AbuOkasha
MPA (400+ posts)
مزاحمت اور تقلید
[FONT=&]
شاہ نواز فاروقی

[FONT=&]
شاہ نواز فاروقی
[FONT=&]معروف کالم نگار ہارون الرشید نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ امت ِمسلمہ کی نجات کے لیے استعمارکی مزاحمت کافی نہیں، امت ِمسلمہ کے عروج کے لیے علم درکار ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری نجات صرف علم میں ہے۔ مگر ہارون الرشید صاحب کے بقول مسلمان علم کیسے پیدا کریں؟ ہمارے علماءتقلید میں مبتلا ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے طالبان کا حوالہ دیا ہے اور انہیں فرقہ پرست قرار دیتے ہوئے نرا مقلد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان امیرالمومنین کی بیعت پر اصرار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بیعت کیوں، الیکشن کیوں نہیں؟ طالبان مسواک پر زور دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسواک کی جگہ ٹوتھ پیسٹ کیوں نہیں؟ ہارون الرشید صاحب نے مزید فرمایا ہے کہ طالبان ایسے سوالات کا کیا جواب دیں؟ ملاّ اپنے ذہن سے نہیں اپنے اساتذہ کے ذہن سے سوچتا ہی، اُس کے لیے فقہ ہی دین ہے اور اُس کا مکتبہ فکر ہی اس کا مذہب ہے۔ ہمارے یہاں ”سقوط ِبغداد“ کا ذکر بہت ہوتا ہے مگر بغداد کا منظرنامہ کم ہی بیان ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تاتاریوں کے زمانے کا بغداد جنرل پرویزمشرف یا جنرل کیانی کا پاکستان نہیں تھا۔
بغداد جنید بغدادیؒ اور منصور حلاجؒ کے علم کا امین تھا۔ صرف بغداد میں اتنی جامعات تھیں کہ آج پورے عالم اسلام میں بھی اتنی جامعات نہیں ہیں۔ کہنے والوں نے کہا ہے کہ اُس زمانے کے ذہین طالب علم کا علم اتنا تھا جتنا علامہ اقبال کا۔ مگر اُس دورکے لوگوں کے علم میں یہ خرابی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ اُن کے لیے ”قابل عمل“ نہیں رہ گیا تھا۔ جس وقت تاتاریوں نے بغداد کو تاراج کیا اُس وقت بھی عراق کے طول وعرض میں بڑے بڑے اولیا موجود تھے۔ تذکرہ غوثیہ میں ہے کہ فریدالدین عطار بغداد سے کچھ فاصلے پر غالباً نیشا پور میں موجود تھے۔ تاتاری لشکر نیشاپور کی جانب بڑھا تو عطار نے اپنی خانقاہ میں سامنے رکھا پیالہ الٹ دیا۔ لمحہ بھر میں نیشاپور تاتاری لشکر کی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہوگیا۔ تاتاری لشکر حیران ہوا اور لوٹ گیا مگر اگلے دن پھرآیا۔ اگلے دن پھر عطار نے خانقاہ میں پیالہ الٹ دیا۔ شہر پھر غائب ہوگیا۔ تیسرے دن پھر یہی ہوتا مگر عطارکو ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ تاتاری لشکر نیشاپور میں داخل ہوا اور تاتاریوں کے ابتدائی حملوں میں جو لوگ شہید ہوئے ان میں عطار بھی شامل تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ایسے صاحب ِعلم اور صاحب ِکرامت لوگوں کی موجودگی بھی بغداد کو تاراج ہونے سے نہ بچاسکی۔ عمل سے محروم علم کی فراوانی کسی کے کام نہ آسکی۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں مجرد علم اہم ہے یا علم پر عمل سے پیدا ہونے والی مزاحمت؟بہادر شاہ کی دلّی بھی کوئی مذاق نہیں تھی۔ وہ ایک جانب قلی قطب شاہ سے میرتقی میر اور میر سے غالب تک کی عظیم اردو شاعری کی امین تھی۔
دوسری جانب وہ حضرت مجدد الف ثانیؒ، خواجہ معین الدین چشتیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے بے پناہ علم کی علامت تھی۔ دلّی تاراج ہورہی تھی تو وہاں کم ازکم ایسی سو شخصیات تھیں کہ پورے عالم اسلام میں اُن کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان میں سے ایک شخصیت مولانا ایوب دہلوی بھی تھے جنہیں ’رازی دوراں‘ کہا گیا ہے۔ مولانا کے علم کا یہ حال تھا کہ کسی نے اُن سے پوچھا کہ سنا ہے آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا: جی ہاں! آزاد ہمارے جوتے اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ مگر دلّی میں علم کی ایسی بہتات بھی اُسے مفتوح ہونے سے نہ بچاسکی۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی۔ دلّی کے مبلغ علم اور مبلغ عمل میں ایک فرق تھا۔ دلّی کا علم سو کلو تھا اور عمل ایک کلو۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں برپا ہونے والا ”مزاحمتی عمل“ کوئی کھیل تماشا نہیں۔ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تھا تو کہا جاتا تھا کہ سوویت یونین جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا۔ اورکہنے والے غلط نہیں کہتے تھے۔ سوویت یونین کی تاریخ یہی تھی۔ مگرافغانستان کے مزاحمتی عمل نے سوویت یونین کو ایسا لوٹایا کہ سوویت یونین ہی باقی نہ رہا۔ سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والوں کا ”علم “ یقیناً کم ہوگا مگر ان کے علم وعمل میں ہم آہنگی تھی۔ ان کا علم کم تھا مگر کھرا تھا۔ ان کا عمل بھی کم ہوگا مگر وہ بھی کھرا تھا۔ چنانچہ تاریخ بدل کر رہ گئی، صرف سوویت یونین کے حوالے سے نہیں، جہاد کے حوالے سے بھی۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سے پہلے جہاد ماضی کی یاد تھی، ماضی کا قصہ تھا اور اس کا ہمارے حال سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ مگر سوویت یونین کی مزاحمت کرنے والوں نے ماضی کو زندہ کرکے اسے زندہ حال بنادیا۔
امریکا کے خلاف افغانستان میں ہونے والی مزاحمت سوویت یونین کے خلاف ہونے والی مزاحمت سے بڑھ گئی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں جہاد کرنے والوں کے ساتھ امریکا تھا، یورپ تھا، پاکستان تھا بلکہ سارا عالم اسلام تھا۔ لیکن امریکا کے خلاف مزاحمت کا کوئی کھلا حامی ومددگار نہیں۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان میں صرف امریکا ہی نہیں پورے مغرب کو شکست ہوگئی ہے۔ یہ ایسی شکست ہے کہ اس شکست کی خبر کے عام ہونے سے امریکا اور یورپ ہی نہیں عالم اسلام کے حکمران بھی لرز رہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ مزاحمت کی کامیابی ثابت ہوکر عوام تک پہنچ گئی تو عالم اسلام کی کایاکلپ ہوکر رہ جائے گی۔ مگر ہارون الرشید صاحب مزاحمت کا ذکر اس طرح کررہے ہیں جیسے یہ کچھ بھی نہ ہو۔ بلاشبہ مسلمانوں کو علم کی ضرورت ہی، مگر افغانستان میں ہونے والی مزاحمت ایسی ہے کہ اس نے عالم اسلام کی قلت ِ علم کا بھی فرض کفایہ ادا کیا ہے۔لیکن تقلید کا معاملہ تو رہ ہی گیا۔ہارون الرشید صاحب نے تقلید کو منفی اور قابل مذمت عمل کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن تقلید اپنی نہاد میں ایک مطلوب اور محمود عمل ہے۔ تقلید کا مفہوم لفظ‘ معنی اور عمل کی صحت کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقلی کا عمل ہے۔ یہ ایک مخصوص دائرے میں معنی کو باربار دریافت کرنے کی سعی ہی، اور بلاشبہ ہمارے روایتی علماءنے یہ کام شاندار انداز میں کرکے دکھایا ہے۔ اتنے بہترین انداز میں کہ دوسرے مذاہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تقلید کا عمل اُس وقت بھی مطلوب و محمود ہے جب معاشرے میں انتشار برپا ہو اور لوگ ایک معنی کو اس کی مختلف صورتوں میں پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہوں۔ بلاشبہ نیا علم اجتہادی فکر سے پیدا ہوتا ہی، تقلید ِ محض سے نہیں۔ اسلامی تاریخ میں رومیؒ اور غزالیؒ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
برصغیر میں اس کی سب سے نمایاں مثال شاہ ولی اللہ ؒ ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اجتہادی فکر کے لیے کم سے کم اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی سطح درکار ہی، اور ظاہر ہے کہ یہ تمام سطحیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کو اجتہادی فکر اور اپنا علم پیدا کرنا چاہیی، لیکن جب تک یہ کام نہیں ہوتا تقلید مسلمانوں کا ایک بڑا سہارا ہے۔ اس سے اورکچھ نہیں تو ہماری مذہبی فکر کی روایت تو قائم و برقرار ہے اور پوری صحت کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہورہی ہے۔
ہارون الرشید صاحب نے اس سلسلے میں بیعت اور الیکشن کو ایک دوسرے کا متبادل قراردیا ہے اور مسواک اور ٹوتھ پیسٹ کو ہم معنی بنایا ہے۔ لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہماری تاریخ میں معنی اور اس کی صورت یا [/FONT][FONT=&]Form[/FONT][FONT=&] کے درمیان اکثر ایسا گہرا رشتہ پایا جاتا ہے کہ صورت یا [/FONT][FONT=&]Form[/FONT][FONT=&]کے بدلنے سے معنی بھی بدل کر رہ جاتے ہیں۔
ہارون الرشید کی بات کو مان لیا جائے تو کل کوئی اٹھے گا اورکہے گا کہ اصل بات تو ”عبادت“ کرنا ہے چنانچہ نماز تو ”گیان دھیان“سے بھی ہوسکتی ہی، اس کے لیے رکوع اور سجدے کی کیا ضرورت ہی؟ لیکن ہم جانتے ہیں کہ نماز میں نماز کی روح اور اس کی ادائیگی کا طریقہ دونوں باہم لازم وملزوم ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مسواک اور بیعت کا بھی ہے۔ بیشک ٹوتھ پیسٹ سے منہ صاف ہوجاتا ہے مگر چونکہ اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی استعمال نہیں فرمایا اس لیے اس میں وہ برکت اور تقدیس نہیں ہوسکتی جو مسواک میں ہے۔ ہارون الرشید غورکریں تو بیعت کا معاملہ اس سے بھی بڑا ہے۔[/FONT]
[/FONT]
[/FONT]
Last edited by a moderator: