Hillary Clintons Emails: A Sunni-Shiite War Would be Good for Israel and the West

allahkebande

Minister (2k+ posts)
well allah hu akbar god is great indeed
as allah said.. Enemies make plan..but he is the best of planners..
The fire they have lit in middle east will burn the yahudis down and in the end fatah will be of muslims..
No doubt this is the worst time for muslims as we read prophet pbuh hadith how there will be chaos and trials upon trials and muslim will die in big numbers..but as allah is the best of planners.. Muslims will win..
The only thing we pakistanis need to do is zarb e azb..no stoppage.. Eliminate all takfiris.. No calling each other kafir.. Unite and struggle for a corrupt free pakistan..surely allah help those who help themselves and are righteous..


this has been always the prime wish of the enemies of islam to get the muslims fight within.


اسلام فرقہ بندی کی مخالفت کرتا ہے مگر داعش اور طالبان جیسے لوگ فرقہ پرستی کو فروغ دیتے ہیں
 

Kaka420

Voter (50+ posts)
good for you do not fight among yourselves ,

but that is impossible .(bigsmile)

otherwise it is the rule to fight among themselves for muslims , right from first khalifa till today muslims are shedding blood.:biggthumpup:

why to blame hillary bechari ?(bigsmile)

Well, they say nothing is impossible but some of us do nothing everyday, don't we? :D
 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ان مذکورہ ای ميلز ميں ايسی کوئ معلومات پيش نہيں کی گئيں ہيں جن سے اس بات کا شائبہ بھی ہو کہ امريکی حکومت کے کسی عہديدار نے اس سوچ کی حمايت، ترويج يا ايسے کسی نظريے کی تجويز پيش کی ہو کہ مسلم دنيا ميں تشدد اور افراتفری امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ يہ مان لينا ناقابل فہم اور غير منطقی ہے کہ امريگی حکومت ايسے مذہبی اور علاقائ تنازعوں کو کنٹرول کر سکتی ہے يا ان پر اثرانداز ہو سکتی ہے جو کئ صديوں پرانے ہيں جس ميں شيعہ سنی تنازعہ بھی شامل ہے جو خود امريکہ کی اپنی تخليق سے بھی پرانا ہے۔

فورمز پر کچھ تجزيہ نگار اور راۓ دہندگان سابقہ اعلی امريکی عہديداروں کی جاری کردہ ای ميلز کو اس انداز ميں پيش کر رہے ہيں کہ گويا يہ امريکی حکومت کی حتمی سرکاری پاليسی اور دیگر ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعيت کی آئينہ دار ہيں۔

يہ بات سراسر غلط ہے۔

وہ دستاويزات اور مراسلے جنھيں ميڈيا کے کچھ عناصر غير ذمہ داری کے ساتھ خبر اور شہ سرخی کا درجہ دے رہے ہيں وہ دراصل نامکمل اور غير حتمی معلومات ہيں جن کی بنياد اکثر انفرادی جائزوں اور مشاہدات پر مبنی ہے جنھيں اکثر غير سرکاری اور ذاتی حیثيت ميں بيان کيا گيا ہے۔

جو کوئ بھی ايک جمہوری معاشرے ميں کسی پاليسی کی تشکيل کے عمل سے واقف ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ ايسے عمل ميں ہر فرد کو يہ موقع اور رعايت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی تجربات اور مشاہدات سے آگاہ کرے۔ لیکن اس کا ہرگز يہ مطلب نہيں ہے کہ بيان کردہ ہر راۓ اور تجزيے کو کسی بھی ايشو کے حوالے سے امريکہ کی حتمی سرکاری پاليسی کا درجہ ديا جاۓ۔

شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg

 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)
کوئی بھی آئے ان کی پالیسی مسلمانوں کے خلاف ہی ہو گی


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی آئين، حکومتی نظام اور خارجہ پاليسی سے متعلق فيصلے جن اصولوں پر وضع کيے جاتے ہيں، ان ميں اس بات کو يقینی بنايا گيا ہے کہ امريکی حکومت کی سمت متعين کرنے ميں مذہب کا کوئ کردار نہيں ہو گا۔ رياست اور مذہب ميں عليحدگی ان اصولوں کی بنيادی اساس ہے جو ہمارے حکومتی نظام کو واضح کرتی ہے اور اس کا اطلاق ان تمام عناصر پر بھی ہوتا ہے جو خارجہ پاليسيوں کی تشکيل اور فيصلہ سازی کے عمل کا حصہ ہيں۔

امريکی معاشرے کے ہر طبقے سے متعلق افراد انتخابی عمل ميں شامل ہونے کے ليے بالکل آزاد ہيں اور جنس، مذہبی وابستگی اور سياسی خيالات ايسے عوامل نہيں ہيں جو ان کے اس حق ميں رکاوٹ بن سکيں۔ اسی وجہ سے يہ ممکن نہيں ہے کہ کوئ بھی مخصوص سياسی سوچ يا نظريہ سياسی اور انتخابی نظام کو کنٹرول کر سکے يا معاشرے کے کسی بھی ايک طبقے کا استحصال کر کے انھيں سياسی دھارے سے الگ کر دے۔

امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ تمام سياسی، سفارتی اور دفاعی ضروريات کو نظرانداز کر کے مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسی ترتيب دے اور اور اسی بنياد پر ملکی مفاد کے فيصلے کرے ۔

اگر مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسي کا مفروضہ درست ہوتا تو پاکستان کے صرف مسلم ممالک کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ اسی طرح امريکہ کے بھی تمام غير مسلم ممالک کے ساتھ بہترين سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ ليکن ہم جانتے ہيں کہ ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ مسلم ممالک کے مابين بھی سفارتی تعلقات کی نوعيت دو انتہائ حدوں کے درميان مسلسل تبديل ہوتی رہتی ہے۔ امريکہ کے کئ مسلم ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات استوار ہيں۔ يہ بھی ايک حق*یقت ہے کہ دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت زمينی حقائق کی روشنی ميں کبھی يکساں نہيں رہتی۔

جہاں تک مستقبل ميں امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے خدشات کا سوال ہے تو اس کا جواب يہ ہے کہ امريکہ برسراقتدار آنے والی نئ حکومت ،امريکی آئين ميں طے شدہ جمہوری اقدار اور عام انسان کی آزادی اور حفاظت کے حوالے سے کی جانے والی کسی بھی عالمی کوشش کی حمايت کرے گی۔ دہشت گردی کے ذريعے معاشرے پر اپنا تسلط قائم کرنے والے گروہ مستقبل کی کسی بھی امريکی حکومت کے ليے قابل قبول نہيں ہوں گے۔

امريکی حکومتی حلقے اس حقيقت سے بھی واقف ہيں کہ امريکی مفادات کا تحفظ اسی صورت ميں ممکن ہے جب عالمی برادری کے مشترکہ مفادات کو يکساں تحفظ فراہم کيا جاۓ۔ اس ضمن ميں پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات انتہائ اہميت کے حامل ہوں گے۔

شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg

 

Back
Top