ہارون الرشید کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خود کو اکیسویں صدی کا بقراط سمجھتا ہے، اپنی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھتا ہے، جنرل کیانی کو دورِ حاضر کا صلاح الدین ایوبی سمجھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ تحریک انصاف کے بارے میں اس کا ہر اعتراض درست ہواور نہ ہی ہر اعتراض غلط ہوسکتا ہے، مگر اپنی بات کو حتمی سمجھنا اس کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ اسد عمر کی قابلیت پر اعتراض اٹھانے کی کوئی خاص وجہ نہیں بتا سکا۔ اگر وہ تیس اکتوبر کے بعد تحریک انصاف میں آیا تو کیااس کو تحریک انصاف میں نہیں لینا چاہئے تھا، حالانکہ عمران خان بڑے اصرار کے ساتھ اسد عمر کو تحریک انصاف میں لایا۔ نئی جماعت ہونے کے سبب غلطیاں ہونا فطری بات ہے، مگر اس بات کے جھنڈے لہرا دینا کہ تحریک انصاف ایک خوردبرد پارٹی بن چکی ہے اور ہر کالم میں اسی تاثر کو تقویت دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ایسے نادان دوستوں سے دانا دشمن ہی بہتر ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہارون الرشید نے بڑے خلوص کے ساتھ تحریک انصاف کا ساتھ نبھایا ، مگر کیا ضروری ہے کہ آپ کی ہر بات کو پارٹی کی پالیسی بنایا جائے۔ آپ کی خواہش پر چلا جائے تو پھر تو عمران خان کو ہٹا کر صلاح الدین ایوبی یعنی کہ جنرل کیانی کو تحریک انصاف کا سربراہ ہونا چاہئے۔
ہارون الرشید صاحب! آپ کا شکریہ کہ آپ نے باضابطہ طور پر اپنے گراں قیمت مشوروں کی پوٹلی کو ہر گھنٹے کی بنیاد پر عمران خان کو بھیجنے کا سلسلہ ترک کردیا۔ اسی میں تحریک انصاف کی بھلائی ہے۔