگ ختم نہیں ہوئی، ختم ہو جاتی تو پاکستان جنگ شروع ہو جاتی

اقبال کو بھی سمجھو
بےخطر آتش نمرود میں خود پڑا عشق
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی

 

pardese

Minister (2k+ posts)
In so called writers ko harron rasheed hazam nhi horha,,sachy bandy ko badnam karna koi insy seekey,, professional jealousy,sasti shurat ,,what a great honest and brave man he is, we love you haroon rasheed sahb,my allah give you health and long life
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
کیا حضرت رسول ا کرام نے کسی پہلے نبی کی من و عن تقلید کی ؟ آنکھیں بند کر کے ؟

ہاں اصول زندگی ایک تھا سارے نبیوں کا ، لیکن حالات اور واقیات ہر ایک کے ساتھ مختلف تھے

اور ہر ایک نے اپنے اپنے حالات کے مطابق زندگی گزاری

حضرت موسیٰ فروں کے دربار میں گے ، رسول کریم کسی کے دربار میں نہی گے

 

xecutioner

Chief Minister (5k+ posts)
کیا حضرت رسول ا کرام نے کسی پہلے نبی کی من و عن تقلید کی ؟ آنکھیں بند کر کے ؟

ہاں اصول زندگی ایک تھا سارے نبیوں کا ، لیکن حالات اور واقیات ہر ایک کے ساتھ مختلف تھے

اور ہر ایک نے اپنے اپنے حالات کے مطابق زندگی گزاری

حضرت موسیٰ فروں کے دربار میں گے ، رسول کریم کسی کے دربار میں نہی گے


shuker hai atom bomb mullah ne nahi banaya warna poori dunya kab ki tabah ho chuki hoti. wesy mullah ki itni auqaat bhi nahi hai k wo halway k ilava kuch aur baRa kaam ker sky insaaanon k liay.
 

xecutioner

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Great Words from a Great Man....

ایٹم بم والوں نے فون پر پر ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے، شکر کرو افغان جنگ ختم نہیں ہوئی، ختم ہو جاتی تو پاکستان جنگ شروع ہو جاتی

اقبال کو بھی سمجھو
بےخطر آتش نمرود میں خود پڑا عشق
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی


Beta afghanistan ne jab soviets ko haraya tha tab bhi haram ka paisa kha ker hi hum ne apny yateem bachon ko baicha tha laRny. Aj tum main se koi is qabil hai k iss per baat ker sky. Allah ka hukam hai k yateemon aur maskeeno per rehem kero . aur hum ne aik baar un ko baicha aur kuch mullah us main se ameer ho gaye (Abdul Ghazi bhi usi haram k paisy se banay thy) aur doosri baar unhi mazloomon per bombari ki.
 

xecutioner

Chief Minister (5k+ posts)
مزاحمت اور تقلید
Shahnawaz_Farooqi.jpg

[FONT=&amp]
شاہ نواز فاروقی



[FONT=&amp]معروف کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ امت ِمسلمہ کی نجات کے لیے استعمارکی مزاحمت کافی نہیں، امت ِمسلمہ کے عروج کے لیے علم درکار ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری نجات صرف علم میں ہے۔ مگر ہارون الرشید صاحب کے بقول مسلمان علم کیسے پیدا کریں؟ ہمارے علماءتقلید میں مبتلا ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے طالبان کا حوالہ دیا ہے اور انہیں فرقہ پرست قرار دیتے ہوئے نرا مقلد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان امیرالمومنین کی بیعت پر اصرار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بیعت کیوں، الیکشن کیوں نہیں؟ طالبان مسواک پر زور دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسواک کی جگہ ٹوتھ پیسٹ کیوں نہیں؟ ہارون الرشید صاحب نے مزید فرمایا ہے کہ طالبان ایسے سوالات کا کیا جواب دیں؟ ملاّ اپنے ذہن سے نہیں اپنے اساتذہ کے ذہن سے سوچتا ہی، اُس کے لیے فقہ ہی دین ہے اور اُس کا مکتبہ فکر ہی اس کا مذہب ہے۔ ہمارے یہاں ”سقوط ِبغداد“ کا ذکر بہت ہوتا ہے مگر بغداد کا منظرنامہ کم ہی بیان ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تاتاریوں کے زمانے کا بغداد جنرل پرویزمشرف یا جنرل کیانی کا پاکستان نہیں تھا۔
بغداد جنید بغدادیؒ اور منصور حلاجؒ کے علم کا امین تھا۔ صرف بغداد میں اتنی جامعات تھیں کہ آج پورے عالم اسلام میں بھی اتنی جامعات نہیں ہیں۔ کہنے والوں نے کہا ہے کہ اُس زمانے کے ذہین طالب علم کا علم اتنا تھا جتنا علامہ اقبال کا۔ مگر اُس دورکے لوگوں کے علم میں یہ خرابی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ اُن کے لیے ”قابل عمل“ نہیں رہ گیا تھا۔ جس وقت تاتاریوں نے بغداد کو تاراج کیا اُس وقت بھی عراق کے طول وعرض میں بڑے بڑے اولیا موجود تھے۔ تذکرہ غوثیہ میں ہے کہ فریدالدین عطار بغداد سے کچھ فاصلے پر غالباً نیشا پور میں موجود تھے۔ تاتاری لشکر نیشاپور کی جانب بڑھا تو عطار نے اپنی خانقاہ میں سامنے رکھا پیالہ الٹ دیا۔ لمحہ بھر میں نیشاپور تاتاری لشکر کی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر حیران ہوا اور لوٹ گیا مگر اگلے دن پھرآیا۔ اگلے دن پھر عطار نے خانقاہ میں پیالہ الٹ دیا۔ شہر پھر غائب ہوگیا۔ تیسرے دن پھر یہی ہوتا مگر عطارکو ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ تاتاری لشکر نیشاپور میں داخل ہوا اور تاتاریوں کے ابتدائی حملوں میں جو لوگ شہید ہوئے ان میں عطار بھی شامل تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ایسے صاحب ِعلم اور صاحب ِکرامت لوگوں کی موجودگی بھی بغداد کو تاراج ہونے سے نہ بچاسکی۔ عمل سے محروم علم کی فراوانی کسی کے کام نہ آسکی۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں مجرد علم اہم ہے یا علم پر عمل سے پیدا ہونے والی مزاحمت؟بہادر شاہ کی دلّی بھی کوئی مذاق نہیں تھی۔ وہ ایک جانب قلی قطب شاہ سے میرتقی میر اور میر سے غالب تک کی عظیم اردو شاعری کی امین تھی۔
دوسری جانب وہ حضرت مجدد الف ثانیؒ، خواجہ معین الدین چشتیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے بے پناہ علم کی علامت تھی۔ دلّی تاراج ہورہی تھی تو وہاں کم ازکم ایسی سو شخصیات تھیں کہ پورے عالم اسلام میں اُن کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان میں سے ایک شخصیت مولانا ایوب دہلوی بھی تھے جنہیں ’رازی دوراں‘ کہا گیا ہے۔ مولانا کے علم کا یہ حال تھا کہ کسی نے اُن سے پوچھا کہ سنا ہے آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا: جی ہاں! آزاد ہمارے جوتے اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ مگر دلّی میں علم کی ایسی بہتات بھی اُسے مفتوح ہونے سے نہ بچاسکی۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی۔ دلّی کے مبلغ علم اور مبلغ عمل میں ایک فرق تھا۔ دلّی کا علم سو کلو تھا اور عمل ایک کلو۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں برپا ہونے والا ”مزاحمتی عمل“ کوئی کھیل تماشا نہیں۔ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تھا تو کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا۔ اورکہنے والے غلط نہیں کہتے تھے۔ سوویت یونین کی تاریخ یہی تھی۔ مگرافغانستان کے مزاحمتی عمل نے سوویت یونین کو ایسا لوٹایا کہ سوویت یونین ہی باقی نہ رہا۔ سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والوں کا ”علم “ یقیناً کم ہوگا مگر ان کے علم وعمل میں ہم آہنگی تھی۔ ان کا علم کم تھا مگر کھرا تھا۔ ان کا عمل بھی کم ہوگا مگر وہ بھی کھرا تھا۔ چنانچہ تاریخ بدل کر رہ گئی، صرف سوویت یونین کے حوالے سے نہیں، جہاد کے حوالے سے بھی۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سے پہلے جہاد ماضی کی یاد تھی، ماضی کا قصہ تھا اور اس کا ہمارے حال سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ مگر سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والوں نے ماضی کو زندہ کرکے اسے زندہ حال بنادیا۔
امریکا کے خلاف افغانستان میں ہونے والی مزاحمت سوویت یونین کے خلاف ہونے والی مزاحمت سے بڑھ گئی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں جہاد کرنے والوں کے ساتھ امریکا تھا، یورپ تھا، پاکستان تھا بلکہ سارا عالم اسلام تھا۔
لیکن امریکا کے خلاف مزاحمت کا کوئی کھلا حامی ومددگار نہیں۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان میں صرف امریکا ہی نہیں پورے مغرب کو شکست ہوگئی ہے۔ یہ ایسی شکست ہے کہ اس شکست کی خبر کے عام ہونے سے امریکا اور یورپ ہی نہیں عالم اسلام کے حکمران بھی لرز رہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ مزاحمت کی کامیابی ثابت ہوکر عوام تک پہنچ گئی تو عالم اسلام کی کایاکلپ ہوکر رہ جائے گی۔ مگر ہارون الرشید صاحب مزاحمت کا ذکر اس طرح کررہے ہیں جیسے یہ کچھ بھی نہ ہو۔ بلاشبہ مسلمانوں کو علم کی ضرورت ہی، مگر افغانستان میں ہونے والی مزاحمت ایسی ہے کہ اس نے عالم اسلام کی قلت ِ علم کا بھی فرض کفایہ ادا کیا ہے۔
لیکن تقلید کا معاملہ تو رہ ہی گیا۔ہارون الرشید صاحب نے تقلید کو منفی اور قابل مذمت عمل کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن تقلید اپنی نہاد میں ایک مطلوب اور محمود عمل ہے۔ تقلید کا مفہوم لفظ‘ معنی اور عمل کی صحت کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقلی کا عمل ہے۔ یہ ایک مخصوص دائرے میں معنی کو باربار دریافت کرنے کی سعی ہی، اور بلاشبہ ہمارے روایتی علماءنے یہ کام شاندار انداز میں کرکے دکھایا ہے۔ اتنے بہترین انداز میں کہ دوسرے مذاہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تقلید کا عمل اُس وقت بھی مطلوب و محمود ہے جب معاشرے میں انتشار برپا ہو اور لوگ ایک معنی کو اس کی مختلف صورتوں میں پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہوں۔ بلاشبہ نیا علم اجتہادی فکر سے پیدا ہوتا ہی، تقلید ِ محض سے نہیں۔ اسلامی تاریخ میں رومیؒ اور غزالیؒ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
برصغیر میں اس کی سب سے نمایاں مثال شاہ ولی اللہ ؒ ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اجتہادی فکر کے لیے کم سے کم اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی سطح درکار ہی، اور ظاہر ہے کہ یہ تمام سطحیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کو اجتہادی فکر اور اپنا علم پیدا کرنا چاہیی، لیکن جب تک یہ کام نہیں ہوتا تقلید مسلمانوں کا ایک بڑا سہارا ہے۔ اس سے اورکچھ نہیں تو ہماری مذہبی فکر کی روایت تو قائم و برقرار ہے اور پوری صحت کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہورہی ہے۔
ہارون الرشید صاحب نے اس سلسلے میں بیعت اور الیکشن کو ایک دوسرے کا متبادل قراردیا ہے اور مسواک اور ٹوتھ پیسٹ کو ہم معنی بنایا ہے۔ لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہماری تاریخ میں معنی اور اس کی صورت یا [/FONT][FONT=&amp]Form[/FONT][FONT=&amp] کے درمیان اکثر ایسا گہرا رشتہ پایا جاتا ہے کہ صورت یا [/FONT][FONT=&amp]Form[/FONT][FONT=&amp]کے بدلنے سے معنی بھی بدل کر رہ جاتے ہیں۔
ہارون الرشید کی بات کو مان لیا جائے تو کل کوئی اٹھے گا اورکہے گا کہ اصل بات تو ”عبادت“ کرنا ہے چنانچہ نماز تو ”گیان دھیان“سے بھی ہوسکتی ہی، اس کے لیے رکوع اور سجدے کی کیا ضرورت ہی؟ لیکن ہم جانتے ہیں کہ نماز میں نماز کی روح اور اس کی ادائیگی کا طریقہ دونوں باہم لازم وملزوم ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مسواک اور بیعت کا بھی ہے۔ بیشک ٹوتھ پیسٹ سے منہ صاف ہوجاتا ہے مگر چونکہ اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی استعمال نہیں فرمایا اس لیے اس میں وہ برکت اور تقدیس نہیں ہوسکتی جو مسواک میں ہے۔ ہارون الرشید غورکریں تو بیعت کا معاملہ اس سے بھی بڑا ہے۔[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[/FONT]

Halwa khao bhai jaan . Itni tension nahi lo. Kash aap log itny practical hoty to aaj umat-e-muslima itni kut-ton ki tarha mar nahi kha rhi hoti.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
کیا حضرت رسول ا کرام نے کسی پہلے نبی کی من و عن تقلید کی ؟ آنکھیں بند کر کے ؟
ہاں اصول زندگی ایک تھا سارے نبیوں کا ، لیکن حالات اور واقیات ہر ایک کے ساتھ مختلف تھے
اور ہر ایک نے اپنے اپنے حالات کے مطابق زندگی گزاری
حضرت موسیٰ فروں کے دربار میں گے ، رسول کریم کسی کے دربار میں نہی گے

تحویل قبلہ کا حکم ٢ ہجری میں نازل ہوا، اس وقت تک موسی علیہ سلام کا قبلہ محمد صلله کا قبلہ تھا
یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، آپ کو پتہ چلا تو اگلے سال آپ نے بھی روزہ رکھا
موسی علیہ سلام کو اللہ نے فرعون کے دربار میں جانے کا حکم دیا تھا

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Halwa khao bhai jaan . Itni tension nahi lo. Kash aap log itny practical hoty to aaj umat-e-muslima itni kut-ton ki tarha mar nahi kha rhi hoti.

مشرف سے بڑا "پرکٹیکل" کون ہو سکتا ہے، گیارہ سال پہلے لیٹ کر جس پرکٹکیلیٹی کے مظاہرہ کیا، گیارہ سال بعد ہم وہیں کھڑے ہیں. جن کے لئے دشمن بنائے وہی آنکھیں دکھا رہے ہیں
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: Great Words from a Great Man....

ایٹم بم والوں نے فون پر پر ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے، شکر کرو افغان جنگ ختم نہیں ہوئی، ختم ہو جاتی تو پاکستان جنگ شروع ہو جاتی

اقبال کو بھی سمجھو
[HI]بےخطر آتش نمرود میں خود پڑا عشق
[/HI]عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی


ذرا عقل کو استمال کرو اور بتاو کہ امریکہ نے کیا چھوڑا ہے افغانستان میں ؟؟؟

نہ کوئی عمارت نہ کوئی نسل. لاکھوں انسان مار دیے

کیا اس کو فتح کہتے ہیں مسلمانوں کی ؟؟؟
اگر ایک حملہ آور آپ کا سب کچھ تباہ کر کے ، اور دس سال میں اب کی بچوں اور عورتوں کو روند کر واپس چلا جاتا ہے

تو آپ بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ہرا کر نکال دیا
اور مقابلے میں آپ نے ان کا کچھ خاص نہی بگاڑا ،

کیا رسول پاک نے ایسے جنگیں جیتی تھیں [HI]

کیا حضرت ابراہیم نمرود کی آگ سے جل کر اور تباہ ہو کر نکلے تھے [/HI]
 

xecutioner

Chief Minister (5k+ posts)
مشرف سے بڑا "پرکٹیکل" کون ہو سکتا ہے، گیارہ سال پہلے لیٹ کر جس پرکٹکیلیٹی کے مظاہرہ کیا، گیارہ سال بعد ہم وہیں کھڑے ہیں. جن کے لئے دشمن بنائے وہی آنکھیں دکھا رہے ہیں

There are always war tactics. Either you are Iran and if not united as a nation then use brain and war tactics. You cannot cut yourself from the world otherwise you cant make atom bomb, aircrafts (JF 17), submarines. You need it for expansion. Mullah cannot travel to the world on honda 125 or toyota landcruiser.
Plus how can you break itno a drone? How can you jam the radars? How can you hit a bomber on 50000 feet height? You need a university and a knowledge city like NAMAL college to train your youth to work in the longer interest. Allah hamara hamionasir ho
 

xecutioner

Chief Minister (5k+ posts)
مشرف سے بڑا "پرکٹیکل" کون ہو سکتا ہے، گیارہ سال پہلے لیٹ کر جس پرکٹکیلیٹی کے مظاہرہ کیا، گیارہ سال بعد ہم وہیں کھڑے ہیں. جن کے لئے دشمن بنائے وہی آنکھیں دکھا رہے ہیں

Plus we have trapped them in afghanistan. Why happened in ghazawa-e-khandak?
 

xecutioner

Chief Minister (5k+ posts)
مشرف سے بڑا "پرکٹیکل" کون ہو سکتا ہے، گیارہ سال پہلے لیٹ کر جس پرکٹکیلیٹی کے مظاہرہ کیا، گیارہ سال بعد ہم وہیں کھڑے ہیں. جن کے لئے دشمن بنائے وہی آنکھیں دکھا رہے ہیں

sula-e-hudaibia?
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم

تحویل قبلہ کا حکم ٢ ہجری میں نازل ہوا، اس وقت تک موسی علیہ سلام کا قبلہ محمد صلله کا قبلہ تھا
یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، آپ کو پتہ چلا تو اگلے سال آپ نے بھی روزہ رکھا
موسی علیہ سلام کو اللہ نے فرعون کے دربار میں جانے کا حکم دیا تھا

آخر مولوی ہو ، عقل کی بات تو نہی کرو گے
صرف نماز روزے کے علاوہ بھی کوئی کام ہوتا ہے زندگی میں

اگر اندھی تقلید ہر نبی کر رہا ہوتا توہر کوئی حضرت آدم کے زمانے سے شروع ہوتا
ذرا میری بات دوبارہ پڑھ لیجیے ، شکریہ
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: Great Words from a Great Man....

Beta afghanistan ne jab soviets ko haraya tha tab bhi haram ka paisa kha ker hi hum ne apny yateem bachon ko baicha tha laRny. Aj tum main se koi is qabil hai k iss per baat ker sky. Allah ka hukam hai k yateemon aur maskeeno per rehem kero . aur hum ne aik baar un ko baicha aur kuch mullah us main se ameer ho gaye (Abdul Ghazi bhi usi haram k paisy se banay thy) aur doosri baar unhi mazloomon per bombari ki.

Dada jaan ytyeem potonn ka atni daard that to khud chlay jatay.
 

Back
Top