ابھی محمد الیاس صاحب کی تحریر پڑھی جس میں ناروے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔
میں نے آج صبح ٹیلی نار کے بائیکاٹ کے خلاف اظہار خیال کیا اور جواب میں کافی مثبت اور منفی آراء ملیں۔
ان واقعات کو دیکھ کر میری عاجزانہ رائے میں جس طرح وزیراعظم پاکستان نے تقریر میں کہا تھا کہ مغرب کو کبھی یہ باور ہی نہیں کرایا گیا کہ قرآن اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کتنے قابل احترام ہیں ۔ جب ان کی توہین کی جاتی ہے تو ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔
اب بات یہ ہے کہ دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کل کر
یو این او میں اور مغربی ممالک میں دلیل کیساتھ ایسے قوانین لائے جائیں جس سے اس طرح کے واقعات کا تدارک ہو سکے۔ جس طرح یہودیوں کو ہولوکاسٹ سے تکلیف پہنچتی ہے اگر کوئی اس پر بات کرے اور تمام مغربی ممالک میں اس پر بات کرنا بھی جرم ہے۔
اسی طرح ہم مسلمانوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے اگر کوئی قرآن پاک یا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔
ہماری حکومت کو اب اس پہ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے ۔
مغربی ممالک میں اظہار رائے کی تو آزادی ہے مگر ہولوکاسٹ پر بات کرنا جرم ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ایک کثیر تعداد میں لوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے۔ میرے خیال میں مسلم ممالک اگر نیک نیتی کے ساتھ اگر اس پر محنت کریں تو یہ اتنا ناممکن کام نہیں ہے۔ بے شک مسلمان آج پستی کا شکار ہیں اور ذلت و رسوائی کا بھی مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہماری بالکل کوئی حیثیت ہی نہیں۔
ہم اپنی بد عملیوں کی وجہ سے ادھر تک پہنچنے ہیں۔
جو قوم اپنی مقدس ترین کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی حفاظت نہ کر سکے تو اس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
باقی بات رہ گئی ٹیلی نار کے بائیکاٹ کی تو اس طرح کے قصور کسی اور کا اور سزا کسی اورجیسی حرکتوں سے کچھ نہیں ہونے والا ۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی حکومت پر ہر طرح سے دباؤ ڈالیں تا کہ وہ ٹھوس اقدامات کرے۔
میں نے آج صبح ٹیلی نار کے بائیکاٹ کے خلاف اظہار خیال کیا اور جواب میں کافی مثبت اور منفی آراء ملیں۔
ان واقعات کو دیکھ کر میری عاجزانہ رائے میں جس طرح وزیراعظم پاکستان نے تقریر میں کہا تھا کہ مغرب کو کبھی یہ باور ہی نہیں کرایا گیا کہ قرآن اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کتنے قابل احترام ہیں ۔ جب ان کی توہین کی جاتی ہے تو ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔
اب بات یہ ہے کہ دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کل کر
یو این او میں اور مغربی ممالک میں دلیل کیساتھ ایسے قوانین لائے جائیں جس سے اس طرح کے واقعات کا تدارک ہو سکے۔ جس طرح یہودیوں کو ہولوکاسٹ سے تکلیف پہنچتی ہے اگر کوئی اس پر بات کرے اور تمام مغربی ممالک میں اس پر بات کرنا بھی جرم ہے۔
اسی طرح ہم مسلمانوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے اگر کوئی قرآن پاک یا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔
ہماری حکومت کو اب اس پہ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے ۔
مغربی ممالک میں اظہار رائے کی تو آزادی ہے مگر ہولوکاسٹ پر بات کرنا جرم ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ایک کثیر تعداد میں لوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے۔ میرے خیال میں مسلم ممالک اگر نیک نیتی کے ساتھ اگر اس پر محنت کریں تو یہ اتنا ناممکن کام نہیں ہے۔ بے شک مسلمان آج پستی کا شکار ہیں اور ذلت و رسوائی کا بھی مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہماری بالکل کوئی حیثیت ہی نہیں۔
ہم اپنی بد عملیوں کی وجہ سے ادھر تک پہنچنے ہیں۔
جو قوم اپنی مقدس ترین کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی حفاظت نہ کر سکے تو اس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
باقی بات رہ گئی ٹیلی نار کے بائیکاٹ کی تو اس طرح کے قصور کسی اور کا اور سزا کسی اورجیسی حرکتوں سے کچھ نہیں ہونے والا ۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی حکومت پر ہر طرح سے دباؤ ڈالیں تا کہ وہ ٹھوس اقدامات کرے۔