Hudhuda insaan ya parinda?

Status
Not open for further replies.

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

Ghamdi sb and Parvez sb have almost the same sense of understanding of mainstream Islam, so he was forced to flee Pakistan.
He is calling Parvez sb a fitna and zalalat or maybe dalaalat, exactly the same as he himself is being accused of by the mullahs.Very mullish.

I have great respect for Ghamdi sb therefore no more comments.

Pervaz and Mirza manhoos have the real mentality of Mulla.

They change the quran where ever they want it to be.

this is Mullaism.

If they want a Murghi to eat , they could justify the haram and dead chicken as halal.

So , it is very obvious , these people have a psychology and the mould Quran towards there ideas.
 

saud491

MPA (400+ posts)
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

[FONT=&quot]ارباب ''فکر پرویز'' کی خدمت میں[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]​
[FONT=&quot]''اشراق'' میں ''پرویز صاحب کی اصل غلطی'' کے عنوان سے، ہمارے رفیق خورشید احمد صاحب ندیم کا ایک مضمون چھپا۔ اس مضمون میں، ان کی سعی یہ ہے کہ وہ اس منہاج کی غلطی واضح کریں جو غلام احمد صاحب پرویز نے قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اپنے اس مقصد کے پیش نظر، وہ پرویز صاحب کی تفسیر سے چند مثالیں دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک مثال کا تعلق سورہ نمل کی ایک آیت سے ہے۔ اس میں پرویز صاحب کا [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]اور [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]سے متعلق نقطہ نظر، ان کے منہاج فکر کی نمائندہ مثال ہے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ہمیں توقع تھی کہ ارباب فکر پرویز غور و فکر سے کام لیں گے اور جن امور کی نشان دہی کی گئی ہے، انھیں سمجھ لیا جائے گا۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ ندیم صاحب کی کاوش داد طلب تھی،داد طلب ہی رہی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]تمام ارباب تحقیق [/FONT][FONT=&quot]'واد النمل' [/FONT][FONT=&quot]سے '' چیونٹیوں والی وادی'' اور [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]سے ''چیونٹی'' مراد لیتے ہیں۔ زیر بحث آیت میں، اس مفہوم پر الفاظ کی دلالت،بالکل قطعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی صاحب تحقیق نے کسی دوسری رائے کا بطور امکان بھی ذکر نہیں کیا، لیکن پرویز صاحب نے اس واضح اور قطعی مفہوم کے برخلاف، ایک دوسری رائے قائم کی ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک [/FONT][FONT=&quot]'واد نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے نمل قبیلے کا مسکن اور [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]سے اس قبیلے کی سردار عورت مراد ہے۔ یہ مفہوم اگر درست مان لیا جائے تو لفظ و معنی اپنے اصل رشتے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ گویا،گل کو اس کی اپنی ہی بو سے جدا کر دیا گیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ان الفاظ کی یہ تفسیر، چونکہ موجودہ زمانے ہی میں سامنے آئی ہے،چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی اپنی تفاسیر اور ہمارے رفیق خورشید احمد ندیم نے اپنے مضمون ''پرویز صاحب کی اصل غلطی'' میں اس پر تنقید کی ہے اور اس کی خامیاں قواعد زبان اور عقل عام کے دلائل سے واضح کر دی ہیں۔ لیکن آج تک پرویز صاحب اور اب ارباب فکر پرویز نے ان محکم دلائل کا جواب نہیں دیا اور اپنی رائے پر بدستور قائم ہیں۔ ا ن ارباب علم نے اس تفسیر کے لیے کیے گئے استدلال کا تانا بانا بکھیر دیا ہے، لیکن پرویز صاحب اور ان کے فکر کے حاملین مصر ہیں کہ اب بھی ان کی بات ہی درست ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کسی معاملے میں یہی رویہ کوئی اور اختیار کرتا تو ارباب فکر پرویز اسے غیر علمی رویے ہی سے تعبیر کرتے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]خورشیداحمد صاحب ندیم کے رشحات قلم ستمبر ١٩٩٠ کے ''اشراق'' کی زینت بنے تھے۔ اس کے جواب میں، ارباب فکر پرویز نے طویل عرصے تک قلم نہیں اٹھایا۔ لیکن حال ہی میں،ان کے جریدے ''طلوع اسلام'' میں ایک طویل مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی تین اقساط فروری، اپریل اور مئی ١٩٩٥ کے شماروں میں طبع ہو چکی ہیں۔ زیر نظر تحریر میں، ہمارے پیش نظر اس سلسلے کے [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے متعلق استدلال کا جائزہ لینا ہے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ان تین اقساط اور ستمبر کے شمارے میں چھپنے والے شذرے میں، پرویز صاحب کے اس نقطہ نظر کے حق میں، جو نکات پیش کیے گئے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]١۔ جانوروں کے نام سے انسانوں اور قبیلوں کے نام رکھے جاتے تھے، لہٰذا یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں کہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کسی قبیلے کا نام ہو۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٢۔ [/FONT][FONT=&quot]'قالت نملة' [/FONT][FONT=&quot]میں [/FONT][FONT=&quot]'قالت' [/FONT][FONT=&quot]کا فعل اس بات کی صریح دلیل ہے کہ یہ ذی شعور ہستی،یعنی انسان ہی کا قول ہے، اس لیے کہ کلام خود متکلم کی شخصیت طے کرتا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٣۔ چیونٹی نے کیسے جان لیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر آرہا ہے؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٤۔ چیونٹیاں اور دوسرے حیوانات اگر ایسے ہی باشعور ہوتے ہیں تو ان کے لیے نبوت و شریعت کیوں نہیں؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٥۔قواعد زبان کی رو سے، غیر ذوی العقول کے لیے واحد مونث کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں ۔چنانچہ، اگر یہاں چیونٹیاں ہی مراد ہوتیں تو آیت میں واحد مونث کے صیغے آتے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٦۔ زیر بحث آیت [/FONT][FONT=&quot]'وهم لا يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کے جملے پر ختم ہوئی ہے۔ یہ مان لیا جائے کہ معاملہ چیونٹیوں ہی سے متعلق ہے تو یہ جملہ ناموزوں ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے بجائے [/FONT][FONT=&quot]'وهم لا يرون' [/FONT][FONT=&quot]یا اس کا ہم معنی جملہ ہونا چاہیے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٧۔ یہ ایک عجیب و غریب اور ناقابل فہم واقعہ ہے۔ یہ بات ہی بعید از قیاس ہے کہ راستے میں کہیں اور چیونٹیاں نہیں تھیں اور اگر تھیں تو انھوں نے اپنی حفاظت کا بندو بست نہیں کیا اور لشکرسلیمانی انھیں روندتا ہوا، اس وادی کی سیانی چیونٹیوں تک آپہنچا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٨۔ عورت کا سردار ہونا کوئی مستبعد بات نہیں۔ اس زمانے میں عورتیں سربراہ ہوتی تھیں، جیسے کہ ملکہ سبا۔ اسی لیے [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کا لفظ تفخیم شان کے لیے نکرہ آیا ہے۔ اگر [/FONT][FONT=&quot]'نملية' [/FONT][FONT=&quot]استعمال ہوتاتو اس سے یہ واضح نہ ہوتا کہ یہ عورت قبیلے کی سردار ہے۔ بلکہ یہ بھی مشتبہ ہی رہتا کہ یہ قبیلے کی حقیقی فرد تھی یا محض اس سے متعلق کوئی ہستی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٩۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہ کمالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا سبب نہیں بن سکتے، جبکہ قرآن مجید میں ان قصص کے سنانے کا مدعا یہی ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان کے دل میں پیدا ہونے والے شکر کے جذبات کا باعث چیونٹی کے قول کا سماع نہیں، بلکہ ایک اور سلطنت کا حق کے آگے، قتال کے بغیر سرنگوں ہو جانا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]١٠۔تاریخی ریکارڈ کے دستیاب نہ ہونے کے سبب سے، تاریخ سے اس واقعے کی اصل صورت معلوم نہیں کی جا سکتی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]یہ دس نکات ہیں۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، ان سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے ایک انسانی گروہ مراد ہے۔ لیکن ان نکات کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ استدلال کی یہ عمارت کسی واقعی بنیاد سے بالکل محروم ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اسم نمل[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ہمارے نزدیک، یہ دلیل کہ جانور کے نام سے قبیلہ ہو سکتا ہے، اصل بحث سے غیر متعلق ہے۔ مابہ النزاع مسئلہ یہ نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جدید و قدیم، ہر دور اور ہر سماج میں، انسان نے اپنے آپ کو خوش خصال جانوروں کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ہمارا اعتراض دوسرا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ان الفاظ کا اطلاق کسی انسانی گروہ پر کرنا ممکن نہیں۔ یہ آیت ایک موقع و محل میں آئی ہے۔ الفاظ کا ایک دروبست ہے۔ پھر الفاظ کی اپنی ہیئت ہے۔ جس پہلو سے دیکھیے، یہ آیت مذکورہ معنی قبول نہیں کرتی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جو کچھ بھی لکھا جا رہا ہے، اس میں کوئی چیز بھی نئی نہیں ہے۔ علما سارا استدلال، بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔ حریم لفظ کی پاس داری کی گئی ہے۔ لیکن اس کا کیا کریں۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، لفظ کی حرمت کوئی درخور اعتنا چیز ہی نہیں ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]زیر بحث آیت میں ایک اہم لفظ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]ہے۔ 'نمل' اسم جنس ہے۔ پرویز صاحب کے نزدیک، یہ قبیلے کا نام ہے۔ عرب قبائل کے اسما پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسم جنس سے کسی قبیلے کے موسوم ہونے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ بالعموم، قبیلے کا نام کسی بڑے فرد کے نام پر ہوتا ہے اور ظاہر ہے فرد کا نام اسم جنس سے رکھنا قرین قیاس نہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ہم مان لیتے ہیں کہ کسی دوسری وجہ سے اس قبیلے نے [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کانام اختیار کر لیا۔ لیکن ایک سوال پھر بھی قائم رہتا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ اگر [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کوئی قبیلہ تھاتو کیا اس کی ایک فرد کا ذکر [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے لفظ سے کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے نزدیک، یہ اسلوب قواعد زبان کے خلاف ہے۔ یہاں [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے بجائے، اسم نسبت [/FONT][FONT=&quot]'نملية' [/FONT][FONT=&quot]استعمال ہونا چاہیے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں۔ عرب قبائل میں ایک قبیلے کا نام بنو کلب ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ زیر بحث وادی میں یہی قبیلہ آباد تھا۔ نام کی تبدیلی کے باعث آیت کے الفاظ غالباً اس طرح ہوتے: [/FONT][FONT=&quot]'حتی اذا اتوا علی واد الکلب قالت کلبية[/FONT][FONT=&quot]'، '' یہاں تک کہ جب (یہ لشکر، بنی کلب کی وادی میں پہنچا تو ایک کلبیہ نے کہا''۔ اسی جملے میں [/FONT][FONT=&quot]'قالت کلبية' [/FONT][FONT=&quot]کے بجائے [/FONT][FONT=&quot]'قالت کلبة' [/FONT][FONT=&quot]کر دیا جائے تو جملے کا مفہوم بالکل بدل جائے گا۔ اس صورت میں لازم ہو گا کہ ' [/FONT][FONT=&quot]واد الکلب' [/FONT][FONT=&quot]سے ایسا علاقہ مراد لیا جائے جو کتوں کا مسکن ہو۔ اس لیے کہ [/FONT][FONT=&quot]'کلبية' [/FONT][FONT=&quot]کا لفظ واحد قرینہ تھا، جس کی وجہ سے اسے قبیلے کے معنی میں لیا جا رہا تھا۔ قواعد زبان کی رو سے یہ بات بالکل غلط ہو گی کہ'' بنی اسد'' کے ایک فردکا ذکر ہو تو اسے ''اسدی'' کے بجائے ''اسد'' کہا جائے۔'' بنی کلب'' کا معاملہ ہو تو ا ن کا ایک فرد ''کلبی'' کے بجائے ''کلب'' قرار پائے اور قبیلہ ثعلب کا ایک فرد ''ثعلبی'' کے بجائے ''ثعلبان'' کے لفظ سے پکارا جائے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ادارہ طلوع اسلام کی دریافت کردہ مثال '' بچھو گھر'' ([/FONT][FONT=&quot]Home of Scorpions[/FONT][FONT=&quot])میں مضمر، زبان کے اسلوب کا اطلاق اس آیت پر نہیں ہوتا۔ اس مثال میں استعارے یا مجاز کا اسلوب ہے۔ پرویز صاحب کے نزدیک، قرآن مجید یہاں نمل قبیلے کا ذکر کر رہا ہے۔ اس قبیلے نے یہ نام کسی بھی وجہ سے اختیار کیا ہو، قرآن مجید نے اس کا ذکر بطور استعارہ یا مجاز نہیں کیا۔ استعارے یا مجاز کا یہ اسلوب مدح و ذم کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہے اور قرآن مجید کے اس مقام پر کسی قبیلے کی مدح و ذم کا کوئی موقع نہیں ہے۔ بنی کلب کے ایک فرد کا ذکر کلب کے لفظ سے اور بنی اسد کے ایک فرد کا ذکر اسد کے لفظ سے صرف اسی صورت میں کیا جائے گا، جب ان الفاظ کے معنوی پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہو۔ کوئی بھی سخن شناس یہ بات قبول نہیں کرے گا کہ بنی کلب کا سردار اپنے لوگوں کو [/FONT][FONT=&quot]'يا ايها الکلاب' [/FONT][FONT=&quot]کہہ کر پکارے، جبکہ موقع کلام [/FONT][FONT=&quot]'يا معشر الکلب' [/FONT][FONT=&quot]کہنے کا ہو اور واقع نگار ان کے ایک فرد کا ذکر ''کلب'' کے لفظ سے کرے اور موقع کلام سے اس کی کوئی مناسبت موجود نہ ہو۔ چنانچہ ہمارے نزدیک، قرآن مجید کی اس آیت کو مجاز یا استعارے کا اسلوب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے استعارے یا مجاز کا اسلوب قرار دے کر،ارباب فکر پرویز نے پرویز صاحب کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے اوران کے منہ میں وہ بات ڈال دی ہے جسے کہنا وہ کبھی پسند نہ کرتے۔ اصحاب پرویز نے ایسی تیز گامی دکھائی ہے کہ ان کا محمل فکر، ان کے پیچھے اڑے ہوئے گرد و غبار میں چھپ کر رہ گیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]فعل [/FONT][FONT=&quot]'قالت'[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ارباب فکر پرویز کے نزدیک [/FONT][FONT=&quot]'قالت' [/FONT][FONT=&quot]کا فعل [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]سے چیونٹی مراد لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ جو مخلوق انسانوں کی طرح مدعا آفرینی اور پھر اس مدعا کے اظہار کی صلاحیت سے عاری ہے، اس کی طرف قول یا کلام کی نسبت کسی طرح بھی موزوں نہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس دلیل کے دو پہلو ہیں: ایک پہلوان قواعد سے متعلق ہے، جو زبان و بیان کے فنی مطالعے سے اخذ کیے گئے ہیں اور دوسرا پہلو ان حقائق سے متعلق ہے، جوجانوروں کے سائنسی مطالعے سے منکشف ہوئے ہیں۔ قواعد زبان کی رو سے، کسی بھی غیر انسان کی طرف [/FONT][FONT=&quot]'قال' [/FONT][FONT=&quot]فعل کا اسناد بالکل درست ہے۔ عربی ادب کی مشہور کتاب [/FONT][FONT=&quot]'کليله و دمنه' [/FONT][FONT=&quot]جانوروں کے ساتھ '[/FONT][FONT=&quot]قال' [/FONT][FONT=&quot]فعل کے اسناد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کتاب کی کہانیوں کے کردار، بالعموم جانور ہیں، لیکن [/FONT][FONT=&quot]'قال' [/FONT][FONT=&quot]فعل کے اسناد سے ان کے جانور ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا،بلکہ کوئی اس بنیاد پر انکارکرے تو ہم ہی نہیں ارباب فکر پرویز بھی اس کا مذاق اڑا دیں گے۔علامہ اقبال نے اپنے کلام میں بلبل اور جگنو، گائے اور بکری، گھوڑے اور خچر اور مکھی اور مکڑے کے مکالمے نظم کیے ہیں۔ یہ مکالمے گہرے شعور پر مبنی ہیں، لیکن اس سخن فہمی کا مظاہرہ کسی نے بھی نہیں کیا کہ یہ درحقیقت، انسانوں کے نام ہیں یا اقبال نے بطور استعارہ کچھ انسانوں کا ذکر کیا ہے۔ تاہم، اس بحث سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے نزدیک، یہاں قرآن مجید نے بھی، اقبال ہی کی طرح، کوئی فرضی کہانی سنائی ہے۔ مقصود صرف یہ واضح کرنا ہے کہ کسی جانور کے ساتھ محض [/FONT][FONT=&quot]'قال' [/FONT][FONT=&quot]فعل کا اسناد، اسے کسی انسان کا نام قرار دینے کے لیے''قرینہ صارفہ'' نہیں ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ممکن ہے، ارباب فکر پرویز اس بات پر اعتراض کریں اور کہیں کہ ان کہانیوں میں [/FONT][FONT=&quot]'قال' [/FONT][FONT=&quot]فعل کا اسناد مجاز کے طریقے پر ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک، یہ اعتراض درست نہیں ہے،بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ بات ہی درست نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کہانی کا جانور ایک خاص کردار کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ کہانی نویس اس کے اسی کردار کی مناسبت سے،اس کے ساتھ مختلف افعال متعلق کرتا ہے۔ کہانی کے درو بست میں کردار کی خصوصیات کو حقیقت نفس الامری کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ اسناد مجاز کے اسلوب پر نہیں، بلکہ حقیقت اور واقعے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ غرضیکہ کہانی میں کہانی کا جانور،عملاً کلام کرتا ہے، البتہ،کہانی فرضی ہوتی ہے۔ اور فرضی کہانی،انسانوں کی ہو یا جانوروں کی، زبان کے قواعد کا اطلاق اسی طرح ہو گا، جیسے حقیقی واقعات کے بیان میں ہوتا ہے۔ لہٰذا محض قول کی نسبت سے'نملۃ' کو عورت قرار نہیں دیا جا سکتا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس نکتے پر بحث تمام ہوئی۔ ہماری اس بحث کے باوجود، اگر ارباب فکر پرویز کے نزدیک [/FONT][FONT=&quot]'قال' [/FONT][FONT=&quot]کا فعل یہاں موزوں نہیں تو ہم ان سے ایک سوال کرتے ہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ قرآن مجید کو وہی بات کہنی ہے، جو سارے مفسرین سمجھے ہیں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کو ''چیونٹی نے کہا'' کا مضمون ہی عربی زبان میں ادا کرنا ہے۔ کیا عربی زبان میں اس کے لیے [/FONT][FONT=&quot]'قالت نملة'[/FONT][FONT=&quot] کے بجائے کوئی دوسرے الفاظ موجود ہیں؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ارباب فکر پرویز نے بڑے اصرار کے ساتھ فعل [/FONT][FONT=&quot]'قالت' [/FONT][FONT=&quot]بطور دلیل پیش کیا ہے۔ وہ اپنے اصرار میں حق بجانب ہیں، بشرطیکہ اپنا یدجستجو آگے بڑھائیں اور ایسے مواقع کے لیے کوئی دوسرا فعل تلاش کرلیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں اور یقینا ممکن نہیں تو انھیں مان لینا چاہیے کہ ان کااصرار دلیل کی بنیاد سے محروم ہے۔ البتہ، اپنے اصرار پر قائم رہنے کے لیے، ان کے پاس ایک دوسرا راستہ موجود ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کے اس مقام کو بھی ایک کہانی قرار دے دیں۔ لیکن ایسا کر دکھانا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز صاحب بھی اسے ایک حقیقی واقعہ ہی سمجھتے ہیں، البتہ ایک خود ساختہ مشکل سے نکلنے کے لیے انھوں نے اپنی تفسیر میں الفاظ کے واضح اطلاق ہی کو بدل دیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]زیر بحث دلیل کا دوسرا پہلو، چیونٹی کے بارے میں ہمارے علم سے متعلق ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ ہمارے علم کے مطابق چیونٹی اس طرح کے کلام کی اہلیت نہیں رکھتی۔ لیکن یہ کوئی درست طریقہ نہیں ہے کہ ہم اپنا علم قرآن مجید پر حاکم بنا دیں۔ یہ پرورد گار ہستی کا کلام ہے، کسی انسان کی بات نہیں کہ ہم اسے اپنے علم کی روشنی میں پرکھیں اور پوری نہ اترے تو ماننے سے انکارکردیں۔ خداوند عالم نے کسی مخلوق کو کیا کچھ ودیعت کیا ہے، اس کا علم سب سے بڑھ کر خود اسی کو حاصل ہے، لہٰذا اس کی بات ہر لحاظ سے حتمی ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیت بتاتی ہے کہ چیونٹی یہ اور یہ اہلیت رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ ہمارے خریطہ علم میں اضافہ ہو اور ہم اپنے نقد علم کی غلطی دور کرلیں۔ قرآن مجید کا مقام یہ ہے ۔ یہ اسی کا کام ہے کہ وہ ہمارے علم کی اصلاح کرے اور ہماری حیثیت، اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اس کے سامنے سرافگندہ رہیں۔ہم آگے بڑھیں اور آیات کے معنی ہی بدل ڈالیں، یہ حدود سے تجاوز ہے۔ یہ ناسیہ فرسائی نہیں، سرتابی ہے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس معاملے میں صرف ایک ہی بات قابل لحاظ ہے ۔ ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کریں اور وہ خود بتا دے کہ جانور عقل و شعور سے عاری ہیں یا انھیں ابلاغ مدعا کی صلاحیت حاصل نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بات قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئی اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی شے کا عدم ذکر اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اسی طرح کئی مقامات پر قرآن مجید نے انسان کے فہم و ادراک اور زبان و بیان کی صلاحیت کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کسی طرح بھی درست نہیں کہ باقی جان دار یہ استعداد نہیں رکھتے۔ارباب فکر پرویز نے یہاں بھی غلطی کھائی ہے۔ ان کے نزدیک، سورہ رحمن کی آیات: [/FONT][FONT=&quot]'خلق الانسان، علمه البيان' [/FONT][FONT=&quot]١ سے واضح ہے کہ یہ صلاحیت صرف انسان کو حاصل ہے۔ حالانکہ اس حصر کے لیے ان الفاظ میں کوئی دلیل موجود نہیں ۔ پھر یہ بات حقیقت واقعہ ہی کے خلاف ہے۔ اسے قبول کر لیں تو ملائکہ بھی اس صلاحیت سے عاری قرار پائیں گے،جبکہ یہ بات، قرآن مجید کی متعدد آیات کے منافی ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس ضمن میں ارباب فکر پرویز نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ کلام خود صاحب کلام کی شخصیت پر دلالت کرتا ہے۔ ہمیں اس بات سے پورا اتفاق ہے، لیکن انھوں نے اسے جس طرح یہاں منطبق کیا ہے، اس سے اتفاق ممکن نہیں ۔ یہ اصول اپنے اطلاق میں دو پہلو رکھتا ہے: ایک پہلو یہ ہے کہ کلام سے صاحب کلام کے خصائص متعین کیے جائیں اور دوسرا یہ کہ کلام کی صاحب کلام سے نسبت درست یا حقیقی نہ سمجھی جائے۔ قرآن مجید کے اسلوب سے بالکل واضح ہے کہ یہ ایک حقیقی واقعے کا بیان ہے۔ چنانچہ اس آیت پر دوسرے پہلو کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اہل علم نے پہلے ہی پہلو کو اختیار کیا ہے۔ زبان شناسی کی جہت سے دیکھیں تو اس اصول کے ممکن اطلاقات یہی دو ہیں اور ان سے وہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا، جوپرویز صاحب نے اخذ کیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس نکتے پر بحث کرتے ہوئے،ارباب فکر پرویز نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کی ایک تفسیری بحث کا حوالہ دیا ہے۔ سورہ یوسف کی تفسیرمیں، سید مرحوم نے ایک قول کو حضرت یوسف علیہ السلام کا قول قرار دیا ہے۔انھوں نے قول کی عظمت، دلیل کے طور پر پیش کی ہے اور زیر بحث اصول کی روشنی میں اسے زلیخا کا قول نہیں مانا۔ لیکن سورہ یوسف کے اس مقام اور زیر بحث آیت میں ایک بدیہی فرق موجود ہے۔ سورہ یوسف کے جملے میں قول کے قائل کا نام موجود نہیں، جبکہ زیر بحث آیت میں متکلم کا نام، بالتصریح مذکور ہے، لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کو قول سے مترشح صفات سے متصف مان لیا جائے۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ایک زمانے میں، جب یورپ نے مادی علوم میں ترقی کی تو بہت سی مانی ہوئی باتیں زیر بحث آ گئیں۔ سائنس کے طفل نوخیز نے ہر وہ بات پاے انکار سے ٹھکرا دی، جو اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ بات آگے بڑھی۔ مذہبی کتابوں میں موجود حقائق خلاف واقعہ ٹھہرے اور انھیں ماننا بے وقوفی قرار پایا۔ اس فضا سے مسلمان بھی متاثر ہوئے۔ بعض نے انکار محض کی اور بعض نے تاویل باطل کی راہ اختیار کی۔ اسی زمانے میں قرآن مجید کا یہ مقام بھی زیر بحث آیا۔ بعض لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ چیونٹی نہ صرف ایک باشعور مخلوق ہے، بلکہ اسے اظہار مدعا کی قدرت بھی حاصل ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ ایک انسان، یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام اس کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]زمانہ بدل گیا ہے۔ تجربات نے سائنس کے' 'مرد حر'' کی کمر جھکا دی ہے۔ ہم ارباب فکر پرویز سے درخواست کریں گے کہ وہ بھی اس مخمصے سے نکل آئیں ۔ سائنس دانوں نے انکار محض کی روش چھوڑ دی ہے اوربہت سے حقائق مان لیے ہیں۔ آپ بھی اپنا رویہ بدل لیں اور جو باتیں ماننے کی ہیں، انھیں مان لیں۔ جانوروں کا بولنا، صاحب شعور ہونا اور اپنے ہم جنسوں کو ابلاغ، اب مانی ہوئی باتیں ہیں۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کے تحت، اپنے زمانے کی تحقیقات سے استشہاد بھی کیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]علم نمل[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ارباب فکر پرویز کے نزدیک یہ بات نا قابل تسلیم ہے کہ ایک چیونٹی نے،نہ صرف دور سے آنے والا ایک لشکر پہچان لیا، بلکہ ہم جنسوں کو سالار لشکر کا نام لے کر خطرے سے آگاہ کیا ۔یہ اعتراض بھی، درحقیقت چیونٹی سے متعلق ہمارے نقد علم پر مبنی ہے۔ قرآن مجید کا جملہ اس پر دلالت میں بالکل واضح ہے اور ہمارا مبلغ علم یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ماننے میں رکاوٹ بنے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]شعور اورنبوت[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]انسان کو شعور کی نعمت و دیعت کی گئی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غالباً، اسی استعداد کے پیش نظر، انھیں شریعت سے بھی نوازا گیا ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ چیونٹیاں اور دوسرے حیوانات بھی باشعور مخلوقات ہیں۔ ارباب فکر پرویز نے اسے بنیاد بناتے ہوئے اعتراض کیا ہے کہ اگر یہ حقیقت ہے تو ان کے لیے نبوت و شریعت کیوں نہیں؟ اصحاب پرویز نے یہاں بھی دو اہم باتیں نظر انداز کی ہیں۔ ایک یہ کہ ہماری جانوروں کی دنیا سے متعلق معلومات انتہائی ناقص ہیں۔ چنانچہ ہم کوئی حتمی حکم لگانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ دوسری یہ کہ شریعت کی تعلیم ارادے اور اختیار کی آزادی سے متعلق ہے، اس کا باعث، محض فہم و نطق کی صلاحیت نہیں ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]صیغہ جمع[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]زیر بحث آیت میں 'نملۃ' نے اپنے ہم جنسوں سے خطاب کے لیے ''جمع مذکر حاضر'' کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، قواعد کی رو سے، یہ اسلوب بیان''ذوی العقول'' کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور ''غیر ذوی العقول'' کے لیے واحد مونث کے صیغے استعمال ہوتے ہیں۔ چنانچہ، ان کی رائے میں، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زیر بحث واقعہ انسانوں ہی سے متعلق ہے۔ اپنی بات موکد کرنے کے لیے، انھوں نے قرآن مجید ہی سے '[/FONT][FONT=&quot]نحل' [/FONT][FONT=&quot]٢ کی مثال بھی دی ہے۔ ہمارے نزدیک، یہ استدلال درست نہیں ہے، بلکہ جس بنیاد پر یہ استدلال قائم ہے، وہ بنیاد بھی قواعد نحو کی غلط تفہیم پر استوار ہوئی ہے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت کے لیے مشہور نحوی ابن ہشام کی کتاب ''شرح شذورالذہب'' سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ومن النوع الاول اعنی المؤنث الظاهر المجازی التانيث ان يکون الفاعل جمع التکسير، أو اسم جمع، تقول: قامت الزيود وقام الزيود، وقامت النساء و قام النساء، قال اللّٰه تعالیٰ: قالت الاعراب (الحجرات ٤٩:١٤) وقال نسوة (يوسف ١٢:٣٠) وکذلك اسم الجنس، ک''اورق الشجر ''، ''و أورقت الشجر'' فا التأنيث فی ذلك کله علی معنی الجماعة و التذکير علی معنی الجمع.(٢٢٥)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]''(تانیث دو صورتوں میں راجح ہے)... پہلی صورت سے میری مراد ایسا اسمِ ظاہر ہے جس کی تانیث مجازی ہے۔ یعنی فاعل جمع مکسر ہو یا اسم جمع، مثلاً تم کہتے ہو: [/FONT][FONT=&quot]'قامت الزيود وقام الزيود'، 'وقامت النساء'، 'وقام النساء[/FONT][FONT=&quot]'۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:[/FONT][FONT=&quot]'قالت الاعراب' [/FONT][FONT=&quot](الحجرات ٤٩: ١٤)[/FONT][FONT=&quot] 'وقال نسوة' [/FONT][FONT=&quot](یوسف ١٢: ٣٠) ۔ یہی معاملہ اسمِ جنس کا بھی ہے۔ ان تمام مثالوں میں تانیث معنی جماعت کے اعتبار سے ہے اور تذکیر معنی جمع کے پہلو سے ہے۔'' [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس اقتباس میں تین نکات ہمارے موضوع سے متعلق ہیں: ایک یہ کہ اسم جنس کے ساتھ جس طرح مونث کے صیغے آتے ہیں، اس طرح مذکر کے صیغے بھی آسکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ صیغے کا انتخاب ایک خاص مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اسم جنس میں ذی عقل اور غیر ذی عقل ہونے کا پہلو پیش نظر نہیں ہوتا۔ مثلاً [/FONT][FONT=&quot]'اورق الشجر'[/FONT][FONT=&quot] کی مثال میں یہ بات کہنا ممکن نہیں کہ یہاں شجر کسی ذی عقل مخلوق کا نام ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]وہ قاعدہ جس میں عقل کا پہلو زیر بحث آتا ہے، صرف جمع مکسر سے متعلق ہے۔ [/FONT][FONT=&quot]''معجم النحو'' [/FONT][FONT=&quot]کے مصنف نے اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]يجب هذا التأنيث فی ثلاث [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]''یہ تانیث تین مسائل میں واجب ہے: [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]مسائل (احداها) أن يکون الفاعل ضميرا متصلا لغائبة حقيقية التأنيث او مجازيته ...(الثانية) أن يکون الفاعل ظاهرا متصلا حقيقی التأنيث ...(الثالثة) ان يکون ضمير جمع تکسير لمذکر غير عاقل نحو الايام بك ابتهجت أو ابتهجن.(٢٦٣)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ایک یہ کہ فاعل متصل ہو اور فعل کی ضمیر حقیقی یا مجازی مونث کی طرف راجع ہو... دوسرے یہ کہ فاعل متصل ہو اور حقیقی مونث اسم ظاہر ہو.تیسرے یہ کہ فعل کی ضمیر مذکر غیر عاقل کی جمع مکسر کی طرف راجع ہو، جیسے [/FONT][FONT=&quot]'الايام بك ابتهجت أوابتهجن.[/FONT][FONT=&quot]'''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]غیر ذوی العقول سے متعلق اس قاعدے سے، صرف یہی معلوم نہیں ہوتا کہ صیغے کی تانیث کالزوم جمع مکسر کے ساتھ مشروط ہے، بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جملے میں فاعل پہلے اور فعل بعد میں آیا ہو۔ قواعد کے اس تجزیے سے واضح ہے کہ زیر بحث آیت میں مذکر کے صیغے سے اصحاب پرویز کا استدلال، ہر لحاظ سے غلط ہے۔ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]اسم جنس ہے اور اس کے ساتھ نہ تانیث کا صیغہ لانا لازم ہے اور نہ اس میں ذی عقل ہونا زیر بحث آتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ارباب فکر پرویز نحو کے ان مباحث سے پوری طرح واقف ہیں، لیکن یہ واقفیت بروے کار نہیں آئی،طاق نسیاں کی زینت بنی رہی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ارباب فکر پرویز اگر تامل سے کام لیتے تو انھیں قرآن مجید ہی میں جمع مکسر غیر ذوی العقول کے ساتھ مذکر کے صیغے کی مثال مل جاتی اور وہ غیرذوی العقول سے متعلق قاعدے کی مثال دینے کی زحمت سے بچ جاتے۔ مثلاً سورہ اسراء میں: [/FONT][FONT=&quot]'تسبح له السمٰوات السبع والارض ومن فيهن، و ان من شيئ الا يسبح بحمده ولکن لا تفقهون تسبيحهم'٣ [/FONT][FONT=&quot]آیت کا آغاز واحد مونث کے صیغے سے ہوا ہے اور آیت کے آخر میں جمع مذکر کی ضمیر [/FONT][FONT=&quot]'هم' [/FONT][FONT=&quot]استعمال کی گئی ہے۔ اسی طرح سورہ انبیاء میں حضرت ابراہیم کا ارشاد نقل ہوا ہے: [/FONT][FONT=&quot]'اذ قال لابيه وقومه ما هٰذه التماثيل التی انتم لها عاکفون' ٤[/FONT][FONT=&quot]۔ اس میں مونث اسم اشارہ اور مونث ضمیر استعمال ہوئی ہے۔لیکن آگے چل کر، جہاں حضرت ابراہیم کا ان کو توڑنے کا ذکر ہوا ہے: [/FONT][FONT=&quot]'تاللّٰه لا کيدن اصنامکم بعد ان تولوا مدبرين. فجعلهم جذاذا الا کبيرا لهم ٥[/FONT][FONT=&quot]'۔اس میں انھی تماثیل و اصنام کے لیے جمع مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ واقعہ آگے بڑھتا ہے اور حضرت ابراہیم کے معارضے کے جواب میں ان کے مخاطب کہتے ہیں: [/FONT][FONT=&quot]'لقد علمت ما هٰؤلاء ينطقون' [/FONT][FONT=&quot]٦ ۔ اس ٹکڑے میں انھی کے لیے فعل کا جمع مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]حقیقت یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں نہ غیر ذوی العقول سے متعلق قاعدے کے اطلاق کا موقع ہے اور نہ اسم جنس سے متعلق قاعدے کا انطباق یہاں موزوں ہے۔ یہ ایک مکالمہ ہے اور مکالمہ اسی طرح بیان کیا جائے گا،جس طرح مکالمہ فی الواقع ہوتا ہے۔ زمخشری جیسا عظیم نحوی، اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت لکھتا ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ولما جعلها قائلة والنمل مقولا لهم کما يکون فی اولی العقل اجری خطابهم مجری خطابهم.(الکشاف٣/ ١٤٢)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]'' اور جب' [/FONT][FONT=&quot]نملة' [/FONT][FONT=&quot]کو قائل بنا دیا اور [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کو مخاطب، جیسا کہ ذوی العقول میں کیا جاتا ہے، توغیر ذوی العقول کے خطاب کو ذوی العقول کا خطاب بنادیا ہے۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس اقتباس سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ یہاں جمع کے صیغے سیاق و سباق کی مناسبت سے استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا، محض مذکر کے صیغے سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کوئی انسانی گروہ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خود زمخشری نے بھی [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کے لیے جمع مذکر کی ضمیر استعمال کی ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]'نحل' [/FONT][FONT=&quot]اور [/FONT][FONT=&quot]'نمل [/FONT][FONT=&quot]' کی مثالوں میں فرق کی وجہ بھی یہی ہے۔ [/FONT][FONT=&quot]'نحل' [/FONT][FONT=&quot]کو مخاطب کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہاں متکلم کے پیش نظر جماعت کا مفہوم ہے، لہٰذا اسی کی مناسبت سے مونث فعل استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ زیر بحث آیت میں چیونٹیوں میں سے ایک چیونٹی اپنے ہم جنسوں سے ہم کلام ہے، چنانچہ اس میں مونث صیغے کا استعمال بالکل ہی موزوں نہ ہوتا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اختتام آیت[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس آیت کا اختتام[/FONT][FONT=&quot] 'لا يحطمنکم سليمٰن وجنوده وهم لا يشعرون'٧[/FONT][FONT=&quot] کے ٹکڑے پر ہوا ہے۔ ارباب فکر پرویز کے نزدیک، اس میں [/FONT][FONT=&quot]'وهم لا يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کا جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیر بحث معاملہ چیونٹیوں سے متعلق نہیں۔ ان کے خیال میں [/FONT][FONT=&quot]'هم لا يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کا مطلب وہ نہیں ہے، جو عام شارحین نے لیا ہے، بلکہ اس سے [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]نے سلیمان اور ان کے لشکر کی، ا پنے قبیلے کے سیاسی موقف سے عدم واقفیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]عربی قواعد کی رو سے دیکھیے تو '[/FONT][FONT=&quot]وهم لا يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]حال ہے اور اس کا ذوالحال [/FONT][FONT=&quot]'سليمان وجنوده' [/FONT][FONT=&quot]کا ٹکڑا ہے۔ اس میں [/FONT][FONT=&quot]'يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کامفعول محذوف ہے۔ تمام مفسرین نے اس کا مفعول [/FONT][FONT=&quot]'حطم نمل' [/FONT][FONT=&quot]لیا ہے، یعنی وہ نمل کو کچل ڈالیں اور انھیں احساس ہی نہ ہو کہ وہ کسی کو کچل چکے ہیں۔ قرآن مجید کے اس مقام کو سامنے رکھیں تو [/FONT][FONT=&quot]'يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کا مقدر مفعول یہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور مفعول نہ سیاق و سباق میں موجود ہے اور نہ جملے ہی سے نکالا جا سکتا ہے۔ پرویز صاحب کے سامنے بھی یہ مشکل تھی، چنانچہ انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک کہانی خود فرض کی اور اس کہانی سے [/FONT][FONT=&quot]'يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کو متعلق کر دیا۔ ارباب فکر پرویز اگر، بنظر تامل جائزہ لیں تو انھیں قرآن سے یہ تجاوز بآسانی سمجھ میں آجائے گا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ارباب فکر پرویز کے نزدیک، اگر یہاں [/FONT][FONT=&quot]'لا يرون' [/FONT][FONT=&quot]یا اس کا ہم معنی فعل استعمال ہوتاتو اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی کہ زیر بحث معاملہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا [/FONT][FONT=&quot]'لا يرون' [/FONT][FONT=&quot]سے وہ مضمون ادا ہو سکتا تھا، جو یہاں ادا کرنا پیش نظر ہے؟ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ [/FONT][FONT=&quot]'يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کا مقدر مفعول کیا ہے۔ مفعول کی مناسبت سے [/FONT][FONT=&quot]'يشعرون' [/FONT][FONT=&quot]کا فعل ہی موزوں تھا۔ باقی رہا یہ سوال کہ معاملہ واضح ہو جاتا تو اس کے لیے لفظ 'نملة' ہی کافی ہے۔ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]اپنے اطلاق میں بالکل واضح ہے۔ کلام میں اس طرح کے قرائن اس صورت میں رکھے جاتے ہیں، جب مشترک المعنی لفظ استعمال کیا جائے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اب اس معاملے کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھیے۔ اگر یہ کوئی قبیلہ ہوتا تو اس کا سربراہ اس طرح کا مہلک طریقہ تجویز نہیں کر سکتا۔ اگر حضرت سلیمان کو یہ شبہ ہوتا کہ یہ قبیلہ، اصلاً ان کے دشمنوں کا ساتھی ہے اور ان کے لشکر کو دیکھ کر چھپ گیا ہے تو وہ یا توآگے بڑھ کر اس قبیلے کی طاقت ختم کر دیتے یا اس کے دشمن سے ملنے کے امکانات کو ختم کرنے کی تدبیر کرتے۔ چنانچہ دانش مندی کا تقاضا یہ ہوتا کہ قبیلہ نمل کی سربراہ اس غلط فہمی کے ازالے کی سعی کرتی یا مورچہ بند ہوتی اور اپنے حلیفوں کو ساتھ ملا کر مقابلے کی کوشش کرتی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]دوسری چیونٹیاں[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ارباب فکر پرویز کے نزدیک [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے چیونٹیاں مراد لینے کی صورت میں یہ واقعہ ایک نا قابل فہم واقعہ بن جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ ایک بعید ازقیاس بات ماننی پڑتی ہے کہ راستے میں کہیں اور چیونٹیاں نہیں آئیں اور اگر آئیں تو انھوں نے اپنی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ یہ اعتراض بھی تحریر سے متعلق بعض بنیادی باتوں کو نظر انداز کر دینے کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں اس واقعہ کا ذکر حضرت سلیمان کو حاصل بعض غیر معمولی صلاحیتوں کو بیان کرنے کے لیے ہوا ہے۔ یہ ان کی زندگی میں پیش آنے والے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے۔ اس کے پیش نظر حضرت سلیمان کی سوانح عمری لکھنا نہیں ہے کہ وہ ان کی زندگی کے تمام واقعات کا احاطہ کرے۔ اگر یہ بات بھی مان لی جائے کہ اس سے پہلے راستے میں آنے والی چیونٹیوں نے اپنی حفاظت کا بندو بست نہیں کیا تھا، تب بھی اس واقعے کے ہونے کی تردید نہیں کی جاسکتی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]عورت کی سربراہی[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]عورت کے سربراہ ہونے کا امکان بھی مابہ النزاع مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں، جیسا کہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں، اگر کوئی عورت مراد ہوتی تو [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے بجائے [/FONT][FONT=&quot]'نملية' [/FONT][FONT=&quot]ہونا چاہیے تھا۔ اور اگر یہ عورت قبیلے کی سربراہ ہو تو [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کو اس کا علم ہونا چاہیے، خواہ اس کی حیثیت مستقل لقب کی ہو، جیسے فرعون یا اس عورت کے ذاتی نام کی۔ ان دونوں صورتوں میں لفظ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]پر تنوین نہیں ہو سکتی۔ ارباب فکر پرویز نے یہاں ایک دل چسپ نکتہ پیدا کیا ہے۔ ان کے خیال میں [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے نکرہ استعمال ہونے ہی سے یہ واضح ہوا ہے کہ یہ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]اپنے قبیلے کی سردارتھی۔ اس بات کی تائید کے لیے انھوں نے یہ دلیل دی ہے کہ نکرہ تفخیم شان کے لیے آتا ہے اور یہ نکرہ تفخیم شان کے لیے ہے۔ ارباب فکر پرویز کا یہ استدلال بھی درست نہیں ہے۔ تفخیم شان کا نکرہ ا ن جگہوں پر مانا جاتا ہے، جہاں اسم نکرہ کو غیر معمولی، شان دار، واقعی یا حقیقی جیسی صفات سے متصف قرار دیا جا سکے۔ اس قاعدے کی روشنی میں دیکھیں تو اولاً، اسے تفخیم شان کا نکرہ قرار دینا ہی مشکل ہے اور اگر اسے تفخیم شان کامان ہی لیا جائے تو اس کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ''ایک غیر معمولی چیونٹی نے کہا''۔ ظاہر ہے یہ معنی مراد لینے سے ارباب فکر پرویز کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ یہ بات زبان و بیان کی کوئی اچھی مثال نہیں ہو گی کہ کوئی عرب وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کا ذکر ان الفاظ سے کرے [/FONT][FONT=&quot]'زرت الباکستا ن ولقيت امراة[/FONT][FONT=&quot]'۔٨ یہ بات کہنا کہ تفخیم شان کے نکرہ سے اس کا لیڈر ہونا واضح ہوتا ہے، قاعدے سے ایسا تجاوز ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]تسلی کا مضمون[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس بحث میں یہ ایک دل چسپ نکتہ ہے۔ اصحاب فکر پرویز کے خیال میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہ کمالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا سبب نہیں بن سکتے، جبکہ قرآن مجید میں ان قصص کے سنانے کا مدعا یہی ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان کے دل میں پیدا ہونے والے شکر کے جذبات کا باعث چیونٹی کے قول کاسماع نہیں، بلکہ ایک اور سلطنت کا،قتال کے بغیر حق کے آگے سرنگوں ہو جانا ہے۔ اگرچہ یہ دلیل بھی قابل التفات نہیں، اس لیے کہ اس کا تعلق زبان و بیان کے قواعد سے نہیں ہے۔ اس طرح کی قیاسی موشگافیاں صرف ان مقامات پر مفید ہوتی ہیں، جہاں کلام اپنے مفہوم میں واضح نہ ہو۔ جبکہ زیر بحث آیت کا یہ جملہ صرف ایک ہی معنی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ شکر کے جذبات پیدا ہونے کا باعث چیونٹی کا کلام سمجھنا تو نہیں ہو سکتا، البتہ کسی ملک کی فتح اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ جس طرح کسی ملک کی فتح ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی غیر معمولی صلاحیتیں بھی جذبہ شکر کا موجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے شکر کا جذبہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نعمت کے ليے پیدا ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تقابل اس موقعے کی چیز ہی نہیں ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]تاریخی ثبوت[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس بحث کا ایک پہلو تاریخ سے بھی متعلق ہے۔ اس زمانے کی تاریخ کا ماخذ اسرائیلی روایات ہیں۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سابق انبیا کا تذکرہ کرتے ہوئے اسرائیلی روایت میں موجود غلطی کی اصلاح بھی کر دیتا ہے۔ لیکن اس واقعے کے اس جز میں قرآن مجید اور اس روایت میں اتفاق ہے۔ مولانا مودودی ''تفہیم القرآن '' میں سورہ نمل کے اس مقام کی تشریح کرتے ہوئے ''جیوش انسائیکلوپیڈیا''([/FONT][FONT=&quot]Jewish Encyclopaedia[/FONT][FONT=&quot]) کے حوالے سے لکھتے ہیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]''بنی اسرائیل کی روایات میں بھی یہ قصہ پایا جاتا ہے، مگر اس کا آخری حصہ قرآن کے خلاف ہے اور حضرت سلیمان کی شان کے خلاف بھی ہے۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان جب ایک وادی سے گزر رہے تھے،جس میں چیونٹیاں بہت تھیں، تو انھوں نے سنا کہ ایک چیونٹی پکار کر دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی ہے کہ اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ورنہ سلیمان کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں گے۔ اس پر حضرت سلیمان نے اس چیونٹی کے سامنے بڑے تکبر کا اظہار کیا اور جواب میں اس چیونٹی نے ان سے کہا: تمھاری حقیقت کیا ہے، ایک حقیر بوند سے تو تم پید ا ہوئے ہو۔'' ( ١١ / ٤٤)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]قرآن مجید اور اسرائیلی روایت میں چیونٹی سے متعلق حصے میں مکمل اتفاق ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے بارے میں صحیح بات بیان کر کے، اس بات کی تردید کردی کہ حضرت سلیمان نے چیونٹی کے سامنے تکبر کا اظہار کیا تھا، اسی طرح اس غلطی کی بھی اصلاح ہونی چا ہیے تھی کہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے چیونٹیاں نہیں، انسانی گروہ مراد تھا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اس واقعے کی تاریخی تحقیق کئی پہلووں سے کی جا سکتی ہے۔ایک پہلو تو وہ ہے، جو اسرائیلی روایات سے متعلق ہے۔ اس کے بارے میں ہم اپنا نقطہ نظر بیان کر چکے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو عرب روایات اور قدیم عرب کی تاریخ سے متعلق ہے۔ قدیم عربی روایات اور تاریخ کا بیش تر حصہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]نامی کسی سلطنت یا گروہ کا کوئی ذکر اس ریکارڈ میں موجود نہیں۔ اس کا تیسرا پہلو عرب کے قبائل کے ناموں سے متعلق ہے۔ یہاں بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عرب قبائل میں اسم [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے موسوم کوئی قبیلہ موجود نہیں۔ اس سہ جہتی مطالعے کی روشنی میں یہ بات اطمینان سے کہی جا سکتی ہے کہ ارباب فکر پرویز کی بات تاریخی پہلو سے بھی ثابت نہیں ہوتی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]اگرچہ ہم نے اپنے نقطہ نظر کو محکم دلائل سے موکد کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی رائے میں غلطی کا امکان تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم،ارباب فکر پرویز سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ درج ذیل سوالات کا جواب ضرور دیں گے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]١۔قبیلے کا نام ہونے کے باوجود ارباب فکر پرویز کے نزدیک یہ استعارے یا مجاز کا اسلوب ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٢۔ قبیلے کے نام کی مناسبت سے، قبیلے کے ایک فرد کا ذکر اسم نسبت سے کیا جاتا ہے۔ یہاں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٣۔ اگر [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]قبیلے کی سردار کا علم ہے تو اس صورت میں عربی قواعد کی رو سے، اسے غیر منصرف ہونا چاہیے۔ یہ منصرف کیوں ہے؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٤۔ اگر یہ استعارے کا اسلوب ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جملے یا سیاق و سباق میں کوئی ایسی چیز موجود ہو جو استعارہ ہونے کو واضح کرتی ہو۔ مثلاً میرانیس کے مشہور مصرعے' کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے' میں رن کالفظ اور استفہام کا اسلوب۔ اگر اس مصرعے کو ان دونوں چیزوں سے عاری کر دیا جائے تو جملہ یہ ہو گا: شیر کی آمد سے جنگل کانپ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جملے کو معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی استعارہ قرار نہیں دے گا۔ ارباب فکر پرویز سے سوال یہ ہے کہ وہ کیاچیز ہے، جس کی بنا پر وہ اس آیت کو استعارے کا اسلوب قرار دیتے ہیں؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٥۔ یہ بات اب نا قابل فہم نہیں رہی کہ جانور اپنے مدعا کو اصوات سے ظاہر کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ارباب فکر پرویز کے نزدیک [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے ساتھ [/FONT][FONT=&quot]'قالت [/FONT][FONT=&quot]' فعل کا اسناد درست نہیں۔ اب اس کی دلیل کیا ہے؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٦۔'[/FONT][FONT=&quot]وهم يشعرون[/FONT][FONT=&quot]' کا مفعول، پرویز صاحب کے نزدیک [/FONT][FONT=&quot]'حطم نمل[/FONT][FONT=&quot] ' نہیں، بلکہ مفروضہ قبیلہ نمل کی دوستی یا دشمنی ہے۔ اس بات کی اس آیت یا اس کے سیاق و سباق میں کیا دلیل ہے؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٧۔ اس آیت سے واقعے کی جو صورت، عام طور پر سمجھی گئی ہے، یہود کے ہاں بھی صورت واقعہ وہی ہے۔ ارباب فکر پرویز، اس توافق کے باوجود، عام رائے کو غلط کیوں سمجھتے ہیں؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٨۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]واقعی کوئی قبیلہ تھا تو لشکر سلیمان سے بچاؤ کی یہ تدبیر انتہائی ناقص ہے، بلکہ اسے مہلک تدبیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور اگر چیونٹیاں ہوں تو یہ ایک انتہائی موزوں تدبیر ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی تفسیر میں اس پہلو کو بیان کیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ اپنے دفاع میں ارباب فکر پرویز نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا؟[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot][١٩٩٦ء] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]ــــــــــــــــــــــــــ[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]١- ''اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے گویائی سکھائی۔''(الرحمن ٥٥:٣۔٤)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٢- [/FONT][FONT=&quot]'واوحی ربك الی النحل ان اتخذی من الجبال بيوتا'، [/FONT][FONT=&quot]' 'تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ پہاڑوں میں گھر بنائے۔''( النحل ١٦:٦٨)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٣- '' زمین و آسمان اور ان میں جو کچھ ہے، وہ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ کوئی شے نہیں جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے ہو۔''(١٧: ٤٤)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٤- '' جب اس نے اپنے باپ سے کہا: یہ کیا مورتیاں ہیں جن کے تم گرویدہ ہو۔''(١٧: ٥٢)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٥- ''خدا کی قسم، جب تم یہاں سے رخصت ہو کر لوٹو گے تو میں تمھارے ان بتوں کے ساتھ ایک تدبیر کروں گا۔''(٢١: ٥٧-٥٨)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٦- '' تمھیں معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں۔''(٢١: ٦٥)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٧- '' کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔''(النمل٢٧: ١٨)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​
[FONT=&quot]٨- ''میں پاکستان گیا اور ایک عورت سے ملا۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]​



 
Last edited by a moderator:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

O my god , still Hud Hud is a bird ? could not be a man. with HUD ??

Just for example , if we consider for a minute that It was a man , then what , what is the difference in situation. Did it change the decision of Hazrat Suleman.???

Or the information he brought ? or any thing....

So it is useless discussion. It only tell us how people could mold the Quran !!!!

Quran is not their book, It is Allah's book. and brought upon the arab speaking people.

This issue is only in Indo Pak , who language is different and lots of fraud here , because of Hindu mentality.

Arab do not such type of crap people who , like ulam Ahmed Qadyani or Pervez....


Listen to Ghamdi , he has cleared Pervez Fitna very precisely.

[video]http://youtu.be/TWy570_3wKU[/video]

Main points start from here, but good to listen first also , if you have time.
[video]http://youtu.be/T_QT74Z9hxA[/video]

[video]http://youtu.be/FNg9FjuEvRE[/video]

[video]http://youtu.be/0_7MnBXBZ78[/video]

[video]http://youtu.be/IiuENaeTGyU[/video]

Dear Raaz, thank you for posting videos of ghamdi sb, there is something that people fail to realise and that is the fact that there are several different goups of people amongst muslims who do deeni work at different levels. Each of them have set themselves a different task.

1)HUFAAZ, these people have done a great job in preserving information. However due to lack of logical thought most people took these people as ulema of islam. To that extent they are but these are at the very bottom rung of ilmi ladder.

2) Ulema of existing knowledge, these people are common knowledge ulema. They are ulema who spread the existing knowledge in masses.

3)Ulema of research and exploration on existing knowledge. These ulema are common knowledge ulema but also have a little ability of independent thought therefore are able to look at odd things in new light, which is needed due to chnages that come about due to time and progress etc.

4)Ulema of new research and exploration who work on existing and new knowledge. These people try to create consistency between ideas in order to overcome logical inconsistencies that may occur from time to time.

It is like some kids are at a primary level education, others at secondary level education and yet others at higher level and so on and so forth.

Sir seyyed, iqbal, jinnah, parwez and the like were top level scholars because they were trying to show that islam is still consistent with real world out there in our time. This is most difficult task because muslim intellectuals are at the edge when they working at this level or that they are playing with fire, for they will have to do things which will get them condemnation from those who are traditionalist and well set in their way and would not like any change or rather oppose it, because they see no need to do this. However, at this level change in tradition is necessary and inevitable regardless we like it or not. It is because if we are not open to interaction with outside world then we become trapped in our own self made prison and so become irrelevant to the rest of the humanity.


MAZRAT KE SAATH, my purpose is not to insult anyone [Now I am going to say something that I do not like about myself, because it sounds like self glorification]


If a person could read my posts and posts of everyone else on this forum, a person of intellectual maturity will not fail to realise the difference. One has to ask why is this the case? It is because my concern like the people I mentioned is also of islam and muslim becoming irrelevant if we do not keep this tradition of intellectual consistency alive. We are a people who live on the edge because we are in a unique position whereat we can see both sides of the fence.

It is for this reason I can very clearly see where each group is coming from but unfortunately they are unaware of each other hence the reason for each condemning the other not trying to realise their position on the ladder of knowledge.

It is for this reason I do not condemn ahmed raza khan sb, ashraf ali thanvi sb, mawdoodi sb, dr irar sb ghamdi sb or for that matter parwez sb. The same goes for shia scholars. It is because each of them is working in a particular sphere or circle or range. All of them are very important for survival of islam and muslims regardless how much they fight with each other. We are like a train where engine is as important as the last carriage.

One will see my posts are simply information sharing not trying to condemn others no matter what the difference. I have only one bone of contention and that is unity of ummah and relevance of islam to humanity. On that I will condemn everyone as mullas if they do not realise how damaging all this is for all of us.

So if we want islam to be the rule of law in the world then we have no choice but to work together sensibly and make it relevant to people in real terms so that people join islam and it become the way of life for them ie let humanity create heaven on the earth as Allah has guided us. So basis for islam is and has to be intellectual rules of wisdom that are common between humanity. It is the only possible basis from which we can derive any authority that counts otherwise we can keep on day dreaming about great past and great future. If we ignore those rules islam and deen in general becomes irrelevant. Not because I say so try and prove that it is. World without rules is just chaos. This is why What parwez says is more importsant than what ghamidi says. Why? Because miracles ghamidi and others believe in are not possible so we are only left with two choices islam is something like what parwez says or that it is just a made up thing. Now ghamidi has bigger problem ie can he prove that islam is not a made up thing like so many other religions if the islamic scriptures say exactly tyhe same thing that other religious scriptures say? Of course he cannot. So where does that leave us? In total confusion.

This is why when an intellectual points out a problem, the answer is not denial of the problem but to tackle it head on. So ghamidi instead of wasting his energy against parwez should instead try and solve the same problem some other way if he does not like solution offered by parwez and others. You simply cannot oppose sir seyyed wrong and condemn him and at the same time prove islam means anything other than hodgepodge. Another damage is that we by believing in make beliefs will never make progress or prosper unless we give up islam. In that case if we stick to traditional islamic thought then we will in no time self strangle ourselves out of existence.

More may be later meanwhile egards and all the best.
 
Last edited:

biomat

Minister (2k+ posts)
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

Bro Saud
Assalam-o-alaikum
Nice to hear from you regarding SURAH NAMAL research paper. But try to make FONT size easy to read.
Jaza-k-ALLAH.
============
Bro actually i was discussing earlier that what is the rule of translation?
Can tafaseer be conflicting and out of context?
What is the role of EXPLANATION OF QURAN ACCORDING TO SCIENTIFIC FACTS & ESTABLISHED RULES..?
For example can SURAH FEEL be translated that SQUADRON OF STEALTH FIGHTERS AIRCRAFTS WERE SENT ON ARMY OF TANKS (men using ELEPHANTS WHO WERE THINKING OF DESTROYING KAABA) THEY DROPPED URANIUM DEPLETED BOMBS.. SO WHEN THESE BOMBS EXPLODED THE ATTACKING ARMY BECAME EATEN STRAWS (BHUSS)..
(may ALLAH forgive me..)
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

(27:15:1)
walaqad
And verily,CONJ – prefixed conjunction wa (and)
EMPH – emphatic prefix lām
CERT – particle of certaintyالواو عاطفة
اللام لام التوكيد
حرف تحقيق
(27:15:2)
ātaynā
We gave
wordimage
V – 1st person plural (form IV) perfect verb
PRON – subject pronounفعل ماض ونا ضمير متصل في محل رفع فاعل
(27:15:3)
dāwūda
Dawood
wordimage
PN – genitive proper noun → Davidاسم علم مجرور بالفتحة بدلاً من الكسرة لأنه ممنوع من الصرف
(27:15:4)
wasulaymāna
and Sulaiman
wordimage
CONJ – prefixed conjunction wa (and)
PN – genitive proper noun → Solomonالواو عاطفة
اسم علم مجرور بالفتحة بدلاً من الكسرة لأنه ممنوع من الصرف
(27:15:5)
ʿil'man
knowledge,
wordimage
N – accusative masculine indefinite nounاسم منصوب
(27:15:6)
waqālā
and they said,
wordimage
CONJ – prefixed conjunction wa (and)
V – 3rd person masculine dual perfect verb
PRON – subject pronounالواو عاطفة
فعل ماض والألف ضمير متصل في محل رفع فاعل
(27:15:7)
l-ḥamdu
"Praise be
wordimage
N – nominative masculine nounاسم مرفوع
(27:15:8)
lillahi
to Allah
wordimage
P – prefixed preposition lām
PN – genitive proper noun → Allahجار ومجرور
(27:15:9)
alladhī
the One Who
wordimage
REL – masculine singular relative pronounاسم موصول
(27:15:10)
faḍḍalanā
has favored us
wordimage
V – 3rd person masculine singular (form II) perfect verb
PRON – 1st person plural object pronounفعل ماض ونا ضمير متصل في محل نصب مفعول به
(27:15:11)
ʿalā
over
wordimage
P – prepositionحرف جر
(27:15:12)
kathīrin
many
wordimage
N – genitive masculine singular indefinite nounاسم مجرور
(27:15:13)
min
of
wordimage
P – prepositionحرف جر
(27:15:14)
ʿibādihi
His servants
wordimage
N – genitive masculine plural noun
PRON – 3rd person masculine singular possessive pronounاسم مجرور والهاء ضمير متصل في محل جر بالاضافة
(27:15:15)
l-mu'minīna
the believers."
15.png
wordimage
ADJ – genitive masculine plural (form IV) active participleصفة مجرورة


Dear biomat, grammar is dependent on wisdom not the other way round. If you have not been able to realise even that much from my posts then is there any point in discussing grammar? Pleae try and understand that language was already there and then some intellectuals at the time realised that if we could derive some rules from there that will be helpful in teaching kids and adults languages. Because by setting up words in groups it is easier to see what words of one language are like the words of another language.

Let me explain it by an example.

URDU, MAIN DUKAAN PAR JAATA HUN. ENGLISH, I go to shop. I=speakeror or mutakalam. I is first person pronoun= WAHID haazir ism zameer. I is subject or doer=FAAIL. DUKAAN=noun, in use it is acted upon by subject therefore it called MAFOOL. JAATA=verb or fail or action. HAI=auxiliary verb. Tense is simple continuous.

What is use of knowing all this? One answer is, it helps to see how certain groups of words in one language in a sentence relate to another language ie here we have urdu and english. In urdu we have subject then object then preposition then verb and then auxiliary verb. Now look at construction of sentence in english. In the sentences we have subject in the same position both in english and in urdu. Next if we look we have object in urdu but verb in english and so on and so forth. If people did not use sense then learning other languages would have been very difficult. See how common man speak a new language as compared to educated people ie I go shop or me go shop.

Likewise grammar had a use and still does but only once it was realised that it would be a useful tool. The purpose of language is not to solve intellectual disputes but to give a framework to work within. So parwez and the like are pointing out intellectual problems that ummah must realise and they try to answer according to whatever they know but if anyone comes after them he can clarify things even better and not try to demolish what they have built and leave us back to square one. This is why beliefs are a trap and a shut down or no way forward if they are not understood in light of evidence and based upon purpose of exercise.

Look at approach of all mullas regarding definition of sunnah, their definitions make absolutely no sense no matter how good they know arabic or regardless how many verses of the quran they know about it or for that matter the number of ahadith. Intellectual reasoning is out of reach of those people in sense of purpose behind things done. This is why if we looked at sir seyyed from the point of view of his purpose behind what he is trying to make ummah realise we will have no problem seeing that he was right. However if our own intellectual property is anything less then we will not be able to see that and keep on arguing over that senselessly.

The example of that is found betwen my posts and people who have argued against that without any mush sense. All this because of intellectual shutdown in our minds. We have totally paralyzed ourselves intellectually.

I can see where you people are coming from but I am also able to see why you people cannot realise what I am trying to put across till you enable yourselves and put yourselves in other peoples' shoes.

Please do not take this as personal attack but a brotherly exchange of view over our common problem. I am not here to confuse people but to try and help educate them if I can. Obviously people do need to make their own effort as well. Otherwise why would I bother make my enemies clever against my own self that is if I were enemy of people I am participating with?

Similarly we need to give up the stupid idea that anyone who talks sense and tries to teach sense to us from amongst us is our enemy number one and agent of our enemies. When people take on a role they can and they do make honest mistakes and in that case we need to learn to encourage them so that others get involved and put things on even better footing.

Hope that explains things a bit for all of us. Thanks and all the best.
 
Last edited:

saud491

MPA (400+ posts)
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

Bro Saud
Assalam-o-alaikum
Nice to hear from you regarding SURAH NAMAL research paper. But try to make FONT size easy to read.
Jaza-k-ALLAH.
============
Bro actually i was discussing earlier that what is the rule of translation?
Can tafaseer be conflicting and out of context?
What is the role of EXPLANATION OF QURAN ACCORDING TO SCIENTIFIC FACTS & ESTABLISHED RULES..?
For example can SURAH FEEL be translated that SQUADRON OF STEALTH FIGHTERS AIRCRAFTS WERE SENT ON ARMY OF TANKS (men using ELEPHANTS WHO WERE THINKING OF DESTROYING KAABA) THEY DROPPED URANIUM DEPLETED BOMBS.. SO WHEN THESE BOMBS EXPLODED THE ATTACKING ARMY BECAME EATEN STRAWS (BHUSS)..
(may ALLAH forgive me..)

Walaikum Salaam
Jazak ALLAH for remarks. Please the article below. Excerpts taken from an article
[FONT=&quot]قرآن فہمی کے اصول اور ''تفسیر فاضلی''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]

......................................................................................................
[FONT=&quot] [/FONT]​
[FONT=&quot]قرآن مجید کی زبان[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]پہلی اور بنیادی چیزاس کتاب کی زبان ہے۔کسی بھی کتاب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے پڑھنے والا،اس کی زبان سے اچھی طرح واقف ہو۔کسی کتاب کی زبان جاننے سے مراد کیا ہے؟ کیا یہ کہ یہ کتاب اگر انگریزی میں ہے تو آدمی انگریزی جانتا ہو اور اردو میں ہے تو اردو سے واقف ہو؟ یہ محض ایک ابتدائی بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ آدمی اس کتاب کے زمانہ تحریر کے اسالیب اور محاورے سے، کماحقہ، آگاہ ہو۔کتاب ادبی اسلوب میں لکھی گئی ہے تو اس دور کے ادبی معیارات پر اس کی نظر ہو۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجیدعربی زبان میں نازل ہوا ہے او رعربی زبان بھی وہ جو قریش بولتے تھے۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان یہی تھی اور دوسری یہ کہ آپ کے زمانے میں قریش کی زبان،یعنی ان کے اسلوب او رمحاورے کوعرب میں وہی حیثیت حاصل تھی جو ہمارے ہاں ایک زمانے میں دلی کی زبان کو حاصل رہی۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں عربی زبان کا تمام اعلیٰ ادب خاص قریش کے محاورے اور اسلوب میں لکھا گیا ہے۔چنانچہ،ہم دیکھتے ہیں کہ اقصاے عرب کے شاعر، مکہ کے سالانہ میلے عکاظ میں شریک ہوتے اوردادوتحسین پانے کے لیے،قریش کے نقادوں کے سامنے اپنا کلام پیش کرتے تھے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اس زبان کی بعض منفرد خصوصیات ہیں۔ یہ خصوصیات الفاظ کے معنی،تشبیہ و استعارے کے رنگ، اسلوب بیان، ترکیب، محاورے اور روزمرہ سے متعلق ہیں۔زمانے کی گردش ان میںبہت کچھ تبدیلیاں لا چکی ہے۔یہ نطق اعرابی، پرانے برگد کی طرح،صدیوں کے اتار چڑھاؤ دیکھ چکا ہے۔برگد وہی ہے،لیکن مرور زمانہ نے اس کا ظاہری ڈھانچا بالکل بدل ڈالا ہے۔لہٰذا،ایک مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض عربی زبان ہی نہ جانتا ہو،بلکہ خاص اس زمانے کی زبان پر اس کی گہری نظر ہو،وہ اس کے حسن وقبح سے واقف ہو،اسالیب بیان اور محاوروں پر اس کی گرفت ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اعلیٰ ادبی ذوق سے بہرہ یاب کیا ہو۔قرآن مجید جہاں، اپنے مضامین کے اعتبار سے،ایک انتہائی اعلیٰ کتاب ہے، اسی طرح یہ اپنے اسلوب بیان کے پہلو سے بھی،لاریب،ایک ادبی شاہکار ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید کے مخاطب[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید جس زمانے،جس ماحول اور جس معاشرے میں نازل ہوا،اس میں بسنے والے لوگ ہی اس کے پہلے مخاطب تھے۔چنانچہ اس نے اپنے ماحول میں موجود مذہبی اور سماجی خرابیوں کو اپنا موضوع بنایا۔غلط عقائد او ربے بنیاد مذہبی رسوم پر کڑی تنقیدیںکیں۔پہلے سے موجو د مذہبی گروہوں،بنی اسماعیل اور یہود و نصاریٰ،کے بگاڑ کی نشان دہی کی۔اصل الہامی تعلیمات سے انحراف پر انھیں متنبہ کیا۔وہ چیزیں ازسر نو زندہ کیں،جنھیں یہ فراموش کر چکے تھے اور وہ نئے سرے سے استوار کیں،جنھیں یہ جان بوجھ کر پس پشت ڈالے ہوئے تھے۔چنانچہ،یہ تینوں گروہ،ان کی تاریخ،عقائد اور رسوم ورواج، قرآن مجید میں جگہ جگہ زیر بحث آتے ہیں،لیکن قرآن مجید کسی شے کو تفصیل کے ساتھ بیان کر کے،اس پر تنقید کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کرتا،بلکہ حسب ضرورت صرف غلط یا صحیح پہلو کی نشان دہی کر دیتا ہے۔ چنانچہ،اس ضمن کی تما م آیات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مفسران گروہوں کی دینی اور سماجی تاریخ سے پوری طرح واقف ہو۔چونکہ،الہامی کتب میں اس کا سب سے بڑا ماخذ بائیبل ہے،لہٰذا اس پر گہری نظر نہایت ضروری ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]بائیبل ایک دوسرے پہلو سے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔قرآن مجید،اسی دین کا علم بردار ہے، جو حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت مسیح علیہ السلام تک،ہر پیغمبرپر نازل ہوا۔بنیادی عقائد میں کوئی فرق نہیں۔ حرمت و حلت،نکاح و طلاق او رعبادات وغیرہ کے باب میں کچھ فرق ہے،لیکن یہ فرق جزیات ومظاہر کا فرق ہے، یا پھر وہ چیزیں مختلف ہیں، جو بدعات اور انحرافات کے دروازے سے ان ادیان میں داخل ہو گئی ہیں۔ بنظر غائرجائزہ لیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اصل الاصول اور بنیاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کا جو شجر طیبہ حضرت آدم علیہ السلام نے لگایا تھا،تمام انبیا نے اسی کی آب یاری کی ہے۔ غرض یہ کہ تمام الہامی کتب،فلسفہ اور شریعت،دونوں پہلووں سے،فی الجملہ مشترک اساسات پر قائم ہیں۔ چنانچہ ان پر نظر،آدمی کو قرآن مجید کے وہ پہلو سمجھنے کے قابل بناتی ہے،جو خدائی کلام کا خاصہ ہیں اور اس طرح دین کی حکمتوں اورمصالح کے بہت سے دوسرے پہلو بھی انسان پر واضح ہوتے ہیں۔ [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]سنت متواترہ کی حیثیت[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ہمارا دین،ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ملا ہے۔آپ کا ہروہ قول اور عمل،جس کا تعلق دین سے تھا،ہمارے لیے دین قرار پایا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد ہمارے لیے دو چیزیں چھوڑ کر گئے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]پہلی چیز قرآن مجید ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر انھی الفاظ میں نازل ہوا۔ وحی کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مرتب کتاب کی صورت دی اور یہ بے کم و کاست صحابہ سے ہم تک نسل درنسل منتقل ہوا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]دوسری چیز آپ کا وہ عمل ہے جو آپ نے خود بھی کیا،اپنی امت میں باقاعدہ جاری فرمایا اور اس زمانے سے اب تک، دینی عمل کی حیثیت سے جاری ہے، اصطلاح میں اسے سنت کہا جاتا ہے۔دین کا ماخذ ہونے کے پہلو سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔قرآن مجید ہی کی طرح یہ بھی دین کی محکم اساس ہے اور جس طرح قرآن مجید کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت میں کوئی شبہ نہیں،اسی طرح اس کے دین ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔عبادات،شعائر ملت اور دستور امارت وغیر ہ میں ہمیں دین کی روشنی اسی سے حاصل ہوتی ہے۔دین کے وہ احکام سمجھنے کے لیے،جن کی شرح خود قرآن نے نہیں کی،سنت ہی کی طرف رجوع کرنا لازمی ہے۔ایسی چیزوں کا مفہوم،اگر کوئی شخص اپنے خیال سے متعین کرنے کی کوشش کرے گاتو وہ نہ صرف یہ کہ قرآن مجید ہی کو نہیں سمجھ سکے گا،بلکہ اسے دین کی حقیقی معرفت سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]دین کے بنیادی ماخذ یہی دو ہیں، ان کے علاوہ تیسری چیز روایات ہیں۔روایات سے مراد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال اور احوال ہیں،جنھیں آپ کو دیکھنے اور سننے والوں نے، اپنے مشاہدے کی بنیاد پر، بیان کیا ہے۔تلاش اور تحقیق کے بعد ہمارے محدثین نے یہ روایات اپنی کتابوں میں جمع کر دی ہیں اور ان کا غث و ثمین پرکھنے میں بڑی کد و کاوش سے کام لیا ہے۔ اگرچہ، علما ان کے کام میں کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہیں اور 'زیادہ صحیح' کے انتخاب کا کام بھی جاری ہے،لیکن اس سے اس ذخیرے کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔یہ ذخیرہ،بے شک،دین کے معارف اور ربانی حکمتوں کا بے بہا خزانہ ہے۔یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ روایات دین کے جاننے کا ذریعہ ضرور ہیں،لیکن ان کی حیثیت مستقل بالذات ذریعے کی نہیں ہے۔جو دین قرآن مجید اور سنت ثابتہ میں بیان ہوا ہے،یہ اسی کی شرح کرتی اور اسی کی فروع بیان کرتی ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ایسی روایات تعداد میں بہت کم ہیں،جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کی شرح روایت ہوئی ہو۔البتہ ایسی روایات،حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں،کافی تعداد میں موجود ہیں،جو کسی آیت کی شان نزول،یعنی اس کے نازل ہونے کا موقع یا سبب بیان کرتی ہوں۔عام طور پر محدثین ان روایات کی صحت کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔پھر قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ان کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مدعا واضح کرنے کے لیے، کلام کے دروبست میں، ضروری اشارات رکھ دیے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید کا متن سمجھنے کے لیے،احادیث سے کم ہی مدد ملتی ہے۔البتہ، صحیح احادیث قرآن مجید کی ہدایات اور احکام کے اہم پہلووں کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور اس حوالے سے کوئی مفسران سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]کتاب کا نظم[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار دعوت کے مطابق،جستہ جستہ نازل ہوتا رہا۔پھر اپنی زندگی ہی میں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے،نزولی کے بجائے،ایک دوسری ترتیب پر جمع کردیا۔عام خیال یہ ہے کہ یہ ترتیب،محض ایک اتفاقی امر ہے۔اصلاً،یہ کتاب شریعت کے متفرق احکام اور نصیحت کے متعدد اقوال کا مجموعہ ہے او ریہ چیزیں،محض ظاہری مناسبت کے اعتبار سے جمع کر دی گئی ہیں۔ جبکہ، خود قرآن مجید او رسیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے،اس کے برعکس،دوسری حقیقت سامنے آتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ ہی کی رہنمائی میں اس طرح ترتیب دیا گیاہے۔ جب بھی کوئی سورہ یا آیات نازل ہوتیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاتبین وحی کو بلا لیتے۔انھیں قرآن مجید کا متعلقہ حصہ لکھاتے اور بتاتے کہ یہ آیات کس سورہ کا حصہ ہیں اور یہ سورہ کس سورہ کے بعد لکھی جائے گی۔ اس طرح، درحقیقت وہ وعدہ پورا ہوا، جو اللہ تعالیٰ نے [/FONT][FONT=&quot]'ان علينا جمعه وقرآنه' [/FONT][FONT=&quot]١ کے الفاظ میں کیا تھا۔ اگر قرآن مجید کی آیتیں اور سورتیں حسب نزول جمع کی جاتیں تو یہ ضروری تھاکہ ہر آیت کا پس منظر بھی پوری حفاظت کے ساتھ اس امت کو منتقل کیا جاتا۔اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا۔تمام آیات و سور ایک معنوی مناسبت سے مرتب کر دی گئی ہیں۔اب قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس کی ہر سورہ ایک مکمل وحدت ہے۔اس کا ایک مرکزی مضمون ہے اور اس کی آیات،ایک وحدت کے اجزا کی طرح،آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔اسی طرح،ہر سورہ،اپنی اگلی اور پچھلی سورہ کے ساتھ،پوری طرح مربوط ہے۔پورا قرآن مجید سات ابواب میں منقسم ہے۔ہر باب مکی سورتوں سے شروع ہوتا اور مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ہر باب کا ایک مرکزی مضمون اور متعین غایت ہے،جس سے اس باب کی سورتیں اور مباحث جڑے ہوئے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید دنیا کی واحد کتاب ہے،جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا ہر جملہ ایک سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔یہ چیز اس کے معجزانہ پہلو کی حیثیت سے بیان کی جاتی ہے، دراں حالیکہ، بنظر تامل، دیکھا جائے تو اسے خوبی قرار نہیں دیا جا سکتا۔قرآن مجید ہی نہیں،کسی بھی کتاب کا جملہ سیاق و سباق سے کاٹ دیںتو اس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے۔چنانچہ وہ لوگ جو اپنی مرضی کے معنی قرآن مجید سے اخذ کرنا چاہتے ہیں،انھیں کلام الٰہی سے منسوب،یہ معجزبیانی بڑا سہارا دیتی ہے، اوراس بنیاد پر،اپنی رائے کے مطابق آیات سے،خود ساختہ معنی نکالنا ان کے لیے مشکل نہیں رہتا۔ لیکن یہ کسی ایسی کتاب کی خصوصیت نہیں ہو سکتی جو ایک واضح پیغام، متعین شریعت اور اعلیٰ حقائق کی حامل ہو اور اس کے مخاطب وہ عرب ہوں جو سادہ اور واضح اسلوب نگارش پسند کرتے اور ایسا ادب تخلیق کرتے ہوں جو فطرت کے بالکل قریب ہو اور جس میں مصنوعی خیال آرائی،دوراز کار تشبیہ و استعارے اور محض لفاظی کو کوئی دخل نہ ہو۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]لاریب،قرآن مجید کی ہر آیت ایک واضح اور متعین پیغام کی حامل ہے۔چنانچہ،اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے۔پوری سورہ کا مضمون، اس باب کا مرکزی خیال،جس میں یہ سورہ رکھی گئی ہے اور زیر بحث آیت کی سابق ولاحق آیات جب تک ایک مفہوم کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو جائیں، کسی مفہوم کو قرآن مجید کا مفہوم قرار نہیں دیا جا سکتا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]چنانچہ،یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید کے معنی طے کرتے ہوئے،ایک ہی تاویل تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی آیت،ظاہر الفاظ میں، ایک سے زیادہ معنی کا احتمال رکھتی ہو تو نظم کلام، سیاق وسباق اور نظائر کلام کی روشنی میں،اس کا مفہوم ٹھیک ٹھیک متعین کر دیا جائے۔ظاہر الفاظ کے تمام احتمال بیان کر دینا قرآن مجید کی کوئی خدمت نہیں ہے۔یوں، اس کے ایک واضح کتاب ہونے کی نفی ہوتی ہے اور دوسرے ہم عام قاری کوسمجھنے میں مدد دینے کے بجائے مزید الجھنوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]تصریف آیات[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مدعا کو پوری طرح سمجھا دینے کے لیے،ایک ہی مضمون کو مختلف پیرائے میں بیان کیا ہے۔کہیں ایک بات مجمل انداز میںکہی ہے اور کہیں مفصل انداز میں؛ کہیں بات کا ایک پہلو نمایاں کیا ہے اور کہیں دوسرا؛کہیں دلائل انسان کے ماحول سے دیے ہیں اور کہیں اس کے اپنے نفس سے؛ کہیں دل کی دنیا کو مخاطب بنایا ہے اور کہیں عقل کو آواز دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مختلف اسالیب اختیار کیے، تاکہ قرآن مجید کی بات، اس کے مخاطب پر، ہر طرح سے واضح ہو جائے۔ یہ چیز آج بھی قرآن مجیدکے طالب علم کے لیے بڑی مفید ہے۔وہ اگر ایک جگہ سے بات نہیں سمجھا تو دوسرے مقام سے سمجھ سکتا ہے اور اگر ایک جگہ سے بات کا کوئی پہلو واضح نہیں ہو سکا تو دوسری جگہ سے واضح ہو جائے گا۔چنانچہ ایک مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کی شرح کرتے ہوئے وہ مقامات سامنے رکھے، جہاں زیر نظر مضمون دہرایا گیا ہے،تاکہ قرآن مجید کے صحیح مدعا تک پہنچنے میں اسے کوئی دقت نہ ہو۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]مفسر اور قرآن[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید کا مفسر ہو یا عام قاری،ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کا مدعا سمجھنے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرے اور اپنا پسندیدہ نقطہ نظر اس کے منہ میں ڈالنا،اس کے پیش نظر نہ ہو۔کوئی شخص قرآن مجید سے ہدایت کا طالب ہو تو یہ کتاب اس کے لیے سراپا ہدایت ہے اور اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ اپنے ہی مزعومات پر قائم رہے اور قرآن،محض، اس کے لیے دلائل فراہم کرنے کا ذریعہ ہو، تو یہی قرآن گمراہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]پھر قرآن مجید سے استفادے کے لیے ضروری ہے کہ اس کوبر تر کلام مانا جائے۔یہ اللہ کا کلام ہے۔اس میں ابدی فلاح کا پیغام ہے۔یہ انسان کی رشد و ہدایت کا سامان ہے۔اس نے صدیوں تک ایک عظیم امت کی رہنمائی کی ہے اور اس کے پیغام نے اس زمین پر اس ریاست کو وجود بخشاجس سے بڑھ کر کسی عادلانہ ریاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔اس میں دی گئی شریعت اسے عبادت کا ڈھنگ سکھاتی،اس کے خاندان کے استحکام کا ذریعہ بنتی،اس کے معاشرے کی اصلاح کرتی اور اس کی ریاست کو سراپا خیر بنا دیتی ہے۔اس کا طرز استدلال اس کے ذہن کو مطمئن اور اس کے دل کو منور کر دیتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔خاکی وجود ہو یا اس کے اندر موجود روح،عقل و فہم کی صلاحیت ہو یا دوسرے انسانوں سے متعلق ہونے والے اخلاقی رویے، قرآن مجید میں ان سب کی پاکیزگی،اصلاح اور بالیدگی کاسامان موجود ہے۔غرض یہ کہ اپنے منتہاو مقصود کے اعتبار سے،یہ نفوس انسانی کے تزکیے کا ذریعہ ہے اور جو نفوس اس کتاب کی روشنی میں اپنا تزکیہ کر لیں گے،ان کے لیے خدا وند عالم نے جنت تیار کر رکھی ہے،اس طرح یہ وہ کتاب ہے،جو اپنے ماننے والوں کے لیے ابدی جنت کا پیغام ہے۔قرآن کا جو طالب علم اس کتاب کی اس اہمیت کو سمجھتا ہے، وہی اس قلب اور اس ذہن کے ساتھ اس کتاب کی طرف بڑھے گا،جس کے بعد یہ کتاب اس کے لیے اپنی ہدایت کے دروازے کھول دیتی ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]جو لوگ تفسیر سے متعلق علوم و فنون سیکھ لیں اور قرآن مجید پر براہ راست غور کی استعداد پیدا کر لیں،ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے براہ راست مطالعے کی کتاب بنائیں۔ایسے لوگوں کا مفسرین کی آرا پر بے سوچے سمجھے انحصار،فکری جمود کا باعث بنتا ہے اور یہ چیز امت کی علمی ترقی کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی طرح،اس کے برعکس،بعض لوگ ضروری صلاحیت بہم پہنچائے بغیر قرآن مجید کے مفسربن بیٹھتے ہیں۔ عربی زبان سے معمولی سی شناسائی، چند تفسیروں کا مطالعہ اور کچھ لکھ بول لینے کی صلاحیت کے ساتھ،وہ شرح قرآن کی مسند پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ، درحقیقت، تفسیر قرآن کے نام پر گمراہی کے علم بردار ہوتے ہیں۔ان کے لیے یہ توممکن نہیں ہوتا کہ یہ قرآن مجید کے بحر عمیق کی غواصی کر سکیں۔البتہ،حاطب اللیل کی طرح، جو کچھ ہاتھ آئے اسے لے لیتے ہیں اور پھر اسے اپنی خود ساختہ فکر کی دکان چمکانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطالعے کے لیے ان علما کو اپنا رہنما بنائیں، جنھوں نے اس کے لیے ضروری صلاحیت پیدا کی ہے۔اگر ان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو انھی سے اس کا جواب لیں،کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو انھی کی مدد سے سمجھیں،اگر کوئی نیا نکتہ یا خیال سمجھ میں آئے تو اس کی تحقیق بھی انھی سے کریں۔جس طرح علما کا یہ طریقہ غلط ہے کہ وہ قرآن مجید پر براہ راست غور نہ کریں،اسی طرح ایک عامی کا یہ طریقہ بھی صحیح نہیں کہ علم کے بغیر علما کی مسند پر جا بیٹھے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]مفسر اور خدا سے تعلق[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ایک مفسر کا خداسے تعلق دو پہلووں سے نمایاں ہوتا ہے۔ایک پہلو سے،ایک فرماں بردار بندے کی طرح، وہ اپنے آپ کو ان احکام کے مطابق ڈھالتا چلا جاتا ہے،جن کا فہم اسے خدا کے کلام سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک عزم صمیم کے ساتھ قرآن مجید کی طرف بڑھتا ہے اور اس کی طرف سے جو تقاضا بھی سامنے آئے،غایت خلوص کے ساتھ،اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔فہم قرآن کے لیے یہ چیز ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کی وجہ قرآن مجید کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنی ہدایت کا دروازہ صرف اس کے لیے کھولتا ہے،جو اپنے آپ کو قرآن کے مطابق بدل لینے کا ارادہ کر کے اس کا مطالعہ کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین میں اس عالم کا کوئی مقام نہیں،جس کا عمل اس کے علم کے مطابق نہ ہو۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]دوسرا پہلو قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے،پیش آنے والی مشکلات سے متعلق ہے۔جب قرآن مجید کا کوئی مقام سمجھ میں نہ آرہا ہو،اس وقت بندہ مومن کا سب سے بڑا رہنما اس کا پروردگار ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے مواقع پر خدا کے آگے اپنا سرڈال دے اور اس سے مشکل میں مددکا خواست گار ہو۔فہم قرآن کے معاملے میں سب سے زیادہ مدد گار تہجد کی نماز ہے۔تہجد کے بارے میں خود قرآن مجید میں یہ بات کہی گئی کہ یہ تلاوت قرآن کا بہترین موقع ہے۔اس سے قرآن مجید نہ صرف یہ کہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے،بلکہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ بنتا اور دل کے نہاں خانے میں اپنی جگہ بناتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید کا تدبر کے ساتھ مطالعہ کرتے ہوئے،تہجد کا التزام اپنے اندر متعدد فوائد رکھتا ہے اور ایک مفسر کے لیے اس کا التزام انتہائی ضروری ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]تفسیر قرآن سے متعلق چند اصولی مباحث کے، اجمالاً ذکر کے بعد، اب ہم زیر نظر کتاب ''تفسیر فاضلی'' کا مختصر جائزہ لیں گے۔اوپر ہم نے تفسیر کرنے کے مختلف طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے، ''تعبیری تفسیر'' کے طریقے کا ذکر کیا تھا۔''تفسیر فاضلی'' اسی طریقے پر لکھی گئی تفسیر ہے۔ہم نے اس ضمن میں یہ بھی بیان کیا تھا کہ یہ،علمی دنیا میں،درحقیت،کوئی طریقہ تفسیر ہی نہیں ہے۔تفسیر سے مراد یہ ہے کہ ہم کلام کا مدعا اور معنی واضح کریں۔ یعنی،اس کلام میں موجود لغوی،نحوی اور ادبی قرائن کے دائرے میں رہتے ہوئے،اس کا مفہوم متعین کریں اورسیاق و سباق اور نظم کی دلالتوں کو نظر انداز کیے بغیر کلام میں موجود حقائق تک رسائی حاصل کریں۔کسی کلام کے الفاظ کو نظر انداز کر کے کوئی بڑی سے بڑی بات بھی،اگر اس سے منسوب کر دی جائے گی تو یہ ہرگز اس کلام کی تفسیر یا شرح نہیں ہو گی۔ مضمون آفرینی کے لیے،محض ادنیٰ سی مناسبت کی بنیاد پر،کسی آیت قرآنی کو سرنامہ بنا لینا اور یہ تاثر دینا کہ یہ اس آیت کا مفہوم ہے،درحقیقت قرآن سازی ہے۔ظاہر ہے، اس سے بڑی کوئی جسارت نہیں ہو سکتی۔ ہم اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ کی آیت 'اياك نعبد و اياك نستعين' کے تحت ''تفسیر فاضلی'' میں لکھا ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''رب العالمین کی بے حد مہربانی اور بے حد رحم کے اعتراف کے ساتھ،جزا کو اسی کی طرف سے سمجھنا بندے کا حق ہے۔اللہ کا نبی عبدہ اور اس کا حال عبودیت ہوتا ہے۔عبودیت یہ ہے کہ عادتاً کوئی کام نہ ہو،اس لیے ہو کہ اللہ کے محبوب نے ویسے کیا ہے ۔اللہ کی مدد اس لیے چاہتے ہیںکہ وہ ہمیں شاہدین میں لکھ لے،ہمیں تزکیہ عطا ہو اور فلاح عطا ہو۔'' ( ا/٢)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اب اسی آیت کی ایک اور تفصیل دیکھیے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''عبادت کے اصلی معنی،عربی لغت میں،انتہائی خضوع اور انتہائی عاجزی اور فروتنی کے اظہار کے ہیں۔لیکن قرآن میں یہ لفظ اس خضوع وخشوع کی تعبیر کے لیے خاص ہو گیا ہے، جو بندہ اپنے خالق و مالک کے لیے ظاہر کرتا ہے۔پھر اطاعت کا مفہوم اس لفظ کے لوازم میں داخل ہو گیا ہے،کیونکہ یہ بات، بالبداہت، غلط معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس ذات کو اپنے انتہائی خضوع و خشوع کا واحد مستحق سمجھے، زندگی کے معاملات میں اس کی اطاعت کو لازم نہ جانے[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اللہ تعالیٰ کا جو حق بندوں پر ہے،وہ بھی اس آیت میں بیان ہو گیا ہے اور بندے کا جو حق اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کیا ہے،وہ بھی اس میں بیان ہو گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا حق بندے پر یہ ہے کہ بندہ تنہا اسی کی بندگی کرے اور اسی سے التجا کرے۔بندے کا حق اس نے اپنے اوپر یہ بتایا ہے کہ وہ اس پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے۔آیت کے پہلے ٹکڑے میں بندہ اس حق کا اقرار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا اس کے اوپر ہے اور اس کے دوسرے ٹکڑے میں،اس حق کے لیے درخواست پیش کرتا ہے،جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر بندے کابتایا ہے،لیکن پیش کرنے کا انداز انتہائی مودبانہ ہے۔بندہ اپنے کسی حق کی طرف کوئی اشارہ کرنے کے بجائے صرف اپنی احتیاج،اپنے اعتماد اور اپنی تمنا کا اظہارکر دیتا ہے، کیونکہ بندے کے شایان شان یہی ہےچنانچہ اس سورہ سے متعلق جو مشہور حدیث قدسی ہے،اس میں خاص اس ٹکڑے سے متعلق، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ جب بندہ[/FONT][FONT=&quot] 'اياك نعبد واياك نستعين' [/FONT][FONT=&quot]کے الفاظ پڑھتا ہے،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑا میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ دیا جو بندے نے مانگا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں'' کے الفاظ عام ہیں،اس وجہ سے یہ طلب مدد،خاص عبادت کے معاملے میں بھی ہو سکتی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی...[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اس جملہ میں مفعول کی تقدیم نے حصر کا مضمون پیدا کردیا ہے یعنی عبادت بھی صرف خدا ہی کی اور استعانت بھی تنہا اسی سے۔اس حصر نے شرک کے تمام علائق کا یک قلم خاتمہ کر دیا،کیونکہ اس اعتراف کے بعد بندہ کے پاس نہ کسی غیر اللہ کو کچھ دینے کو رہا اور نہ اس سے مانگنے کی گنجایش رہی۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اس آیہ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے،تین چیزوں کی وضاحت کی جانی چاہیے۔پہلی چیز یہ کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے،دوسری یہ کہ اس سورہ میں اس کا موقع کیا ہے اور تیسری یہ کہ اس سے متکلم کا منشا کیا ہے۔پہلی چیز کی وضاحت میں آیت کی لغت، دوسری کی وضاحت میں سیاق وسباق اور اسلوب بیان اور تیسری کی وضاحت میں آیت کی دلالتوں اور اطلاقات کی تفصیل کی جاتی ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ آیت کے الفاظ،سیاق و سباق،اسلوب بیان،نظم سورہ اور قواعد زبان کی بنیاد پر بیان کیا جائے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اس اصولی توضیح کے بعد جب ہم دونوں تفسیروں کا جائزہ لیتے ہیں،تو بات بآسانی واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی تفسیر اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔اس میں''عبادت''کا جو مفہوم بیان کیا گیا ہے،اس کا لغت سے کوئی تعلق نہیں۔یہ مصنف کا خود ساختہ مفہوم ہے اور اس کے لیے جو استدلال پیش کیا گیا ہے، اس کا بھی اس استدلال سے کوئی تعلق نہیں،جس کی طرف،ہم نے اوپر کے پیراگراف میں، بالاجمال اشارہ کیا ہے۔اسی طرح''استعانت'' کی غرض و غایت بھی مصنف نے اپنے جی سے متعین کی ہے۔اس کا بھی سورہ یا اس کے الفاظ سے،کسی طرح کا کوئی تعلق ثابت نہیں کیا جا سکتا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]درحقیقت،تفسیر کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مصنف نے جب آیت کو پڑھاتو اسے کچھ اچھی باتیں سوجھ گئیں اوراس نے انھیں سپرد قلم کر دیا ہے اور قرآن کی زبان،سورہ کا اسلوب اور طرز استدلال اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]آخر میں اب ہم اس اصول کا تجزیہ کریں گے،جس کے مطابق یہ تفسیر لکھی گئی ہے۔یہ اصول،اس تفسیر کے دیباچے میں، ان الفاظ میں لکھا گیا ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''(تفسیر) لغت اور گرامر کے تابع نہ ہو کہ حادث علم سے علم الٰہی کو جانچنا بے بنیاد ہے۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]یہ اصول تہ درتہ مغالطوں پر مبنی ہے۔پہلی غلطی یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کو علم الٰہی کا بیان قرار دیا گیا ہے۔یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ قرآن مجیدنے اپنے بارے میں یہ بات نہیں کہی، جبکہ وہ اپنا تعارف خود کراتاہے۔چنانچہ،قرآن مجید کے بارے میں اس طرح کی بات کہنا،صریحاً حدود سے تجاوز ہے۔ دوسری غلطی اس میں یہ ہے کہ اس کے انسانوں کی ہدایت کے لیے لکھی گئی کتاب ہونے کے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ جو کتاب انسانوں کی رہنمائی کے لیے لکھی گئی ہے،وہ لازماً انسانوں کے کسی کلام کو سمجھنے اور جاننے کے ذرائع کے مطابق ہو گی۔تیسری غلطی اس میں یہ ہے کہ اس کے ایک زبان کے پیرہن میں ہونے کے پہلو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ایک زبان میں انسانوں کو مخاطب بنایا ہے تو اس کے لیے پیرایہ بیان بھی وہی اختیار کیا ہے،جسے اس کے مخاطب جانتے،بولتے اور سمجھتے تھے۔ چوتھی غلطی اس میں یہ ہے کہ زبان کو لغت اور گرامر کے تابع سمجھ لیا گیا ہے،دراں حالیکہ یہ زبان کو سمجھنے کے ذرائع ہیں اور جو چیز کسی شے کے حصول کا ذریعہ ہو، وہ اس شے کے تابع ہوتی ہے،اس پر فائق نہیں ہوتی۔چنانچہ،ہر زبان کے ماہرین لغت و نحو زبان کا تتبع کرتے اور اپنی لغت و نحو میں طے شدہ آرا میں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔پانچویں غلطی اس میں یہ ہے کہ عربی زبان کو قدیم(یعنی جو ہمیشہ سے ہے)اور اس کی لغت ا ور گرامر کو حادث(یعنی جو ایک وقت پر وجود میں آئی)قرار دیا گیا ہے۔حالانکہ جس دلیل کی بنیاد پر زبان کے ان فنون کو حادث قرار دیا جا رہا ہے،اسی دلیل سے خود زبان بھی حادث قرار پاتی ہے۔چھٹی غلطی اس میں یہ ہے کہ لغت اور نحو کی روشنی میں قرآن کے مفہوم کو سمجھنے کی سعی کو علم الٰہی کا جانچنا قرار دیا گیا ہے،جبکہ ''سمجھنے'' اور ''جانچنے'' کے عمل میں کوئی قدرمشترک نہیں ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص جو قرآن کے دائرے میں نہ رہنا چاہتا ہو،اس کے لیے دو راستے ہیں۔ایک راستہ یہ ہے کہ وہ زبان کے قواعد و ضوابط کی شکل بگاڑ کر ان سے چھٹکارا حاصل کر لے اور دوسرا راستہ یہ کہ قواعد و ضوابط کی پابندیوں ہی کو ماننے سے انکار کر دے۔یہ دونوں طریقے ناجائز ہیں۔اس تفسیر میں یہ دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ہمارے اس تجزیے کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ یہ کوئی تفسیر نہیں ہے۔اس مضمون میں،اس کے لیے تفسیر کا لفظ محض ابلاغ مدعا کی سہولت کے لیے اختیار کیا گیا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][١٩٩٥ء] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ـــــــــــــــــــــــــــــ[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]١- '' ہمارے ذمے ہے، اس کا جمع کرنا اور اسے سنانا۔''(القیامہ ٧٥: ١٧)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]طالب محسن[/FONT]


 

saud491

MPA (400+ posts)
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

Bro Saud
Assalam-o-alaikum
Nice to hear from you regarding SURAH NAMAL research paper. But try to make FONT size easy to read.
Jaza-k-ALLAH.
============
Bro actually i was discussing earlier that what is the rule of translation?
Can tafaseer be conflicting and out of context?
What is the role of EXPLANATION OF QURAN ACCORDING TO SCIENTIFIC FACTS & ESTABLISHED RULES..?
For example can SURAH FEEL be translated that SQUADRON OF STEALTH FIGHTERS AIRCRAFTS WERE SENT ON ARMY OF TANKS (men using ELEPHANTS WHO WERE THINKING OF DESTROYING KAABA) THEY DROPPED URANIUM DEPLETED BOMBS.. SO WHEN THESE BOMBS EXPLODED THE ATTACKING ARMY BECAME EATEN STRAWS (BHUSS)..
(may ALLAH forgive me..)

قرآن كی زبان: عربی معلّٰی





پہلی چیز یہ ہے کہ قرآن جس زبان میں نازل ہواہے ،وہ ام القریٰ کی عربی معلی ہے جو اُس کے دورجاہلیت میں قبیلۂ قریش کے لوگ اُس میں بولتے تھے ۔اِس میں شبہ نہیں کہ اِس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اِس کتاب میں فصاحت و بلاغت کا ایک لافانی معجزہ بنا دیا ہے ،لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ وہی زبان ہے جو خداکا پیغمبر بولتا تھا اور جو اُس زمانے میں اہل مکہ کی زبان تھی :
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا .(مريم ١٩:٩٧ )
پس ہم نے اِس (قرآن) کو تمھاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے کہ تم اِس کے ذریعے سے اہل تقویٰ کو بشارت دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو اِس کے ذریعے سے اچھی طرح خبردار کردو ۔
اِس لیے اِس کتاب کا فہم اب اِس زبان کے صحیح علم اور اِس کے صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے ،اور اِس میں تدبر اور اِس کی شرح و تفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی اِس زبان کا جید عالم اور اِس کے اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن کے مدعا تک پہنچنے میں کم سے کم اُس کی زبان اُس کی راہ میں حائل نہ ہو سکے ۔
یہ حقیقت تو اِس سے زیادہ وضاحت کی محتاج نہیں ،لیکن اِس زبان کے بارے میں یہ بات البتہ ،اِس کے ہر طالب علم کو پوری وضاحت کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ وہ عربی نہیں ہے جو حریری و متنبی اور زمخشری و رازی نے لکھی ہے یا اِس زمانے میں مصر و شام کے اخبارات میں شائع ہوتی اور اُن کے ادیبوں اور شاعروں کے قلم سے نکلتی ہے ۔یہ بھی ایک قسم کی عربی ہی ہے ،لیکن وہ عربی جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور جسے بجا طور پر عربی معلّٰی کہنا چاہیے ،اُس میں اور اِس زبان کے لب و لہجہ ،اسلوب و انداز اور الفاظ و محاورات میں کم و بیش وہی فرق ہے جو مثال کے طور پر ، میرو غالب اور سعدی و خیام کی زبان اور ہمارے اِس زمانے میں ہند و ایران کے اخبارات و جرائد کی اردو اور فارسی میں ہے ۔لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ اِس سے قرآن کی زبان کا کوئی ذوق نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوتا ،بلکہ الٹا یہ اُس سے بے گانہ کر دیتی ہے اور اگر اِسی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے تو قرآن مجید کے فہم سے بسا اوقات آدمی بالکل محروم ہو جاتا ہے ۔
چنانچہ قرآن کی زبان کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی طرف رجوع کرنا چاہیے ،وہ خود قرآن مجید ہی ہے ۔اِس کے بارے میں کوئی شخص اِس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یہ جب ا م القریٰ میں نازل ہوا تو اِس کی الہامی حیثیت تو بے شک ،ایک عرصے تک معرض بحث میں رہی، لیکن اِس کی عربیت کو کوئی شخص کبھی چیلنج نہیں کر سکا ۔اِس نے کہا کہ وہ کسی عجمی کا کلام نہیں ہو سکتا اور اِس کی دلیل یہ دی کہ وہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے ۔اِس نے اپنے آپ کو زبان و ادب اور فصاحت و بلاغت کا ایک معجزہ قرار دیا اور قریش کو چیلنج کیا کہ وہ اِس کے مانند کوئی ایک سورہ ہی پیش کریں۔یہاں تک کہ اِس نے اعلان کیا کہ وہ اِس کے لیے اپنے ادیبوں،خطیبوں، شاعروں، کاہنوں اور صرف انسانوں ہی کو نہیں، جنات،شیاطین اور دیوی دیوتاؤں میں سے بھی جن کو چاہیں بلا لیں،لیکن یہ ایک ناقابل انکار تاریخی حقیقت ہے کہ اہل عرب میں سے کوئی شخص نہ اِس کی عربیت کا انکار کر سکا اور نہ اِس کے چیلنج کا جواب ہی کسی شخص کے لیے دینا کبھی ممکن ہوا :
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ. (البقره ٢ : ٢٣)
اور اگر تم اُس چیز کی طرف سے شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو اُس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ اور اِس کے لیے اللہ کے سوا اپنے سب ہم نواؤں کو بلالو،اگرتم سچے ہو۔
قُلْ : لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰۤی اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْاٰنِ، لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِه وَلَوْ کَانَ بَعْضُهمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا. (بنی اسرائيل١٧:٨٨ )
کہہ دو کہ اگر سب جن و انس اِس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ اِس جیسا کوئی قرآن لے آئیں تو نہ لا سکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں ۔
بلکہ یہی نہیں ، ام القریٰ میں ولید بن مغیرہ جیسے نقاد ادب نے اِس کو سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا :
واللّه، ما منکم رجل اعرف بالاشعار منی، ولا اعلم برجزه ولا بقصيدة منی ، ولا باشعار الجن. والله ، ما يشبه الذی يقول شيئًا من هذا. والله، ان لقوله الذي يقوله حلاوة و ان عليه لطلاوة، و انه لمثمر اعلاه، مغدق اسفله، وانه ليعلو ولا يعلٰی ، وانه ليحطم ما تحته.(السيرةالنبوية ،ابن کثير ١ /٤٩٩)
بخدا ،تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھ کر نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز اور قصیدہ سے اور نہ جنوں کے الہام سے ۔ خدا کی قسم ، یہ کلام جو اِس شخص کی زبان پر جاری ہے، اِن میں سے کسی چیز سے مشابہ نہیں ہے۔ بخدا ، اِس کلام میں بڑی حلاوت اور اِس پر بڑی رونق ہے ۔ اِس کی شاخیں ثمر بار ہیں، اِس کی جڑیں شاداب ہیں، یہ لازماً غالب ہو گا،اِس پر کوئی چیز غلبہ نہ پا سکے گی اور یہ اپنے نیچے ہر چیز کو توڑ ڈالے گا۔
شعراے سبعہ معلقہ میں سے لبید اُس وقت زندہ تھے ۔ یہ وہی شاعر ہیں جن کے ایک شعر ١ ؎ پر فرزدق جیسا شاعر سجدہ ریز ہو گیا ،لیکن وہ بھی اِس کے سامنے اِس طرح گنگ ہوئے کہ جب سیدنا فاروق نے شعر سنانے کی فرمایش کی تو فرمایا : بقرہ و آل عمران کے بعد اب شعر کہاں، 'ما کنت لا قول شعرًا بعد ان علمنی اللّه البقرة وآل عمران' ۔ ٢ ؎
یہ محض ایک شخص کا اعتراف نہ تھا ۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ عرب کی ساری فصاحت و بلاغت اِس کے سامنے سرافگندہ ہو گئی ہے ۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان و ادب کا یہ معجز ہ بغیر کسی ادنیٰ تغیر اور بغیر کسی حرف کی تبدیلی کے باللفظ ہم تک منتقل ہوا ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت اب بالکل مسلم ہے کہ خدا کی اِس زمین پر یہ صرف دین ہی کی حتمی حجت نہیں ہے ،اپنے دور کی زبان کے لیے بھی ایک قول فیصل اور ایک برہان قاطع ہے۔
قرآن مجید کے بعد یہ زبان حدیث نبوی اور آثار صحابہ کے ذخائر میں ملتی ہے ۔اِس میں شبہ نہیں کہ روایت بالمعنٰی کی وجہ سے اِن ذخائر کا بہت تھوڑا حصہ ہی ہے جسے اب زبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے ،لیکن یہ جتنا کچھ بھی باقی ہے ،اہل ذوق کے لیے متاع بے بہا ہے۔ یہ افصح العرب و العجم اور فصحاے صحابہ کی زبان ہے اور اپنے الفاظ و محاورات اور اسلوب بیان کے لحاظ سے اُس زبان کا بہترین نمونہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں، تمثیلات اور صحابہ کے ساتھ آپ کے مکالمات میں چونکہ بالعموم روایت باللفظ کا اہتمام ہوا ہے ،اِس وجہ سے اِس زبان کے نظائر سب سے زیادہ اِنھی کی روایت میں ملتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کی زبان کے طلبہ اگر اِس بحر زخار میں غواصی کریں تو اپنے لیے بہت کچھ لولوے لالا جمع کر سکتے ہیں اور قرآن کی لفظی اور معنوی مشکلات کو حل کرنے میں اِس ذخیرے سے اُن کو بڑی مدد مل سکتی ہے ۔
اِس کے بعد اِس زبان کا سب سے بڑا ماخذ کلام عرب ہے ۔یہ امر ؤالقیس ،زہیر ،عمرو بن کلثوم، لبید، نابغہ ،طرفہ ، عنترہ، اعشیٰ اور حارث بن حلزہ جیسے شاعروں اور قس بن ساعدہ جیسے خطیبوں کا کلام ہے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اِس کا بڑا حصہ شعرا کے دواوین اور ''اصمعیات ''٣؎ ، ''مفضلیات ٤؎ '' ، ''حماسہ ٥؎ ''، ''سبع معلقات٦؎ '' اور جاحظ و مبرد اور اِس طرح کے دوسرے اہل ادب کی کتابوں میں جمع ہے۔٧؎ اِس زمانے میں شعراے جاہلیت کے ایسے بہت سے دواوین بھی شائع ہوئے ہیں جو اِس سے پہلے ناپید تھے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ عربی زبان کے بیش تر لغات اہل زبان کے اجماع و تواتر سے نقل ہوئے ہیں اور اِن کا ایک بڑا ذخیرہ لغت کی امہات :''التہذیب ٨؎ ''، ''المحکم ٩؎ '' ،''الصحاح ١٠؎ '' ، ' 'الجمہرہ ١١؎ ''،' 'النہایہ ١٢؎ '' وغیرہ میں محفوظ ہے ،لیکن اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ لغت عرب کا جو ذخیرہ اِس طرح متواتر نہیں ہے ،اُس کی تحقیق کے لیے سب سے زیادہ مستند ماخذ یہی کلام عرب ہے ۔اِس میں اگرچہ کچھ منحول کلام بھی شامل ہے ،لیکن جس طرح نقدحدیث کے علما اُس کی صحیح اور سقیم روایتوں میں امتیاز کر سکتے ہیں ،اِسی طرح اِس کلام کے نقاد بھی روایت و درایت کے نہایت واضح معیارات کی بنا پر اِس کے خالص اور منحول کو ایک دوسرے سے الگ کر دے سکتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ لغت و ادب کے ائمہ اِس بات پر ہمیشہ متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی بنا پر زبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ صاحب ''خزانۃ الادب ١٣؎ '' نے لکھا ہے:
الکلام الذی يستشهد به نوعان: شعر وغيره، فقائل الاول قد قسمه العلماء علی طبقات اربع. الطبقة الاولیٰ: الشعراء الجاهليون، و هم قبل الاسلام کامرئ القيس والاعشیٰ ، والثانية: المخضرمون، وهم الذين ادرکوا الجاهلية والاسلام کلبيد و حسّان، والثالثة: المتقدمون،ويقال لهم الاسلاميون، وهم الذين کانوا فی صدر الاسلام کجرير والفرزدق، والرابعة : المولدون، ويقال لهم المحدثون، وهم من بعدهم الی زماننا کبشار بن برد و ابی نواس. فالطبقتان الاوليان يستشهد بشعرهما اجماعا.( ١/٣ )
جس کلام سے زبان کے معاملے میں استشہاد کیا جاتا ہے ،اُس کی دوقسمیں ہیں : ایک جو شعر کی صورت میں ہے اور دوسرا جو شعر کی صورت میں نہیں ہے ۔ اِن میں سے پہلی قسم کو اہل علم نے چار طبقات میں تقسیم کیا ہے : پہلاطبقہ اسلام سے پہلے کے شعراے جاہلیت کا ہے، جیسے: امرؤالقیس اور اعشیٰ۔ دوسرا مخضرمین کا ہے جنھوں نے اسلام اور جاہلیت، دونوں کا زمانہ پایا، جیسے: لبید اور حسان۔ تیسرے متقدمین ہیں جنھیں اسلامیین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دور اول میں ہوئے، مثال کے طور پر جریر اور فرزدق۔ چوتھے مولدین ہیں جنھیں محدثین بھی کہتے ہیں۔ اِن میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو پہلے تین طبقات کے بعد ہمارے اِس زمانے تک ہوئے ہیں، جیسے : بشاربن برد اور ابونواس۔ اِن میں سے پہلے دو طبقات کے بارے میں اجماع ہے کہ اُن کے اشعار سے استشہاد کیا جائے گا۔
یہی بات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے منبر سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی ہے :
عليکم بديوانکم،لا تضلوا. قالوا: ما ديواننا؟ قال: شعر الجاهلية ، فان فيه تفسيرکتابکم ومعانی کلامکم . (انوار التنزيل ،البيضاوی ١ /٤٥٩ )
تم لوگ اپنے دیوان کی حفاظت کرتے رہو، گمراہی سے بچے رہو گے۔ لوگوں نے پوچھا: ہمارا دیوان کیا ہے ؟ فرمایا :اہل جاہلیت کے اشعار، اِس لیے کہ اُن میں تمھاری کتاب کی تفسیربھی ہے اورتمھارے کلام کے معانی بھی۔
صحابہ میں دین کے جلیل القدر عالم ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :
اذا سألتم عن شيء من غريب القرآن فالتمسوه فی الشعر، فان الشعر ديوان العرب. (المزهرفی علوم اللغة، السيوطی ٢ /٢٦١)
تم قرآن میں اپنے لیے کسی اجنبی لفظ یا اسلوب کو سمجھنا چاہو تو اُسے جاہلی اشعار میں تلاش کرو، اِس لیے کہ یہی شاعری درحقیقت، اہل عرب کا دیوان ہے ۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اہل جاہلیت کا یہ کلام صرف زبان اور اُس کے اسالیب ہی کا ماخذ نہیں ہے ،اِس کے ساتھ عرب کی اُس تہذیب و ثقافت کا بھی آئینہ دار ہے جس کا صحیح تصور اگر ذہن میں موجود نہ ہو تو قرآن مجید میں اشارہ و تلمیح اور تعریض و کنایہ کے اُن اسالیب کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے جو اِس شہ پارۂ ادب میں اصل سرمایۂ بلاغت ہیں ۔اہل عرب کی معاشرت کے بنیادی خصائص کیا تھے ؟ وہ کن چیزوں کو معروف اور کن چیزوں کو منکر قرار دیتے تھے ؟ اُن کے معاشرے میں خیر و شر کے معیارات کیا تھے ؟ اُن کے مذہب اور رسوم و روایات کس نوعیت کے تھے؟ اُن کا تمدن کن بنیادوں پر کھڑا تھا اور اُن کے سماج کی تشکیل کن عناصر سے ہوئی تھی ؟ اُن کے سیاسی نظریات اور روز و شب میں اُن کی دل چسپیاں اور مشاغل کیا تھے ؟ وہ کیا ڈھور ڈنگروں کا ایک گلہ ہی تھے جنھیں اسلام نے اٹھایا اور جہاں بانی کے منصب پر فائز کر دیا یا اپنی اِس وحشت کے باوجود بعض ایسے اوصاف و خصائص کی حامل ایک قوم بھی تھے جن کی بنا پر قرآن جیسی کتاب اُنھیں دی گئی اور وہ خدا کی طرف سے پوری دنیا کے لیے شہادت حق کے منصب پر فائز ہوئے ؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کا صحیح جواب اِسی کلام ميں ملتا ہے اور یہی جواب ہے جس کی روشنی میں قرآن مجید کے اشارات و تلمیحات اور تعریضات و کنایات اپنے بے مثال ادبی حسن اور کمال معنویت کے ساتھ اُس کے طلبہ اور محققین پر واضح ہوتے ہیں ۔
چنانچہ صرف زبان ہی کے معاملے میں نہیں ، اِن سب چیزوں کے لیے بھی قرآن کے طلبہ کو اِس کلام کی مراجعت کرنی چاہیے ۔
١ ؎ شعر یہ ہے :
وجلا السيول عن الطلول کانها زبر تجد متونها اقلا مها
٢ ؎ الاستیعاب، ابن عبد البر، بہامش الاصابہ ٣/٢٣٧۔
٣ ؎ الاصمعیات ، ابو سعید عبد الملک بن قریب الاصمعی۔
٤ ؎ المفضلیات ، المفضل بن محمد بن یعلیٰ بن عامر بن سالم الضبی۔
٥ ؎ الحماسہ، ابو تمام حبیب بن اوس الطائی۔
٦؎ یہ عربی زبان کے سات منتخب قصائد کا مجموعہ ہے۔
٧ ؎ مثال کے طور پر جاحظ کی ''البیان و التبیین'' اور مبرد کی ''الکامل فی اللغۃ و الادب'' وغیرہ۔ اِن کے علاوہ ابو زید کی ''جمہرۃ اشعار العرب''، ابن الشجری کی ''مختارات شعراء العرب''، ابو تمام کی ''الفحول'' اور بحتری، خالدیان اورابن الشجری ابو ہلال العسکری کی ''حماسہ'' اور ابو ہلال کی ''دیوان المعانی '' بھی اِسی طرح کی تالیفات ہیں ۔
٨ ؎ التہذیب فی اللغہ ، ابو منصور محمد بن احمد الازہری ۔
٩ ؎ المحکم والمحیط الاعظم ، علی بن سیدہ ۔
١٠ ؎ تاج اللغۃ و صحاح العربیہ ،ابو نصر اسمٰعیل الجوہری ۔
١١ ؎ الجمہرۃ فی اللغہ ، ابوبکر محمد بن درید الازدی ۔
١٢ ؎ النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر ، ابوالسعادات المبارک بن محمد الجزری ، ابن الاثیر ۔
١٣ ؎ خزانۃ الادب و لب لباب لسان العرب، عبدا لقادر بن عمر البغدادی ۔
 
Last edited by a moderator:

saud491

MPA (400+ posts)
Re: Hudhuda insaan ys parinda?

Bro Saud
Assalam-o-alaikum
Nice to hear from you regarding SURAH NAMAL research paper. But try to make FONT size easy to read.
Jaza-k-ALLAH.
============
Bro actually i was discussing earlier that what is the rule of translation?
Can tafaseer be conflicting and out of context?
What is the role of EXPLANATION OF QURAN ACCORDING TO SCIENTIFIC FACTS & ESTABLISHED RULES..?
For example can SURAH FEEL be translated that SQUADRON OF STEALTH FIGHTERS AIRCRAFTS WERE SENT ON ARMY OF TANKS (men using ELEPHANTS WHO WERE THINKING OF DESTROYING KAABA) THEY DROPPED URANIUM DEPLETED BOMBS.. SO WHEN THESE BOMBS EXPLODED THE ATTACKING ARMY BECAME EATEN STRAWS (BHUSS)..
(may ALLAH forgive me..)


عربي مبين






دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن صرف عربی ہی میں نہیں ،بلکہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے ۔ یعنی ایک ایسی زبان میں جو نہایت واضح ہے ،جس میں کوئی اینچ پینچ نہیں ہے ،جس کا ہر لفظ صاف اور جس کا ہر اسلوب اپنے مخاطبین کے لیے ایک مانوس اسلوب ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :

نَزَلَ بهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ، عَلٰی قَلْبِكَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ، بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِيْنٍ. (الشعراء ٢٦: ١٩٣-١٩٥)
تمھارے دل پر ،(اے پیغمبر)، اِسے روح الامین لے کر اترے ہیں تاکہ تم (لوگوں کے لیے ) نذیر بنو، صاف اور واضح عربی زبان میں۔

قُرْاٰناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ. (الزمر ٣٩:٢٨)
ایک عربی قرآن کی صورت میں ، جس میں کوئی اینچ پینچ نہیں تاکہ وہ( عذاب سے) بچیں ۔
قرآن کے بارے میں یہ ایک واضح حقیقت ہے ۔اِسے مانیے تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ قرآن کا کوئی لفظ اور کوئی اسلوب بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے شاذ نہیں ہو سکتا ۔ وہ اپنے مخاطبین کے لیے بالکل معروف اور جانے پہچانے الفاظ اور اسالیب پر نازل ہوا ہے ۔زبان کے لحاظ سے اُس کی کوئی چیز اپنے اندر کسی نوعیت کی کوئی غرابت نہیں رکھتی ، بلکہ ہر پہلو سے صاف اور واضح ہے۔ چنانچہ اُس کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اُس کے الفاظ کے معروف معنی ہی پیش نظر رہنے چاہییں ۔ اِن سے ہٹ کر اُس کی کوئی تاویل کسی حال میں قبول نہیں کی جا سکتی ۔ 'وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ' (الرحمن 55: 6) میں 'النجم' کے معنی تاروں ہی کے ہو سکتے ہیں ۔'اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰۤی' (الحج 22: 55) میں لفظ 'تمنّی ' کا مفہوم خواہش اور ارمان ہے ۔ 'اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَي الْاِبِلِ' (الغاشية 88: 17) میں 'الابل' کا لفظ اونٹ کے لیے آیا ہے ۔ 'کَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّکْنُوْنٌ' (الصافات 37: 49) میں 'بيض' انڈوں کے معنی میں ہے ۔ 'فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ(الكوثر 108: 2) میں 'نحر ' کا لفظ قربانی کے لیے ہے ۔ اِنھیں 'بوٹیوں ' اور 'تلاوت ' اور 'بادل 'اور 'انڈوں کی چھپی ہوئی جھلی 'اور 'سینے پر ہاتھ باندھنے 'کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا ۔
 
Last edited by a moderator:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Mr.Mughal, You have lots of time to deviate people and long long posts and videos. But we dont have that much time to waste., just to prove that Hud Hud was a man.

I have a question that how Pervez could decide that over some points of Quran , specially in this surah , Allah Tala dont means the birds ,and ants and other creature in its original form but Allah means the something else.

How he decided , does Allah told this sense by some kind of special information or it is by his common sense , because he was very intellectual like Mirza ??
 

biomat

Minister (2k+ posts)
Bro Raaz
Assalam-o-alaikum
This is not fault of bro mughal1.. Read this sample... and then compare with mine.
http://www.siasat.pk/forum/showthre...aan-ya-parinda&p=439002&viewfull=1#post439002
http://www.tolueislam.com/Parwez/expo/expo_105.htm
SURAH 105 : Al-Fl
1. (If these opponents are under the false impression that none can defeat a powerful and mighty force like theirs, you should tell them) "Have you not seen, with your own eyes how your Rabb dealt with the army which had elephants?
2. “You saw with your own eyes how He rendered their artful planning utterly unsuccessful.
3. (They had selected an unknown and unsuspected pass on the other side of the mountain, so that they could lead a sudden attack and take you unawares.) “But flocks of eagles and vultures (which normally fly over the armies to pick up remnants of dead bodies or other eatables) started hovering over their heads. In this way you realised from a distance, that some army was on the move behind the mountains (their secret plan was thus exposed).
4/5. “Therefore you climbed over the mountain and started pelting them with stones, crushing their army and making them to look like chewed-up stubble."
(All this happened before your very eyes. When such a mighty army can be defeated, then what about yourself. All your secret plans will also fail.)
 
Last edited:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Mr.Mughal, You have lots of time to deviate people and long long posts and videos. But we dont have that much time to waste., just to prove that Hud Hud was a man.

I have a question that how Pervez could decide that over some points of Quran , specially in this surah , Allah Tala dont means the birds ,and ants and other creature in its original form but Allah means the something else.

How he decided , does Allah told this sense by some kind of special information or it is by his common sense , because he was very intellectual like Mirza ??

Dear Raaz, there are things that are impossible to happen in real life so if anyone claims them then he is either ignorant or is mentally not right. For anything to be true it is absolutely necessary that it does not contradiction natural world order. Also there is difference in what Allah is saying and why and what people make of it and why. Just because words used are common between people and Allah does not mean they mean the very same thing to both sides. The proof is conversation between us. We are using same language but not making sense to each other. Same is true about why Allah used certain words and what people made of them. Words have different meanings so I could say one thing but it could make a totally different sense to you.

A people were dead and Allah raised them. This has two meaning a people were actually dead and buries and Allah actually raised them out of graves or that living condition of a people was such that they were like the dead but then Allah brought them back to life ie they changed and became a better people.

The laws of natural world dictate that once you are really dead then you are dead and never come back no matter what. If anyone tells you that somebody ever came back from dead or was actually raised from dead then you know what that means. All prophets were told by their people go bring our dead people back if you think people can come back from dead. Had Allah been raising dead then people would know therefore would not object but they did. So language rules depend upon what they are based on.

It is purpose of the text that is important not necessarily what the exact wording is. Even mullas agree that when a word or verse cannot be interpreted textually then TAWEELALAAT become necessary. This is rule of tafseer and so is rule of TOJEEHAAT. Why would one need these rules if wording and meanings are the only thing needed? It is because purpose of text is important ie its message. And message of Allah cannot be senseless or purpose less therefore it is not only mr parwez or the like but all people make sense of thing according to their sense of purpose about the message. On that basis it is not clear cut to condemn anyone for wrong interpretation.

Earlier mullas took each and every verse of the quran apart by giving it a back ground called shaane nuzool. This is so silly idea yet people accepted it. It is silly because what has shaane nzool to do with the plan of Allah? If I want to start a mission I simply make my own program and implement it as it suits me. Not only that but if we read various tafaseer eg ibn kaseer, we see so many different accounts about revelations of various surahs and verses. They all cannot be true even if we accept the idea of shaane nozool. These things clearly point out that these are made up things to destroy credibility of the quranic message. These people were not knowledgeable regarding real world or why would they accept things that clearly contradicted natural world?

What sir seyyed etc did was to point out these flaws in muslim mentality and instead of being appreciated was condemned. Since then muslims have been getting better or worse? It is therefore not a good idea to go after people whose ideas are correct because with time only those ideas will become more and more accepted. Also it is not a good idea to reject everything anyone says if we have some disagreement with people. If we do not like certain things bravlies do then that does not mean we just do not accept anything from them. Likewise with deobandies, shias, wahabies etc etc. We should agree on what we agree on and work on what we disagree about by removing misunderstandings. The way forward is in learning more and more and not in staying ignorant.

I know we have little time these day but still it is good to know something than not know it. May be someone else can take over who has the time and benefit others.

regards and all the best.
 
Last edited:

babadeena

Minister (2k+ posts)
natural world order
It is matter of belief, if the Belief is that Allah is Omnipotent having
Kunfayakoon and "able to do all things", then the concept of
natural world order become irrelevant.
In fact, Quran is guidance for only certain people who meet
certain criteria. One of them is who believe in Gaib (Unseen);
If someone gets that into his/her heart, things become pretty
clear.
While Dear Mughal1, you are opposing the concept of Shane-nazool,
(I myself have reservations), but look at the translation and
tafsir of Sura Fil given in Brother Biomat post, Isnt that GA Parwez
himself is projecting some sort of baseless shane-nazool, so what
is then difference left between a Moulvi and late GA Parwez.
The matter of fact is that late GA Parwez did great injustice
to Quran by introducing his own revolutionary ideas into it.
 

saud491

MPA (400+ posts)
[FONT=&quot]چیونٹی[/FONT]
[FONT=&quot]نمل سے متعلق''طلوع اسلام'' کے محققین سے جاری بحث اب ایک نئے اسلوب سے شروع ہوئی ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں صرف ایک نکتے پر اپنے دلائل لکھے تھے اور ارباب طلوع اسلام کو اس پر نقد وتبصرے کی دعوت دی تھی۔ میرے اس مضمون کے جواب میں''طلوع اسلام'' میں دو مضمون شائع ہوئے ہیں۔[/FONT]
[FONT=&quot]ایک مضمون جناب رحمت اللہ طارق صاحب کا ہے اور دوسرا مضمون جناب عبداللہ ثانی صاحب کے قلم سے نکلا ہے۔ یہ دونوں مضامین اعلیٰ علمی تحقیق کا نمونہ قرار دیے جانے کے لائق ہیں۔ بطور خاص عبداللہ ثانی صاحب کی عظمت اور علم و آگہی میں ان کا مقام کچھ زیادہ ہی اعتراف کا متقاضی ہے۔ عبداللہ ثانی صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ عربی زبان کے قواعد کے معاملے میں جس فنی مہارت کا انھوں نے ثبوت دیا ہے۔ اس کے کماحقہ اعتراف کے لیے ایک ابن خلدون کی ضرورت ہے۔ صدیوں پہلے ابن خلدون نے ابن ہشام کو [/FONT][FONT=&quot]'انحی من سيبويه' [/FONT][FONT=&quot]قرار دیا تھا۔ آج اگر اسے زندگی مل جائے تو وہ غالباً محترم ثانی صاحب کو [/FONT][FONT=&quot]'انحی من النحويين کلهم' [/FONT][FONT=&quot]قرار دیتا۔ ہماری رحمت اللہ طارق صاحب سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی ثانی صاحب سے کچھ نحو سیکھ لیں۔ اگر انھوں نے یہ کام مضمون لکھنے سے پہلے کر لیا ہوتا توانھیں ہمارے اٹھائے ہوئے سوال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اتنی محنت نہ کرنا پڑتی۔ طارق صاحب نے زیربحث جملے کو اسم نسبت سے مستثنیٰ کرنے کے لیے بڑی محنت سے مثالیں تخلیق کی ہیں۔ جبکہ ثانی صاحب نے[/FONT][FONT=&quot]'يايها النمل' [/FONT][FONT=&quot]ہی میں یا ے نسبت تلاش کر کے اہل نحو کے لیے نئے افق وا کیے ہیں۔ وہ اگر طارق صاحب کی مدد کر دیتے تو ان کی دریافت کردہ مثالیں یوں بے کار نہ جاتیں۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ثانی صاحب کے استدلال کے جواب میں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم یا تو نحو کی تمام کتب کو قابل اصلاح قرار دے دیں اور یا عبداللہ ثانی صاحب سے التماس کریں کہ وہ اپنے آفاقی علم کو تھوڑا سا زمینی حقائق کے قریب کر لیں۔[/FONT]
[FONT=&quot]رحمت اللہ طارق صاحب کا استدلال، البتہ قدرے تفصیلی جائزے کا متقاضی ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]اس سے پہلے کہ ہم ان کے دلائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کریں ایک بنیادی نکتہ واضح کر دینا چاہتے ہیں۔ جب ہم قرآن مجید کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے متعلق بات کرتے ہیں تو اس میں کسی قسم کا کوئی استثنا نہیں رکھتے۔ ہمارا یہ مطالبہ ارباب طلوع اسلام ہی سے نہیں ہے، تمام مسلمانوں سے ہے۔ ہمارے نزدیک، اصحاب پرویز کی غلطی ہی یہ ہے کہ وہ اصل میں قرآن مجید کے الفاظ کی حاکمیت نہیں مانتے اور ہم انھیں اسی وجہ سے قرآن کے آگے سرتسلیم خم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس جرم کا ارتکاب اگر کسی اور سے بھی ہو تو وہ بھی اسی دعوت کا مستحق ہے۔ خواہ وہ ہمارا ممدوح بزرگ ہی کیوں نہ ہو۔ ''اشراق'' کے فائل ہماری اس روش پر گواہ ہیں۔مولانا مودودی ہوں یا مولانا اصلاحی یا گزرے زمانوں کا کوئی بڑا امام، اگر ہم نے اس کی کسی بات کو خلاف قرآن پایا ہے یا ہم نے محسوس کیا ہے کہ وہ الفاظ قرآنی کو کھینچ تان کر اپنی کسی رائے کے حق میں پیش کر رہا ہے تو ہم نے اس سے بھی یہی گزارش کی ہے کہ وہ قرآن مجید کی حاکمیت کو بے چون وچرا مان لے۔ ہم دین کے ہر خادم کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن یہ احترام احقاق حق اور ابطال باطل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے اور ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ احترام کا یہ جذبہ حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل قرار دینے کی راہ میں مانع ہو۔[/FONT]
[FONT=&quot]طارق صاحب کے نزدیک [/FONT][FONT=&quot]نمليه [/FONT][FONT=&quot]کے بجائے نمله ہی درست ہے۔ ہم نے اسے خلاف قاعدہ قرار دیا تھا۔ انھوں نے دلائل سے اسے درست قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے: [/FONT]
[FONT=&quot]١۔ نملہ گویا علم ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]٢۔ ان الفاظ کے ساتھ بنو کا استعمال ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ تحلیل ہوگیا۔[/FONT]
[FONT=&quot]٣۔ بعض خاندانوں کے نام کے اسم نسبت استعمال نہیں ہوتے، مثلاً قالت سیدہ یا قالت خبازہ وغیرہ۔[/FONT]
[FONT=&quot]٤۔ مدینے میں ایک جوہری کا نام عبد الرحمان النملتہ ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]ہمیں خوشی ہے کہ طارق صاحب نے الفاظ کے استعمال میں اصل حیثیت سماع کو دی ہے۔ گویا ایک بنیاد تو موجود ہے جس کے حوالے سے ہم کسی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انھوں نے ساری بحث میں کوئی ایک مثال بھی''سماع'' سے نہیں دی، بلکہ مثالوں کے سارے کے سارے جملے خود ساختہ ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے اس اصول کے مطابق کلام عرب سے مثالیں دیتے، تاکہ یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو جاتی کہ عربی زبان میں قبیلے کی ایک فرد کا ذکر قبیلے کے نام کے حوالے سے اسم نسبت کے بغیر بھی ہو جاتا ہے۔ عربی زبان کے معاملے میں دوسری زبانوں ہی کی طرح ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس میں اسالیب بیان میں تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ چنانچہ یہ بھی التزام ہونا چاہیے تھا کہ یہ مثال قبل اسلام کے کلام سے ہوتی۔ اہل لغت نے اس اصول کو ہمیشہ ہی تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ وہ متنبی جیسے شاعر کو بھی استشہاد میں پیش نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی زبان اس معیار پر پوری نہیں اترتی کہ اسے قبل اسلام کے شعرا کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے۔ اس کے زمانے تک زبان میں تبدیلیاں آگئی تھیں اور ظاہر ہے وہ اپنے زمانے کے اسلوب ہی میں شعر کہتا تھا۔کجا یہ کہ قرآن کے نزول کے پندرہ سو سال بعد کے ایک آدمی کی ساختہ مثالوں کو حجت مان لیا جائے۔[/FONT]
[FONT=&quot]اگرچہ اس اصول کی روشنی ہی میں طارق صاحب کی پیش کردہ مثالیں قابل اعتنا نہیں رہتیں۔ لیکن ہم اس اصول سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کا جائزہ لے لیتے ہیں۔[/FONT]
[FONT=&quot]پہلی بات تو یہ ہے کہ نملۃ اسم علم نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پہلے اپنے طویل مضمون میں اس امکان کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا کہ نملۃ کے علم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ غیر منصرف ہو۔ یعنی اس کی تاے تانیث پر تنوین (دہری رفع) کے بجائے ایک رفع ہونی چاہیے تھی۔اس لیے کہ قواعد کے مطابق اگر کسی اسم میں علمیت اور تاے تانیث جمع ہو جائیں تو عرب اسے غیر منصرف استعمال کرتے ہیں ۔جبکہ قرآن مجید نے اسے منصرف استعمال کیا ہے۔ قرآن مجید میں نملہ پر تنوین اس بات کی حتمی دلیل ہے کہ یہ لفظ علم کی حیثیت سے استعمال نہیں ہوا۔ ہمیں یقین ہے کہ طارق صاحب اس قاعدے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انھوں نے اپنے مضمون میں علم کا لفظ تنبہ کے بغیر استعمال کیا ہے۔ ان جیسے صاحب علم سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ عربی نحو کے ایک عام استعمال ہونے والے قاعدے سے واقف نہ ہوں۔[/FONT]
[FONT=&quot]طارق صاحب نے ایک دلیل یہ دی ہے کہ بنو کا لفظ ان ناموں کے ساتھ آہستہ آہستہ استعمال ہونا بند ہو گیا ہے۔گویا ان کے نزدیک اصل میں یہاں بنو کا لفظ موجود ہے۔ ان کے الفاظ میں: ''بس [/FONT][FONT=&quot]قالت ثعلبه[/FONT][FONT=&quot]( بنو ثعلب کی ایک عورت نے کہا) کہنا کافی ہوگا۔ ثعلبیہ کہنا ضروری نہیں ہے۔''١ لہٰذا یہاں اسم نسبت استعمال نہیں ہوا۔ ہم یہ بات مان لیتے ہیں کہ قرآن مجید میں [/FONT][FONT=&quot]''قالت نملة'' [/FONT][FONT=&quot]اصل میں [/FONT][FONT=&quot]''قالت بنو نملة'' [/FONT][FONT=&quot]ہے اور اس میں ''بنو'' کا لفظ محذوف ہے۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ حذف کے عام طریقے کے مطابق اس میں سے بنو کے معنی کس طرح غائب ہو گئے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں [/FONT][FONT=&quot]'واسئل القرية'٢[/FONT][FONT=&quot] کے ٹکڑے میں قریہ سے پہلے اہل کا لفظ حذف ہے۔ لیکن اس کے معنی یہاں پوری طرح موجود ہیں۔ بعینہٖ قالت نملۃ میں اگر نملۃ قبیلے کا نام ہے اور اس سے پہلے بنو کا لفظ کسی سبب سے حذف ہو گیا ہے تب بھی اس کے معنی مراد ہونے چاہییں۔ ظاہر ہے یہاں پورا قبیلہ مراد لینے کا کوئی موقع نہیں ہے۔طارق صاحب دلیل کی جستجو میں اس بات کو بھی، نظر انداز کر گئے ہیں کہ اسی آیت میں [/FONT][FONT=&quot]'يا ايها النمل' [/FONT][FONT=&quot]کا خطاب بھی موجود ہے۔ ظاہر ہے، ایک ہی مفروضہ قبیلے کے دو نام نہیں ہو سکتے۔ غرض یہ کہ بنو کے لفظ کو حذف قرار دینے کے لیے معنی ہی کے پہلو سے نہیں لفظ کے پہلو سے بھی آیت میں کوئی موقع نہیں ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]طارق صاحب نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ بعض خاندانوں کے ناموں کے اسم نسبت استعمال نہیں ہوتے۔ مثلاً [/FONT][FONT=&quot]قالت سیدة[/FONT][FONT=&quot] یا [/FONT][FONT=&quot]قالت خبازة [/FONT][FONT=&quot]وغیرہ۔ پہلی مثال کے پیش کرنے میں غلطی یہ ہے کہ عربی میں یہ کسی خاندان کا نام نہیں۔ سید اور سیدۃ کا لفظ ان کے ہاں انگریزی کے مسٹر اور مس یا مسز اور اردو کے محترم اور محترمہ کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس بات کے جاننے کے لیے طارق صاحب کو زیادہ زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی۔کسی بھی عربی اخبار یا رسالے میں اس کی متعدد مثالیں مل جائیں گی۔ بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں کہ عرب بھی ہم اہل برصغیر کی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے لیے سید اور سیدہ کے الفاظ خاندان کے نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال، سیدۃ کی مثال کو قالت نملۃ کے خود ساختہ معنی ثابت کرنے کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ سیدۃ بمنزلہ لقب ہے اور نملۃ اگر قبیلے کا نام ہو تو بمنزلہ علم۔ ظاہر ہے، یہ منافات طارق صاحب کے استدلال کے بے حقیقت ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طارق صاحب نے سید اور سیدہ کی نام کی حیثیت سے مثال دے کر علمی دیانت جیسی چیز کو بھی قربان کر دیا ہے۔[/FONT]
[FONT=&quot]یہی معاملہ خبازۃ کی مثال کا ہے۔اس میں پہلی غلطی تو یہ ہے کہ یہ دور جدید کی عربی میں اس طرح مستعمل ہو رہی ہے۔ طارق صاحب نے نہ اس کی مثال دی ہے اور نہ شاید ان کے لیے اس کی مثال دینا ممکن ہے کہ زمانہ نزول قرآن میں خاندانوں کے نام اس بنیاد پر تھے۔ بہر حال، خباز اور خبازہ کے الفاظ بے شک خاندان کے نام کی حیثیت سے ہیں۔لیکن ان کا قبیلے کے ایک فرد کے لیے استعمال بطور لقب ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبیلے کے جد کے لیے پہلی مرتبہ جب یہ لفظ استعمال کیا گیا تو اس کی حیثیت یہی تھی۔ اس کے برعکس اگر نمل کو قبیلے کا نام مان لیا جائے تو یہ حیثیت اختیار نہیں کر سکتا۔ اگر قبیلے نے یہ نام وادی کے نام کی وجہ سے پایا ہے تو اس صورت میں بھی اسم نسبت ہی استعمال ہونا چاہیے۔ جیسے کہ حجازی اور تہامی وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ نام جد اول کے نام سے پڑا ہے، تب بھی اسم نسبت ہی استعمال ہونا چاہیے، جیسے کہ قریشی اور ہاشمی کے الفاظ لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ ہمارے اس استدلال کے جواب میں طارق صاحب اگر یہ دلیل پیش کریں کہ نملۃ بھی خبازۃ کی طرح ہے تو ہم ان کی خدمت میں عرض کریں گے کہ ان کی بات درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر نملۃ اور نمل کے الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا باہمی تعلق مذکر اور مونث کا نہیں ہے۔ بلکہ نمل اسم جنس ہے اور اس کے ایک فرد پر اطلاق کے لیے تاے وحدت لگا کر ایک نیا لفظ نملۃ بنا لیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ مذکر اور مونث میں سے کوئی بھی فعل آسکتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ نملۃ، خبازۃ کی طرح واحد مونث نہیں ہے۔ مزید براں یہ کوئی اسم صفت بھی نہیں ہے کہ اس پر تذکیر و تانیث کے عام قاعدے کا اطلاق ہو۔ غرض یہ کہ جس پہلو سے بھی دیکھیں نملۃ کو خبازۃ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ طارق صاحب نے اس ضمن میں جتنی بھی مثالیں دی ہیں، وہ ان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کلام عرب سے مثالیں دیں۔ بطور خاص یہ مثال کہ قریش کی ایک عورت کے لیے''قریشۃ'' کا لفظ اور اوس کی ایک عورت کے لیے ''اوستہ'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ہم نے یہ دو نام محض بطور مثال لکھے ہیں۔ اس سے کوئی تحدید مقصود نہیں ہے۔ البتہ یہاں یہ بات واضح رہے کہ کوئی مثال مل جانے سے بھی آیت کی نملۃ عورت نہیں بن جائے گی۔ اس نملۃ کو عورت بنانے کے لیے زیر بحث آیہ کریمہ سے اسم جنس نمل نکالنا پڑے گا۔ ظاہر ہے، اس کی جسارت کرنا کسی مسلمان کے بس کی بات نہیں ہے اور نمل اور نملۃ کو مذکر اور مونث قرار دینے کے لیے عربی زبان کا خون کرنا پڑے گا۔[/FONT]
[FONT=&quot]ہم یہ بات بہت اصرار کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ جانور کے نام سے نام رکھنا ایک مسلمہ بات ہے۔ ہمارا اختلاف زیربحث مقام پر نملہ کے جانور یا انسان ہونے سے متعلق ہے۔ عبدالرحمان النملہ کی مثال سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عرب میں ایک خاندان کا نام نملۃ بھی ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی نملہ بھی نام ہے۔ طارق صاحب کی نظر شاید اس طرف نہیں گئی کہ عربی زبان میں اگر نا م کے آخر پر تاے تانیث ہو تو اس پر تنوین نہیں آسکتی۔ جبکہ قرآن مجید میں نملۃ پر تنوین ہے۔ طارق صاحب کے پیش کردہ دلائل کے اس جائزے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نملۃکے لفظ کو کسی عورت کا نام یا اس کے ذکر کے لیے اس کے قبیلے کے نام سے ماخوذ اسم قرار دینا ممکن نہیں۔یہ چیونٹی ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسے چیونٹی ہی مانا جائے۔[/FONT]
[FONT=&quot][١٩٩٧ء] [/FONT]
[FONT=&quot]ـــــــــــــــ[/FONT]
[FONT=&quot]١- ''طلوع اسلام''، جون ١٩٩٧، ١١۔[/FONT]
[FONT=&quot]٢- سورہ یوسف ١٢:٨٢۔[/FONT]
 

saud491

MPA (400+ posts)
[FONT=&quot]بہ سلسلہ ''چیونٹی''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
[FONT=&quot]''طلوع اسلام'' کے جنوری ١٩٩٨ کے شمارے میں جناب محمد عصمت ابو سلیم کا''چیونٹی'' کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں پہلی مرتبہ متوسلین پرویز کی طرف سے میرے استدلال کے اصل نکات کا جائزہ لینے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]١۔ قبیلے کا نام بنو کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نمل کے ساتھ بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٢۔ قرآن مجید میں نملہ منصرف استعمال ہوا ہے۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ کوئی علم نہیں ہے۔ ابو سلیم صاحب نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ بعض اوقات غیر منصرف علم بھی منصرف استعمال کیے جاتے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٣۔ جانوروں کے لیے ہر حال میں مونث کے صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ [/FONT][FONT=&quot]''کليله و دمنه'' [/FONT][FONT=&quot]کے مصنف نے بھی مونث کے صیغے ہی استعمال کیے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٤۔ ہم نے اس سلسلے کے اپنے پہلے مضمون میں قرآن مجید سے غیر ذوی العقول کے لیے مذکر ضمائر اور صیغوں کی مثالیں دی تھیں۔ ابو سلیم صاحب نے ان کی توجیہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٥۔ اپنے مضمون کے آخر میں ابو سلیم صاحب نے [/FONT][FONT=&quot]'لا تبديل لخلق اللّٰه' [/FONT][FONT=&quot]کی آیت سے اپنا نقطہ نظر موکد کرنے کی کوشش کی ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]آیندہ سطور میں ہم بالترتیب ان نکات کا جائزہ لیں گے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]بنو کا استعمال[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]یہ بات درست ہے کہ قبیلے کا نام بغیر کسی سابقے کے بھی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کا ہماری اس بحث سے کیا تعلق ہے۔ زیر بحث آیت میں اگر کسی قبیلے کا ذکر ہے تو اس کا نام نمل ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسی لفظ سے مزعومہ قبیلے کو خطاب کیاگیا ہے۔اس صورت میں 'نملة' کی حیثیت لازماً قبیلے کے کسی فرد یا مزعومہ سردارنی کے اسم علم کی ہے۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ قرآن مجید نے اسے اسم علم کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا۔ قرآن مجید میں اس پر تنوین ہے اور عربی زبان میں اس طرح کے اعلام پر تنوین نہیں آتی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]تنوین کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک اسم نکرہ ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک، اگر نمل کوئی قبیلہ ہوتا اور اسے مخاطب بنانے والی اس کی کوئی فرد ہوتی تو قرآن مجید میں [/FONT][FONT=&quot]قالت نملة [/FONT][FONT=&quot]کے بجائے [/FONT][FONT=&quot]قالت نملية[/FONT][FONT=&quot] کے الفاظ آتے۔ ابو سلیم صاحب نے اس ضمن میں بھی ایک نکتہ پیدا کیا ہے۔کہتے ہیں کہ اگر کسی قبیلے کے فرد کا نام بھی وہی ہو جو قبیلے کا نام ہے تو اس صورت میں بھی اسم نسبت استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ابو سلیم صاحب سے درخواست ہے کہ وہ زیر بحث آیہ کریمہ کا دوبارہ مطالعہ کریں۔ قبیلے کا نام اگر نمل ہے تو پھر نملہ کیا ہے اور اگر نملہ ہے تو پھر نمل کس بلا کا نام ہے۔ عربی لغات کے مطابق ان میں سے ایک اسم جنس اور دوسرا اسی سے بنا ہوا اسی نوع کے ایک فرد کا نام یعنی اسم نکرہ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اسم علم [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابو سلیم صاحب نے اصرار کیا ہے کہ تنوین کے باوجود نملہ علم ہو سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں [/FONT][FONT=&quot]'هداية النحو'[/FONT][FONT=&quot] سے اس قاعدے کے ضمن میں دی گئی مثالیں بھی درج کی ہیں۔ یہ قاعدہ درست ہے۔لیکن اس قاعدے کا اس آیہ کریمہ پر اطلاق کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ اس آیہ کریمہ میں نملہ اگرعلم ہے تو اس کو نکرہ استعمال کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جب کوئی علم نکرہ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے درحقیقت وہ شخص نہیں، اس کی صفات مراد ہوتی ہیں۔ جبکہ اس آیت میں نملہ سے مراد اس لفظ سے موسوم اصل فردکی ذات ہی ہونی چاہیے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]مزید یہ کہ اس قاعدے کے تحت جو اسماے علم استعمال کیے جاتے ہیں ان کی متعلقہ صفات مخاطب پر پوری طرح واضح ہوتی ہیں۔ جبکہ نملہ نامی کسی ملکہ کی صفات تو کیا اس کا نام بھی عرب قبائل کی تاریخ میں معروف نہیں ہے،بلکہ ایسی ملکہ کو دریافت کر لینا ابھی تک غیر معمولی تحقیقات کا متقاضی ہے۔ چنانچہ کسی بھی پہلو سے دیکھیں ،اسے علم قرار دینا ممکن نہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]مونث صیغے[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابو سلیم صاحب کو بھی اپنے دوسرے ہم فکر احباب کی طرح اصرار ہے کہ آیہ کریمہ میں مذکر کے صیغے نمل کے قبیلہ ہونے کی قطعی دلیل ہیں۔ ہم نے اپنے ایک سابقہ مضمون میں ثابت کیا تھا کہ جانوروں کے لیے مذکر اور مونث، دونوں صیغے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ ابو سلیم صاحب بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود مصر ہیں کہ قرآن مجید میں محض مذکر کے صیغوں کی وجہ سے نمل کو انسانی قبیلہ مان لیا جائے۔ خود انھوں نے مصطفی محمود صاحب کی کتاب سے چیونٹی کے متعلق مضمون کا جو اقتباس درج کیا ہے، اس میں نملہ کے لیے مذکر کے صیغے استعمال کیے گیے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابو سلیم صاحب نے[/FONT][FONT=&quot] ''کليله و دمنه''١ [/FONT][FONT=&quot]سے ایک اقتباس بھی درج کیا ہے جس میں جانوروں کے لیے مونث کے صیغے استعمال کیے گیے ہیں۔ دراں حالیکہ اسی ایڈیشن میں وہ مقامات بھی ہیں، جہاں جانوروں کے لیے مذکر کے صیغے بھی آئے ہیں ۔مثلاً:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]زعموا ان جماعة من القردة کانوا سکانا فی جبل، فالستموا فی ليلة باردة ذات رياح و مطار نارا فلم يجدوا(١٩٠)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''کہتے ہیں کہ بندروں کا ایک گروہ ایک پہاڑ پر رہتا تھا۔ ایک ٹھنڈی رات جس میں ہوائیں چل رہی تھیں اور بہت بارش ہو رہی تھی انھوں نے آگ تلاش کی، مگر انھیں نہیں ملی۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ہمیں حیرت ہے کہ ابو سلیم صاحب نے کتاب کھولی، لیکن ان کی نظر صرف اسی صفحے پر پڑی جس میں مونث کے صیغے استعمال کیے گئے تھے اور وہ مقامات انھیں نظر نہ آسکے جس میں جانوروں ہی کے لیے مذکر کے صیغے درج تھے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]حقیقت یہ ہے کہ ارباب فکر پرویز کی طرف سے اس معاملے میں اصرار بالکل بے جا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]قرآن مجید میں مذکر صیغے[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ہم نے اپنے مضمون میں قرآن مجید سے غیر ذوی العقول کے لیے مذکر صیغوں کی مثال دی تھی۔ ابو سلیم صاحب نے ہماری اس مثال کو یہ کہہ کر غلط قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ مذکر ضمائر کی وجہ ان کا [/FONT][FONT=&quot]'اله' [/FONT][FONT=&quot]ہونا ہے ۔یہ بات درست ہے، لیکن آخر انھی کے لیے اسی سلسلہ آیات میں مونث ضمائر بھی موجود ہیں، کیا اس وقت وہ [/FONT][FONT=&quot]'الة' [/FONT][FONT=&quot]نہیں تھے۔ اصل میں غیر ذوی العقول کی اصطلاح ایک نحوی اصطلاح ہے، اس سے کسی معنی کے اثبات کے لیے استشہاد کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اس ضمن میں ابو سلیم صاحب نے ترجمے کے بعض تسامحات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہم ان کے ممنون ہیں، البتہ [/FONT][FONT=&quot]'من فيهن[/FONT][FONT=&quot]' کا ترجمہ کوئی بھی کر لیں، تب بھی ہمارا استدلال اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس لیے کہ[/FONT][FONT=&quot] 'لا تفقهون تسبيحهم [/FONT][FONT=&quot]'میں [/FONT][FONT=&quot]'هم' [/FONT][FONT=&quot]کی ضمیر انسانوں، جنات یا فرشتوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]لا تبديل لخلق الله[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اگرچہ قرآن مجید میں یہ آیہ کریمہ مادی قوانین کے غیر متبدل ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ لیکن ارباب فکر پرویز اسے اسی معنی میں لیتے ہیں۔ برائے بحث اگر ان کی یہ بات مان بھی لی جائے تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ جو قوانین انسانوں نے دریافت کیے ہیں، وہ اپنی حتمی اور آخری شکل میں دریافت ہو چکے ہیں اور اب ان کے خلاف کسی بات کو مان لینا خلاف عقل و علم ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][١٩٩٨ء] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ـــــــــــــــــــــــــــــ[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]١- مطبوعہ، دار نشر الکتب اسلامیہ، شیش محل روڈ،لا ہور۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
 

saud491

MPA (400+ posts)
[FONT=&quot]ملکہ چیونٹی [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
[FONT=&quot]حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی پر بحث کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے اگست ١٩٩٨ کے ''اشراق'' میں''بہ سلسلہ چیونٹی''کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ یہ مضمون''طلوع اسلام'' میں شائع کیے گئے، عصمت ابوسلیم صاحب کے مضمون''چیونٹی'' کے جواب میں لکھا گیا تھا۔ ابوسلیم صاحب ہمارے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابوسلیم صاحب نے حسب سابق بہت ساری ضمنی بحثیں بھی چھیڑی ہیں۔ ہماری طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ انھوں نے واقعے کا تاریخی پہلو، جانوروں کے نام سے موسوم قبیلوں کا وجود اور نتیجتاً [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کا لازماً قبیلہ ہونا، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ نہ بننا اور چیونٹی کا کلام کی اہلیت سے محروم ہونا، جیسے نکات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اسی طرح انھوں نے جا بجا طنز و تعریض بھی کی ہے، جو کہیں کہیں محض تضحیک بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن میں اپنے اس مضمون میں بھی یہی کوشش کروں گا کہ بحث خالصۃً قواعد زبان تک محدود رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود قرآن مجید کے الفاظ ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وادی نمل کے باسی کوئی انسانی قبیلہ نہیں تھے۔ چنانچہ اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ بحث میں قرآن کے دائرے سے باہر نکلا جائے۔ اسی طرح میری کوشش ہو گی کہ تنقید و تجزیے میں بھی اسلوب بیان خالص علمی رہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابوسلیم صاحب بحث کے بیچ میں شامل ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ وہ ہمارے قرآن مجید سے استدلال کے طریقے سے واقف نہ ہو سکے ہوں۔ چنانچہ ان کے نئے مضمون میں اٹھائے گئے نکات کا جواب دینے سے پہلے یہاں بطور تمہید کچھ باتیں عرض کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ہمارے نزدیک،قرآن مجید ام القری کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ اس کے الفاظ، محاورے اور اسالیب کا مفہوم اسی زبان کے عرف کے مطابق متعین ہو گا۔ ہر لغوی اور نحوی بحث درحقیقت اسی بات کے تعین کی کوشش ہے کہ اس زمانے کی زبان کے مطابق قرآن مجید کی کسی آیت کا مفہوم کیا ہے۔ ہمارے نزدیک کسی بھی کتاب کے سمجھنے کے لیے جن اصولوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، قرآن مجید کے فہم میں بھی وہی اصول کار فرما ہیں۔ یہ طریق کار ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ معنی پہلے طے کر لیے جائیں اور پھر اسے ثابت کرنے کے لیے کبھی معروف معنی کے بجائے بنیادی (یعنی مادے کے معنی) اور کبھی خواہ ان کا اطلاق ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، نحوی قواعد کا سہارا لیا جائے۔غلام احمد صاحب پرویز اور ان کے ہم مسلک دوسرے مصنفین نے ان تمام آیات کے معاملے میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے جن کے اصل معنی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ ہم نے پرویز صاحب کی اسی غلطی کو واضح کرنے کے لیے نمل( چیونٹیوں)کی مثال کو لیا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر ایک ایسی وادی سے گزرا جس میں بہت سی چیونٹیاں رہتی تھیں۔ قرآن مجید نے اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]وَحُشِرَ لِسُلَيْْمَانَ جُنُوْده، مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ. حَتّٰۤی إِذَآ أَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ لَا يَحْطِمَنَّکُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُوْدُه، وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ.فَتَبَسَّمَ ضَاحِکاً مِّنْ قَوْلِهَا(نمل ٢٧: ١٧[/FONT][FONT=&quot]۔[/FONT][FONT=&quot]١٩)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''سلیمان کے لیے اس کے جن و انس اور طیور پر مشتمل لشکروں کو یک جا کیا گیا اور (ملاحظے کے لیے) ان کی درجہ بندی کی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ یہ لشکر جب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو، اپنے گھروں میں گھس جاؤ، مبادا تمھیں سلیمان اور ان کے لشکر کچل دیں اور انھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔ سلیمان اس کی بات پر ہنس دیے۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ہم نے یہ ترجمہ کرتے ہوئے''نمل''کا ترجمہ چیونٹیاں اور [/FONT][FONT=&quot]''نملة'' [/FONT][FONT=&quot]کا ترجمہ چیونٹی کیا ہے۔ یہ ترجمہ معروف لغت کے عین مطابق ہے۔ نحو کے قواعد اور لغت کی روشنی میں یہی ترجمہ موزوں ہے۔ آیت کے درو بست کے لحاظ سے بھی یہی ترجمہ ہونا چاہیے۔لیکن اس ترجمے کو ہمارے اس زمانے کے بعض لوگوں کو ماننے میں تامل ہے۔ ان کی مشکل یہ نہیں ہے کہ یہ ترجمہ لغت کے خلاف ہے۔ ان کا اعتراض یہ بھی نہیں ہے کہ اس ترجمے سے نحو کے کسی قاعدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ان کی مشکل یہ ہے کہ اگر اس ترجمے کو مان لیا جائے تو ایک محیر العقول بات ماننا پڑتی ہے۔ گویا ان لوگوں کا اصل مسئلہ قرآن مجید کی آیت کا صحیح ترجمہ نہیں ہے،بلکہ ان کا اصل مسئلہ وہ مفہوم ہے جو ان کے لیے قابل قبول ہو۔یہ سلسلہ مضامین اس گروہ کو ان کی اسی غلطی سے آگاہ کرنے کے لیے شروع ہوا تھا۔ لیکن اس کے لیے ہم نے طریق کار یہ اختیار کیا تھا کہ کوئی ایک مثال لے لی جائے اور اس پر بحث کر کے یہ ثابت کر دیا جائے کہ اس گروہ کا طرز فکر قرآن مجید کوسمجھنا نہیں، بلکہ قرآن مجید سے اپنے تصورات پر پورا اترنے والا دین برآمد کرنا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]بہر حال اس بحث میں اس گروہ کی طرف سے جو نکات پیش کیے گئے اور اس کے جواب میں ہماری طرف سے جو باتیں لکھی گئیں، ان کے نتیجے میں حسب ذیل نکات طے ہو گئے ہیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]١۔ جانوروں کے نام سے بے شک عرب نام رکھتے تھے۔لیکن اس سے لازم نہیں آتا کہ اس آیت میں بھی [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]اور [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کو نام مان لیا جائے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٢۔ اس آیت میں [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے لیے [/FONT][FONT=&quot]'قالت' [/FONT][FONT=&quot]کا فعل استعمال ہوا ہے ۔پہلے یہ بات دلیل کے طور پر پیش کی گئی تھی کہ [/FONT][FONT=&quot]'قالت' [/FONT][FONT=&quot]فعل کی نسبت ہی سے واضح ہے کہ 'نملۃ' جانور نہیں انسان ہے ۔ لیکن اب یہ بات بحث میں اصل نکتے کی حیثیت سے شامل نہیں ہے۔ اس تبدیلی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اب اس دلیل کے بے وزن ہونے کو مان لیا گیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٣۔ یہ بات بڑے اصرار سے کہی گئی تھی کہ جانور غیر عاقل ہیں اور ان کے ساتھ مونث کے صیغے آنے چاہییں۔ چونکہ قرآن مجید میں نمل کے لیے مذکر کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اسے انسان مان لیا جائے۔مگر اس بحث کے نتیجے میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نمل اسم جنس ہے اور غیر عاقل سے متعلق قاعدے کا اسم جنس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسم جنس کے ساتھ مذکر و مونث، دونوں طرح کے صیغے آ سکتے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]یہ باتیں تو طے ہوگئیں ہیں۔ اب ہم ان نکات کی طرف آتے ہیں جن کے بارے میں ابوسلیم صاحب کا خیال ہے کہ ہماری طرف سے انھیں نظر انداز کیا گیا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]١۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ اگر قبیلے کے نام کے حوالے سے کسی فردِ واحد کا ذکر کیا جائے تو اسم نسبت استعمال ہوتا ہے۔ اس قاعدے کے اطلاق پر ابوسلیم صاحب نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر قبیلہ اور قبیلے کا فرد ہم نام ہوں تو پھر اسم نسبت کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے مثال دی تھی کہ قبیلہ اسد کے کسی فرد کا نام بھی اسد ہو تو اسے اسد ہی کہا جائے گا، اسدی نہیں۔ غور کریں تو یہ مثال زیر بحث قاعدے سے استثنا کی مثال ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس مثال میں اس فرد کا ذکر قبیلے کے نام کے حوالے سے نہیں، اس کے اپنے نام کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ بہر حال اس کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے، میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر آپ لوگوں کی''نام''والی بات مان لی جائے، تب بھی مشکل یہ ہے کہ زیربحث آیت میں دو الگ الگ نام استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا قبیلہ اور فرد کے ہم نام ہونے کی دلیل یہاں قابل قبول نہیں۔اس سوال کے جواب میں ابو سلیم صاحب نے لکھا ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''اگر نمل نامی کسی قبیلہ کے کسی فرد (مذکر و مونث)کانام نملہ ہو تو آپ کیا کہیں گے؟''(طلوع اسلام، اکتوبر ١٩٩٨، ٤٢) [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابوسلیم صاحب کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ وہ رحمت اللہ طارق صاحب کی طرف سے لکھی گئی مثال سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ''بنوثعلب'' کی ایک عورت کا ذکر''ثعلبہ''کہہ کر کیا جا سکتا ہے۔ گویا اب ان کا موقف یہ ہے کہ''نمل''الگ سے قبیلے کا نام ہے اور [/FONT][FONT=&quot]''نملة'' [/FONT][FONT=&quot]الگ سے اس قبیلے کی ملکہ کا نام ہے۔ ہمیں افسوس ہے ہم اس مفروضے کو بھی تسلیم نہیں کر سکے اور اسے ماننے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ قرآن مجید میں [/FONT][FONT=&quot]''نملة'' [/FONT][FONT=&quot]کا منصرف ہونا ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٢۔ لیکن ہماری یہ دلیل ابو سلیم صاحب کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ اپنے سابقہ مضمون میں انھوں نے ان قواعد کا ذکر کیا تھا جن کی رو سے بعض صورتوں میں غیر منصرف اعلام بھی منصرف استعمال کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں دو قواعد کا ذکر کیا تھا۔ ہم نے یہ خیال کیا کہ دونوں قواعد محض بیان کے لیے لکھ دیے گئے ہیں، اصلاً انھوں نے ایک ہی قاعدے کا اطلاق کیا ہے۔ چنانچہ ہم نے اس قاعدے کا تجزیہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ قاعدہ ہر لحاظ سے غیرمتعلق ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابو سلیم صاحب نے اپنے نئے مضمون میں لکھا ہے کہ ہم نے جس قاعدے کو نظر انداز کیا تھا، ان کے پیش نظر اصلاً وہی قاعدہ تھا۔لکھتے ہیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''اس خاکسار نے غیر منصرف اسماے علم کو نکرہ بنانے کی دو مثالیں دی تھیں۔(١) یہ کہ اگر معین شخص کی صفات کا حامل کوئی اور بھی ہو یا ہوں(٢) یہ کہ ایسے کسی نام کی جماعت کا ایک فرد مراد ہو۔ میں نے دوسری مثال کے تحت نملہ کا ذکر کیا تھا۔'' (ایضاً)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ابو سلیم صاحب کے مضمون سے لیے گئے اس اقتباس میں قواعد کا ذکر بڑے اجمال سے ہوا ہے۔ پہلا قاعدہ ہمارے سابقہ مضمون میں زیربحث آ چکا ہے۔ لہٰذا اس کی تفصیل یہاں بے محل ہے۔ البتہ قارئین کی سہولت کے لیے ہم دوسرے قاعدے کی وضاحت کرنے کے بعد ہی اس کا تجزیہ کریں گے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]زمخشری نے اپنی کتاب ''المفصل فی علم العربیہ'' میں یہ قاعدہ ان الفاظ میں لکھا ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]وقد يتاول العلم بواحد من الامة المسماة به، فلذلك من التاول يجری مجری رجل و فرس. [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''اور کبھی اگر ایک ہی نام سے بہت سے لوگ موسوم ہوں تو ان کے علم کو رجل اور فرس کے طریقے پر (یعنی نکرہ کی حیثیت سے) استعمال کیا جاتا ہے۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ متکلم اور مخاطب ایک ہی نام کے بہت سے لوگوں سے واقف ہوں اور گفتگو انھی کے بارے میں ہو رہی ہو تو اس موقع پر غیر منصرف علم کو منصرف استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے سابقہ مضمون میں ابو سلیم صاحب نے ''ہدایۃ النحو'' سے اسی قاعدے کا حوالہ دیا تھا اور صاحب ''ہدایہ'' ہی کی دی ہوئی مثالیں بھی لکھی تھیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''اگر ایسے کسی نام کی جماعت میں کا ایک فرد مراد لیں تو''ہدایۃ النحو'' نے اس کی مثال کے طور پر یہ جملے پیش کیے ہیں [/FONT][FONT=&quot]'جاء نی طلحه وطلحه آخر'[/FONT][FONT=&quot](میرے پاس طلحہ آیا اور ایک اور طلحہ آیا)[/FONT][FONT=&quot]'قام عمرو عمر آخر'[/FONT][FONT=&quot](عمر کھڑا ہوا اور عمر جیسا ایک اور عمر کھڑا ہوا )[/FONT][FONT=&quot]'ضرب احمد و احمد آخر'[/FONT][FONT=&quot](احمد نے مارا اور ایک دوسرے احمد نے مارا) [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]بھی 'طلحہ' کے وزن پر علم ہے۔ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کو 'طلحہ' کی طرح نکرہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی قوم (نمل) کی ملکہ تھی۔ ہو سکتا ہے اس قبیلہ کے جد یا جدہ کا نام بھی'نملۃ'ہو اور یہ ملکہ اسی نام کی حامل ہو ۔''( طلوع اسلام، جنوری٩٩٨ا، ٥٣) [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ہمیں افسوس ہے کہ اس قاعدہ کا اطلاق کرنے میں بھی ابو سلیم صاحب سے غلطی ہوئی ہے۔ اس قاعدے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ سیاق و سباق میں ایک سے زیادہ ہم نام افراد کا ذکر موجود ہو۔ ورنہ محض ہم نام افراد کے دنیا میں موجود ہونے سے وہ نام نکرہ کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا جاتا۔ عمر نام کے بہت سارے افراد دنیا میں موجود ہیں، موجود رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں، لیکن ان کی وجہ سے کسی خاص عمر کا نام منصرف استعمال نہیں کیا جاتا۔ مثلاً دیکھیے، جدید و قدیم تمام عربی کتب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام ہمیشہ غیرمنصرف استعمال کیا جاتا ہے۔ ابوسلیم صاحب نے اس قاعدے کے اطلاق کی گنجایش ایک''ہو سکتا ہے''سے پیدا کی تھی۔ اس''ہو سکتا ہے''کو مان بھی لیا جائے تب بھی قرآن مجید میں 'نملۃ' کو ملکہ کے نام کی حیثیت سے غیر منصرف ہی آنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ نہ الفاظ میں کسی دوسری [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کا ذکر ہے اور نہ متکلم ہی کے پیش نظر یہ بتانا ہے کہ مسماۃ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]فلاں اور فلاں میں سے کسی ایک نے کہا ۔حضرت سلیمان کے مدمقابل سربراہ کی حیثیت سے 'نملۃ' کا ذکر ایک متعین شخصیت ہی کی حیثیت سے ہونا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے کہ فرعون کانام ایک سے زیادہ مصری بادشاہوں نے اختیار کیا۔ لیکن قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کانام ہمیشہ غیر منصرف ہی استعمال کیا ہے۔ اسی طرح وادی نمل کی مفروضہ ملکہ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]بھی ایک متعین شخصیت ہے ،اس کے نکرہ کی حیثیت سے استعمال کی اس آیت میں کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]جس ''ہو سکتا ہے'' کی وجہ سے میں نے اس دوسرے قاعدے کو اپنے پچھلے مضمون میں نظر انداز کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ ابو سلیم صاحب اور ان کے پیش رؤوں کے لیے اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ ان کے استدلال کی ساری عمارت ہی اس طرح کے متعدد'' ہو سکتا ہے''کی اساس پر استوار ہوئی ہے۔''ہو سکتا ہے''وادی نمل میں کوئی انسانی قبیلہ آباد ہو۔''ہو سکتا ہے''اس کا نام نمل ہو۔ ''ہو سکتا ہے'' اس کی حکمران عورت ہو۔'' ہو سکتا ہے'' اس عورت کا نام [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]ہو ۔'' ہو سکتا ہے '' اس قبیلے میں اس عورت کے نام کی اور بھی بہت سی عورتیں موجود رہی ہوں،وغیرہ۔ ہم جناب ابو سلیم صاحب سے محض یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ اس طرح کے''ہو سکتا ہے'' سے اگر حقائق ثابت ہونے لگیں تو پھر شاید کسی بھی غلط بات کی تردید ممکن نہ رہے گی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٣۔ جیسا کہ ہم نے تمہید میں بیان کیا ہے، یہ بات اب زیربحث نہیں رہی کہ جانوروں کے لیے مذکر کے صیغے آ سکتے ہیں۔البتہ ابو سلیم صاحب کو اصرار ہے کہ نمل کے لیے اگر وہ چیونٹیاں ہوں تو جمع مذکر کا صیغہ نہیں آنا چاہیے۔ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں [/FONT][FONT=&quot]''کليله و دمنه''[/FONT][FONT=&quot] سے جو اقتباس دیا تھا، اس میں بندروں کے لیے جمع کا صیغہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔اس اقتباس میں جمع کا صیغہ آنے کی وجہ ابو سلیم صاحب کے نزدیک یہ ہے:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''اس میں بندروں کے لیے نہیں، بندروں کے ایک گروہ کے افراد کے لیے جمع مذکر کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔'' (طلوع اسلام، اکتوبر ١٩٩٨، ٤٥)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]مزید لکھتے ہیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''ان کہانیوں کو زیادہ دل چسپ اور سنسنی خیز بنانے کے لیے بعض مقامات پر کچھ جانوروں کو آدمیوں کے روپ میں پیش کرنے کے لیے ان کے لیے جمع مذکر کے صیغے اور ضمائر استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ بات مفسرین کے علم سے باہر نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے علی الرغم انھوں نے چیونٹیوں کے لیے جمع مذکر کے صیغوں اور ضمائر کے استعمال کے لیے یہ خیالی وجہ گھڑی کہ اللہ تعالیٰ نے چیونٹیوں کو آدمیوں جیسی عقل سے سرفراز کیا تھا۔'' (ایضاً)[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ جانوروں کے لیے جمع مذکر کے صیغے آنے کا مسئلہ طے ہو گیا ہے۔ البتہ اب یہ بات طے ہونا باقی ہے کہ جس طرح ایک خاص وجہ سے [/FONT][FONT=&quot]''کليله و دمنه''[/FONT][FONT=&quot] میں جمع مذکر کے صیغے آئے ہیں، کیا اس طرح کا کوئی اور سبب بھی ہو سکتا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ قرآن مجید میں چیونٹیوں کے لیے جمع مذکر کے صیغے کیوں آئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ زبان و بیان کے قواعد کے فہم میں زمخشری کو امامت کا مقام حاصل ہے۔ اس نے اپنے زبان دانی کے ذوق کی روشنی میں اس آیت کی توجیہ کی ہے۔ ہم اس کی تفسیر سے یہ اقتباس اپنے ابتدائی مضمون میں بھی درج کر چکے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ولما جعلها قائلة والنمل مقولا لهم کما يکون فی اولی العقل اجری خطابهم مجری خطابهم. (کشاف ٣/ ٣٥٦) [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]''جب نملہ کو متکلم ٹھہرادیا اور نمل کو مخاطب، جیسا کہ اہلِ عقل میں ہوتا ہے تو ان (چیونٹیوں) کے مکالمے کوان (اہلِ عقل) کے مکالمے کے طریقے پر بیان کیا۔''[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]گویا زمخشری کی رائے میں یہاں صیغوں کا انتخاب صورت واقعہ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک زبان و بیان کے فہم کی روشنی میں یہی بات موزوں ترین ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]٤۔ ابو سلیم صاحب کے مضمون میں واقعے کے تاریخی شواہد کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ ہم نے تمہید ہی میں عرض کردیا تھا کہ جب قرآن مجید کے متن میں [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے چیونٹی ہونے کی حتمی دلیل موجود ہے تو پھر مختلف اور متفاوت معلومات کوجوڑ کر بنائی گئی ایک قیاسی داستان کا تجزیہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آخر میں ہم ابو سلیم صاحب سے درخواست کریں گے کہ وہ بحث کو صرف [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]اور [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]سے متعلق لغوی اور نحوی قواعد تک محدود رکھیں۔ ہمیں امید ہے ،یہ مکالمہ انھی نکات پر بحث کے نتیجے میں فیصل ہو جائے گا اور اگر نہ ہو سکا تو دوسرے نکات زیر بحث لانے میں کوئی حرج نہیں۔١[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][١٩٩٨ء] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]ـــــــــــــــــــــــــــــــــ[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]١- ہمارے اس مضمون کے جواب میں بھی ایک مضمون شائع ہوا تھا، لیکن تکرار استدلال کے باعث ہم نے جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot] [/FONT]
 

saud491

MPA (400+ posts)
[FONT=&quot] طلوع اسلام کا جواب [/FONT]
[FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے معنی کے ضمن میں ہماری بحث کے جواب میں ،ارباب طلوع اسلام نے دو مضامین شائع کیے ہیں۔ ان مضامین میں کسی اضافے کے بغیر تمام تر پرانا استدلال دہرا دیا گیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ طعن و تشنیع کے تیر برسانے کے لیے ان ارباب علم و دانش کو الفاظ کے دفتر دستیاب تھے، لیکن ہمارے قائم کردہ سوالات کا جواب دینے کے لیے تھوڑی سی زحمت اٹھانا بھی انھیں منظور نہیں ہوا۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ہم انھیں یقین دلاتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہمارے سوالات کا جواب دیا ہوتا تو ہم ان کا پوری علمی دیانت سے مطالعہ کرتے اور ان میں موجود حقیقت کا انھی صفحات میں کھلے دل سے اقرار کرتے۔بہر حال، ان کی طرف سے شائع ہونے والے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد، ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم ان کے جواب میں ایک مبسوط مضمون لکھیں اور ایک مرتبہ پھر پرویز صاحب اور ان کے فکری احباب کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس اندیشے کے تحت کہ طویل مضمون کے جواب میں وہی کچھ پھر سے دہرا دیا جائے گا، ہم نے یہ ارادہ ترک کر دیا ہے ۔[/FONT]
[FONT=&quot]محترم رحمت اللہ صاحب طارق اورجناب عبد اللہ ثانی کے مضامین میں بنیادی استدلال کی حیثیت تین باتوں کو حاصل ہے۔ ایک یہ کہ وادی نمل ایک باقاعدہ وادی ہے اور اسی نام سے اب بھی موسوم ہے۔ دوسری یہ کہ جانوروں کے نام سے انسانوں اور قبیلوں کے نام رکھے جاتے ہیں۔ لہٰذاآیت میں جانور کا نام آنے سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ تیسری یہ کہ واقعے کی نوعیت اور اس میں کہی گئی باتوں ہی سے واضح ہے کہ یہ واقعہ انسانوں سے متعلق تھا۔[/FONT]
[FONT=&quot]یہ تینوں باتیں درست قرار دی جا سکتی تھیں اور ہم انھیں شاید قبول بھی کر لیتے، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ انھیں قبول کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن کر حائل ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف، ہمارے نزدیک، قرآن مجید پر ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کے لفظ لفظ کے آگے سر تسلیم خم رہے۔ اس کے الفاظ سے انحراف یا ان کی من مانی تاویل، درحقیقت، قرآن مجید کا انکار ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے پاس خدا کی کتاب اپنے اصل الفاظ میں موجود ہے۔ اس لحاظ سے ہم سب سے خوش نصیب امت ہیں۔ ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم الفاظ پر انحصار کرکے یقین کے ساتھ اصل مطلب تک پہنچ سکیں۔الفاظ پر انحصار کا مطلب یہ ہے کہ ان کے معنی و مفہوم کا تعین لغت معروفہ کی روشنی میں کیا جائے۔ لغت معروفہ کسی چیستان کانام نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ نزول کا عرب لفظ کی ایک ہیئت کو جس معنی میں استعمال کرتا یا اس سے جو مفہوم سمجھتا ہے، وہی اس لفظ کا مفہوم ہے۔ اپنے انھی معنی کے ساتھ قرآن مجید، قرآن مجید ہے اور اس کے الفاظ قرآن مجید کے الفاظ ہیں۔ ہمارے کسی عقیدے،خیال اور نقطہ نظر کو ان الفاظ پر حاکم نہیں بننا چاہیے، بلکہ قرآن مجید کے الفاظ کی حکومت ہمارے فکری، مذہبی اور عقلی مقدمات پر قائم ہے اور قائم ر ہنی چاہیے۔[/FONT]
[FONT=&quot]اس بنیادی اصول کی توضیح کے بعد ہم پھر سے حرف مدعا کی طرف آتے ہیں۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ ارباب طلوع اسلام کے بیان کردہ دلائل کو قبول نہیں کرتے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے، ہم ان سطور میں تفصیلی مباحث نہیں چھیڑیں گے۔ صرف ایک ہی نکتے کا ذکر کریں گے، تاکہ بحث پھیلے بغیر پہلے ایک نکتے پر فیصل ہو جائے۔ پھر دوسرے نکات پر بحث ہو۔ اس طرح توقع ہے کہ یہ تبادلہ افکار کسی نتیجے تک پہنچ سکے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]زیربحث مقام کا ایک لفظ [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]ہے ۔ہم ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ [/FONT][FONT=&quot]'نمل' [/FONT][FONT=&quot]کوئی انسانی قبیلہ تھا۔ ان لوگوں نے یہ نام اسی طرح اختیار کیا، جس طرح بنی کلاب اور بنی اسد وغیرہ نے اپنے لیے جانوروں کے ناموں کو پسند کیا تھا۔ لیکن ایک الجھن اب بھی باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان قبیلوں کے ایک فرد کا ذکر کبھی ''اسد'' یا ''کلب'' کے لفظ سے نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک نادر بات ہے کہ قرآن مجید میں ''نمل'' قبیلے کی ایک عورت کا ذکر [/FONT][FONT=&quot]'نملة' [/FONT][FONT=&quot]کے لفظ سے کیا گیا ہے ۔عربی زبان کا معروف قاعدہ ہے کہ قبیلے کے ایک فرد کا ذکر اسم نسبت سے کیا جائے۔ یہاں یہ قاعدہ ملحوظ نہیں ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر یہ کسی قبیلے کا تذکرہ ہوتا تو لازماً، اسم نسبت استعمال کیا جاتا۔ چونکہ یہاں اسم نسبت استعمال نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ لفظ اپنے لغوی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ہم نے ان محکم دلائل میں سے ایک دلیل کو سادہ الفاظ میں پھر سے پیش کر دیا ہے، جن کی بنیاد پر ہم''نمل'' کو کسی قبیلے کا نام نہیں مانتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ طلوع اسلام کے فاضل محققین اس کے جواب میں صرف یہ واضح کریں کہ وہ قرآن مجید کے الفاظ کو وہ معنی کیوں پہناتے ہیں، جنھیں ماننے کی صورت میں (نعوذ باللہ) قادر مطلق کے کلام میں تنقیص ماننا پڑے۔ [/FONT]
[FONT=&quot]ارباب طلوع اسلام کے نزدیک، اس طرح کے موضوعات پر بحث محض تضیع اوقات ہے۔ ان کے خیال میں ملک و ملت کو درپیش دیگر مسائل اس سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمیں بھی نمل کو نمل ثابت کرنے سے زیادہ دل چسپی نہ ہوتی، اگر مسئلہ فہم قرآن کے اصول سے متعلق اور قرآن مجید کے الفاظ کی حرمت کی حفاظت کا متقاضی نہ ہوتا۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ سب سے بڑھ کر اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن مجید اس امت کا رہنما ہے۔ اگر اسے سمجھنے اورجاننے ہی میں غلطی ہو گئی تو پھر اس امت کی رہنمائی کون کرے گا۔ ہمارے اس زمانے میں امام تفسیر مولانا حمید الدین صاحب فراہی اور ان کے شاگرد رشید صاحب ''تدبرقرآن'' مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے ایک مرتبہ پھر سلف صالحین (صحابہ و تابعین) کے طریقے پر قرآن مجید کے فہم کو زندہ کیا ہے۔صحابہ اور تابعین کا دور دین اور دین کے فہم کا خیرالقرون تھا۔ ہم اسی کا احیا چاہتے ہیں۔[/FONT]
[FONT=&quot][١٩٩٧ء] [/FONT]
[FONT=&quot]ـــــــــــــــــــــــــــ[/FONT]
 

babadeena

Minister (2k+ posts)
[MENTION=13412]Mughal1[/MENTION],
I do not know what is your objective of pasting this video or what you wish to prove.
for me, Quran is free from all mistakes, My Lord never errs that is mine faith and this
book is my Lord's words. Please do not be dishearted, you started this thread and
now it is your duty to conclude it with some logical proof. Name me any other well
reputed translator who translated the words as late GAP did. I have given you
the translations of all well known people in my previous post in initial page. Please do
not mind i tell you a story:
""A boy made a bet with someone and took the stand that crow is white,
while his opponent said it is black. They discussed a lot. No conclusion. even
99.99% people consulted said that it is black, but boy did not accede.
His mother said to him, accept the reality crow is black. The boy responded
mother let all the universe may say that is black, when I am not going to
accept
for me it is going to be white always because I said it so.""
I think let us put this into rest.
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
natural world order
It is matter of belief, if the Belief is that Allah is Omnipotent having
Kunfayakoon and "able to do all things", then the concept of
natural world order become irrelevant.
In fact, Quran is guidance for only certain people who meet
certain criteria. One of them is who believe in Gaib (Unseen);
If someone gets that into his/her heart, things become pretty
clear.
While Dear Mughal1, you are opposing the concept of Shane-nazool,
(I myself have reservations), but look at the translation and
tafsir of Sura Fil given in Brother Biomat post, Isnt that GA Parwez
himself is projecting some sort of baseless shane-nazool, so what
is then difference left between a Moulvi and late GA Parwez.
The matter of fact is that late GA Parwez did great injustice
to Quran by introducing his own revolutionary ideas into it.



@Mughal1 ,
I do not know what is your objective of pasting this video or what you wish to prove.
for me, Quran is free from all mistakes, My Lord never errs that is mine faith and this
book is my Lord's words. Please do not be dishearted, you started this thread and
now it is your duty to conclude it with some logical proof. Name me any other well
reputed translator who translated the words as late GAP did. I have given you
the translations of all well known people in my previous post in initial page. Please do
not mind i tell you a story:
""A boy made a bet with someone and took the stand that crow is white,
while his opponent said it is black. They discussed a lot. No conclusion. even
99.99% people consulted said that it is black, but boy did not accede.
His mother said to him, accept the reality crow is black. The boy responded
mother let all the universe may say that is black, when I am not going to
accept
for me it is going to be white always because I said it so.""
I think let us put this into rest.

Dear brother, laws of nature cannot be dismissed because if you dismiss them then everything falls apart including concept of god and religion. This was a major debate between various muslim scholars of the past eg ibn sina, ibn rushd, imaam ghazali etc included. The debate was about place of revelation and intellect. One people argued revelation was superior to human intellect therefore intellectual decision must be subordinate to revelation, the other people argued that revelation to be taken as revelation one has to judge it rationally so revelation must be subjected to proper understanding. Over the centuries muslim king made sure that rationality went out and blind faith settled in and the result is obvious if we look at last several centuries. This is why sir seyyed and the like were opposed because people had left intellectual thought far far behind.

We have been busy replacing rationality with make beliefs and by now we are fully stuck in it. This is what happens when people give no importance to laws of nature, logic and rationality and instead follow idea of predestination, fatalism, miracles and magic.

I am not justifying interpretation of parwez word for word but his idea of rationality. He gives sample explanation which if one does not like can bring in one's own but they have to be rationally sensible because irrational and illogical explanations are nothing but utter nonsense. In that case one is better say nothing. The old idea was that little birds carried pebbles and when they threw them on elephants they just pierced through them. This made no sense because little birds do not do things like this and no one has ever witnessed anything like this ever. Animals have set natural behaviours, which do not change other than naturally for natural reasons.

When the question is simply whether the quran is a sensible book or just a book of baby stories then parwez decided to explain the quran the best he could. If any of us does not like his explanation he does not stop us from creating one ourselves that explains things better. If I do not like what you come up with the better course of action would be that I try and see if I can do it better rather than waste my time by cursing you for trying.

The other thing I would like to point out is that parwez did not write any short textual translation that is his commentary on the quran, which should have been obvious to everyone but it seems that I was wrong in depending on others even to realise that much perhaps due to prejudices running in our community.

As for videos, it is to show how outside world is busy attacking us but we are busy fighting each other. We will do better if we concentrate on defending what is sensible in a sensible way, which some of us are already doing.

The videos also show the reality of arabic grammar ie it is subordinate to wisdom as I already explained very clearly.

I shall try explaining about the uniqueness of quranic structure as I explained the uniqueness of arabic language for preservation of the quranic text and meanings of the words as and when I get the time. I will explain why we have words in brackets when translating the quran.

As for your style of discussion, I do find it a bit challenging but if you are happy with it then that is all that matters. I like explanations therefore the long posts.

More hopefully later, regards and all the best.
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top