Psycho
MPA (400+ posts)
فرانس کےایوانِ زیریں نے بھاری اکثریت سے اس بل کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت عوامی مقامات پر اسلامی برقع پہنے پر پابندی لگ جائے گی۔
اس بل کی حمایت میں تین سو پینتیس ووٹ پڑے جبکہ اس کے خلاف صرف ایک ووٹ ڈالا گیا۔ اب اس بل کی توثیق ایوانِ بالا سے ہونا ضروری ہے جس کے لیے ستمبر میں اجلاس ہوگا۔
اپوزیشن سوشلسٹس کے کئی اراکین نے جو ابتدا میں صرف یہ کہتے رہے کہ برقع کی پابندی کو عوامی عمارات تک محدود رکھا جائے،
بل کی حمایت کرنے والی خواتین کے دباؤ کے تحت ووٹنگ کے وقت غیر حاضر تھے۔
برقع پر پابندی لگانے والے بل کی تقریبا سبھی سیاسی جماعتیں حامی ہیں اور عوامی رائے شماری میں بھی بیشتر نے اس پابندی کی حمایت کی ہے۔
اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ فرانس میں ایک بہت چھوٹی مسلم اقلیت ہی پورا چہرا ڈھکنے والے برقع کا استعمال کرتی ہے۔
فرانس کے صدر نکولس سرکوزی قومی شناخت کے مسئلے پر اس بل کے حامی ہیں لیکن ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات قدامت پرستوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
فرانس میں اس بل پر بحث اور پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ پر سبھی کی گہری نظر ہوگي۔ سپین اور بیلجیم میں بھی اسی طرح کے قانون پر بحث ہورہی ہے۔گزشتہ بیس تیس برسوں میں اس قدر نقل مکانی ہوئی کہ پورے یورپ میں شناخت کا مسئلہ سب سے اہم موضوع ہے۔
اس مجوزہ قانون کے تحت جو خاتون قانون کی خلاف ورزی کریں گی ان کو ڈیڑھ سو یورو جرمانے کے طور پر دینا ہوگا اور جو مرد اپنی بیویوں کو برقع پہننے کے لیے مجبور کریں گے انہیں تیس ہزار یورو کا جرمانہ اور ایک سال جیل کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
فرانس میں برقع یا نقاب کو خواتین کے حقوق اور ملک کےسیکولر کردار کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
فرانس میں بہت کم خواتین ایسا نقاب استعمال کرتی ہیں
مئی میں فرانس کی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پورے چہرے کے نقاب پہننے کو ’خواتین اور مردوں کے وقار، برابری کے درجے پر ایک حملہ اور فرانس رپبلک کی قدروں کے منافی‘ قرار دیا گیا تھا۔
فرانس میں انصاف کی وزیر میشیل ایلیوٹ میری نے گزشتہ ہفتے پارلیمان میں یہ بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’جمہوریت وہاں پروان چڑھتی ہے جہاں اس کے شہریوں کا چہرا کھلا ہوتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل کسی ایک مذہب کو الگ تھلگ کرنے کی نیت سے نہیں بنایا گیا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت کموینسٹ پارٹی کی انڈری گیرن نے برقع کا موازنہ ایک چلتے پھرتے تابوت سے کیا۔
ایک اندازے کے مطابق فرانس میں پورا نقاب پہننے والی خواتین کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے لیکن فرانس میں پانچ لاکھ مسلمانوں نے اس مجوزہ بل کی مخالفت کی ہے۔
سوشلٹ رکن پارلیمان جین گلوینی کا کہنا ہے انہوں نے اس بل کی مخالفت اس لیے کی کیونکہ ’یہ صرف ان لوگوں کے خوف میں ہے جو مختلف ہیں۔ جو باہر سے آئے ہیں، جو ہم جیسے نہیں اور جو ہماری اقدار کو نہیں مانتے‘۔
اگر یہ بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو گیا تو فوری طور پر اسے فرانس میں آئین کے نگراں ادرے کے پاس بھیجا جائیگا۔
اس کے بعد بھی اس قانون کو سٹریسبرگ میں یوروپی انسانی حقوق کی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اس عدالت کے فیصلے کو بھی ماننا ضروری ہے۔
اسی دوران فرانس کے ایک تاجر راشد نیکاظ نے کہا ہے کہ وہ ایک ملین یورو کا فنڈ جمع کریں گے تاکہ جن خواتین پر اس نئے قانون کے تحت جرمانہ عائد کیا جائے وہ اس سے ادا کیا جائے گا۔ تاجر کے مطابق اس طرح کی پابندی ان کے آئینی حقوق کی پامالی ہے۔
اس بل کی حمایت میں تین سو پینتیس ووٹ پڑے جبکہ اس کے خلاف صرف ایک ووٹ ڈالا گیا۔ اب اس بل کی توثیق ایوانِ بالا سے ہونا ضروری ہے جس کے لیے ستمبر میں اجلاس ہوگا۔
اپوزیشن سوشلسٹس کے کئی اراکین نے جو ابتدا میں صرف یہ کہتے رہے کہ برقع کی پابندی کو عوامی عمارات تک محدود رکھا جائے،
بل کی حمایت کرنے والی خواتین کے دباؤ کے تحت ووٹنگ کے وقت غیر حاضر تھے۔
برقع پر پابندی لگانے والے بل کی تقریبا سبھی سیاسی جماعتیں حامی ہیں اور عوامی رائے شماری میں بھی بیشتر نے اس پابندی کی حمایت کی ہے۔
اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ فرانس میں ایک بہت چھوٹی مسلم اقلیت ہی پورا چہرا ڈھکنے والے برقع کا استعمال کرتی ہے۔
فرانس کے صدر نکولس سرکوزی قومی شناخت کے مسئلے پر اس بل کے حامی ہیں لیکن ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات قدامت پرستوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
فرانس میں اس بل پر بحث اور پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ پر سبھی کی گہری نظر ہوگي۔ سپین اور بیلجیم میں بھی اسی طرح کے قانون پر بحث ہورہی ہے۔گزشتہ بیس تیس برسوں میں اس قدر نقل مکانی ہوئی کہ پورے یورپ میں شناخت کا مسئلہ سب سے اہم موضوع ہے۔
اس مجوزہ قانون کے تحت جو خاتون قانون کی خلاف ورزی کریں گی ان کو ڈیڑھ سو یورو جرمانے کے طور پر دینا ہوگا اور جو مرد اپنی بیویوں کو برقع پہننے کے لیے مجبور کریں گے انہیں تیس ہزار یورو کا جرمانہ اور ایک سال جیل کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
فرانس میں برقع یا نقاب کو خواتین کے حقوق اور ملک کےسیکولر کردار کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
فرانس میں بہت کم خواتین ایسا نقاب استعمال کرتی ہیں
مئی میں فرانس کی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پورے چہرے کے نقاب پہننے کو ’خواتین اور مردوں کے وقار، برابری کے درجے پر ایک حملہ اور فرانس رپبلک کی قدروں کے منافی‘ قرار دیا گیا تھا۔
فرانس میں انصاف کی وزیر میشیل ایلیوٹ میری نے گزشتہ ہفتے پارلیمان میں یہ بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’جمہوریت وہاں پروان چڑھتی ہے جہاں اس کے شہریوں کا چہرا کھلا ہوتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل کسی ایک مذہب کو الگ تھلگ کرنے کی نیت سے نہیں بنایا گیا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت کموینسٹ پارٹی کی انڈری گیرن نے برقع کا موازنہ ایک چلتے پھرتے تابوت سے کیا۔
ایک اندازے کے مطابق فرانس میں پورا نقاب پہننے والی خواتین کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے لیکن فرانس میں پانچ لاکھ مسلمانوں نے اس مجوزہ بل کی مخالفت کی ہے۔
سوشلٹ رکن پارلیمان جین گلوینی کا کہنا ہے انہوں نے اس بل کی مخالفت اس لیے کی کیونکہ ’یہ صرف ان لوگوں کے خوف میں ہے جو مختلف ہیں۔ جو باہر سے آئے ہیں، جو ہم جیسے نہیں اور جو ہماری اقدار کو نہیں مانتے‘۔
اگر یہ بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو گیا تو فوری طور پر اسے فرانس میں آئین کے نگراں ادرے کے پاس بھیجا جائیگا۔
اس کے بعد بھی اس قانون کو سٹریسبرگ میں یوروپی انسانی حقوق کی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اس عدالت کے فیصلے کو بھی ماننا ضروری ہے۔
اسی دوران فرانس کے ایک تاجر راشد نیکاظ نے کہا ہے کہ وہ ایک ملین یورو کا فنڈ جمع کریں گے تاکہ جن خواتین پر اس نئے قانون کے تحت جرمانہ عائد کیا جائے وہ اس سے ادا کیا جائے گا۔ تاجر کے مطابق اس طرح کی پابندی ان کے آئینی حقوق کی پامالی ہے۔