مرزا غلام احمد قادیانی کی پیدائش
مرزا صاحب اپنی پیدائش کے متعلق لکھتے ہیں:
’’میں تو اُم پیدا ہوا تھا اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی جس کا نام جنت تھا اور یہ الہام کہ یَا آدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکْ الْجَنَّۃ جو آج سے بیس برس پہلے براہینِ احمدیہ کے صفحہ 496 میں درج ہے اس میںجو جنت کا لفظ ہے اس میں یہ ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ لڑکی جو میرے ساتھ پیدا ہوئی اس کا نام جنت تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 351؛ روحانی خزائن، 15: 479
چونکہ مرزا صاحب کے ساتھ پیدا ہونے والا دوسرا بچہ لڑکی تھی اس لیے انہیں یہ وہم تھا کہ ان کے اندر بھی انثیّت کا مادہ موجود ہے چنانچہ انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہاریوں کیا:
’’میں خیال کرتا ہوںکہ اس طرح پر خدا تعالیٰ نے انثیت کا مادہ مجھ سے بکلّی الگ کر دیا۔‘‘
یعقوب علی قادیانی، حیات النّبی، 1: 50
مرزا صاحب کی تاریخِ پیدائش کا معمہ
مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کے متعلق متضاد بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ حتمی تاریخ کا علم خود مرزا صاحب کو اور ان کے اہل خانہ کو بھی نہیں۔ معروف یہی ہے کہ و ہ لاہور کے شمال مشرق میں 50، 55 میل پر و اقع ہندوستان کے ضلع گورداسپور کے ایک چھوٹے سے قصبہ قادیان میں 13 فروری 1839ء یا 1840ء میں پیدا ہوئے، جب سکھ حکومت دم توڑ رہی تھی اور ہندوستان میں برطانوی اقتدار کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس دور کے متعلق ان کی اپنی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ جب 1857 کا ہنگامہ آزادی شروع ہوا تو اس وقت ان کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا اور ریش و برودت کا آغاز نہیں تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 159؛ مندرجہ روحانی خزائن 13: 177
اپنی تاریخ پیدائش سے متعلق قادیانیت کے پیشوا کے بیان پر غیر تو غیرٹھہرے ان کے اپنے بیٹے کو بھی اعتماد نہیں۔ وہ اسے صحیح تسلیم نہیں کرتا اور اپنے اختلاف کا اظہار اس طرح کرتا ہے:
’’لیکن بعد میں ان کے خاندان کے افراد میںان کے سالِ ولادت کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ پہلے نظریے کے مطابق سال ولادت 1836ء یا 1837ء ہو سکتا ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 150
’’ایک تخمینہ کے مطابق سال ولادت1831ء ہو سکتا ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 74
’’پس 13 فروری 1835 عیسوی بمطابق 14 شوال 1250 ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2:76
’’جبکہ دیگر 1833ء یا 1834ء کو سال ولادت قرار دیتے ہیں۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 194
’’معراج دین نے تاریخ ولادت 17 فروری 1832ء مقرر کی ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 302
مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کا تعین ایک ایسا معمہ ہے جسے ان کا بیٹا بھی حل نہ کر سکا اور شش و پنج میں پڑ گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا نام و نسب اور خاندان
مرزا غلام احمد قادیانی کے نام و نسب اور خاندان کے بارے میں جاننا اس لیے ضروری ہے کہ کسی تنظیم اور تحریک کے بانی کے عزائم و مقاصد اورنظریات و خیالات اس کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں اور انہیں اس کی ذات سے الگ کرکے دیکھنا اور پرکھنا ممکن نہیں۔
مرزا صاحب کا نام غلام احمد، ماں کا نام چراغ بی بی، باپ کا نام غلام مرتضیٰ، دادا کا نام عطا محمد اور پردادا کا نام گل محمد تھا۔ مرزا کے اس شجرۂ نسب سے اس کی اور اس کے آباء و اجداد کی نسل متعین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ مرزائے قادیان کو خود معلوم نہیں کہ ان کی نسل اور خاندان کیا ہے؟ وہ اس حوالے سے تشکیک و ابہام کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت خود ان کی تحریریں ہیں۔ وہ اپنی اصل ونسل کے بارے میںمتضاد بیانات دیتے ہیں اور کسی ایک نسل یا خاندان پر اکتفا نہیں کرتے۔ یہ بات عام قاری کے لیے حیرانی کا باعث ہے۔ ہم ذیل میں مرزا کی تحریروں کی روشنی میںان کی نسل وخاندان معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ مغل برلاس
مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق ان کا تعلق مغل قوم اور اس کی شاخ برلاس سے تھا۔ وہ اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والدصاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطا محمداور پڑدادا صاحب کا نام گُل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم برلاس ہے اور میرے بزرگو علیہ السلام کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیںمعلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں ثمرقند سے آئے تھے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 144، 145؛ روحانی خزائن، 13: 162، 163
2۔ فارسی الاصل ہونے کا گمان
لیکن پھر انہیں جانے کیا سوجھی کہ قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی ﷺ کی کچھ نصوص کو پڑھتے ہی انہوں نے خود کو ان کا مصداق سمجھنا شروع کر دیا اور کچھ عبارتیں اپنے پاس سے گھڑ کر انہیں الہام قرار دے دیا۔ بعض احادیثِ مبارکہ میں حضور ﷺ نے فارس کا تذکرہ فرمایا اور محدثین کی اکثریت نے اس سے مراد امام اعظم ابو حنیفہؒ لیے ہیں کیونکہ وہ فارسی النسل تھے اور ان کی علمی خدمات کا ایک جہان معترف ہے اور یہ اعتراف صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ لیکن مرزا صاحب نے خود ہی اسے اپنے بارے میں الہام بنا کر اپنے آباء و اجداد کو فارسی الاصل قرار دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ مذکورہ کتاب کے حاشیے میں لکھتے ہیں:
’’دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے: لَوْ کَانَ الايْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَيَّا لَیَنَالُهُ رَجُلٌ مِنْ فَارَس۔ (1) یعنی اگر ایمان ثریا سے معلّق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے وہیں جاکر اس کو لے لیتا۔ اور پھر تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے: إن الذین کفروا رد علیھم رجل من فارس شکر اللہ سعیہ۔ یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا۔ خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے۔ یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اوّلین فارسی تھے۔‘‘(2)
(1) یہ حدیث اختلافِ الفاظ کے ساتھ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے۔ ’صحیح بخاری (4: 1858، رقم: 4615)‘ میں بروایتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس طرح آئی ہے:
وضع رسول اللہ ﷺ یدہ علی سلمان، ثم قال: لو کان الإیمان عند الثریا لنالہ رجال أو رجل من ھؤلاء۔
’صحیح مسلم (4: 1972، رقم: 2546)‘ میں درج ذیل الفاظ مذکور ہیں:
لو کان الدین عند الثریا لذھب بہ رجل من فارس أو قال من أبناء فارس حتی یتناولہ۔
اس حدیث مبارکہ کی مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب: ’اِمام ابو حنیفہ ص: اِمام الائمہ فی الحدیث (جلد اَوّل)‘۔
(2) غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 135؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 163
اپنے خاندان کے حوالے سے اپنے اس خلافِ حقیقت بیان کی وہ خود ہی ایک جگہ نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیںدیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا، ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں، اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ در اصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے، سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیںکیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہر گز معلوم نہیں، اسی کا علم صحیح اور یقینی اور دوسرے کا شکی اور ظنی۔‘‘
غلام احمد قادیانی، اربعین، حاشیہ: 23؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 365
3۔ بیک وقت اِسرائیلی اور فاطمی
مرزا قادیانی اس حد تک تضاد بیانی کا شکار ہیں کہ کبھی وہ مغلوں کی شاخ برلاس کہتے ہیں، پھر فارسی الأصل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جب طبیعت اس پر بھی اکتفا نہیں کرتی تو بیک جنبشِ قلم خود کو اسرائیلی اور فاطمی بھی قرار دینے لگتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ: 12؛ مندرجہ روحانی خزائن، 18: 216
4۔ چینی النسل
اپنی نسل اور اصل کے بارے میں مرزا صاحب نے ایک اور پینترا بدلا اور خود کو چینی النسل ثابت کرنے لگے۔ اپنی کتاب’’ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھا:
’’میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے ہیں۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ:41؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 127
5۔ بنی فاطمہ سے ہونے کا دعویٰ
مرزائے قادیان نے مہدی بننے کے چکر میں بھی اپنی نسل بدلنے کی تحریری کاوشیں کیں۔ بعض احادیث میں چونکہ امام مہدی کے خاندانی نسب کی نشاندہی بھی موجود ہے اس لیے مرزا صاحب نے بڑے ہی تکلف کے ساتھ بنی فاطمہ سے ہونے کا دعویٰ کیا:
’’میں اگر چہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں۔ میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔‘‘
غلام احمد قادیانی، نزول المسیح، حاشیہ: 48؛ مندرجہ روحانی خزائن، 18: 626
6۔ ایک معجون مرکب
مرزا صاحب اپنی خاندانی اصل کے بارے میں درجہ بالا متضاد معلومات بہم پہنچانے کے بعد خود ہی لکھتے ہیں:
’’اورمیں اپنے خاندان کی نسبت کئی دفعہ لکھ چکا ہوںکہ وہ ایک شاہی خاندان ہے اور بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے ایک معجون مرکب ہے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب:158، 159؛ مندرجہ روحانی خزائن، 15: 286، 287
7۔ ہندو ہونے کا اعلان
ہندوستان میں اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ہندو ؤں کو خوش کرنے کے لیے مرزا صاحب اپنا ناتہ ان سے بھی جوڑنے سے نہیں چونکتے بلکہ نت نئے دعوؤں کا ریکارڈ بناتے ہوئے اعلان کرتے ہیں:
’’پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں۔‘‘
1۔ غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی، تتمہ: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 521
2۔ تذکرہ، مجموعہ الہامات مرزا: 381
8۔ سکھ ہونے کا اعلان
مرزا صاحب نے سکھوں کے ساتھ بھی اپنا تعلق ظاہر کیا۔ چنانچہ سکھ ہونے کا اعلان اس تعارف کے ساتھ کرتے ہیں:
’’8 ستمبر 06 19ء بوقت فجر کئی الہام ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے امین الملک جے سنگھ بہادر۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 472
9۔ آریوں کا بادشاہ ہونے کا اعلان
مرزا صاحب اپنے ایک الہام میں خود کو آریوں کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ دعوی صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے۔ آریوں کا بادشاہ۔
غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقہ الوحی: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 522
10۔ رُدّر گوپال ہونے کا اعلان
’’جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے جس کو ردّر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا)اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے۔‘‘
غلام احمد قادیا نی، تتمہ حقیقۃ الوحی: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 521
11۔ نسلیں ہیں میری بے شمار
مختلف نسلیں تبدیل کرنے کے بعد وہ ایسی لفظی قلابازی کھاتے ہیں کہ عقل حیران اور ناطقہ سربگر یبان ہونے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
غلام احمد قادیانی، در ثمین: 100
12۔ اعترافِ حقیقت
پھر ان تمام نسلوں پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے ایک اور چھلانگ لگاتے ہیں اور خود کو نوع انسانی سے نکال باہر کرتے ہیں اور اپنی حقیقت کااعتراف یوں کرتے ہیں:
کِرم خاکی ہوں میں پیارے نہ میں آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور اِنسانوں کی عار
غلام احمد قادیانی، در ثمین: 68
اس خلط مبحث سے بقول غالب:
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
کے مصداق مرزا کی نسل کا مسئلہ ابھی تک لاینحل ہے، اس لیے ہم اس بحث کو یہیں سمیٹتے ہیں۔
مرزا قادیانی کی جنس
مرزا صاحب کے بقول ان کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کی موت کے ساتھ ہی ان سے انثیت کا مادہ کلیتاً الگ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مرزا صاحب کو اپنی مردانگی کا یقین ہو جانا چاہیے تھا مگرایسا نہیں ہوا، وہ بعد میںجنس مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے رہے۔ اس کا سبب مرزا صاحب ہی جانتے ہوں گے ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب ایک عجیب و غریب شخص تھے۔ بھول بھلیوں اور پہیلیوں کے شوقین حضرات کے لیے وہ گویا ایک پہیلی تھے وہ مرد تھے یا عورت؟ آپ بھی عقل آزمائیں۔ ان کی کہانی ان کی زبانی ملاحظہ کریں:
1۔ ’’الہام ہوا کہ تو فارسی جوان ہے۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات: 634
2۔ ’’الہام ہواسلامت بر تو اے مرد سلامت۔‘‘
تذکرہ، مجموعہ الہامات: 297
3۔ لیکن اس کے بعد دعویٰ مردانگی سے منحرف ہو کر دعویٰ نسوانیت کرنے لگتے ہیں:
مرزا صاحب کا ایک مرید قاضی یار محمد اپنے ٹریکٹ نمبر 34 موسومہ ’’اسلامی قربانی‘‘ میں لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح موعود (مرزا) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی گویا کہ آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔‘‘
قاضی یار محمد، اسلامی قربانی، ٹریکٹ نمبر 34، صفحہ: 34
4۔ ’’خدا نے مجھے الہام کیا کہ تیرے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 95؛ تذکرہ: 144
5۔ ’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی: 143؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 581
مرزا کے ان الہامات سے کوئی بھی ذی شعور انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی جنس کیا تھی؟آیا وہ مرد تھے یا عورت یا پھر کچھ اور!
بچپن کی ’’سیرت‘‘ کے چند واقعات
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہوالوں کا بچپن ان کی آئندہ زندگی کاایک خوبصورت دیباچہ ہوتا ہے۔ لوگ ان کے بچپن سے ان کے سیرت و کردار کی ندرت اور عظمت کا اندازہ لگا لیتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مرزائے قادیان کا بچپن’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کے مصداق ان کی آئندہ زندگی کا آئینہ دار اپنی نوعیت کا عجیب بچپن تھا۔ مرزا کی اوائل عمری کی ناقابل رشک سیرت کے چند گوشے قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں۔